کسب حلال کے لیے اسلام نے جن وسائل اور ذرائع کو جائز اور مشروع قرار دیا ہے، اُن ہی ذرائع کو اختیارکرنا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے، جیسے تجارت، زراعت، صنعت وحرفت، ملازمت اور مزدوری وغیرہ اور ایسے ذرائع اور اسباب سے بچنا اور دور رہنا ضروری ہے جن کو شریعت نے حرام او رناجائز قرار دیا ہے اور بعض امور ایسے ہوتے ہیں جن کا حلال یا حرام ہونا مشتبہ ہوتا ہے، ایسے امور سے بچنے میں انسان کے دین کی حفاظت ہے اورجس نے ایسے امور سے بچنے کی کوشش نہ کی تو اس کے لیے اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مفہوم کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ان الحلال بین وان الحرام بین، وبینھما امور مشتبھات، لا یعلمھن کثیر من الناس، فمن اتقی الشبھات استبرأ لدینہ وعرضہ، ومن وقع فی الشبھات وقع فی الحرام، کالراعی یرعی حول الحمی یوشک ای یرتع فیہ، الا وان لکل ملک حمی، الا وان حمی اللہ محارمہ(صحیح البخاری)
یعنی حلال واضح اور کھلا ہوا ہے اور حرام بھی واضح اور کھلا ہوا ہے اوران دونوں کے درمیان کچھ چیزیں ایسی ہیں جو مشتبہ ہیں۔ جن کے بارے میں بہت سے لوگ شرعی حکم نہیں جانتے، لہٰذا جو شخص ان مشتبہ امور سے بچتا رہا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا او رجوان مشتبہ امور میں پڑ گیا وہ حرام میں مبتلا ہوا۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کوایک مثال سے واضح فرمایا) اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کی مثال ایسی ہے۔ جیسے کوئی بادشاہ یا حکومت اپنے لیے ایک چرا گاہ مقرر کرکے اسے ممنوعہ علاقہ قرار دے، لہٰذا بکریاں اور جانور چرانے والوں کے لیے سلامتی اس میں ہے کہ وہ اپنے جانور سرکاری چرا گاہ سے دور چرائیں، لیکن انہوں نے یہ احتیاط نہ برتی او راپنے جانوروں کو اسی سرکاری چراگاہ کے قریب چرانے لگے تو بہت ممکن ہے کہ ان کی ذرا سی غفلت سے وہ جانور سرکاری چراگاہ میں داخل ہو جائیں اور وہ چرانے والے سرکاری گرفت میں آکر سزا کے مستحق بن جائیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو ممنوعہ علاقہ سے تشبیہ دی گئی ہے او رمشتبہ امور کی مثال اس سر زمین کی ہے جو ممنوعہ علاقہ سے ملی ہوئی ہے ۔ چوں کہ مشتبہ اور حرام چیزوں کی حدود قریب قریب ہیں، اس لیے خطرہ ہے کہ جو شخص مشتبہ امور میں مبتلا ہو وہ اس کی حدود سے آگے بڑھ جائے، حرام اور ممنوعہ امور کی حدود میں داخل ہو جائے۔
کسب حلال کے بارے میں ایک اور موقع پر نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلب کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ(مشکوٰۃ المصابیح)
یعنی کسب حلال کی تلاش ایسا فریضہ ہے جو مسلسل باقی رہتا ہے اورجس میں کوئی انقطاع نہیں ہوتا۔
لہٰذا جس شخص کے ذمہ اپنے اپنے نفس اور دوسروں کے تعلقات کی ذمہ داری ہے اس پر یہ فرض ہے کہ کسب حلال کے ذریعہ اس ذمہ داری کو پورا کرے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مفہوم کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ان الحلال بین وان الحرام بین، وبینھما امور مشتبھات، لا یعلمھن کثیر من الناس، فمن اتقی الشبھات استبرأ لدینہ وعرضہ، ومن وقع فی الشبھات وقع فی الحرام، کالراعی یرعی حول الحمی یوشک ای یرتع فیہ، الا وان لکل ملک حمی، الا وان حمی اللہ محارمہ(صحیح البخاری)
یعنی حلال واضح اور کھلا ہوا ہے اور حرام بھی واضح اور کھلا ہوا ہے اوران دونوں کے درمیان کچھ چیزیں ایسی ہیں جو مشتبہ ہیں۔ جن کے بارے میں بہت سے لوگ شرعی حکم نہیں جانتے، لہٰذا جو شخص ان مشتبہ امور سے بچتا رہا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا او رجوان مشتبہ امور میں پڑ گیا وہ حرام میں مبتلا ہوا۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کوایک مثال سے واضح فرمایا) اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کی مثال ایسی ہے۔ جیسے کوئی بادشاہ یا حکومت اپنے لیے ایک چرا گاہ مقرر کرکے اسے ممنوعہ علاقہ قرار دے، لہٰذا بکریاں اور جانور چرانے والوں کے لیے سلامتی اس میں ہے کہ وہ اپنے جانور سرکاری چرا گاہ سے دور چرائیں، لیکن انہوں نے یہ احتیاط نہ برتی او راپنے جانوروں کو اسی سرکاری چراگاہ کے قریب چرانے لگے تو بہت ممکن ہے کہ ان کی ذرا سی غفلت سے وہ جانور سرکاری چراگاہ میں داخل ہو جائیں اور وہ چرانے والے سرکاری گرفت میں آکر سزا کے مستحق بن جائیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو ممنوعہ علاقہ سے تشبیہ دی گئی ہے او رمشتبہ امور کی مثال اس سر زمین کی ہے جو ممنوعہ علاقہ سے ملی ہوئی ہے ۔ چوں کہ مشتبہ اور حرام چیزوں کی حدود قریب قریب ہیں، اس لیے خطرہ ہے کہ جو شخص مشتبہ امور میں مبتلا ہو وہ اس کی حدود سے آگے بڑھ جائے، حرام اور ممنوعہ امور کی حدود میں داخل ہو جائے۔
کسب حلال کے بارے میں ایک اور موقع پر نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلب کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ(مشکوٰۃ المصابیح)
یعنی کسب حلال کی تلاش ایسا فریضہ ہے جو مسلسل باقی رہتا ہے اورجس میں کوئی انقطاع نہیں ہوتا۔
لہٰذا جس شخص کے ذمہ اپنے اپنے نفس اور دوسروں کے تعلقات کی ذمہ داری ہے اس پر یہ فرض ہے کہ کسب حلال کے ذریعہ اس ذمہ داری کو پورا کرے۔