سیرت النبیﷺ کورس

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
الحمداللہ آپ سب کی دعاؤں سے کالج و یونیورسٹیز کے طلباء کے لیے کچھ دوستوں نے ایک "سیرت النبیﷺ" کورس کا انعقاد کیا ہے ،تاکہ طلباء کو سیرت النبیﷺ سے آشنا کیا جا سکے۔ جس میں اس خاکسار کو بھی شامل کیا گیاسوچا کلاسز کے ساتھ ساتھ اس کو الغزالی پر بھی شئیرکردوں تاکہ استفادہ عام ہوجائے۔امید ہے آپ سب رہنمائی فرمائیں گے۔جزاک اللہ
والسلام!
خاکسار داؤد
سیرت النبیﷺ کورس
کلاس نمبر 1
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن
آج سے ہم جناب نبی کریمﷺ کی سیرت کے بارے میں ایک مختصر سے کورس کا آغاز کررہے ہیں ۔ جسمیں ان شاءاللہ نبی کریمﷺ کی سیرت،آپﷺ کے خاندان ،آپﷺ کے اصحاب کے بارے میں اس مختصر کورس کے اندر جاننے کی کوشش کرینگے ۔ انشاءاللہ اختصار کے ساتھ نبی کریمﷺ کی سیرت،اخلاق و کرار،اہلیبیت و صحابہ اکرام کا ذکر کرینگے دعا ہے اللہ پاک اس کورس کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور نبی اکرمﷺ کی سیرت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین
اللہ رب العزت نے تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے اکرام اس دنیا میں مبعوث فرمائے،ان میں سے چند نام جو ہمیں قرآن کریم نے بتلائےان کے علاوہ جو انبیاء اکرام علیھم السلام مبعوث ہوئے،کن علاقوں میں آئے،کس شہر میں آئے اس کی تفصیل کسی کے پاس نہیں۔ہندوستان میں بہت سی شخصیتوں کے بارے میں لوگوں کی رائے یہ ہے کہ وہ نبی تھےمثال کے طور پر گوتم بت کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ نبی تھے۔ یاد رکھیں نبیوں کے بارے میں ایک اصول ہےکہ نبی وہ ہوتا ہے جن کی تعلیم کا جن کی دعوت کا جو بنیادی محور ہوگا وہ "توحید "ہوگا یہ ممکن ہی نہیں نبی ہو اور ان کی بنیادی تعلیم توحید کی نہ ہو۔جس محور کے نزدیک نبیوں کی تعلیم گھومتی ہے وہ "توحید"ہے۔
مؤرخین ، و سیرت نگاروں نے مختلف پہلوؤں سے نبی کریمﷺ کی سیرت کا آغاز کیا اگر ہم قرآن کریم میں نبی کریمﷺ کے کام کےنقطہ آغاز کو دیکھیں تو معلوم ہوتا وہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔حضرت ابراھیم علیہ السلام آپﷺ کے دادا بھی ہیں اور قرآن مجید جا بجا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت ابراہیم علیہ السلام بَابِل(جو آج کے حساب سے عراق بنتا ہے) میں پیدا ہوئے۔ آپ علیہ السلام کے والد کانام "آزر" تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد بت پرست تھے بلکہ وہ بت ساز بھی تھے یعنی بت بنایا بھی کرتے تھے ۔جس شہر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے وہ دنیاوی اعتبار سےاس دور کی تہذیب اور ایجادات کے عروج پر تھا۔اور یہ شہر بت بت پرستی اور بتوں کا سب سے بڑا مرکز تھا۔
فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَاَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هٰذَا رَبِّىْ ۖ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ (سورۃ الانعام آیت 76)
پھر جب رات نے اس پر اندھیرا کیا تو اس نے ایک ستارہ دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا میں غائب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتے۔(ترجمہ مولانا احمد علی لاہوریؒ)
اس آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم بہت ساری چیزوں کی پوجا کرتی تھی اور اس میں،زمین سورج،چاند ستارے یہ بھی شامل تھے۔جب رات کو اللہ تعالیٰ نے ستارے کو غروب کردیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تم کہتے ہو یہ ہمارا رب ہے یہ تو ڈوب گیا اور ڈوبنے والا رب نہیں ہوتا۔
اس آیت مبارکہ کو اس لیے بیان کیا تاکہ جو بات سمجھائی تھی کہ نبی کی تعلیم کا محور "توحید "ہوتا ہے۔اس بات کو ذہن نشین کرنے کے لیے آپ کے سامنے بیان کردی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان عبرانی تھی،آپ علیہ السلام کے دو بیویاں تھیں ایک بیوی کا نام "سارہ "اور دوسری بیوی کا نام "ہاجرہ"تھا۔بڑھاپے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو پہلی اولاد نصیب فرمائی تھی وہ حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔اور دوسرے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام تھے جو حضرت سارا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔
حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد میں سے بہت سے انبیاء آئے مثال کے طور پر حضرت یعقوب علیہ السلام،حضرت یوسف علیہ السلام،حضر ت موسیٰ علیہ السلام
حضرت یعقوب علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے بھی انبیاء آئے وہ تمام بنی اسحق علیہ السلام میں سے تھے ۔جنہیں انبیاء بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب "اسرائیل "اس لیے ان انبیاء کو انبیاء بنی اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قبلیہ جُرہم(جو زمزم کا کنواں نکلنے پر وہاں آکر آباد ہوئے تھے)میں پرورش پائی اور انہی لوگوں سے عربی زبان دیکھی۔(تاریخ ابن خلدون)
حضرت اسماعیل علیہ السلام کا پہلا نکاح عمارہ بنت سعید سے ہوا بعد ازاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے عمارہ بنت سعید کو طلاق دی اور دوسری شادی قبیلہ جرہم کے سردارمَضَاض بن عمر وجرہمی کی بیٹی سیدہ بنت مضاض سے کی ۔ اور سیدہ بن مضاض کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارہ بیٹے پیدا ہوئے ان میں سے دو بیٹیوں کی اولاد گمانی میں نہیں گئی اور انہیں شہرت حاصل ہوئی ان دو میں سے ایک بیٹے کا نام " قَیدَار" تھا اور انہیں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب مبارک آکر ملتا ہے۔
مکہ میں بنی جُرہم کے آباد ہونے کے بعد مکہ کی حکومت بنی جُرہم کے پاس تھی۔ بنی جُرہم کا اقدتارد تقریبا دو ہزار سال تک مکہ پر قائم رہااس کے بعد بنی جرہم کے حکمرانوں نے حاجیوں کو تنگ کرنا شروع کردیا جس پر بنی اسماعیل(حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد) سےاختلافات شروع ہوگئے۔ اس دوران ایک اور قبیلہ جس کا نام "بنو خُزَاع"ہے مکہ مکرمہ کے قریب آکر آباد ہوا۔جب بنو خزاع کو علم ہوا بنوجرہم اور آل اسماعیل علیہ السلام کے درمیان تعلقات درست نہیں ہیں تو انہوں نے اسماعیل علیہ السلامکے قبائل سے ملکر بنو جُرہم کو مکہ سے روانہ کردیا۔بنوخزاع کی تقریبا تین سو سال حکومت قائم رہی۔ بارہویں پشت پر نبی اکرم ﷺ کے دادا "عدنان" تھے ۔نبی کریمﷺ اپنا نسب مبارک عدنان تک ہی بیان فرمایا کرتے تھے۔ عدنان کی اولاد کو"آل عدنان"کہا جاتا تھا ۔آل عدنان میں ایک شخص جو نبی کریم ﷺ کے اجداد میں سے جن کا نام "قصي"تھا انہوں نے مکہ مکرمہ کی حکومت حاصل کی ۔عرب تاریخ میں "قصي"ایک تاریخی شخصیت ہیں۔
آج کے سبق کا یہیں اختتام ہوتا ہے لیکن اختتام سے پہلے ذہن نشین کرلیں کہ ہم نے آج کیا سیکھا اس خلاصہ ذکرکے بات ختم کرتاہوں
خلاصہ کلام
آج کے سبق میں ہم نے سیکھا حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل میں پیدا ہوئے جو آج کے حساب سے عراق بنتا ہے ،آپ علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں پہلی بیوی کا نام حضرت سارا تھا اور دوسری بیوی کا نام حضرت ہاجرہ تھا۔ پہلی بیوی سے حضرت اسحق علیہ السلام پیدا ہوئے اور دوسری بیوی سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔حضرت اسحق علیہ السلام کے اولاد میں بہت سے انبیاء آئے یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء بنی اسحاق علیہ السلام میں تشریف لائے اور ان کو انبیاء بنی اسرائیل بھی کہا جاتا ہے اور اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھی جن میں ایک کا نام" قَیدَار" تھا اور انہیں کی اولاد میں نبی کریم ﷺ تشریف لائے۔

دعا ہے اللہ پاک ہمیں سیرت طبیہ سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 
Last edited:

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
سیرت النبیﷺ کورس
کلاس نمبر 2
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن



قصي بن کلاب عرب میں ایک نامور شخصیت تھے۔قصي اپنے دور حکومت میں مختلف شعبےمتعارف کرائے۔ان شعبوں میں ایک شعبہ جو صدیوں تک چلتا رہا جو"دارالندوہ" کےقائم کیا۔"دارالندوہ" ایک مشورہ کی جگہ تھی اس میں قریش کے مختلف شاخوں کے بڑے ہوتے تھے وہ یہاں بیٹھ کر مشورے کیا کرتے تھے۔حتٰی کے جو نبی کریم ﷺ کے نعوذباللہ قتل کی سازش ہوئی وہ بھی اسی دارالندوہ میں بیٹھ کر کی گئی تھی۔ دارالندوہ حرم کے قریب واقع تھا جس کا ایک دروازہ مسجد میں کھلتا تھا۔ اگر آج کے حساب سے اس جگہ کو دیکھا جائے جہاں دارالندوہ قائم تھا وہ جگہ مطاف (طواف کی جگہ) میں آ چکی ہے۔اور اسی طرح ایک شعبہ حرم کی خدمت کے لیے قائم کیا یعنی جو معمولات ہوتے تھے بیت اللہ کی چابی ،اس کا نظام اسی شعبہ کے پاس تھا۔ایک شعبہ حاجیوں کو زم زم پلانے کا تھا حوض بنا دیے جاتے ان میں زم زم ڈالا جاتا اور پھر کھجور اور کشمش ڈال کر حاجیوں کی خدمت میں پیش کیا جاتھا۔ایک شعبہ کھانے کا قائم کیا کیونکہ اس زمانے میں سفر لمبا ہوتا تھا اور سہولیات بھی نہ تھیں اس لیے حجاج اپنے پاس زاد راہ کم رکھتے تھے تاکہ سفر آسان ہو ان کے لیے کھانے کا ایک شعہ قائم کیا جو حاجیوں کو کھانا کھلاتےتھے۔

قصي بن کلاب کے بیٹے"عبد مناف"تھے جو حضور اکرمﷺ کے دادا تھے انہوں نے اپنے والد کے دور میں اپنا ایک مقام بنا لیا تھا۔ عبد مناف کے بیٹوں میں ایک بیٹے "ھاشم"تھے ان کا قصي بن کلاب کے بعد یعنی اپنے دادا کے بعد عرب میں بڑا مقام تھا۔ھاشم بسلسلہ تجارت شام و یمن جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ھاشم شام جاتے ہوئے یثرب (مدینہ منورہ) میں ٹھرے وہاں انہوں قبیلہ بنو نجار کی خاتون سلمیٰ بنت عمر سے شادی کی شادی کے بعد دو مہینے ھاشم یثرب (مدینہ منورہ) میں ہی رہے اور اس کے بعد شام کا سفر کیا اور اس سفر کے دوران "غزہ" میں انتقال ہوگیا۔ ھاشم کے انتقال کے چند مہینے بعدیثرب (مدینہ منورہ) میں ھاشم کا بیٹا پیدا ہوا پیدائش کے وقت بچے کے سر پر کچھ سفید بال تھے تو ماں سے اسے"شیبہ"کہ کر پکارا ۔ شیبہ بوڑھے کو کہتے ہیں کیونکہ بچے کے سر پر سفید بال تھے اس لیے شیبہ کہ دیا۔

ھاشم کے انتقال کے بعد مکہ میں ھاشم کے بھائیوں کو علم ہوچکا تھا کہ ہمارے بھائی نے یثرب (مدینہ منورہ) میں شادی کی اور ایک بچہ بھی ہے ۔یہ بچہ دس سے بارہ سال کی عمر تک اپنی والدہ کے ساتھ یثرب (مدینہ منورہ) میں رہا۔ھاشم کے بھائی "مطلب"اپنے بھتیجے شیبہ کو لینے یثرب (مدینہ منورہ) گئے وہاں سے اپنے بھتیجے کو لیے واپس مکہ پہنچے تو لوگوں اس بچے کو دیکھ کر کہا شاید یہ "مطلب" کا غلام ہے اور اس کا نام ہے "عبدالمطلب"یعنی مُطَّلِب کا غلام۔ مطلب نے کہا یہ میرا غلام نہیں میرا بھتیجا اور ھاشم کا بیٹا ہےلیکن زبان خلق پرعبدالمطلب ہی پڑگیا۔ مطلب کے انتقال کے بعد سرداری کا سہرا عبدالمطلب کے سر سجا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا تھے ۔جناب عبدالمطلب سے ایک تاریخی واقعہ منسوب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زم زم کی از سر نو دریافت جناب عدالمطلب کے ہاتھوں کروائی تھی۔
گزشتہ کلاس میں "بنو جُرھُم"کا ذکر کیا تھا کہ ان کو آل اسماعیل علیہ السلام کے قبائل سے مل کر قبیلہ"بنو خُزاع" نے مکہ سے نکال دیا تھا اور "بنو جرھم"نے جاتے ہوئے زم زم کے کنویں کو بندکریا تھااور خانہ کعبہ کے کچھ تبرکات تھےان تبرکات کو کنویں میں ڈال کر کنواں بند کردیا اور صحرا میں اگر کسی چیز کا نشان ختم کردیا جائے تواس کا ملنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہر طرف ریت ہوتی ہے۔جناب عبدالمطلب کو ایک دن خواب آیا کہ اس جگہ کو کھودو یہاں سے زم زم نکلے گا ۔جب زم زم کے آثار نظر آئے تو قوم نے کہا ہم بھی شامل ہونا چاہتے ہیں پر اس وقت کچھ چیزیں ایسی محسوس ہوئیں کہ لوگ متفق ہوگئے کہ یہ اعزاز جناب عبدالمطلب کے پاس ہی رہے کیونکہ انہی کو اشارہ ہوااور انہی کو کام آخر تک پہنچائیں۔یہ وہ موقع تھا جس پرپر جناب عبدالمطلب نے منت مانی کہ اگر اللہ نےدس بیٹے دیے اوروہ دس بیٹے اتنے بڑے ہوجائیں کہ وہ میرے ساتھ کسی لڑائی کے اندر کھڑے ہوسکیں تو ان میں سے ایک بیٹے کوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتےہوئے اللہ کے راستے میں قربان کروں گا۔جب دس کےدس بیٹے جوان ہوگئے تو جناب عبدالمطلب نے سوچا کہ اب کس کو اللہ کے راہ میں قربان کروں تو جناب عطبدالمطلب نے قرعہ ڈالا۔ قرعہ میں نام جناب نبی کریمﷺ کے والد ماجد جناب عبداللہ کے نام نکلا اور جناب عبدالمطلب کو بیٹوں میں سب سے عزیز بیٹے جناب عبداللہ تھے۔قرعہنکلنے کے بعد جناب عبدالمطلب اپنے بیٹے کو لیے کعبہ کی طرف روانہ ہوگئےراستہ میں جناب عبداللہ کے ننھیال میں سے کچھ لوگ جناب عبدالمطلب کے پاس آئے اور کہاکہ یہ آپ سے سب بیٹوں میں سے سب سے اچھا بیٹا ہےآپ اس بیٹے کے بجائےاس قربانی کو پوراکرنے کے لیے کوئی متبادل صورت اختیار کریں۔تو اس صورتحال میں کہانت والی عورت(جوذہین عورت تھی اور فیصلہ کرتی تھی) کے پاس گئے اور کہا منت ہے لازما پورا کرنی ہے۔ اس زمانے میںجو دیت تھی یعنی جو ایک جان کا بدلہ تھا وہ دس اونٹ تھے۔اس عورت نے جواب دیا ایک طرف عبداللہ کا نام لکھیں اور دوسری طرف دس اونت لکھیں اور قرعہ ڈالیں اگر دس اونٹ نکل آئے تو دس اونٹ قربان کردیں عبداللہ کی جان بچ جائے گی اور اگر عبداللہ کانام نکل آئےتو پھر دس اونٹ اور بڑھاکر قرعہ ڈال دیں۔جناب عبدالمطلب نے قرعہ دالا تو جناب عبداللہ کا نام نکل آیا جناب عبدالمطلب نے نو دفعہ قرعہ دالا اور ہر بار دس دس اونٹ بڑھاتے گئے لیکن ہر بار جناب عبداللہ کا نام نکل آتالیکن جب دسویں بار قرعہ ڈالا ایک طرف جناب عبداللہ اور دوسری طرف سو اونٹ رکھے تو قرعہ میں سو اونٹ نکل آئےتو جناب عبدالمطلب نےمنت پوری کرتے ہوئےایک سو اونٹ قربان کردیے اور تب عرب میں جہاں ایک جان کا بدلہ دس اونٹ ہوا کرتے تھے اس قرعہ کے بعدایک جان کا بدلہ سو اونٹ مقرر کردیے گئے اور اسی کو اسلام نے برقرار رکھا۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان کو قبول کیالیکن عوض کے اندرمینڈھا ذبح کیااسی طرح جناب عبداللہ کے عوض سواونٹ ذبح کیے اس لیے عرب کے لوگ جناب عبداللہ کو"ذبیح"کہتے تھے جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو "ذبیح"کہا جاتاہے۔
ایک مرتبہ ایک دیہاتی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺابن الذبیحین(دو ذبیحوں کی اولاد) کہ کر مخاطب کیا جس پر آپ ﷺ نے تبسم فرمایا تو صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیایارسول اللہ ﷺ ایک ذبیح تو حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں یہ دوسرا ذبیح کون ہےاس کی طرف اشارہ کرکے اس نے آپ ﷺ کو بلایا؟تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا یہ شخص میرے والد حضرت عبداللہ کا کہ رہاہےکیونکہ اسی طرح میرے دادا نے میرے والد کو اللہ کے راستے میں قربان کرنے کا ارادہ کیا اور سو اونٹوں کے عوض ان کی قربانی کو پورا کیا گیا۔
آپﷺ کی پیدائش سے قبل ایک واقعہ رونما ہوا جس ایک خاص تعلق حضرت عبدالمطلب سے ہےجسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفیل میں ذکرفرمایا ہے۔مؤرخین اور سیرت نگاروں کے نزدیک آپﷺ کی پیدائش سے پچاس دن قبل یہ واقعہ پیش آیا۔ یمن کاایک گورنر تھا جس کا نام "ابرہہ" تھا اس نے ساٹھ ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ پرحملہ کی جسارت کی کوشش کی اور اس لشکر میں ہاتھی بھی موجود تھے۔ جب یہ لشکر مکہ مکرمہ کے قریب "وادی مُحسر" پر پڑاؤ ڈالا۔جناب عبدالمطلب کو اطلاع ملی کہ یمن کا گورنر مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کو گرانے کے لیے قریب آ چکا ہےتو انہوں نے قریش کو مکہ سے نکل جانے کا حکم دیا اور کہا یہ بیت اللہ اللہ کا گھر ہےاللہ تعالیٰ اس کی خود حفاظت کرینگے۔جب لوگ چلے گئے وہاں جو اونٹ تھے وہ ابرہہ کی فوج نے پکڑ لیے اور ان میں جو دوسو اونٹ تھے وہ جناب عبدالمطلب کے تھے۔جب جناب عبدالمطلب کو علم ہوا کہ ابرہہ نے ان کے اور دوسروں کے اونٹ پکڑ لیے تو جناب عبدالمطلب ابرہہ سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔اللہ تعالیٰ نے جناب عبدالمطلب کو بڑی وجاہت و حسن جمال سے نوازا تھا اور جس بے خوف اور شاندار طریقے سے ابرہہ سے ملنے پہنچے تو ابرہہ پر کافی اثر ہوا۔ابرہہ نے جناب عبدالمطلب کو بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ بٹھایا اور پوچھا کہ آپ کیسے آئے ؟ابرہہ کا خیال تھا یہ کہنے آئے ہونگے کہ بیت اللہ پر حملہ مت کرو لیکن جناب عبدالمطلب نے کہا آپ کی فوج نے میرے اونٹ پکڑ لیے ہیں وہ چھوڑ دیے جائیں۔ابرہہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا مجھے آپ پر بڑی حیرانگی ہے کیا آپ کو میرے ارادوں کا علم نہیں ہے؟اس بات پر جناب عبدالمطلب نے ابرہہ سے کہا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا بھی ایک مالک ہے وہ اپنے گھر کی خود حفاظت کرنا جانتا ہے اور وہ خود اس کی حفاظت کرے گا اور خود اونٹ لیکر واپس روانہ ہوگئے۔ابرہہ نے لشکر کو روانگی کا حکم دیا اور ہاتھی آگے آگے چل رہے تھے لیکن جہاں پر اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا حصار کا دائزہ شروع ہوا تو ہاتھی وہاں سے آگے نہ بڑھیں،ہاتھی کو چلانے والوں نے ہاتھی آگے کرنے کی کوشش کرنے لگے تو اچانک آسمان سے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا اور ان کی چونچ میں ایک چھوٹا سا کنکراور دونوں پنجوں میں ایک ایک کنکر تھا یعنی ہر پرندے کے پاس تین چھوٹے چھوٹےکنکر تھے۔جب پرندوں کا غول لشکر کے اوپر آیا تو انہوں نے وہ کنکنر چھوڑ دیے جب وہ کنکر انسان کے سر پر لگ تا تھا تو پاؤں سے نکلتا تھا اور انسان قیمے کے ڈھیر میں بدل جاتا تھا اور جس ہاتھی پر لگتا تھاوہ بھی ہاتھی کے نیچے سے نکل جاتا اور ہاتھی قیمہ کاڈھیر بن جاتا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں ارشاد فرمایا
فَجَعَلَـهُـمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ
چناچہ ہم نے انہیں ایسا کر دالا جیسے کھایا ہوا بھونسا ہو۔(الفیل)
اللہ تعالیٰ کا اپنے گھر کی حفاظت کا غیبی نظام تھااگر اللہ پاک"کن" فرمادیتے تو کوئی مضائقہ نہ تھا لیکن اس لشکر کے ساتھ ہوا کیا یہ لوگوں کو پتہ نہ چلتااللہ تعالیٰ نے ان چھوٹے سے پرندوں کے ذریعے سے ہاتھیوں اور ساٹھ ہزار کے لشکر کو فنا کرکےانسانوں کو یہ پیغام دیا ہےکہ اللہ تعالیٰ ان ظاہری اسباب کا پابند نہیں یہ ظاہری اسباب انسانوں کے لیے ہوتے ہیں۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے ابرہہ کے ساتھ کیا ہوا؟آیابچا؟کنکر لگا؟تو یہاں پر زیادہ تر مؤرخین اور سیرت نگاروں کارجحان اور ان کے نزدیک قابل ترجیح یہ ہے کہ ابرہہ زندہ رہا اور وہ پہلے ہلاک ہوجاتا تو یہ عبرتناک انجام کیسے دیکھتاکہ اس کا لشکر کیسے عبرت کا نشان بنا اس لیے اسے یہ سب دکھانے کے لیے زندہ رکھا گیااور ایک دو لوگ بھی بچے جو یمن کی طرف فررار ہوئے۔ابرہہ کو ایک بیماری نے آگھیرا وہ ایسی بیماری تھی جسمیں انسان کے اعضاء جھڑنا شروع ہوجاتے ہیں بعض روایات میں وہ یمن جاتے ہوئے رستے میں مرا بعض کے مطابق یمن میں ہلاک ہوا جب اس کے لوگوں نے اسے دیکھا تو وہ ایسے تھا جیسے مرغی کے چوزے کے پرکسی نے نوچ دیے ہوں اور اندر سے وہ چھوٹا سا چوزہ نکلتا ہے اس طرح کا ابرہہ کا جسم ہوچکا تھااور بعض سیریت نگاروں نے لکھا جب ابرہہ کی موت ہوئی تو اس کا سینہ شق ہوچکا تھا یعنی جیسے کسی چیز کو چیرا جائے اور اس کا دل باہر نکلا ہوا تھااور اس عبرت ناک منظر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کا انجام کیا جس کا خلاصہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفیل میں رہتی دنیا تک کے لیے بیان فرمادیا۔
خلاصہ کلام
آج کی اس گفتگو میں ہم نے سیکھاکہ ھاشم کی وفات کے بعدان کے بھائی اپنے بھتیجے کو یثرب سے لائے ان کا نام شیبہ تھا لیکن لوگوں نے انہیں مطلب کا غلام سمجھا اور عبدالمطلب کے نام سے زبان زد عام ہوئے۔ بنی جرہم نے جاتے ہوئے زم زم کے ناشات ختم کیے تو اللہ تعالیٰ نے کیسے جناب عبدالمطلب سے از سر نو دریافت فرمایااور انہوں نے منت مانی کہ میرے دس بیٹے جوان ہوئے تو ان میں سے ایک اللہ کے راستے میں قربان کروں گا،جب قرعہ دالا تو جناب عبداللہ کے نام نکلا تو پھرسواونٹوں کے عوض جناب عبداللہ کی جان بخشی گئی۔
یمن کے بادشاہ ابرہہ نے کیسے مکہ پر حملہ کیا اور جناب عبدالمطلب نے ابرہہ سے کیا کہ بیت اللہ کا ایک مالک ہے اور وہ خود اس کی حفاظت کرے گا اور کیسے اللہ نے ابرہہ کے ساٹھ ہزار لشکر کو عبرت کا نشان بنایا اور اس واقعہ کا خلاصہ اللہ پاک نے سورۃ الفیل میں ذکر کیا اور یہ واقعہ آپ ﷺ کی پیسائش سے پچاس یا پچپن دن قبل پیش آیا۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
انتظار رہے گا اگلے حصے کا
ان شاءاللہ بہت جلد پوسٹ کردیا جائے گا۔
دعاؤں کی درخواست ہے کہ اللہ پاک قبول فرمائے اور مزید احسن انداز میں سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
سیرت النبیﷺ کورس
کلاس نمبر3
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن

جناب عبداللہ جب جوان ہوئے تو جناب عبدالمطلب کو آپ کی شادی کی فکر ہوئی۔ قبیلہ زہرہ میں وہب بن عبد ناف کی صاحبزادی جو قریش کے تمام خاندانوں میں ممتاز تھیں ،جن کا نام آمنہ تھا۔جناب آمنہ اپنے چچا کے پاس رہتی تھیں۔جناب عبدالمطلب جناب آمنہ کے چچا کے پاس تشریف لے گئے اور جناب عبداللہ کی شادی کا پیغام دیا چچا نے شادی کا پیغام قبول کیا اور جناب عبداللہ کی شادی جناب آمنہ سے ہوگئی۔ اس موقع پر جناب عبدالمطلب نے وہب کی صاحبزادی ہالہ سے شادی کی ۔ ہالہ کے بطن سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
شادی کے بعد دستور تھا کہ نیا شادی شدہ جوڑا تین دن تک سسرال میں رہا تھا دستور کے مطابق جناب عبداللہ تین دن تک سسرال میں رہے اور پھر گھر واپس تشریف لے آئے۔امام زرقانیؒ کے مطابق اس وقت جناب عبداللہ کی عمر سترہ برس سے کچھ زائد تھی۔(زرقانی ج اول ص122)
جناب عبداللہ تجارت کی غرض سے شام تشریف لے گئے واپس تشریف لاتے ہوئے ہوئے یژرب (مدینہ منورہ)میں بیمار ہوئے تو یہیں قیام فرمالیا،جب جناب عبدالمطلب کو جناب عبداللہ کے بارے میں معلوم ہوا تو اپنے بڑے بیٹے حارث کو جناب عبداللہ کی خبر لانے مدینہ روانہ کیا ۔جب حارث مدینہ پہنچے تو جناب عبداللہ کا انتقال ہوچکا تھا۔جناب عبداللہ خاندان میں سب سے زیادہ محبوب تھے اس لیے خبر انتقال سن کر سب کو بہت صدمہ ہوا۔جناب عبداللہ نے ترکہ میں اونٹ ،بکریاں اور ایک لونڈی چھوڑی تھی جن کا نام اُم ایمن(اصلی نام برکتہ تھا)یہ سب چیزیں بعد ازاں جناب نبی کریم ﷺ کو ترکہ میں ملیں۔
نبی کریمﷺ کی پیدائش کے مہینہ پر مؤرخین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ مہینہ ربیع الاول کا تھاالبتہ کس دن آپﷺ کی پیدائش ہوئی اس میں اقوال متعدد ہیں۔ تین اقوال زیادہ مشہور ہیں پہلا قول آٹھ ربیع الاول کا،دوسرا قول نو ربیع الاول کا اور تیسرا قول بارہ ربیع الاول کا ہے۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے مؤرخین اور سیرت نگاروں کی آراء مختلف ہیں، مشہور یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کو پیدائش ہوئی، البتہ محققین علماءِ کرام کے دو قول ہیں، 8 ربیع الاول یا 9 ربیع الاول، بعض نے ایک کو ترجیح دی ہے، بعض نے دوسرے کو۔ راجح قول کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 8 ربیع الاول بمطابق 20 یا 22 اپریل 571 عیسوی کو ہوئی، (اپریل کی تاریخ کا اختلاف عیسوی تقویم کے اختلاف کا نتیجہ ہے)(فتاویٰ دارالعلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن)
جن کے حضرات کے نزدیک آپﷺ کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو ہوئی وہ چند قول ذکر کیے جاتے ہیں۔
1۔مشہورموٴرخ امام محمد بن اسحاق  فرماتے ہیں: وُلِدَ رسولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم یومَ الاثنین لاثنتی عشرة (۱۲) لیلةً خَلَتْ مِنْ شَہْرِ ربیعِ الأول عامَ الفیل․(السیرة النبویة لابن ہشام۱/۲۸۴،تاریخ الطبری۲/۱۵۶، مستدرک حاکم۴۱۸۲، شعب الایمان للبیہقی ۱۳۲۴، الکامل فی التاریخ لابن الاثیر۱/۲۱۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کی بارہویں رات عام فیل (۵۷۱ عیسوی)میں ہوئی۔
2۔امام ابوالحسن ماوردی شافعی (متوفی ۴۵۰ ہجری)لکھتے ہیں:
وُلِدَ بعدَ خمسین یوماً من الفیل وبعدَ موتِ أبیہ فی یومِ الاثنین الثانی عشر من شہر ربیع الاول․(أعلام النبوة۱/۲۴۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اپنے والدکے انتقال کے بعد،اور واقعہ فیل کے پچاس دن بعد پیرکے دن ۱۲/ ربیع الاول کو ہوئی۔
3۔علامہ ابوعبداللہ محمد زرقانی مالکی(متوفی۱۱۲۲ہجری) المواہب اللدنیة کی شرح میں لکھتے ہیں۔
(والشہور أنہ صلی اللہ علیہ وسلم وُلِدَ یومَ الاثنین ثانی عشر ربیع الاول، وہو قول محمد بن إسحاق) بن یسار إمام المغازی، وقول (غیرہ) قال ابن کثیر: وہو المشہور عند الجُمْہور، وبالغَ ابن الجوزی وابن الجزار فنقلاً فیہ الإجماعَ․ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیة بالمنح المحمدیة۱/۲۴۸)
مشہورقول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بارہ(۱۲)ربیع الاول پیرکے دن ہوئی۔اور یہی قول مغازی اورسیرت کے امام حضرت محمدابن اسحاق بن یسار (تابعی)اور دیگر اہل علم کا ہے، علامہ ابن کثیرفرماتے ہیں جمہور کا یہی قول ہے، علامہ ابن جوزی اور ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیاہے۔
جب رسول اللہ ﷺ جب دنیا میں تشریف لائے اس وقت تاریخ ضبط کرنے کا اس قدر اہتمام نہیں ہوتا تھا جیساکہ مابعد کے زمانے میں اسلامی مؤرخین نے شروع کیا، بلکہ اس وقت کسی مشہور واقعے یا عموماً مہینے کے اعتبار سے تاریخ ذکر کردی جاتی تھی، ورنہ تقریبی طور پر تاریخ لکھ دی جاتی تھی، یہ تو اسلام آنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ کرام رحمہم اللہ نے احادیثِ نبویہ کے ذخیرے کی حفاظت کی خاطر کامل ضبط و اتقان کے ساتھ ہر چیز کو مرتب و محفوظ کیا، اسی کے نتیجے میں مشہور شخصیات کے حالاتِ زندگی، تاریخِ پیدائش و وفات اور دیگر واقعات مکمل ضبط و تصحیح کے ساتھ محفوظ کیے جانے لگے، اس کے باوجود بھی آج تک مشہور شخصیات کی تاریخِ پیدائش اور وفات میں اختلاف دیکھا جاتاہے۔
ابو طالب کے مکان میں صبح صادق کے وقت آپﷺ کی پیدائش ہوئی ،آپ ﷺ کی پیدائش کی خوشخبری ابولہب کی لونڈی جس کا نام ثُوَیبَہ تھا اس نے سب کو سنائی جس پر ابولہب نے اپنی اس لونڈی کو آزاد کردیا تھا۔مؤرخین کے نزدیک ابولہب نے انگلی سے اشارہ کرکے کہا کہ تم آزاد ہو۔
ابولہب کی وفات کے بعد کسی نے خواب دیکھا کہ ابولہب کی بڑی بُری حالت ہے اور ایک روایت کے مطابق آپﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا جو ابولہب کے چھوٹے بھائی ہیں۔ پوچھا ابولہب مرنے کے بعد کیا حال ہے؟ابولہب نے کہا مرنے کے بعد میں نے ایک لمحہ بھی اطمینان کا نہیں دیکھا ہاں ایک بات ہے کہ محمدرسول اللہ ﷺ کی پیدائش پر جب ثُوَیبَہ نے خوشخبری تھی اور جس انگلی سے اس کو آزاد کرنے کا اشارہ کیا تھا بقدر اس انگلی جتنا پانی پینے کو دیا جاتا ہے۔
آپﷺ کی پیدائش پر دنیا میں اثرات مرتب ہوئے سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ فارس میں آتش پرستوں کا علاقہ تھا وہاں آگ کی پوجا ہوتی تھی ان کا ایک عبادت خانہ تھا جسمیں ہزاروں سال سے آگ جل رہی تھی وہ آگ خود بخود بجھ گئی۔
آپﷺ کی پیدائش کے بعد داداجناب عبدالمطلب نے لونڈی کے ذریعے سے پوتے کو بلوایا،لونڈی پوتے کولیکر دادا کے پاس آئی،دادا عبدالمطلب لونڈی سے اپنے پوتے کولیکر حرم آئے،اور اپنے پوتے کو بیت اللہ کے دروازے کی چوکھٹ پر رکھ کروہاں انوں نے دعا کی اور اپنے پوتے کا نام "محمد"(ﷺ) تجویز کیا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ دادا عبدالمطلب نے نام "محمد"(ﷺ) رکھا اور والدہ آمنہ نے نام "احمد"(ﷺ) رکھا اور ان دونوں ناموں کوقرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔مسلم شریف کی ایک حدیث میں آپﷺ نے اپنے پانچ نام خود ذکر فرمائے ہیں۔
اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحٰی بِیَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی عَقِبِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث:۶۱۰۵)
میں محمد(ﷺ) ہوں،میں احمد(ﷺ) ہوں،میں مَاحِن(ﷺ) ہوں(معنی ہوا کفر کے آچار کو مٹادینے والا)میں حاشر(ﷺ) ہوں،(لوگوں کا میرے قدموں میں حشر کیا جائے گا) اور میں عَاقِب(ﷺ) ہوں(عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو)
عرب میں رواج یہ تھا کہ اپنے آباؤ اجداد یا خاندان میں کسی مشہور شخصیت کا نام بار بار رکھا جاتا تھا یعنی پڑدادا یا دادا کانام پوتے کا نام رکھا جاتا تھا۔کسی نے جناب عبدالمطلب سے پوچھا کہ آپ نے اپنے پوتے کا نام نیا سا رکھا ہےجو کسی اور کا نہیں ۔جناب عبدالمطلب نے کہامیں نے اپنے پوتے کا نام محمد(ﷺ)اس لیے رکھاکہ یہ روئے زمین کےلوگوں کے لیے یہ بھلائی اور تعریف کے قابل ہونگے۔
خلاصہ کلام
آج کے اس سبق میں ہم نے سیکھاکہ جناب عبداللہ کی شادی قبیلہ زہرہ میں وہب بن عبدناف کی بیٹی آمنہ سے ہوئی،بعد از شادی جناب عبداللہ تین دن سسرال میں رہے اس وقت امام زرقانیؒ کے مطابق جناب عبداللہ کی عمر سترہ سال سے کچھ زائد تھی ،جناب عبداللہ تجارت کی غرض سے شام گئے واپسی مدینہ منورہ میں بیمار ہوئے تو وہیں قیام فرمالیا ۔جب جناب عبدالمطلب کو جناب عبداللہ کی بیماری کی اطلاع ملی تو جناب عبدالمطلب نے اپنے بیٹے حارث کومدینہ روانہ کیا جب حارث مدینہ پہنچے تو جناب عبداللہ کا انتقال ہوچکا تھا۔آپﷺ کی پیدائش کی خوشخبری ابولہب کی لونڈی ثُوَیبَہ نے دی تھی جس پر ابو لہب نے اسے آزاد کردیا تھا۔آپﷺ کی پیدائش کے بعد دادا عبدالمطلب نے آپﷺ کا نام "محمد"ﷺ رکا اور والدہ آمنہ نے نام "احمد"ﷺ رکھا۔آپﷺ کی پیدائش پر فارس میں آتش پرستوں میں عبادت خانہ میں جلی ہوئی آگ بجھ گئی ،اور کسریٰ کےمحل میں چیزیں گری تھیں۔
مسلم شریف کی روایت میں آپﷺ نے اپنے پانچ نام ذکر فرمائے ہیں۔
میں محمد(ﷺ) ہوں،میں احمد(ﷺ) ہوں،میں مَاحِن(ﷺ) ہوں(معنی ہوا کفر کے آچار کو مٹادینے والا)میں حاشر(ﷺ) ہوں،(لوگوں کا میرے قدموں میں حشر کیا جائے گا) اور میں عَاقِب(ﷺ) ہوں(عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو)
اور کسی نے جناب عبدالمطلب سے پوچھا آپ نے اپنے پوتے کا نیا نام رکھا جو کسی کا نہیں تو اس پر جناب عبدالمطلب نے فرمایامیں نے اپنے پوتے کا نام محمد(ﷺ)اس لیے رکھاکہ یہ روئے زمین کےلوگوں کے لیے یہ بھلائی اور تعریف کے قابل ہونگے۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
سیرت النبیﷺ کورس
کلاس نمبر4
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن

جناب نبی کریمﷺ نے اپنی والدہ آمنہ بنت وہب کے علاوہ مکہ مکرمہ میں ہی ابو لہب کی آزاد کردہ باندی ثُوَیبَہ کا دودھ پیا، جناب نبی کریم ﷺ ثُوَیبَہ کا بڑا احترام فرمایا کرتے تھے۔جناب نبی کریم ﷺ کی جو طویل رضاعت ہے وہ طائف کے پاس ایک قبیلہ رہتا تھا جو بنو سعد کے نام سے جانا جاتا تھااس قبیلہ میں ایک خاتون جن کا نام حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا ہے کے ساتھ ہے۔حضرت حلیمہ سعدیہ بعد میں مسلمان بھی ہوئیں،اور آج جنت البقیع میں جو چند قبروں کے آثار موجود ہیں اور ان میں سے چند کے نام معلوم ہیں ان میں ایک قبر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی ہے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جناب نبی کریم ﷺ کی رضاعت مبارکہ تفصیل خود بیان فرماتی ہیں۔
آپﷺ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کی رضاعت میں
حجرت حلیمہہ سعدیہ رجی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم عورتیں سال میں دو بار مکہ مکرمہ آتی تھیں جن کے پاس ایک بچہ ہو جو دودھ پیتا ہو انہیں معقول معاوضہ پررضاعت کے لیے دے دیا جاتا تھااور یہ ان عورتوں کا ذریعہ آمدن بھی تھا کہ اپنے بچے کے ساتھ اس بچے کو بھی دودھ پلاتی تھیں اور جب دودھ چھڑانے کی عمر ہوتی تھی تو بچہ واپس کرجاتی تھیں۔حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس سال میں نے ان عورتوں کے ساتھ مکہ مکرمہ آنا تھا وہ سال ہم طائف والوں کے لیے بڑا سخت سال تھا بارش نہ ہونے کہ وجہ سے قحط سالی تھی اور میرے پاس جو اونٹی تھی وہ انتہائی دُبلی تھی،اور اُس تَھن خوشک تھے اس کے علاوہ ایک سواری تھی جسے کہیں آنا جانا ہوتا تو اسے استعمال کیا جاتا تھاوہ سواری بھی کافی کمزور و لاغر تھی،فرماتی ہیں اپنے بچے اور شوہر حارث کے ساتھ ہم مکہ مکرمہ کی طرف حازم سفر ہوئے،مکہ مکرمہ کے قریب خیمہ لگادیے جاتے اور عورتیں مکہ مکرمہ میں پھیل جاتیں اور جہاں بچہ پیدا ہوتا اس کے والدین سے جاکر بات کرتیں،اور فرماتی ہیں کہ یہ عورتیں یتیم بچے نہیں لیتی تھیں کیونکہ کوئی صحیح معاوضہ دینے والا ہوتا نہیں تھا۔ فرماتی ہیں سب عورتیں جناب آمنہ کے پاس آئیں لیکن جب معلوم ہوتا اس بچے کا والد نہیں تو خاموشی سے واپس لوٹ جاتیں۔ فرماتی ہیں جب میں واپس جہاں خیمہ لگایا تھا وہاں آئی تو معلوم ہوا تمام عورتیں جو میرے ساتھ آئیں تھیں ان سب کو بچے مل گئے،فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر حارث سے کہا ایک یتیم بچہ ہے جسے چھوڑ آئی ہوں واپس خالی ہاتھ جانے سے بہتر ہے کہ میں وہی یتیم بچہ ہی لے لوں ہو سکتا ہے اللہ پاک اس سے ہمیں کوئی برکت نصیب فرمائیں۔فرماتی ہیں میرے شوہر نے کہا جاؤ بچہ لے لو اللہ پاک اسی میں برکت عطا فرمائیں گے۔فرماتی ہیں میں واپس حضرت آمنہ کے پاس آئی اور بچہ لے لیا اور جیسے ہی وہ بچہ میرے پاس آیا اور ہمارے حالات بدلنا شروع ہوگئے۔
حالات بدلنا شروع ہوگئے
سب سے پہلے میرے پِستانوں میں اتنا دودھ آگیا کہ میرا اپنا بچہ بھی سیر ہوکر پیتا اور یہ بچہ بھی سیر ہوکر پیتا حالانکہ چند دن قبل یہ حالت تھی کہ میرا اپنا بچہ بھی سیر ہوکر نہیں پیتا تھا۔ فرماتی ہیں ابھی مکہ مکرمہ سے نہیں نکلے تھے کہ میرے شوہر اونٹنی کا دودھ نکالنے گئے تو جب واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں جو برتن تھا وہ بھرا ہوا تھا حالانکہ اس سے قبل اونٹنی کے تَھنُوں سے برتن میں چند قطروں کے علاوہ دودھ نہیں آتا تھا۔میرے شوہر حیران ہوکر مجھ سے کہنے لگے دیکھو حلیمہ یہ وہی اونٹنی ہے جس کے تَھنُوں سے چند قطرے دودھ کے نکلتے تھے اور اب اس کے تَھن اتنے بھرے ہوئے ہیں کہ یہ دیکھو اتنا بڑا برتن دودھ کا نکلا ۔ فرماتی ہیں میرے شوہر نے مجھ سے کہا کہ حلیمہ تم بڑی بابرکت جان اپنے ساتھ لیکر آئی ہو۔ فرماتی ہیں جب سفر کا آغاز ہوا تو ہماری سواری میں اتنے جان آگئی کہ سب سے آگے چلنا شروع ہوگئی پہلے حالت ایسی تھی کہ ہماری سواری کی وجہ سے قافلہ رُک رُک کے چلتا تھاقافلہ والے آگے نکل جاتے تھے اور میری سواری کی وجہ سے قافلہ والے میرا انتظار کرتے تھےاور آتے ہوئے تمام عورتیں مجھے بار بار کہتیں حلیمہ تمہاری وجہ سے سفر میں تاخیر ہو رہی ہے تمہاری سواری چلتی نہین جس کی وجہ سے ہم سب کو دیر ہو رہی ہے۔ فرماتی ہیں جب واپسی کے سفر کا آغاز ہوا کہ میری سواری کو پکڑنا کسی کے بس میں نہ رہا اور عورتیں تعجب سے سوال کرتیں حلیمہ کیا یہ وہی سواری ہے؟ فرماتی ہیں میں نے جواب دیا ہاں سواری وہی ہے پر سوار وہ نہیں ہے۔ فرماتی ہیں جب طائف پہنچیں تو اللہ رب العزت نےنبی کریم ﷺ کی گھر میں آمد کے ساتھ گھر کی ایک ایک چیز میں برکتیں عطا فرمائیں۔فرماتی ہیں جب یہ بچہ دو ڈھائی سال کا ہوگیایہ واپسی کی عمر تھی بچہ واپس پہنچانا تھا لیکن میرا دل نہین کررہا تھا کہ اس بچہ کو واپس پہنچاؤں،لیکن واپس جانا تھا سب عورتوں کے ساتھ میں مکہ واپس حضرت آمنہ کے پاس آئی اور ان سے کہا دیکھیں اس بچے کی کتنی اچھی صحت ہو گئی ہےاگر آپ اجازت دیں تو میں ایک دو سال اور اس بچے کو اپنے پاس رکھوں بچے کی صحت مزید اچھی ہوجائے گی۔ فرماتی ہیں کہ عجیب بات ہے اورمجھے توقع بھی نہیں تھی لیکن حضرت آمنہ نے کہا ٹھیک ہے لے جاؤ ،فرماتی ہیں باقی عورتیں بچے واپس کرنے آئی تھیں اور جنہوں نے اور بچے لینے تھے سب نے لے لیےاور میں وہی بچہ لیکر واپس آگئی۔
شق صدر
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ واپسی کے بعد ایک ایسا وقعہ ہوا جس سے میں ڈر گئی اور وہ واقعہ تھا "شق صدر" کا۔ فرماتی ہیں جب یہ بچہ بڑا ہوا چلنے پھرنے کے قابل ہوا تومیرے بچے بکریاں چرانے جاتے تھے تو اس بچے نے کہا میں بھی ان کے ساتھ جاؤں گاتو میں نے بھی جانے کی اجازت دے دی ۔ فرماتی ہیں کچھ دیر کے بعد میرا بیٹا جو آپ(ﷺ )کا ہم عمر تھا وہ گھر داخل ہوا اور اس نے مجھے کہا اماں!ہم جارہے تھے کہیں اچانک سے دو سفید کپڑوں والے لوگ آئے انہوں نے محمد(ﷺ) کو ہم سے لے لیا اور جاکر لتادیا اور ہمارے سامنے ان کا سینہ چاک کردیا،فرماتی ہیں میں اور میرے شوہر ہیبت کے ساتھ بھاگتے ہوئے باہر گئے ہم نے دیکھا تو آپ(ﷺ) ٹھیک ٹھاک تھے پر آپ کے چہرہ مبارک پر خوف کے آثار تھے۔ ہم نے پوچھا کیا ہوا؟تو فرمانے لگے دو آدمی آئے تھے انہوں نے میرا سینہ چاک کیا میرا دل نکالا اور تَشت میں پانی تھا اس پانی سے دل دھویا اور واپس دل کو اپنی جگہ رکھا اور ہاتھ پھیرا تو سینہ سِل گیا۔ بعد میں نبی کریم ﷺ نے بتلایا تھا یہ دو بندے اللہ کے دو فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام و حضرت میکا ئیل علیہ السلام تھے۔
شق صدر کتنی بار ہوا؟
شق صدر (سینہ چاک کرنے) کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں چار مرتبہ پیش آیا: (۱) زمانہٴ طفولیت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلیمہٴ سعدیہ (رض) کی پرورش میں تھے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چار سال کی تھی۔ (۲) دوسری بار شق صدر کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دس سال کی عمر میں پیش آیا۔ (۳) تیسری بار بعثت کے وقت۔ (۴) چوتھی بار معراج کے وقت شق صدر کا واقعہ پیش آیا۔
تفصیل کے لیے دیکھیں سیرة المصطفیٰ (۱/۷۳)
شق صدر کے اسرار
پہلی مرتبہ حلیمہ سعدیہ کے یہاں زمانہ قیام میں قلب چاک کر کے جو ایک سیاہ نقطہ نکالا گیا وہ حقیقت میں گناہ اور معصیت کا مادہ تھا جس سے آپ کا قلب مطہر پاک کر دیا گیا اور نکالنے کے بعد قلب مبارک غالباً اس لئے دھویا گیا کہ مادۂ معصیت کا کوئی نشان اور اثر بھی باقی نہ رہے اور برف سے اس لئے دھویا کہ گناہوں کا مزاج گرم ہے جیسا کہ شیخ اکبر نے فتوحات میں لکھا ہے۔ اس لئے مادۂ معصیت کے بجھانے کے لئے برف کا استعمال کیا گیا کہ حرارت عصیاں کا نام ونشان بھی باقی نہ رہے۔
دوسری بار دس سال کی عمر میں جو سینہ چاک کیا گیا وہ اس لئے کیا گیا تاکہ قلب مبارک مادۂ لہو و لعب سے پاک ہو جائے۔ اس لئے کہ لہو و لعب خدا سے غافل بنا دیتا ہے ۔
تیسری بار بعثت کے وقت جو قلب مبارک چاک کیا گیا وہ اس لئے کہ قلب مبارک اسرار وحی اور علوم الٰہیہ کا تحمل کر سکے۔
اور چوتھی بار معراج کے وقت اس لئے سینہ چاک کیا گیا تاکہ قلب مبارک عالم ملکوت کی سیر اور تجلیات الٰہیہ اور آیات ربانیہ کے مشاہدہ اور خداوند ذوالجلال کی مناجات اور اس کی بے چون و چگون کلام کا تحمل کر سکے غرض یہ کہ بار بار شق صدر ہوا اور ہر مرتبہ کے شق صدرمیں جداگانہ حکمت ہے۔ بار بار شق صدر سے مقصود یہ تھا کہ قلب مطہر و منور کی طہارت و نورانیت انتہا کو پہنچ جائے۔ (سیرۃ المصطفیٰؐ)
واقعہ شق صدر کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہ نے واپس آکر جناب نبی کریمﷺ کو حضرت آمنہ کے سپرد کردیا۔جب آپﷺ کی عمر مبارک 6 سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ حضرت آمنہ کو اشتیاق ہوا کہ آپﷺ کے والد ماجد جناب عبداللہ کی قبر پر حاضری دی جائے۔
والدہ کا انتقال
آپﷺ آپﷺ کے دادا جناب عبدالمطلب ، آپ ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ ،جناب عبداللہ کی باندی جن کا نام "برکه" تھا بعد ام ایمن رضی اللہ عنہا کے نام سے مشہور ہوئیں۔(حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہا کی اہلیہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں ۔ حضرت اسامہ بن زید کو حِبُّ النَّبِی کہا جاتا ہے(نبی (ﷺ) کے محبوب ، صحابہ اکرام فرماتے ہیں جناب نبی کریم ﷺ کے ایک گٹھنے مبارک پر حضرات حسنین کریمین رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کوئی ایک بیٹھتا تھا اور ایک گٹھنے مبارک پر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوتے تھے۔)مدینہ تشریف لے گئے۔ تقریبا ایک ماہ حضرت آمنہ نے مدینہ میں قیام فرمایاجب واپس تشریف لارہی تھیں مدینہ منورہ کے قریب ایک مقام ہے جس کا نام "اَبوَاء" ہے وہاں پر حضرت آمنہ کی طبیعت خراب ہوئی اور اسی مقام پر حضرت آمنہ کا انتقال ہوا اور اسی مقام پر تدفین کی گئی ۔
دادا کا انتقال
والدہ کی وفات کے بعد مکمل طور پر آپﷺ اپنے دادا جناب عبد المطلب کی پرورش میں آگئے۔جناب عبدالمطلب اپنے پوتے جناب نبی کریمﷺ کے ساتھ بہت محبت کیا کرتے تھے۔ جب آپﷺ کی عمر مبارک آٹھ برس ہوئی تو دادا عبدالمطلب کا انتقال ہوگیا۔
ابو طالب کی پرورش
دادا عبدالمطلب کے انتقال کے بعدابو طالب جناب عبدالمطلب کےجانشین مقرر ہوئے تو آپﷺ کی پرورش کا ذمہ بھی لے لیا اور آخری دم تک آپﷺ کے ساتھ رہے۔ ابو طالب کے چار بیٹے تھے طالب سب سے بڑے بیٹے تھے اور اسی وجہ سے آپﷺ کے چچا ابو طالب مشہور تھے ۔ طالب کے بارے میں روایات نہیں ملتیں البتہ باقی تین اسلام کی نامور شخصیات بنیں حضرت سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ،حضرت سیدنا عقیل رضی اللہ عنہ ،خلیفہ چہارم شیر خدا امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
شام کا سفر،اور راہب کا مشورہ
ابو طالب بغرض تجارت کے لیے شام روانہ ہوئے تو آپﷺ کو بھی ساتھ لے لیا ۔ راستے میں ایک مقام آتا ہے جس کانام "بُصری" ہے وہاں پڑاؤ ڈالا وہاں ایک راہب رہتا تھا جس کانام تو " جَرجِیس" تھا لیکن اسے : بُحِیرَہ" کہتے تھے۔ اور یہ اپنے گِرجا سے باہر نہیں آتا تھا قریش نے اس دفعہ عجیب منظر دیکھا کہ وہ راہب باہر آیا اور قافلہ میں کسی کو تلاش کرنے لگا اور تلاش کرتے کرتے جناب نبی کریمﷺ کے پاس رُکا اور قافلہ والوں سے پوچھا اس بچے کا ولی کون ہے؟لوگوں نے کہا یہ ابو طالب کا بھتیجا ہے تو راہب ابو طالب سے کہنے لگا یہ بچہ بڑا عظیم المرتبت بچہ ہے۔ ابو طالب نے پوچھا آپ کو کیسے معلوم؟ تو راہب نے کہا جب آپ اس پہاڑی سے نیچے اُتر رہے تھے تو میں اپنے گرجا کی ایک کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا اور میں نے دیکھا یہ شجروحجر سارے کے سارے اس بچے کو سجدہ کررہے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا یہ بچہ نبی آخرالزمانﷺ ہے۔اور مشورہ دیا اس بچے کو شام نہ لیکر جائیں اگر یہودیوں کو علم ہوگیا یہ بچہ اولاد اسماعیل میں پیدا ہوگیا ہے اور وہ انتظار کررہے ہیں آخری نبی کا اور اس گمان میں ہیں کہ وہ اولاد بنی اسرائیل سے ہوگا اور اگر ان کو علم ہوگیا یہ بچہ اولاد اسماعیل سے ہے تو وہ اس بچے کو حسد و بغض میں آکر قتل کردیں گے۔ چنانچہ ابو طالب نے بُحِیرہ کی اس بات پر آپ ﷺ کو اپنے غلاموں اور محافظوں کے ساتھ واپس مکہ مکرمہ بھیج دیا۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
سیرت النبیﷺ کورس
کلاس نمبر4
بسم اللہ الرحمن الرحیم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن

شام کا دوسرا سفر
آپ ﷺ نے 25 سال کی عمر مبارک میں حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کاسامان تجارت لیکر حضرت حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے غلام "مَیسرہ" کے ساتھ شام کا سفرفرمایا اس سفر کے اندر بھی آپﷺ کو ایک راہب ملا تھا جس کا نام :نُسُورَہ"ہے۔ بعض مؤرخین کے نزدیک یہ راہب آپﷺ کو وہیں ملا جہاں آپﷺ کو "بُحِیرَہ" ملا تھا اور یہ راہب" بُحِیرَہ" کا ہی جانشین تھا۔ یہ ایک عجیب ملاقات تھی آپﷺ ایک درخت کے نیچے آرام فرماہوئے تو نُسورہ راہب باہر نکل آیااور اس نے آکر قسم کھائی کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعدکوئی نبی اس درخت کے نیچے نہیں بیٹھا سوائے آپ (ﷺ) کے علاوہ یعنی کہ آپ(ﷺ) اللہ کے نبی ہیں،اس کے بعد اس راہب نے آپﷺ کی آنکھوں میں جھانکا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام میسرہ سے پوچھا ان کی آنکھوں میں جو سرخی ہے یہ کیا ہے؟ مطلب تھا کہ سفر یا دھول مٹی کی وجہ سے تو نہیں تو میسرہ نے جواب دیا یہ دائمی ہے،جیسے ہی جواب راہب نے سنا اور پکار اٹھا کہ میں نے آپﷺ کو پہچان لیا کہ آپ (ﷺ)ہی نبی آخرالزمانﷺ ہیں،اور اللہ کے آخری نبی ہیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا پیغام نکاح
شام کے سفر سے جب واپسی ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام میسرہ نے آپﷺ کی ایمانداری،دیانت داری کا،حسن اخلاق کا،اللہ تعالیٰ کی مدد اور دیگر چیزوں کاجو مشاہدہ اس سفر میں کیا تھا وہ تمام مشاہدات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گوش گزار کردیے۔
ان تمام مشاہدات بعدحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے شام کے اس سفر سے واپسی پر دو مہینےاور پچیس دن کے بعد اپنی سہیلی کے ذریعے پیغام نکاح بھیجا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک چالیس برس تھی والد خُوَیلِد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بھی وفات پا چکے تھے۔ پیغام نکاح ملنے کے بعد آپﷺ نے اپنے چچاؤں سے پوچھا تو آپﷺ کے چچاؤں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچاؤں سے بات کی تو بیس اونٹ مہر کے عوض رشتہ طے پایا اور جناب ابو طالب نے نکاح پڑھایا۔
اولاد
آپ ﷺ کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کےجو ام المؤمنین حضرت ماریہ قِبطیہ کے بطن سے ہوئے باقی چھ اولادیں
1۔حضرت قاسم رضی اللہ عنہ(انہی کے نام کی وجہ سے آپﷺ ابوالقاسم کہلاتے ہیں۔) 2۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ3حضرت زینب رضی اللہ عنہا4حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا5حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا 6 حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک سے ہوئیں
بیٹیوں کے نکاح
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں ہی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ابوالعاص سے ہوئی جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم کا نکاح ابولہب کے دو بیٹیوں "عُتبہ"اور " عُتَیبَہ" سے ہوئے تھے یہ رشتہ نبوت سے قبل ہوئے تھے رخصتی نہیں ہوئی تھی لیکن جب آپﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو ابولہب خالص آپﷺ کو تکلیف پہنچانے کے لیے اپنے بیٹوں کو کہا کہ ان کو طلاق دے دو تو دونوں بیٹوں نے رخصتی سے قبل ہی طلاق دے دی
بعد ازاں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا اور غزوہ بدر کے موقع پر آپ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا ۔
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد نبی کریمﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا۔
بیت اللہ کی تعمیر
بیت اللہ کی کئی تعمیریں ہوئی ہیں مختصر ذکر کرتاہوں
پہلی تعمیر اللہ کے حکم سے حضرت آدم علیہ السلام نے فرمائی ، یہ عین اس جگہ کے نیچے زمین پر ہے جہاں بیت المعمور فرشتوں کا قبلہ ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں جو طوفان آیا تھا اس میں بیت اللہ بھی ڈوب گیا تھااس میں بیت اللہ کے آثار ختم ہوگئے تھے تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اللہ پاک نے دوسری مرتبہ بیت اللہ کو تعمیر کرنے کا حکم دیا جس کا ذکر قرآن مجید فرماتا ہے کہ
وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْـرَاهِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ(سورۃ البقرۃ ،آیت27)
اور اس وقت کا تصور کرو جب ابراھیم (علیہ السلام) بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ کی بنیاد پہلے سے موجود تھی ،حضرت جبرائیل علیہ السلام نے نشاندہی فرمائی کہ یہ بیت اللہ کی بنیاد ہےاور حضرت ابراھیم علیہ السلام سے فرمایا کہ ان بنیادوں پر بیت اللہ کی تعمیر فرمائیں
اللہ کے حکم سے حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملکر بنیادوں سے بیت اللہ کی تعمیر فرمائی
بیت اللہ کی تیسری تعمیر نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت سے پانچ سال قبل کی گئئ، یہ تعمیر اس لیے کی گئی کہ پہلے والی عمارت بوسیدہ ہو چکی تھی،جب قریش کو اندیشہ ہوا کہ اب نئی عمارت کے سوا چارہ نہیں تو قریش دارالندوہ میں اکٹھے ہوئے اور فیصلہ کیاکہ بیت اللہ کی تعمیر کی جائے اس موقع پر آپﷺکے والد کےماموں کھڑے ہوئے اور انہوں نے قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے قریش کے لوگو یہ اللہ کا گھر ہےاور اس میں حرام کا پیسہ نہیں لگے گابیت اللہ کی تعمیر صرف حلال پیسوں سے ہوگی ۔تمام لوگوں نے ان کی بات سے اتفاق کیااور بیت اللہ کی تعمیر کا ہر ایک حصہ قبائل میں تقسیم کردیا گیا کہ بیت اللہ کی تعمیر کا فلاں حصہ فلاں قبیلہ تعمیر کرے گا۔ تمام کام تقسیم ہونے کے بعد قریش مکہ کو یہ مسئلہ در پیش ہوا کہ بیت اللہ کی موجودہ تعمیر کو شہید کیسے کیا جائے کیونکہ قریش بیت اللہ کی بڑی تعظیم کیا کرتے تھے اور ہاتھ لگانے سے ڈرتے تھے،اب مسئلہ یہ در پیش تھا کہ اب پہلا قدم کون اٹھائے گا اور کوئی بھی اس کے لیے آمادہ نہیں ہورہاتھاتو ولید بن مغیرہ(حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے والد) نے کدال اٹھائی اور دعا کی
یا اللہ ہم اس تعمیر کو گرا رہے ہیں لیکن ہم کسی گستاخی یا توہین یا بیت اللہ کی تقدیس خراب کرنے کے لیے نہیں بلکہ ہم اس کی خیر چاہتے ہیں یعنی تعمیر نو چاہتے ہیں اور کُدال بڑھادی ۔ارد گرد تمام لوگ دم بخورد کھڑے تھے کہ اب نہ جانے ولید کے ساتھ کیا ہوتا ہےکہ اس نے بیت اللہ کی طرف کُدال بڑھائی ہے جب ولید کو کچھ نہ ہوا ہو تمام لوگ آگے بڑھے اور تعمیر کا آغاز کیا جس قبیلہ کے ذمہ جو دیوار تھی یا جو حصہ تھا اس نے وہ تعمیر کردیا۔ اس زمانے میں جدہ کے ھردو نواح میں کسی جہاز کے ٹوٹنے کی خبر آئے تو ولید بن مغیرہ گئے اس کے تختے لائے اور اس سے بیت اللہ کی چھت تعمیر کی گئی مؤرخین کے نزدیک اس سے قبل بیت اللہ کی چھت نہیں تھی۔
حجر اسود کی تنصیب
بیت اللہ کی تعمیر کے بعد جب حجر اسود کی تنصیب کا وقت آیا تو قریش کے قبائل میں اختلاف ہوگیا ہر قبیلہ چاہتا تھاکہ یہ سعادت مجھے حاصل ہو عنقریب کہ خون خرابہ ہوتا کسی نے مشورہ دیا کہ آج بات کو ٹال دیا جائے اور کل جو شخص سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہوگا وہ یہ شرف حاصل کرے گا سب نے بات سے اتفاق کیا ۔
اللہ رب العزت نے یہ شرف اپنے حبیب ﷺ کے رکھا تھا جب دوسرے دن سب سے پہلے آپﷺ داخل ہوئے جب سب کو علم ہوا تو سب آپﷺ پر راضی ہوگئے اور کہا ان سے زیادہ مناسب آدمی کوئی اور نہیں۔
جناب نبیﷺ کو اللہ پاک نے فہم و فراست سے نوازا ہوا تھاآپﷺ اس تاریخی موقع پر چاہتے تھے تمام قبائل اس عزت و شرف میں شریک ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ حجر اسود کو ایک چادر پر رکھا جائے اور چادر کو تمام قبائل کے سردار اٹھائیں اور وہاں تک لائیں جہاں حجر اسود کو نصب کرنا ہےتاکہ سب اس میں شریک ہوجائیں جب سب اٹھاکر اس جگہ آئے جہاں حجر اسود کو نصب کرنا تھا تو آپﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک حجر اسود کو اس کی جگہ نصب فرما دیا
بیت اللہ کی کتنی تعمیریں ہوئیں؟
بیت اللہ کی تعمیر کے بارے میں بہت سے قول ہیں لیکن پانچ قول سب سے زیا مشہور ہیں
پہلا قول کہ حضرت آدم علیہ السلام نے پہلی تعمیر فرمائی
دوسرا قول حضرت ابراھیم علیہ السلام و حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دوسری تعمیر فرمائی
تیسرا قول قریش مکہ نے تیسری تعمیر کی
چوتھا قول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نواسے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ(جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔) نے چوتھی تعمیر کی
پانچواں قول کہ حجاج بن یوسف نے پانچویں تعمیر کرائی۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
سیرت النبیﷺ کورس
کلاس نمبر5
بسم اللہ الرحمن الرحیم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن​
وحی کا آغاز
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپﷺ پر وحی کا آغاز سچے خوابوں سے ہوا ،آپﷺ رات کو جو خواب دیکھتے تو دن میں بعینہ ویسے ہی ہوتا تھا۔
غار حرا
غار حرا جس پہاڑ پر واقع ہے اس پہاڑ کا نام جبل النور ہے۔یہ پہاڑ مکہ مکرمہ سے تقریبا تین میل کے فاصلے پر ہے۔ اب چونکہ مکہ مکرمہ کا شہر پھیلتے پھیلتے جبل النور تک پہنچ چکا گیا ہے اس لیے اب یہ پہاڑ شہر کے اندر آتا ہے لیکن اس وقت یہ پہاڑ شہر سے باہر ہوتا تھا۔
غار حرا کی تقریبا چار گز لمبائی ہے اور تقریبا دو گز اس کی چوڑائی ہے جس میں ایک انسان لیٹ سکتا ہے۔
پہلی وحی
اس غار میں آپﷺ کچھ وقت کے لیے تنہائی اختیار فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن آپﷺ حسب معمول غار حرا میں مرابقہ میں مصروف تھے کہ آپﷺ کوپہلی دفعہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نظر آئے انہوں نے آپﷺ سے فرمایا "اقراء" یعنی پڑھیں تو آپ ﷺ نے جواب ارشاد فرمایا"ما أنا بقارئ" میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے (زور سے) بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی۔ پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے! تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور (زور سے) بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے۔ تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پھر پکڑ لیا اور جب تین بار مجھے (زور سے) بھینچا پھر مجھ سے کہا کہ
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ،خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ،اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْـرَمُ،اَلَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ،عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ(سورۃ العلق 5/1)
اس وحی کے بعد آپﷺ پر دہشت طاری ہوئی وحی کا ایک بوجھ ہوتا تھا جو آپﷺ پر آیا،سردی سے کپکپارہے تھے ، پسینے میں شرابور تھے ۔ غار حرا سے اتر کر اپنے گھر تشریف لائے ،حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مجھ پر کمبل ڈالیں ،اور غار حرا کا تمام واقعہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کو بیان فرمایا۔(صحیح بخاری)
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کو تسلی دی،آپﷺ کی دلجوئی کی اور آپﷺ کی ہمت بندھائی ۔اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی الل عنہ سمجھ گئیں جو چیزیں آپﷺ کو نظر آرہی ہیں وہ اس دنیا کی چیزیں نہیں ہیں۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی وَرقَہ بن نوفل کے پاس لے گئیں،جو راہب تھے شرک سے بیزار ہوچکے تھے اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مذہب پر چلے گئے تھے چونکہ آپﷺ کی نبوت آئی نہیں تھی ۔ورقہ بن نوفل کی عمر کافی ہو چکی تھی ضعیف العمر تھے جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لیکر پہنچیں تو ان سے عرض کی آپ زرا اپنے بھتیجے کی بات سنیں ،ورقہ بن نوفل نے آپﷺسےپوچھا کہ کیا بات ہے؟آپﷺ نے غار حرا میں جو واقعہ پیش آیا وہ تمام ورقہ بن نوفل کے سامنے بیان فرمادیا۔ورقہ بن نوفل نے آپﷺ کی بات سن کر کہا یہ تو وہی چیز ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی اور کہا کہ کاش میں اسوقت تک زندہ رہتا کہ جب آپﷺ کو آپ کی قوم نکال دے گی۔
آپﷺ کو تعجب ہوا کہ کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟تو ورقہ بن نوفل نے کہا جی ہاںجو اس دعوت کولیکر کھڑا ہوتا ہے اس کی قومیں اس کے در پر ہوجاتی ہیں اس کے بعد ورقہ بن نوفل نے آپﷺ کو انبیاء اکرام علیھم السلام کے حالات بتائےاس گفتگو کے چند دنوں کے بعد ورقہ بن نوفل کا انتقال ہوگیا۔
سب سے پہلے ایمان کون لایا
سیرت نگاروں کی اس پر مختلف آراء ہیں لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ آپﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی شخصیت حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہ کی ہے۔بعض حضرات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کو مقدم کرتے ہیں ۔بعض سیرت نگاروں کے اس کو تطبیق دی ہے کہ
مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،عورتوں میں حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا،بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ،آزاد کردہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سب سے پہلے ایمان لائے۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
سیرت النبیﷺ کورس
کلاس نمبر6
بسم اللہ الرحمن الرحیم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن​
سب سے پہلے جو لوگ ایمان لائے
نبی اکرم ﷺ کو جب نبوت عطا ہوئی اور جو سب سے پہلے ایمان لائے انہیں قرآن کریم نے "السابقون الأولون" سے ذکر کیا۔محدثین کے نزدیک عشرہ مبشرہ میں جو صھابہ اکرام ہیں یعنی جنہیں نبی کریم ﷺ نے جنت کی بشارت عطا فرمائی تھی یہ تمام صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین "السابقون الأولون" میں شامل ہیں۔یہاں چند ایک صحابہ کے ایمان لانے کا واقعہ ذکر کروں گا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ایمان کی قدر
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آپﷺ گھر میں داخل ہوتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتے،گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتے،اٹھتے یا بیٹھتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتےتھے۔تو میں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے بعداللہ پاک نے آپ کو ان سے اچھی ازواج سے نوازاہے۔آپﷺ یہ سن کر غضبناک ہوئے پیشانی مبارک پر جو بال تھے وہ کپکپانے لگے ارشاد فرمایا:
خدا کی قسم ہرگز نہیں! خدیجہ(رضی اللہ عنہا) سے بہتر اللہ نے مجھے بیوی کوئی نہیں دی۔ میرے اوپر وہ اس وقت ایمان لیکر آئیں جب لوگوں نے میرا انکار کیا،خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اس وقت اپنے مال سےمیری دلجوئی کی جب لوگوں نے محروم کرنے کی کوشش کی اور اللہ رب العزت نے خدیجہ(رضی اللہ عنہا ) کے پیٹ سے اولاد عطا فرمائی۔(الحدیث)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ
جناب نبی کریم ﷺ اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کےدرمیان بچپن سے ہی کافی اچھے مراسم تھے۔ اٹھنا بیٹھنا بھی تھااور عمر مبارک میں بھی دو ڈھائی سال کا فرق تھا ۔آپﷺ کی عمر مبارک 40 سال تھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک تقریبا38 سال تھی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھاجس کے اندر آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ مکہ مکرمہ کے اندر ایک چاند اُترا ہے،چاند کے اتُرنے کے بعد تمام گھروں میں اس کی روشنی پھیلی اسے بعد وہ چاند بکھرا اور اس کے ٹکڑے تمام گھروں میں گئے،عجیب بات یہ ہوئی کہ چاند کے ٹکڑے واپس اکٹھے ہوئے اور چاند دوبارہ پہلے جیسا ہوگیا اور وہ چاند حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی گود میں آگیا۔ خواب دیکھنے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اہل کتاب کے کسی عالم سے خواب کی تعبیر پوچھی کہ اس کی تعبیر کیا ہے؟تو انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا:
نبی آخرالزمانﷺ کی بعثت کا زمانہ ہے اس خواب کی تعبیر یہ ہے جب نبی آخرالزمانﷺ تشریف لائینگے تو آپ ہی ان کے خاص آدمی ہونگے۔
ایک دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ(یہ کافی بعد میں ایمان لائے تھے) کے گھر تشریف فرما تھے،یہ حکیم بن حزام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے۔حضرت حکیم بن حزام کی لونڈی آئیں اور حضرت حکیم بن حزام سے کہا کہ آپ کی پھوپھی(حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا) کہ رہی ہیں کہ میرے شوہر اللہ کے نبی ہیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات لونڈی سے سنی توخاموشی سے اٹھ کر چلے گئے۔لونڈی کی گفتگو سے علماء سیرت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا وہ پہلی مومنہ ہیں جو جناب نبی کریم ﷺ پر ایمان لائیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت حکیم بن حزام کے گھر سے لونڈی کی بات سن کر سیدھا آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حکیم بن حزام کی لونڈی یہ بات کہ رہی تھی تو آپﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ نے درست سنا ہےکہ اللہ رب العزت نے مجھے رسول بناکر مبعوث فرمایا ہے۔نبی کریمﷺ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنتے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
صَدَقْتَ ، بِأَبِي وَأُمِّي وَانتَ وَاہلُ الصِدق اَنا اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰــہُ وَأَنَّکَ رَسُولُ اللهِ
یارسول اللہﷺ آپ نے سچ فرمایا میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ(ﷺ) سچوں میں سے ہیں۔ میں گواہی دیتاہوں اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور آپ(ﷺ) اس کے رسول ہیں۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا جس کو بھی میں نے ایمان کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ اس لحاظ سے میرے ساتھ گفتگو کی یا اشکال کیا سوائےحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کہ جب میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو بغیر کسی تردد کے یہ ایمان لے آئے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںکہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اس وقت سے نبی کریم ﷺ سے ان کا تعلق تھا۔ اور ان کا نام "علی" حضور ﷺ نے ہی رکھا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔
نبی کریم ﷺ کے چچااور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب ان کے مالی حالات تنگ ہوگئے۔آپﷺ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:آپ کے بڑے بھائی اور میرے چچاابوطالب کے معاشی حالات تنگ ہیں تو ہم ان کی ایسے مدد کرسکتے ہیں کہ ایک بیٹا آپ کفالت میں لے لیں اور ایک بیتا میں اپنی کفالت میں لے لیتاہوںتوان کا بوجھ زرا کم ہوجائے گا۔جناب نبی کریم ﷺ اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ چچا ابوطالب کے پاس پہنچے اور ان سے عرض کی تو ابو طالب نے کہاکہ میرے دونوں بڑے بیٹے طالب اور عقیل کو میرے پاس چھوڑ دو اور جعفراور علی میں سے جس کو آپ لینا چاہیں لے لیں۔ تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی کفالت کی ذمہ داری لے لی اور آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کفالت کی ذمہ داری اٹھالی۔ اسی طرح حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی کفالت میں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے چچازاد بھائی جناب نبی کریمﷺ کی کفالت میں آگئے۔
اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ آپﷺ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہئے تو دیکھا جناب نبی کریمﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا دونوں نماز پڑھ رہے ہیں۔پوچھا یہ آپ کیا کررہے ہیں۔؟اس پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:یہ اللہ کا دین ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے پسند فرمایا ہےکہ اس کے بندے اس دین پر آئیں اور اس ہی کی تبلیغ کے لیے اللہ نے رسول بھیجے ہیں میں تمہیں دعوت دیتاہوں تم اللہ پر ایمان لاؤ،اس کی عبادت کرو اورلات و عزیؒ(جو بڑے دو بت تھے۔) ان کا انکار کرو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ بہت بڑی بات ہے میں اپنے والد سے مشورہ کیے بغیر آپ کو جواب نہیں دے سکتایعنی میں فیصلہ نہیں کرسکتا۔آپﷺ نے فرمایا اے علی!اگر تم اسلام لانا نہیں چاہتےتو
اس راز کو فاش مت کرناکیونکہ یہ وہ دور تھا کہ جسمیں اللہ کی طرف سے علی الاعلان دعوت کا حکم نہ تھا۔نبی کریمﷺ نے سوموار کے دن حضرت علی کو دعوت اسلام دی اور اگلے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے ،تفسیر نگاروں کے نزدیک اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر تقریبا آٹھ سال تھی ۔
ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز ادا کررہے تھے تو آپ رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب نے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیاتو ابو طالب نے پوچھا کہ یہ کیا کررہے تھے۔؟تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا
اے اباجان!میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آیاہوں اور جو وہ دین لائے میں نے اس کی تصدیق کی ہےاور ان کے ساتھ ملکر میں نے اللہ کی نماز ادا کی ہےاور ان کی پیروی بھی کی ہے۔
اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابوطالب نےاپنے بیٹے سے کہا:
اے بیٹے!انہوں نے(یعنی آپﷺ نے) آپ کو خیر کی طرف بلایا ہے،مضبوطی سے پکڑ کر رکھنا اس بات کو ۔(یعنی یہ چیز تمہارے ہاتھ سے نہ چھوٹے۔)
اس واقعہ سے علم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے والد ابوطالب سے پوچھے بغیر ایمان لائے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان کا علم ابو طالب کو بعد میں حضرت علی کو نماز پڑھتے ہوئے ہوا۔
 
Top