حدیث کی کتابوں میں ایک حدیث ،حدیثِ جبریل ؑکے نام سے مشہور ہے،اس میں ہے کہ ایک دن جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی کریم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ سوالات کیے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ:’’احسان کیا ہے ؟ آپ انے جواب میں ارشاد فرمایا کہ: ’’احسان یہ ہے کہ تم خدا کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو ،اگر تم خدا کو دیکھ نہیں رہے(یعنی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی) تو کم سے کم یہ یقین کرلو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔
( البخاری، ابو عبد اﷲ محمد بن اسمٰعیل : صحیح البخاری ، الریاض ،دار السلام للنشر والتوزیع ،طبع دوم: ۱۹۹۹ء، ص: ۱۲، حدیث: ۵۰۔ )
بندہ کے دل میں اسی احسان کی کیفیت پیدا کرنے کا صوفیأ کی زبان میں دوسرانام ’’تصوف‘‘ یا ’’سلوک‘‘ ہے۔’’تصوف‘‘ در اصل بندہ کے دل میں یقین اور اخلاص پیدا کرتا ہے ۔’’تصوف‘‘ مذہب سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ مذہب کی روح ہے۔جس طرح جسم روح کے بغیر مردہ لاش ہے، اسی طرح اﷲ کی عبادت بغیر اخلاص کے بے قدر وقیمت ہے۔’’تصوف‘‘ بندہ کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی ذات کی محبت پیدا کرتا ہے اور خدا کی محبت بندہ کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خلق ِخدا کے ساتھ محبت کرے،کیونکہ صوفی کی نظر میں خلقِ خدا ،خدا کی عیال ہے اور کسی کے عیال کے ساتھ بھلائی عیال دار کے ساتھ بھلائی شمار ہوتی ہے۔
خدا کی ذات کی محبت بندہ کو خداکی نافرمانی سے روکتی ہے اور بندگانِ خدا کی محبت بندہ کو ان کے حقوق غصب کرنے سے روکتی ہے، اس لیے صوفیأ حضرات کی زندگی حقوق اﷲ اور حقوق العباد کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ظاہر ہے کہ جو چیز انسان کو اﷲ تعالیٰ کا فرمانبردار بنائے اور اس کے بندوں کا خیرخواہ بنائے، اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔’’تصوف‘‘ اور اہلِ تصوف کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ :’’ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں سے چھ کروڑ (۸۵ فیصد)مسلمان یقینااہلِ تصوف کے فیوض وبرکات کا نتیجہ ہیں‘‘۔
( بھٹوحافظ محمد موسیٰ : تصوف و اہلِ تصو ف، سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ حیدرآباد ،ص: ۱۱۵۔ )
( البخاری، ابو عبد اﷲ محمد بن اسمٰعیل : صحیح البخاری ، الریاض ،دار السلام للنشر والتوزیع ،طبع دوم: ۱۹۹۹ء، ص: ۱۲، حدیث: ۵۰۔ )
بندہ کے دل میں اسی احسان کی کیفیت پیدا کرنے کا صوفیأ کی زبان میں دوسرانام ’’تصوف‘‘ یا ’’سلوک‘‘ ہے۔’’تصوف‘‘ در اصل بندہ کے دل میں یقین اور اخلاص پیدا کرتا ہے ۔’’تصوف‘‘ مذہب سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ مذہب کی روح ہے۔جس طرح جسم روح کے بغیر مردہ لاش ہے، اسی طرح اﷲ کی عبادت بغیر اخلاص کے بے قدر وقیمت ہے۔’’تصوف‘‘ بندہ کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی ذات کی محبت پیدا کرتا ہے اور خدا کی محبت بندہ کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خلق ِخدا کے ساتھ محبت کرے،کیونکہ صوفی کی نظر میں خلقِ خدا ،خدا کی عیال ہے اور کسی کے عیال کے ساتھ بھلائی عیال دار کے ساتھ بھلائی شمار ہوتی ہے۔
خدا کی ذات کی محبت بندہ کو خداکی نافرمانی سے روکتی ہے اور بندگانِ خدا کی محبت بندہ کو ان کے حقوق غصب کرنے سے روکتی ہے، اس لیے صوفیأ حضرات کی زندگی حقوق اﷲ اور حقوق العباد کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ظاہر ہے کہ جو چیز انسان کو اﷲ تعالیٰ کا فرمانبردار بنائے اور اس کے بندوں کا خیرخواہ بنائے، اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔’’تصوف‘‘ اور اہلِ تصوف کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ :’’ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں سے چھ کروڑ (۸۵ فیصد)مسلمان یقینااہلِ تصوف کے فیوض وبرکات کا نتیجہ ہیں‘‘۔
( بھٹوحافظ محمد موسیٰ : تصوف و اہلِ تصو ف، سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ حیدرآباد ،ص: ۱۱۵۔ )