قبر پر میت کے لیے قرآن پڑھنا (1)
۱۔ میر کے لیے قرآن پڑھنے سے آیا میت کو ثواب ملتا ے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے ۔جمہور سلف اور ائمہ مجتہدین ثواب پہنچنے کے قائل ہیں ۔ہارے امام شافعیؒ نے اختلاف کیا ۔ ان کی دلیل ہ آیت ہے وان لیس للانسان الا ماسعیٰ۔ انسان کو اس کی کوشش کا بدلہ ملے گا ۔لیکن اس آیت کا جواب چند وجوہ سے دیا گیا ہے :
اول تو یہ کہ یہ آیت منسوخ ہے اس آیت سے ۔ والذین اٰمنوا واتبعتھم ذریتھم ۔اور وہ لوگ جو ایمانا لائے اور ان کےبعد ان کی ذریت آئی ۔اس آیت کا مفاد یہ ہے کہ بیٹوں کو باپ کی نیکی سے جنت میں داخل کردیا گیا۔
دوم یہ کی آیت قوم ابراہیم موسی کے ساتھ خاص ہے
لیکن یہ امت مرحومہ تو اس کو وہ بھی ملے گا جو خود کرے گی اور وہ بھی جو اس کے لیے کیا جائے گا یہ قول عکرمہؒ کا ہے۔
تیسرے یہ کہ انسان سے مراد یہاں کافر ہے اور مومن اس سے مستثنیٰ ہے یہ قول ربیع بن انس کا ہے۔
چوتھے یہ قانون عدل ہے اور دوسرے کے لئے فائدہ کا پہنچنا اس کا فضل ہے یہ حسین بن فضیل کا قول ہے۔
پانچویں لا م بمعنی علیٰ ہے کہ انسان کوضرور انسان کو اس کے کئی بے گناہ کا ہوگا، نہ کہ دوسرے کا، جو حضرات ثواب کے پہنچنے کے قائل ہیں وہ یہ قیاس کرتے ہیں کہ جب حج، صدقہ، وقف، دعا، قرأۃ کا ثواب پہنچتا ہے تو دوسری عبادات کا بھی پہنچ سکتا ہے۔ اگرچہ یہ احادیث ضعیف ہیں لیکن ان کی مجموعی حیثیت سے ایصال ثواب کے اصل ثابت ہوسکتی ہے نیز قدیم مسلمان مردوں کے لئے جمع ہو کر قرآن پڑھتے رہے اور کسی نے انکار نہ کیا۔ اس اجماع مسلمین بھی ثابت ہوتا ہے یہ سب کچھ حافظ شمس الدین عبد الواحد المقدسی الحنبلی نے اپنے ایک رسالہ میں ذکر کیا۔
قرطبیؒ نے یہ کہا کہ شیخ عزالدین بن سلام ایصال ثواب کے قائل نہ تھے۔ جب ان کا انتقال ہوگیا تو بعض لوگوں نے ان کو خواب میں دیکھا تو دریافت کیا کہ آپ دنیا میں ایصال ثواب کےقائل نہ تھے اب کیا حال ہے؟ کہا ہاں پہلے تو یہی کہتا تھا مگر اب معلوم ہوا کہ خدا کے فضل و کرم سے ثواب پہنچتا ہے اور اب میں نے رجوع کر لیا ہے۔
قبر پر قرآن پڑھنے کے بارے میں ہمارے اصحاب نے جواز کا قول نقل کیا ہے۔زعفرانی کہتے ہیں میں نے امام شافعی سے دریافت کیا کہ قبر کے پاس قرآن پڑھنا کیسا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ حرج نہیں ہے۔
نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا شرح مہذب میں کہ" زیارت کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ زیارت کے بعد قرآن پڑھے اور دعا کرے اس پر امام شافعی کی تشریح بھی ہے اور ان کے اصحاب بھی اس پر متفق ہیں۔ اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں اگر قرآن ختم کرے تو افضل ہے۔
امام احمد بن حنبل پہلے اس کا انکار کرتے تھے کیونکہ ان کو اس سلسلہ میں کوئی حدیث نہیں ملی تھی لیکن ان کو وہ حدیث ملی جو ہم "دفن کے وقت کیا کہا جائے؟" کے باب میں ذکر کے آئے جس کے ابن عمر اور علاء بن حلاج راوی ہیں اور حدیث مرفوع بھی ہے تو رجوع کر لیا ۔
خلال نے جامع میں شعبی سے روایت کی کہ جب انصار کا کوئی مر جاتا تو وہ اس کے قبر پر آتے جاتے اور قرآن پڑھتے ۔
ابو محمد سمرقندی نے سورہ اخلاص کے فضائل ذکر کیا (مرفوعا) کہ جس نے قبرستان سے گزرتے ہوئے گیارہ مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھی اور اس کا ثواب مردوں کو بخش دیا تو مردوں کی تعداد کے مطابق اسے اجر ملے گا۔
ابو القاسم سعد بن علی زنجانی نے اپنے فوائد میں ابوہریرہ سے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو قبرستان پر گزرا اور اس نے سورت فاتحہؔ اخلاص" اور الھٰکم التکاثر پڑھی پھر دعائیں مانگی کہ اے اللہ میں نے جو قرآن پڑھا ہے اس کا ثواب مومن مرد اور عورت دونوں کو دینا تو قبر والے قیامت کے دن اس کے شفارسی ہونگے۔ جاری