عورت عبداورمکلف مخلوق ہونے کی حیثیت سے تومردکے مساوی اورہم رتبہ ہے لیکن انتظامی معاملات میں مردکے تابع اورماتحت ہے۔
اس سے بڑھ کراورکیابات ہوسکتی ہے کہ قرآن کریم کی بڑی سورتوں میں سے ایک سورۃ کانام ہی عورتوں کے نام پررکھاگیاہے''سورۃ النساء''۔
قرآن کریم کی اسی سورہ نساء میں باری تعالیٰ نے مردوں کی حاکمیت کے بیان کے ساتھ یہ بھی ارشادفرمادیاکہ:
''عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں کے ذمہ''
اس آیت میں دونوں کے حقوق کی مماثلت کاحکم دیکر اس کی تفصیلات کوعرف کے حوالے کرکے جاہلیت جدیدہ وقدیمہ کی تمام ترظالمانہ رسموں کویکسرختم کردیا۔
البتہ یہ ضروری نہیں کہ دونوں کے حقوق صورۃً بھی ایک جیسے ہوں بلکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرعورت پرایک قسم کی ذمہ داری لازم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تواس کے بالمقابل مردپردوسری قسم کی ذمہ داری واجب ہے
عورت امورخانہ داری اوربچوں کی تربیت وحفاظت کی ذمہ دار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تومردان کی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لیے کسب معاش کاذمہ دارہے
عورت کے ذمہ مردکی خدمت واطاعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو مردکے ذمہ عورت کے اخراجات وانتظام
اسلام نے عورت کواس کی فطری کمزوریوں کی وجہ سے معاشی جھمیلوں سے دوررکھاہے۔
اس کے ساتھ ساتھ عورت کے ساتھ ہرقسم کے حسن سلوک کاحکم دیاگیا۔
حدیث شریف میں ارشادفرمایاگیا:
تم میں سے سب سے بہتروہ ہے جس کاسلوک اپنی بیوی سے بہترہے۔
حقوق والدین کی بات کی گئی توباربارماں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں زیادہ تاکید کی گئی
فرمایاگیاکہ:
ماں حسن سلوک کی زیادہ حقدارہے
جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
عورت اگرلڑکی ہونے کی حیثیت سے ہے تواسے بجائے بوجھ سمجھنے کے اس کی پرورش کواجروثواب کاباعث قراردیاگیا
ارشادفرمایا:
جوشخص لڑکیوں کی کفالت کرے گا دوزخ کی آگ اس پرحرام ہوگی
فرمایا:
جوشخص دوبیٹیوں کی بلوغت تک نگہداشت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ اتناقریب ہوگا جیسے ہاتھ کی دوانگلیاں قریب ہوتی ہیں۔
فرمایا:
عورتوں کی عزت وتکریم شرفاء کااوران کی اہانت وتحقیررذیلوں کاشیوہ ہے۔
اس سے بڑھ کراورکیابات ہوسکتی ہے کہ قرآن کریم کی بڑی سورتوں میں سے ایک سورۃ کانام ہی عورتوں کے نام پررکھاگیاہے''سورۃ النساء''۔
قرآن کریم کی اسی سورہ نساء میں باری تعالیٰ نے مردوں کی حاکمیت کے بیان کے ساتھ یہ بھی ارشادفرمادیاکہ:
''عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں کے ذمہ''
اس آیت میں دونوں کے حقوق کی مماثلت کاحکم دیکر اس کی تفصیلات کوعرف کے حوالے کرکے جاہلیت جدیدہ وقدیمہ کی تمام ترظالمانہ رسموں کویکسرختم کردیا۔
البتہ یہ ضروری نہیں کہ دونوں کے حقوق صورۃً بھی ایک جیسے ہوں بلکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرعورت پرایک قسم کی ذمہ داری لازم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تواس کے بالمقابل مردپردوسری قسم کی ذمہ داری واجب ہے
عورت امورخانہ داری اوربچوں کی تربیت وحفاظت کی ذمہ دار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تومردان کی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لیے کسب معاش کاذمہ دارہے
عورت کے ذمہ مردکی خدمت واطاعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو مردکے ذمہ عورت کے اخراجات وانتظام
اسلام نے عورت کواس کی فطری کمزوریوں کی وجہ سے معاشی جھمیلوں سے دوررکھاہے۔
اس کے ساتھ ساتھ عورت کے ساتھ ہرقسم کے حسن سلوک کاحکم دیاگیا۔
حدیث شریف میں ارشادفرمایاگیا:
تم میں سے سب سے بہتروہ ہے جس کاسلوک اپنی بیوی سے بہترہے۔
حقوق والدین کی بات کی گئی توباربارماں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں زیادہ تاکید کی گئی
فرمایاگیاکہ:
ماں حسن سلوک کی زیادہ حقدارہے
جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
عورت اگرلڑکی ہونے کی حیثیت سے ہے تواسے بجائے بوجھ سمجھنے کے اس کی پرورش کواجروثواب کاباعث قراردیاگیا
ارشادفرمایا:
جوشخص لڑکیوں کی کفالت کرے گا دوزخ کی آگ اس پرحرام ہوگی
فرمایا:
جوشخص دوبیٹیوں کی بلوغت تک نگہداشت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ اتناقریب ہوگا جیسے ہاتھ کی دوانگلیاں قریب ہوتی ہیں۔
فرمایا:
عورتوں کی عزت وتکریم شرفاء کااوران کی اہانت وتحقیررذیلوں کاشیوہ ہے۔