کفایت اللہ صاحب نے اردومجلس پر ایک موضوع شروع کیاہے جس کا عنوان ہے۔
کفایت اللہ صاحب کے فورم پر موجود دستخط میں ایک شعر ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ
محبت ہے توعیب بھی ہنر بن جاتی ہے اورنفرت ہے توہنربھی عیب دکھائی پڑتاہے۔
اورکمال یہ ہے کہ وہ اس پر پورے طورپرعمل بھی کرتے ہیں۔ قارئین ان اسی بحث کے پچھلے حصہ میں کچھ نمونے ملاحظہ کرچکے ہیں۔ جہاں محض کسی صحابی کوغیرفقیہہ کہنے پر انہوں نے دشمن اسلام اورروایات کے خلاف خفیہ سازش تک کہہ دیاتھا۔
کیافقہ اورحدیث میں تلازم ہے دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں؟یہ ایسے سوالات ہیں جودورحاضر میں اٹھ رہے ہیں۔ دورحاضر میں سب سے پہلے میرے محدود علم کے مطابق یہ بات علامہ البانی نے کہی تھی کہ جومحدث ہے وہ فقیہہ بھی ہے۔ اس کے بعد سے اس کی حمایت اورمخالفت میں لوگ لکھتے آرہے ہیں۔
ہم کفایت اللہ صاحب کی تحریر کافردافرداجواب نہ دے کر بہترسمجھتے ہیں کہ اس بحث کی چند بنیادی باتیں ذکر کردی جائیں۔
قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نےکاارشاد ہے
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ } [التوبة: 122]
اس آیت سے کفایت اللہ صاحب نے نرالااستدلال کیاہے ۔ ان کاخیال ہے کہ صرف حدیث کے حصول کیلئے ہی انسان باہر کا سفر کرسکتاہے۔ حلال وحرام کاعلم اس سے مستغنی ہے وہ گھر بیٹھے حاصل ہوجاتاہے۔ اس نرالے استدلال پر ہم کچھ زیادہ توکہہ نہیں سکتے۔ اتناعرض کرتے چلیں۔ انسان فقیہہ بھی گھربیٹھے نہیں بن جاتا ۔ بلکہ اس کیلئے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنی پڑتی ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ کسی کو اپنے شہر میں یہ دولت مل جائے اورکسی کو دردر کی خاک چھاننی پڑے۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ حدیث کیلئے دردر کی خاک چھاننی ہی پڑے۔ دیکھئے امام مالک مدینہ سے باہر نہیں گئے لیکن ان کو عظیم الشان محدث شمار کیاجاتاہے۔ تو فقہ اورحدیث دونوں میں یہ خصوصیت موجود ہے کہ کبھی یہ اپنے شہر میں ہی فراوانی سے دستیاب ہوتی ہے اورکبھی دردر کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔
اگراسکو اقبال کے الفاظ میں کہیں تو
دوسو عقلمندوں نے محفل میں اپنے خیالات ظاہر کئے۔ ان کی باتوں میں پھول کی پتیوں سے زیادہ نزاکت تھی لیکن مجھے یہ توبتاؤکہ اس میں کوئی ایسابھی تھا جس کی دوربینی پیش بینی اورپیش گوئی اس درجے کی ہو کہ کانٹوں کودیکھ کر چمن کے احوال بیان کردے۔
ہم بھی یہی کہناچاہتے ہیں کہ فقیہہ وہی ہوتاہے جو حدیث کے ظاہری معنی کوہی نہیں بلکہ باطنی اورپوشیدہ معانی کو اپنے قوت اجتہاد واستنباط سے باہرلاتاہے۔ اس کے مخفی گوشوں کی نقاب کشائی کرتاہے۔ اس کے پیچیدہ اورزولیدہ گیسوؤں کو سلجھاتا ہے۔
حدیث کے حصول سے فقہ نہیں آتی اس پر کئی جہتوں سے کلام کیاجاسکتاہے۔ اس کی دلیل
1: اولا قرآن پاک کا مقام ومرتبہ حدیث سے زیادہ ہے۔ اس کے الفاظ محفوظ ہیں۔ اس کے عجائبات کبھی ختم ہونے والے نہیں۔ اس کے فقروں اورجملوں میں معنی کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس کے باوجود کسی نے یہ نہیں کہاکہ قرآن کاحافظ ہونے سے انسان فقیہہ ہوجاتاہے۔ یااس کے اشارات ،مقاصد،مراد اوردیگر اشیاء سے واقف ہوجاتاہے اورقرآن میں جوفقہیات مذکور ہیں۔ وہ ان سے آشناہوجاتاہے۔ پھرحدیث کے بارے میں یہ دعویٰ کیسے کیاجاسکتاہے کہ اس کی واقفیت سے فقاہت خود بخود آجائے گی۔
2: احادیث پاک میں بھی کئی ایسی حدیثیں ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ محدث کا وظیفہ الگ ہے اورفقیہہ کا وظیفہ الگ ہے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں فقییہ اورمحدث کی الگ الگ تعریف کی ہے۔
اگرمحدثین کی فضیلت میں نضراللہ امراسمع مقالتی فرمایاتوفقہاء کی تعریف میں ارشاد فرمایا کہ من یرد اللہ بہ خیرایفقہ فی الدین (بخاری)
یہ تقسیم ہی بتارہی ہے کہ دونوں کا وظیفہ ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ورنہ الگ الگ دونوں کی تعریف کی ذکر کی ضرورت نہ ہوتی جیساکہ کفایت اللہ صاحب کا ماننا ہے کہ حدیث کے علم کے ساتھ ہی ضمنی طورپر فقاہت حاصل ہوجاتی ہے۔
اس استدلال پر جتناغورکریں گے اتناہی آپ پر واضح ہوتاجائے گاکہ فقیہہ کاوظیفہ محدث کے وظیفہ سے الگ ہے۔ دونوں کا منصب الگ ہے۔
اگر حدیث کی تحصیل کالازمی نتیہ فقاہت کا حصول ہوتاتو پھر خطیب بغدادی کو النصیحۃ لاہل الحدیث لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اورنہ ہی شرف اصحاب الحدیث کے بعد الفقیہہ والمتفقہ لکھنے کی ضرورت پڑتی۔
جاری ہے
چونکہ یہ موضوع یہاں شروح وفوائد حدیث میں چل رہاتھا۔ اس کے بجائے کفایت اللہ صاحب نے دوسرے فورم پر لکھنابہتر سمجھایہ ان کی مرضی ہے۔ میں وہاں پر نہیں ہوں لہذا میں نے بہتر سمجھاکہ اس کا جواب ایک مستقل موضوع کے تحت محدث فورم پر دے دیاجائے۔ کفایت اللہ صاحب کا مضمون جاری ہے اگراس میں کوئی قوی اعتراض ہوتواتواس کاجواب دیاجائے گاورنہ ہم اس موضوع پر صرف اپنے دلائل پیش کرتے چلے جائیں گے۔حدیث کا سب سے بڑا جانکا رہی سب سے بڑا فقیہ ہوتاہے۔
کفایت اللہ صاحب کے فورم پر موجود دستخط میں ایک شعر ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ
محبت ہے توعیب بھی ہنر بن جاتی ہے اورنفرت ہے توہنربھی عیب دکھائی پڑتاہے۔
اورکمال یہ ہے کہ وہ اس پر پورے طورپرعمل بھی کرتے ہیں۔ قارئین ان اسی بحث کے پچھلے حصہ میں کچھ نمونے ملاحظہ کرچکے ہیں۔ جہاں محض کسی صحابی کوغیرفقیہہ کہنے پر انہوں نے دشمن اسلام اورروایات کے خلاف خفیہ سازش تک کہہ دیاتھا۔
کیافقہ اورحدیث میں تلازم ہے دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں؟یہ ایسے سوالات ہیں جودورحاضر میں اٹھ رہے ہیں۔ دورحاضر میں سب سے پہلے میرے محدود علم کے مطابق یہ بات علامہ البانی نے کہی تھی کہ جومحدث ہے وہ فقیہہ بھی ہے۔ اس کے بعد سے اس کی حمایت اورمخالفت میں لوگ لکھتے آرہے ہیں۔
ہم کفایت اللہ صاحب کی تحریر کافردافرداجواب نہ دے کر بہترسمجھتے ہیں کہ اس بحث کی چند بنیادی باتیں ذکر کردی جائیں۔
قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نےکاارشاد ہے
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ } [التوبة: 122]
اس آیت سے کفایت اللہ صاحب نے نرالااستدلال کیاہے ۔ ان کاخیال ہے کہ صرف حدیث کے حصول کیلئے ہی انسان باہر کا سفر کرسکتاہے۔ حلال وحرام کاعلم اس سے مستغنی ہے وہ گھر بیٹھے حاصل ہوجاتاہے۔ اس نرالے استدلال پر ہم کچھ زیادہ توکہہ نہیں سکتے۔ اتناعرض کرتے چلیں۔ انسان فقیہہ بھی گھربیٹھے نہیں بن جاتا ۔ بلکہ اس کیلئے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنی پڑتی ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ کسی کو اپنے شہر میں یہ دولت مل جائے اورکسی کو دردر کی خاک چھاننی پڑے۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ حدیث کیلئے دردر کی خاک چھاننی ہی پڑے۔ دیکھئے امام مالک مدینہ سے باہر نہیں گئے لیکن ان کو عظیم الشان محدث شمار کیاجاتاہے۔ تو فقہ اورحدیث دونوں میں یہ خصوصیت موجود ہے کہ کبھی یہ اپنے شہر میں ہی فراوانی سے دستیاب ہوتی ہے اورکبھی دردر کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔
فقیہ اورمحدث کے درمیان فرق کیاہے۔ محدث ایک حدیث کی روایت کرتاہے ۔ بسااوقات اس کی نظر صرف اس کے ظاہری پہلو کی جانب جاتی ہے جب کہ فقیہہ اس کے دوسرے پوشیدہ پہلوؤں پر بھی نگاہ رکھتاہے اوراس سے مسائل کااستنباط کرتاہے۔ بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ ایک فقییہ ایک حدیث سے سینکڑوں مسائل کا استنباط کرتاہے ۔ جب کہ محدث کی نگاہ صرف اس کے ظاہری پہلوؤں پر ہوتی ہے۔
اگراسکو اقبال کے الفاظ میں کہیں تو
دوصددانادریں محفل سخت گفت
سخن نازک ترازبرگ سمن گفت
ولے بامن بگو آں دیدہ ورکیست
کہ خارے دید واحوال چمن گفت
دوسو عقلمندوں نے محفل میں اپنے خیالات ظاہر کئے۔ ان کی باتوں میں پھول کی پتیوں سے زیادہ نزاکت تھی لیکن مجھے یہ توبتاؤکہ اس میں کوئی ایسابھی تھا جس کی دوربینی پیش بینی اورپیش گوئی اس درجے کی ہو کہ کانٹوں کودیکھ کر چمن کے احوال بیان کردے۔
ہم بھی یہی کہناچاہتے ہیں کہ فقیہہ وہی ہوتاہے جو حدیث کے ظاہری معنی کوہی نہیں بلکہ باطنی اورپوشیدہ معانی کو اپنے قوت اجتہاد واستنباط سے باہرلاتاہے۔ اس کے مخفی گوشوں کی نقاب کشائی کرتاہے۔ اس کے پیچیدہ اورزولیدہ گیسوؤں کو سلجھاتا ہے۔
حدیث کے حصول سے فقہ نہیں آتی اس پر کئی جہتوں سے کلام کیاجاسکتاہے۔ اس کی دلیل
1: اولا قرآن پاک کا مقام ومرتبہ حدیث سے زیادہ ہے۔ اس کے الفاظ محفوظ ہیں۔ اس کے عجائبات کبھی ختم ہونے والے نہیں۔ اس کے فقروں اورجملوں میں معنی کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس کے باوجود کسی نے یہ نہیں کہاکہ قرآن کاحافظ ہونے سے انسان فقیہہ ہوجاتاہے۔ یااس کے اشارات ،مقاصد،مراد اوردیگر اشیاء سے واقف ہوجاتاہے اورقرآن میں جوفقہیات مذکور ہیں۔ وہ ان سے آشناہوجاتاہے۔ پھرحدیث کے بارے میں یہ دعویٰ کیسے کیاجاسکتاہے کہ اس کی واقفیت سے فقاہت خود بخود آجائے گی۔
2: احادیث پاک میں بھی کئی ایسی حدیثیں ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ محدث کا وظیفہ الگ ہے اورفقیہہ کا وظیفہ الگ ہے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں فقییہ اورمحدث کی الگ الگ تعریف کی ہے۔
اگرمحدثین کی فضیلت میں نضراللہ امراسمع مقالتی فرمایاتوفقہاء کی تعریف میں ارشاد فرمایا کہ من یرد اللہ بہ خیرایفقہ فی الدین (بخاری)
یہ تقسیم ہی بتارہی ہے کہ دونوں کا وظیفہ ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ورنہ الگ الگ دونوں کی تعریف کی ذکر کی ضرورت نہ ہوتی جیساکہ کفایت اللہ صاحب کا ماننا ہے کہ حدیث کے علم کے ساتھ ہی ضمنی طورپر فقاہت حاصل ہوجاتی ہے۔
اس استدلال پر جتناغورکریں گے اتناہی آپ پر واضح ہوتاجائے گاکہ فقیہہ کاوظیفہ محدث کے وظیفہ سے الگ ہے۔ دونوں کا منصب الگ ہے۔
اگر حدیث کی تحصیل کالازمی نتیہ فقاہت کا حصول ہوتاتو پھر خطیب بغدادی کو النصیحۃ لاہل الحدیث لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اورنہ ہی شرف اصحاب الحدیث کے بعد الفقیہہ والمتفقہ لکھنے کی ضرورت پڑتی۔
جاری ہے