محبت کی قندیلیں
رومانہ وزیر کے قلم سے
یہ جامعہ عربیہ کے چوتھے سالکی کلاس تھی،حدیث پاک کا سبق چل رہا تھا "باب قیام اللیل" کھولے باادب بیٹھ کر طالبات درس کیلئے بلکل تیار تھیں،لیکن آج معلمہ کے ہاتھ مین حدیث کی کتاب کے ساتھ کچھ اور کتابیں بھی تھیں۔
عموما معلمہ بڑی ہشاش بشاش زوردار سلام کے ساتھ کلاس میں داخل ہوتی تھیں لیکن اج چہرہ ستا ہوا سا لگتا تھا،انداز ڈھیلا ڈھیلا سا تھ، ایک طالبہ سے حدیث پڑھنے کا بولا طالبہ نے حدیث پڑھی۔ چند لمحے خاموشی سے طالبات کے چہرے دیکھتی رہیں اور بولیں :
آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت یاد آرہے ہیں ۔
میں کبھی تصور میں انکی بیٹی بن جاتی ہوں ، میں سوچتی ہوں کہ جب قیام فرما کر آپ کے قدم مبارک پر ورم آجایا کرتا تھا تو کااااش میں تیل لے کر ان کو مالش کر کے راحت پہنچاتی،،،،جب اپنی امت کیلئے زار زار روتے تھے تو کاش میں آگے بڑھ کر وہ موتی چن لیتی،،،،میں جب انہی کے طفیل ملنے والی نعمتوں میں سے پنکھے کے نیچے بیٹھتی ہوں تو دل کرلا جاتا ہے،کہ سرکار دوعالم نے عرب کی تپتی جھلساتی گرمیاں بنا پنکھے کے گزاریں،،،، میں جب عمدہ کھانا پھل کھاتی ہوں تو دل کٹ کٹ جاتا ہے کہ واہ میرے حبیب تیری امت کے سامنے جو انبار لگے ہیں آپ نے وہ سب نوش تک نہیں فرمایا،، اور دل میں ایک بے ساختی خواہش ابھرتی ہے کہ کاش حضور ہوتے تو میں ان کی خدمت میں پیش کر آتی،،،، ہائے شاہ دو عالم ہونے کے باوجود وہ ان تنعمات سے دووووور دوووووووور تھے ۔
میں سوچتی ہوں کہ مین ایسا کیا کروں؟؟؟؟ کیا خروں کہ حضور کی خدمت ہی کر لوں ؟؟؟
میں نے بہت دعائیں مانگی ہیں حج میں،کعبہ کے سامنے، عرفات میں، منی میں،رمی کے بعد، روضہ مبارک پہ۔
بس میں سوچتی جاتی اور الجھتی جاتی ۔
نظریں جھکا کہ پوچھا ،جانتے ہیں پھر کیا جواب ملا۔؟؟؟؟
طالبات جو نم آنکھوں سے سن رہی تھیں ان کی سوالیہ نظریں معلمہ پر ٹک گئیں۔
ایک دن چند احباب نے ایک گروپ میں شامل کر دیا وہاں ایک تحریر پڑھی ۔ تحریر کیا تھی سعادت کا پروانہ تھا۔۔کیا آپ سننا چاہتے ہیں وہ کیا تھا ؟
طالبات میکانکی انداز میں بولیں جی۔ جی ضرور۔
لکھا تھا : "اگر کوئی شخص چاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی خدمت کرے۔ ذاتی خدمت کا مطلب پاوں دبانا،سر دبانا، پہرے داری کرنا،ہر وقت کسی کیلئے میسر رہنا ۔
تو وہ۔
ختم نبوت کا کام کرے۔"
اللہ اکبر۔
میرے رونگٹے کھڑت ہو گئے۔ آگے لکھا تھا ۔
"کہ حدیث،تفسیر،فقہ،تبلیغ، یہ آپ کے اقوال، افعال، ہدایات، سیرت کی حفاظت ہے لیکن ختم نبوت آپکی ذات کی حفاظت ہے اور ذات ہر حال میں اعلی اور اولی ہے۔
میں نے یہ بھی پڑھا کہ "جو توجہات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ پر تھیں اگر آج چودہ سو سال بعد کوئی مسلمان وہی توجہات حاصل کرنا چاہے تو اسے چاہئیے کہ وہ ختم نبوت کا کام کرے ۔
اللہ اکبر ۔ اللہ اکبر ۔ اللہ اکبر۔
میری تو دنیا روشن ہو گئی بچو !!! میں بے خودی میں ان عبارتوں کو پڑھتی جاتی اور روتی جاتی اور ان کو چومتی جاتی۔
لیکن بس دکھ اس بات کا تھا کہ میں مدرسہ میں معلمہ ہونے کے باوجود صرف ختم نبوت کے نام اور سرسری مطلب سے ہی واقف تھی نا کبھی اس سے متلعق کوئی کتاب پڑھی اور نا کبھی کوئی بیان۔۔۔ یا اللہ میں کیا کروں ؟ کس کے پاس جاوں ؟ کون مجھے سمجھائے کہ میں نے یہ کام کیسے کرنا ہے ؟؟؟اب اس منزل تک پہنچنا کیسے ہو گا ؟؟؟
بس پھر اللہ میری معلمہ کو دونوں جہاں کی راحت نصیب فرمائیں، ان کے ساتھ جڑ کر اس کام کو سمجھا، سیکھا پڑھا ، ۔
چھوٹے پیمانے سے شروع کر کے ماہر اساتذہ ہمیں تدریجا آگے اور آگے لے جاتے گئے ۔
یہ دیکھو بچو یہ کتابیں میں نے پڑھی تو مجھ پہ کھلا کہ قادیانیت کس زہر کا نام ہے؟ یہ کیا ناسور ہے، ابلیس کے باپ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کی کیا حقیقت ہے؟ اسکی ہرزہ سرائیاں، تضاد بیانیاں، اسکی گستاخیاں بچو وہ قرآن کا گستاخ وہ حدیث کا گستاخ وہ عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کا گستاخ وہ انبیاء کا گستاخ اوہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ وہ خدائے ذوالجلال کی خدائی کا گستاخ۔!!! یہ سب باتیں ہمارا خون خشک کرنے کو کافی ہین بچو !! بلکہ اسکا تحمل ہماری مقدرت سے باہر ہے!! آپ نہیں جانتے وہ اپنے دل کے ظلمت خانے میں کن غلاظتوں کو لئیے پھرتا تھا۔
لیکن بچو ۔تصویر کا دوسرا رخ ہمارے علماء ہمارے اکابرین ختم نبوت اور ہمارے جذبہ ایمان سے سرشار عوام تھی جنہوں نےاس سب کا مقابلہ کیا،،، علماء نے کتاب کے بدلے کتاب، مباہلے کے جواب میں مباہلہ، جھوٹے دلائل کے جواب میں دلائل، اشتہار کے بدلے اشتہار،جلسہ کے جواب میں جلسہ اور تقریر کا بدلہ تقریر سے دے کر مرزے کو ہر میدان میں ترکی بہ ترکی جواب دیا،،، نہ دن دیکھا نہ رات، آدھی آدھی زندگیاں جیل میں گزار دیں،، تحریکیں چلائیں، ہزاروم شہید ہوئے لیکن اففف تک نا کی کہ اس ذات اقدس کے ساری دنیا سے قیمتی ان آنسووں کا قرض تھا ہم پہ جو انہوں نے ہمارے لئیے بہائے تھے۔
یہ دیکھیں یہ کتابیں آپ کو دکھانے کیلئے لائی ہوں یہ عشق کے قیدی، مطالعہ قادیانیت، تحفظ ختم نبوت اہمیت و فضیلت، آئینہ قادیانیت،ختم نبوت کامل یہ پڑھیں تو آتش دل صرف ایک بات سے بجھے ۔
وہ ہے ختم نبوت پیارو!!
قصہ مختصر بچو اس دن سے میں نے ختم نبوت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔
وہ تصورات جو مجھے بے چین کئیے دیتے تھے اب یقین مانو وہ سکون وہ راحت ہے کہ ہر وقت خود کو ذات اقدس کے سامنے دوزانو پاتی ہوں ۔۔۔۔ اور اب مجھے لگتا ہے کہ حضور مسکرا کے مجھے دیکھتے ہیں ،،، مجھے لگتا ہے اور وہ زارو قطار رونے لگیں
میرے بچو بولو بولو بولو بنو گے نا حضور کی ذات کے محافظ ؟؟؟؟
جی ۔ جی ۔ جی ۔ جی ۔ دل و جان سے ۔
عشق کی شمعیں تھیں کیسے نا جلتیں محبت کی قندیل سے قندیلیں روشن ہو چکی تھیں ۔
رومانہ وزیر کے قلم سے
یہ جامعہ عربیہ کے چوتھے سالکی کلاس تھی،حدیث پاک کا سبق چل رہا تھا "باب قیام اللیل" کھولے باادب بیٹھ کر طالبات درس کیلئے بلکل تیار تھیں،لیکن آج معلمہ کے ہاتھ مین حدیث کی کتاب کے ساتھ کچھ اور کتابیں بھی تھیں۔
عموما معلمہ بڑی ہشاش بشاش زوردار سلام کے ساتھ کلاس میں داخل ہوتی تھیں لیکن اج چہرہ ستا ہوا سا لگتا تھا،انداز ڈھیلا ڈھیلا سا تھ، ایک طالبہ سے حدیث پڑھنے کا بولا طالبہ نے حدیث پڑھی۔ چند لمحے خاموشی سے طالبات کے چہرے دیکھتی رہیں اور بولیں :
آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت یاد آرہے ہیں ۔
میں کبھی تصور میں انکی بیٹی بن جاتی ہوں ، میں سوچتی ہوں کہ جب قیام فرما کر آپ کے قدم مبارک پر ورم آجایا کرتا تھا تو کااااش میں تیل لے کر ان کو مالش کر کے راحت پہنچاتی،،،،جب اپنی امت کیلئے زار زار روتے تھے تو کاش میں آگے بڑھ کر وہ موتی چن لیتی،،،،میں جب انہی کے طفیل ملنے والی نعمتوں میں سے پنکھے کے نیچے بیٹھتی ہوں تو دل کرلا جاتا ہے،کہ سرکار دوعالم نے عرب کی تپتی جھلساتی گرمیاں بنا پنکھے کے گزاریں،،،، میں جب عمدہ کھانا پھل کھاتی ہوں تو دل کٹ کٹ جاتا ہے کہ واہ میرے حبیب تیری امت کے سامنے جو انبار لگے ہیں آپ نے وہ سب نوش تک نہیں فرمایا،، اور دل میں ایک بے ساختی خواہش ابھرتی ہے کہ کاش حضور ہوتے تو میں ان کی خدمت میں پیش کر آتی،،،، ہائے شاہ دو عالم ہونے کے باوجود وہ ان تنعمات سے دووووور دوووووووور تھے ۔
میں سوچتی ہوں کہ مین ایسا کیا کروں؟؟؟؟ کیا خروں کہ حضور کی خدمت ہی کر لوں ؟؟؟
میں نے بہت دعائیں مانگی ہیں حج میں،کعبہ کے سامنے، عرفات میں، منی میں،رمی کے بعد، روضہ مبارک پہ۔
بس میں سوچتی جاتی اور الجھتی جاتی ۔
نظریں جھکا کہ پوچھا ،جانتے ہیں پھر کیا جواب ملا۔؟؟؟؟
طالبات جو نم آنکھوں سے سن رہی تھیں ان کی سوالیہ نظریں معلمہ پر ٹک گئیں۔
ایک دن چند احباب نے ایک گروپ میں شامل کر دیا وہاں ایک تحریر پڑھی ۔ تحریر کیا تھی سعادت کا پروانہ تھا۔۔کیا آپ سننا چاہتے ہیں وہ کیا تھا ؟
طالبات میکانکی انداز میں بولیں جی۔ جی ضرور۔
لکھا تھا : "اگر کوئی شخص چاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی خدمت کرے۔ ذاتی خدمت کا مطلب پاوں دبانا،سر دبانا، پہرے داری کرنا،ہر وقت کسی کیلئے میسر رہنا ۔
تو وہ۔
ختم نبوت کا کام کرے۔"
اللہ اکبر۔
میرے رونگٹے کھڑت ہو گئے۔ آگے لکھا تھا ۔
"کہ حدیث،تفسیر،فقہ،تبلیغ، یہ آپ کے اقوال، افعال، ہدایات، سیرت کی حفاظت ہے لیکن ختم نبوت آپکی ذات کی حفاظت ہے اور ذات ہر حال میں اعلی اور اولی ہے۔
میں نے یہ بھی پڑھا کہ "جو توجہات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ پر تھیں اگر آج چودہ سو سال بعد کوئی مسلمان وہی توجہات حاصل کرنا چاہے تو اسے چاہئیے کہ وہ ختم نبوت کا کام کرے ۔
اللہ اکبر ۔ اللہ اکبر ۔ اللہ اکبر۔
میری تو دنیا روشن ہو گئی بچو !!! میں بے خودی میں ان عبارتوں کو پڑھتی جاتی اور روتی جاتی اور ان کو چومتی جاتی۔
لیکن بس دکھ اس بات کا تھا کہ میں مدرسہ میں معلمہ ہونے کے باوجود صرف ختم نبوت کے نام اور سرسری مطلب سے ہی واقف تھی نا کبھی اس سے متلعق کوئی کتاب پڑھی اور نا کبھی کوئی بیان۔۔۔ یا اللہ میں کیا کروں ؟ کس کے پاس جاوں ؟ کون مجھے سمجھائے کہ میں نے یہ کام کیسے کرنا ہے ؟؟؟اب اس منزل تک پہنچنا کیسے ہو گا ؟؟؟
بس پھر اللہ میری معلمہ کو دونوں جہاں کی راحت نصیب فرمائیں، ان کے ساتھ جڑ کر اس کام کو سمجھا، سیکھا پڑھا ، ۔
چھوٹے پیمانے سے شروع کر کے ماہر اساتذہ ہمیں تدریجا آگے اور آگے لے جاتے گئے ۔
یہ دیکھو بچو یہ کتابیں میں نے پڑھی تو مجھ پہ کھلا کہ قادیانیت کس زہر کا نام ہے؟ یہ کیا ناسور ہے، ابلیس کے باپ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کی کیا حقیقت ہے؟ اسکی ہرزہ سرائیاں، تضاد بیانیاں، اسکی گستاخیاں بچو وہ قرآن کا گستاخ وہ حدیث کا گستاخ وہ عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کا گستاخ وہ انبیاء کا گستاخ اوہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ وہ خدائے ذوالجلال کی خدائی کا گستاخ۔!!! یہ سب باتیں ہمارا خون خشک کرنے کو کافی ہین بچو !! بلکہ اسکا تحمل ہماری مقدرت سے باہر ہے!! آپ نہیں جانتے وہ اپنے دل کے ظلمت خانے میں کن غلاظتوں کو لئیے پھرتا تھا۔
لیکن بچو ۔تصویر کا دوسرا رخ ہمارے علماء ہمارے اکابرین ختم نبوت اور ہمارے جذبہ ایمان سے سرشار عوام تھی جنہوں نےاس سب کا مقابلہ کیا،،، علماء نے کتاب کے بدلے کتاب، مباہلے کے جواب میں مباہلہ، جھوٹے دلائل کے جواب میں دلائل، اشتہار کے بدلے اشتہار،جلسہ کے جواب میں جلسہ اور تقریر کا بدلہ تقریر سے دے کر مرزے کو ہر میدان میں ترکی بہ ترکی جواب دیا،،، نہ دن دیکھا نہ رات، آدھی آدھی زندگیاں جیل میں گزار دیں،، تحریکیں چلائیں، ہزاروم شہید ہوئے لیکن اففف تک نا کی کہ اس ذات اقدس کے ساری دنیا سے قیمتی ان آنسووں کا قرض تھا ہم پہ جو انہوں نے ہمارے لئیے بہائے تھے۔
یہ دیکھیں یہ کتابیں آپ کو دکھانے کیلئے لائی ہوں یہ عشق کے قیدی، مطالعہ قادیانیت، تحفظ ختم نبوت اہمیت و فضیلت، آئینہ قادیانیت،ختم نبوت کامل یہ پڑھیں تو آتش دل صرف ایک بات سے بجھے ۔
وہ ہے ختم نبوت پیارو!!
قصہ مختصر بچو اس دن سے میں نے ختم نبوت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔
وہ تصورات جو مجھے بے چین کئیے دیتے تھے اب یقین مانو وہ سکون وہ راحت ہے کہ ہر وقت خود کو ذات اقدس کے سامنے دوزانو پاتی ہوں ۔۔۔۔ اور اب مجھے لگتا ہے کہ حضور مسکرا کے مجھے دیکھتے ہیں ،،، مجھے لگتا ہے اور وہ زارو قطار رونے لگیں
میرے بچو بولو بولو بولو بنو گے نا حضور کی ذات کے محافظ ؟؟؟؟
جی ۔ جی ۔ جی ۔ جی ۔ دل و جان سے ۔
عشق کی شمعیں تھیں کیسے نا جلتیں محبت کی قندیل سے قندیلیں روشن ہو چکی تھیں ۔