سیدنا ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مر گیا تو اس کے بیٹے عبداللہ آپ کے پاس آئے اور درخواست کی کہ اپنا کرتہ عنایت فرمائیے تاکہ میں اپنے باپ کو اس میں کفن دوں۔ آپ نے کرتہ دے دیا۔ پھر اس نے درخواست کی کہ آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ چنانچہ رسول اللہ اس پر نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے لوگوں پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ آپ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے مجھے (منع نہیں کیا بلکہ) اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے تو ان لوگوں کے لئے دعا کرے یا نہ کرے اگر تو ستر بار بھی ان کے لیے دعا کرے تب بھی اللہ انہیں بخشے گا نہیں۔ میں ایسا کروں گا کہ ستر بار سے زیادہ دفعہ اس کے لیے دعا کروں گا۔'' سیدنا عمر کہنے لگے کہ وہ تو منافق تھا اور اس کی کئی کرتوتیں یاد دلائیں مگر آپ نے (اس کے باوجود) اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ منافقوں میں جب کوئی مر جائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھو اور نہ ہی (دعائے خیر کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا (٩ : ٨٤)
(بخاری ومسلم)
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ۭ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَهُمْ فٰسِقُوْنَ
اور ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی بھی ادا نہ کرو اور اس کی قبر پر بھی کھڑے نہ ہو یقیناً انہوں نے کفر کیا ہے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اور وہ مرے ہیں اسی حال میں کہ وہ نافرمان تھے
(التوبہ -84)
(بخاری ومسلم)
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ۭ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَهُمْ فٰسِقُوْنَ
اور ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی بھی ادا نہ کرو اور اس کی قبر پر بھی کھڑے نہ ہو یقیناً انہوں نے کفر کیا ہے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اور وہ مرے ہیں اسی حال میں کہ وہ نافرمان تھے
(التوبہ -84)