ولایت صرف مردوں کی میراث نہیں (ام سلیم‘ کوٹ ادو)

اسداللہ شاہ

وفقہ اللہ
رکن
ایک دفعہ حضرت بشر حافی بیمار ہوئے تو حضرت آمنہ ان کی عیادت کیلئے تشریف لے گئیں ۔ اتفاق سے امام احمد حنبل رحمة اللہ علیہ بھی وہاں تشریف لے آئے۔ انہوں نے حضرت بشر سے پوچھا‘ یہ کون خاتون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا یہ آمنہ رملیہ رحمة اللہ علیہا ہیں‘ میری عیادت کو آئی ہیں۔
حضرت آمنہ رملیہ رحمة اللہ علیہا کا شمار دوسری‘ تیسری صدی ہجری کی جلیل القدر عالمات و عارفات میں ہوتا ہے۔ تقریباً 163 ھ میں بغداد کے ایک نواحی شہر رملہ میں پیدا ہوئیں بچپن ہی سے بہت ذہین اور علم حاصل کرنے کی شائق تھیں‘ لیکن والدین بہت غریب تھے وہ ان کی تعلیم کا کوئی خاص اہتمام نہ کرسکے البتہ گھر پرجو معمولی تعلیم دے سکتے تھے‘ دے دی جب ذرا بڑی ہوئیں تو اپنی والدہ کے ساتھ حج کیلئے مکہ معظمہ گئیں اس زمانے میں ایک بزرگ عالم دین مسجد حرام میں درس دیا کرتے تھے حضرت آمنہ ان کے حلقہ درس میں داخل ہوگئیں اور ایک عرصہ تک ان سے قرآن و حدیث کا علم حاصل کرتی رہیں جب وہ وفات پاگئے تو حضرت آمنہ مدینہ منورہ چلی گئیں جہاں امام مالک نے مسند درس بچھا رکھی تھی حضرت آمنہ مدت تک ان سے علم حدیث حاصل کرتی رہیں اور بہت سی احادیث زبانی یاد کرلیں۔ حافظ ابن عبدالبر رحمة اللہ علیہ کے اندازے کے مطابق ان سے مروی احادیث کی تعداد سو کے لگ بھگ ہے۔
اس کے بعد وہ دوبارہ مکہ معظمہ گئیں اور امام شافعی رحمة اللہ علیہ سے علم فقہ کی تحصیل کی۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً 36 سال کی ہوچکی تھی۔ امام شافعی مصر تشریف لے گئے تو وہ کوفہ پہنچ گئیں جہاں بہت سے علماءوفضلا موجود تھے۔ حضرت آمنہ نے بڑے ذوق و شوق سے ان سے بھی کسب فیض کیا اور تمام علوم دینی میں یکتائے روزگار ہوگئیں جب کوفہ سے وطن واپس گئیں تو ان کے علم و فضل کا چرچا دور دور تک پھیل چکا تھا۔ انہوں نے مخلوق خدا کو فیض پہنچانے کی خاطر اپنا حلقہ درس قائم کیا تو لوگ تحصیل علم کیلئے جوق در جوق ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگے بڑے بڑے علماءبھی سماعت حدیث کیلئے ان کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ ۹۰۲ھ میں انہیں بغداد جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک درویش کامل کی توجہ سے ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہوگیا۔ اپنا تمام مال واسباب راہ خدا میں دے دیا اور درویشانہ زندگی اختیار کرلی اب ہر وقت عبادت الٰہی اور گریہ وزاری میں مشغول رہتی تھیں اسی حالت میں سات حج پیادہ پاکیے ان کے زہدو تقویٰ اور عبادت و ریاضت کی بناءپرلوگ ان کو خاصان خدا میں شمار کرتے تھے اور ان کا حد سے زیادہ احترام کرتے تھے۔ ان کی جلالت قدر کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس دور کے ایک عظیم المرتبت ولی اللہ حضرت بشر حافی کبھی کبھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح امام حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ بھی ان کی عظمت و جلالت کے معترف تھے۔
ایک دفعہ حضرت بشر حافی رحمة اللہ علیہ بیمار ہوئے تو حضرت آمنہ رحمة اللہ علیہا ان کی عیادت کیلئے تشریف لے گئیں ۔ اتفاق سے امام احمد حنبل رحمة اللہ علیہ بھی وہاں تشریف لے آئے۔ انہوں نے حضرت بشر سے پوچھا‘ یہ کون خاتون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا یہ آمنہ رملیہ رحمة اللہ علیہا ہیں‘ میری عیادت کو آئی ہیں۔
امام صاحب نے ان کی شہرت سن رکھی تھی اب انہیں قریب پاکر بہت خوش ہوئے اور حضرت بشر سے فرمایا۔
”ان سے کہیے کہ میرے لیے دعا کریں۔“
حضرت بشر حافی نے حضرت آمنہ سے عرض کیا۔
”یہ احمد بن حنبل ہیں‘ آپ سے دعا کے خواستگار ہیں“
حضرت آمنہ نے ہاتھ اٹھا کر نہایت خشوع و خضوع سے دعا مانگی۔
”اے اللہ! احمد بن حنبل اور بشر دونوں جہنم کی آگ سے پناہ مانگتے ہیں تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے‘ ان کو اس آگ سے محفوظ رکھ۔“
(بعض تذکرہ نگاروں نے اس واقعہ کو حضرت آمنہ رملیہ رحمة اللہ کی کرامت کے طور پر بیان کیا ہے۔ انہوں نے حضرت امام احمد بن حنبل سے یہ بیان منسوب کیا ہے کہ اسی رات کو آسمان سے ایک پرچہ میری گود میں آکر گرا میں نے اسے کھول کر دیکھا تو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد لکھا ہوا تھا کہ ہم نے کردیا اور ہم زیادہ بھی کرسکتے ہیں۔(یا یہ کہ ہمارے پاس مزید نعمتیں بھی ہیں)
ایک دفعہ کسی رئیس نے دس ہزار اشرفیاں ان کی نذر کرنا چاہیں۔ انہوں نے لینے سے انکار کردیا جب اس نے بہت اصرار کیا تو رکھ لیں لیکن ان کو ہاتھ نہ لگایا اور شہر میں منادی کرادی کہ جس کو روپیہ کی ضرورت ہو وہ آکر مجھ سے لے جائیں۔ چنانچہ حاجت مند لوگ آتے تھے اور بقدر ضرورت ان سے رقم لے جاتے تھے۔ شام ہوتے ہوتے انہوں نے تمام اشرفیاں تقسیم کردیں حالانکہ اس دن ان کے گھر میں کھانے کیلئے کوئی چیز نہ تھی۔
حضرت بشر حافی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آمنہ رحمة اللہ علیہ کا معمول تھا کہ نصف شب کو بیدار ہوجاتیں اور صبح تک نہایت خشوع و خضوع سے عبادت الٰہی میں مشغول رہتیں۔ ایک دفعہ میں نے انہیں یہ دعا مانگتے سنا۔
”اے خالق ارض وسماءتیری نعمتیں بے حد و حساب ہیں لیکن کس قدر ظالم ہیں وہ لوگ جو ان کی قدر نہیں کرتے‘ تو ارحم الرحمین ہے مگر دنیا تجھ کو بھولی ہوئی ہے۔
اے میرے پیارے آقا میری عزت تیرے ہی ہاتھ ہے قیامت کے دن سب کے سامنے مجھے رسوا نہ کرنا اگر ایسا کیا تو لوگ یہی کہیں گے کہ اللہ نے اپنی بندی کو رسوا کیا جو اس سے محبت کرتی تھی۔ اے میرے پیارے آقا !تجھ کو یہ بات یقینا گوارا نہ ہوگی اگر تو نے اس کو گوارا کیا تو میں ہرگز ہرگز اسے گوارا نہ کروں گی کہ لوگ تجھے الزام دیں۔“
ان کا دستور تھا کہ کسی کے ہاں کھانا نہ کھاتیں کہ مبادا اس میں مال حرام یا کسی مشکوک چیز کا کوئی جز شامل ہو البتہ کسی کے بارے میں یقین ہو تاکہ وہ متقی اور پرہیزگار ہے تو اس کے ہاں کا کھانا کھالیتیں۔
حضرت آمنہ رملیہ رحمة اللہ علیہا کی عائلی زندگی کے بارے میں کسی نے کچھ نہیں لکھا اور نہ یہ وضاحت کی ہے کہ وہ دور دراز شہروں میں جاکر سالہا سال تک تحصیل علم کیسے کرتی رہیں اور اس دوران میں ان کا سرپرست اور نگران کون تھا۔ ان کا سال وفات بھی کسی کتاب میں درج نہیں ہے۔ انہوں نے تیسری صدی ہجری میں کسی وقت وفات پائی۔

بشکریہ
ماہنامہ عبقری
 

نورمحمد

وفقہ اللہ
رکن
سبحاں اللہ . . . .

اللہ رب العزت کا قرب تو اس کو راضی کر ہی پایا جا سکتا ہے . . چاہے وہ مرد ہو یا عورت .........
 
Top