(۱) بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”ثَلاَثَةْ لَہُمْ أَجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أہْلِ الکِتَابِ آمَنَ بِنَبِیِّہ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ، وَالعبدُ المَمْلُوکُ اذَا أدّی حقَ اللّٰ، وحَقَّ مَوَالِیْہِ، وَرَجُلٌ لَہ اَمَةٌ، فَأدَّبَہَا فَأحْسَنَ تَأدِیْبَہَا، وَعَلَّمَہَا، فَأحْسَنَ تَعْلِیْمَہَا، ثُمَّ اَعْتَقَہَا، فَتَزَوَّجَہَا، فَلَہ أجْرَانِ“
(صحیح بخاری، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ واہلہ، ج:۱، ص:۲۰، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب الایمان برسالة نبینا الخ، ج:۱، ص:۸۶۔)
اس حدیث کے آخری جزء کی شرح میں ملاعلی قاری لکھتے ہیں کہ:
”یہ حکم صرف باندی کے لیے نہیں؛ بلکہ اپنی اولاد اور عام لڑکیوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔“
(مرقات، ملا علی قاری، ج:۱،ص:۷۹۔)
(۲) ایک صحابیہ حضرت شفاء بنت عدویہ تعلیم یافتہ خاتون تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: ”تم نے جس طرح حفصہ کو ”نملہ“ (پھوڑے) کا رقیہ سکھایا ہے، اسی طرح لکھنا بھی سکھادو۔“
(فتوح البلدان، بلاذری، ج:۱،ص:۴۵۸۔)
(۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرماتے تھے اور ان کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ ان کے لیے ایک دن مقرر کردیا تھا،
حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے:
”قَالَتْ النِّسَاءُ لِلنَّبِيّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ”غَلَبْنَٓ عَلَیکَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَّنَا یَوْمًا مِنْ نَفْسِکَ، فَوَعَدَہُنَّ یَوْماً لَقِیَہُنَّ فِیْہِ، فَوَعَظَہُنَّ، وَأمَرَہُنَّ“
(صحیح بخاری، کتاب العلم، باب ہل یجعل للنساء یوما علی حدة فی العلم ج:۱،ص:۵۷۔)۔
(۴) حضرت اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ بڑی متدین اور سمجھدار خاتون تھیں، انھیں ایک دفعہ عورتوں نے اپنی طرف سے ترجمان بناکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں کہ : ”اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مردو عورت ہر دو کی رہ نمائی کے لیے مبعوث فرمایا ہے؛ چنانچہ ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی، مگر ہم عورتیں پردہ نشیں ہیں، گھروں میں رہنا ہوتا ہے، ہم حتی الوسع اپنے مردوں کی ہر خواہش پوری کرتی ہیں، ان کی اولاد کی پرورش وپرداخت ہمارے ذمے ہوتی ہے، ادھر مرد مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں، جہاد میں شریک ہوتے ہیں، جس کی بنا پر انھیں بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے؛ لیکن ہم عورتیں ان کے زمانہٴ غیبوبت میں ان کے اومال واولاد کی حفاظت کرتی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ان صورتوں میں ہم بھی اجر وثواب میں مردوں کی ہمسر ہوسکتی ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کی بصیرت افروز تقریر سن کر صحابہ کی طرف رخ کیا اور ان سے پوچھا: ”اسماء سے پہلے تم نے دین کے متعلق کسی عورت سے اتنا عمدہ سوال سنا ہے؟“ صحابہ نے نفی میں جواب دیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء سے فرمایا کہ: ”جاؤ اور ان عورتوں سے کہہ دو کہ:
”انَّ حُسْنَ تَبَعُّلِ احْداکُنَّ لِزَوْجِہَا، وَطَلَبِہا لِمَرْضَاتِہ، وَاِتِّبَاعِہَا لِمُوافَقَتِہ، یَعْدِلُ کلَّ مَا ذَکَرْتِ لِلرِّجَالِ“۔
(الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج:۲،ص:۷۲۶۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ عظیم خوش خبری سن کر حضرت اسماء کا دل بلّیوں اچھلنے لگا اور تکبیر وتہلیل کہتی ہوئی واپس ہوگئیں اور دیگر عورتوں کو بھی جاکرسنایا۔
تاریخ اسلامی کی ان چند جھلکیوں سے بہ خوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کے اندر حصولِ علم کے تئیں کس قدر شوق اور جذبہٴ بے پایاں پایا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے شوقِ طلب اور ذوقِ جستجو کی قدر کرتے ہوئے، ان کی تعلیم وتربیت کا کتنا اہتمام فرماتے تھے۔
(صحیح بخاری، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ واہلہ، ج:۱، ص:۲۰، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب الایمان برسالة نبینا الخ، ج:۱، ص:۸۶۔)
اس حدیث کے آخری جزء کی شرح میں ملاعلی قاری لکھتے ہیں کہ:
”یہ حکم صرف باندی کے لیے نہیں؛ بلکہ اپنی اولاد اور عام لڑکیوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔“
(مرقات، ملا علی قاری، ج:۱،ص:۷۹۔)
(۲) ایک صحابیہ حضرت شفاء بنت عدویہ تعلیم یافتہ خاتون تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: ”تم نے جس طرح حفصہ کو ”نملہ“ (پھوڑے) کا رقیہ سکھایا ہے، اسی طرح لکھنا بھی سکھادو۔“
(فتوح البلدان، بلاذری، ج:۱،ص:۴۵۸۔)
(۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرماتے تھے اور ان کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ ان کے لیے ایک دن مقرر کردیا تھا،
حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے:
”قَالَتْ النِّسَاءُ لِلنَّبِيّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ”غَلَبْنَٓ عَلَیکَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَّنَا یَوْمًا مِنْ نَفْسِکَ، فَوَعَدَہُنَّ یَوْماً لَقِیَہُنَّ فِیْہِ، فَوَعَظَہُنَّ، وَأمَرَہُنَّ“
(صحیح بخاری، کتاب العلم، باب ہل یجعل للنساء یوما علی حدة فی العلم ج:۱،ص:۵۷۔)۔
(۴) حضرت اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ بڑی متدین اور سمجھدار خاتون تھیں، انھیں ایک دفعہ عورتوں نے اپنی طرف سے ترجمان بناکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں کہ : ”اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مردو عورت ہر دو کی رہ نمائی کے لیے مبعوث فرمایا ہے؛ چنانچہ ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی، مگر ہم عورتیں پردہ نشیں ہیں، گھروں میں رہنا ہوتا ہے، ہم حتی الوسع اپنے مردوں کی ہر خواہش پوری کرتی ہیں، ان کی اولاد کی پرورش وپرداخت ہمارے ذمے ہوتی ہے، ادھر مرد مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں، جہاد میں شریک ہوتے ہیں، جس کی بنا پر انھیں بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے؛ لیکن ہم عورتیں ان کے زمانہٴ غیبوبت میں ان کے اومال واولاد کی حفاظت کرتی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ان صورتوں میں ہم بھی اجر وثواب میں مردوں کی ہمسر ہوسکتی ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کی بصیرت افروز تقریر سن کر صحابہ کی طرف رخ کیا اور ان سے پوچھا: ”اسماء سے پہلے تم نے دین کے متعلق کسی عورت سے اتنا عمدہ سوال سنا ہے؟“ صحابہ نے نفی میں جواب دیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء سے فرمایا کہ: ”جاؤ اور ان عورتوں سے کہہ دو کہ:
”انَّ حُسْنَ تَبَعُّلِ احْداکُنَّ لِزَوْجِہَا، وَطَلَبِہا لِمَرْضَاتِہ، وَاِتِّبَاعِہَا لِمُوافَقَتِہ، یَعْدِلُ کلَّ مَا ذَکَرْتِ لِلرِّجَالِ“۔
(الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج:۲،ص:۷۲۶۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ عظیم خوش خبری سن کر حضرت اسماء کا دل بلّیوں اچھلنے لگا اور تکبیر وتہلیل کہتی ہوئی واپس ہوگئیں اور دیگر عورتوں کو بھی جاکرسنایا۔
تاریخ اسلامی کی ان چند جھلکیوں سے بہ خوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کے اندر حصولِ علم کے تئیں کس قدر شوق اور جذبہٴ بے پایاں پایا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے شوقِ طلب اور ذوقِ جستجو کی قدر کرتے ہوئے، ان کی تعلیم وتربیت کا کتنا اہتمام فرماتے تھے۔