خدا کے نام سے رحمن ہے جو رحم والاہے
دشمن اسلام
دلوں پر منکروں کے مہر اللہ نے لگائی ہے
وہ ہیں بد عہد ان میں استواری کس نے پائی ہے
کہ تم کو قید کردیں، قتل کردیں بے وطن کر دیں
ادھر سازش تھی دشمن کی ادھر رب کی تھیں تدبیریں
ہمیں آواز دیتا ہے جب انسان زخم کھاتا ہے
مٹادیتے ہیں جب تکلیف ہم وہ بھول جاتا ہے
کوئی بھی ظلم لوگوں پر کہاں اللہ کرتا ہے
مگر انسان اپنی جان پر خود ظلم ڈھاتا ہے
لگائیں جھوٹ جو رب پر نجات اپنی نہ پائیں گے
اٹھالو فائدے کچھ دن سزائیں پھر چکھائیں گے
تمہیں اس سر زمین سے وہ نکلوانے کے ہیں درپے
تمہارے بعد وہ بھی دیکھنا ٹکنے نہ پا ئیں گے
سراب ہو جیسے ریگستان میں اعمال منکر کے
مگر جب پاس آئے تو وہاں پیاسا ہی رہ جائے
خدا کو چھوڑ کر جو غیر کے سائے میں آتے ہیں
وہ مکڑی کی طرح کمزور اپنا گھر بناتے ہیں
بڑا خود کو سمجھتے ہیں بُری تدبیر کرتے ہیں
وہ آخر مٹ کے رہتے ہیں بری جو چال چلتے ہیں
منافق اور منکر سے نہ دبنا اور گھبرانا
خدا پر ہی بھروسہ ہو وہی حامی ہے انساں کا
قیامت پاس ہے ٹکڑے ہوئے ہیں چاند کے دیکھو
نشانی کوئی بھی دیکھیں نہ آئے گا یقیں ان کو
اگر دیکھیں منافق کو تو پُر شوکت نظر آئیں
اگر باتیں سنیں ان کی تو بس سنتے ہی رہ جائیں
حقیقت میں نہیں انسان یہ لکڑی کے کندے ہیں
لگا کر ٹیک جو دیوار کے سب ساتھ رکھے ہیں
جو ڈالے وسوسے اے رب بچانا اس کے تو شر سے
دلوں میں ڈالد دیتا ہے مسلسل پاس جو آکے
بچانا صبح کے رب تو مجھے مخلوق کے شر سے
گرہ پر پھونکنے والوں کے شر اورشرسے حاسد کے
کمائی منکروں کی کیسے آخر ان کے کام آئے
کہ جیسے راکھ ہو اور اس پہ باد تند چل جائے
برا کلمہ ہے اک شجر خبیثہ جو کہ دھرتی سے
اکھڑجاتا ہے جڑ کے ساتھ اک جھٹکے میں مٹی سے
تمہارے واسطے اے منکرو مذہب تمہارا ہے
ہمارے واسطے اے منکرو مذہب ہمارا ہے
منافق نے تمہیں سوچا ہے جس دم قتل کرنے کا
کرم اس کا کہ ان کے ہاتھ کو اللہ نے روکا
بڑے مجرم جب اپنا جال بستی میں بچھاتے ہیں
خبر کیا ان کو اپنے جال میں میں وہ اپنے آپ پھنستے ہیں
جنہوں نے کردیا انکار ان شرطوں سےباتوں سے
و ہ کب سنتے ہیں یہ تنبیہ کب ہیں ماننے والے
خدا نے مُہر ان کے دل پہ کانوں پر لگادی ہے
ہے پردہ ان کی آنکھوں پر سزا ان کو تو پانی ہے
جو نافرمان ہے اس کو خدا گمراہ کرتا ہے!
خدا کے عہد کو وہ باندھ کر بھی توڑ دیتا ہے ٍ
جسےہے جوڑنے کا حکم اس کو کاٹ دیتا ہے
فساد اللہ کی دھرتی پہ وہ پھیلا کے رہتا ہے
حقیقت میں یہی ہیں لوگ جو برباد ہوتے ہیں
حقیقت میں یہی ہیں لوگ جو نقصان اٹھاتے ہیں
اے ایمان لانے والو دوسروں سے راز مت کہنا
نہیں جوچھوڑتےموقع تمہیں برباد کرنے کا
تمہیں نقصان ہو جس سے انہیں ہے بس وہی پیارا
نکل پڑتا ہے منہ سے بغض سارا دشمن دیں کا
زبردستی نہیں کوئی جو موڑیں اپنا منہ تم سے
نہیں بھیجا بنا کر منکروں کا پاسباں ہم نے
دغا بازی منافق گو خدا کے ساتھ کرتے ہیں
سزا اس چال کی اللہ سے وہ پانے والے ہیں
نہ منکر کو بناؤ دوست مومن چھوڑ کر لوگو
خدا پر پھر نہ ہوگا عذر کوئی کار گر لوگو
پکاریں کیا انہیں ہم اے محمد پوچھ لو ان سے
جو دے سکتے نہیں ہیں نفع، نقصان کر نہیں سکتے
تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کا اب بھلا ہوگا
جو ظالم ہے یقینا وہ بھلائی پا نہیں سکتا
عذاب اپنا مگر ان منکروں پہ آدھمکتا ہے
ہمارا یہ کرم ایمان والوں پر ہی رہتا ہے
منافق کی طرح اے مومنو دعویٰ تو کرتے ہیں
مگر سنتے سناتے کچھ نہیں منہ پھیر لیتے ہیں
یہی سب سے بُرے ہیں جانور نزدیک اللہ کے
نہیں ان میں سمجھ باقی یہ بہرے ہیں یہ ہیں گونگے
اگر تم دیکھ پاتے جب فرشتے روح منکر کی
ہیں کرتے قبض تو چہروں پہ ان کے مار ہے پڑتی
تمہیں مرغوب ہیں لوگو سروسامان دنیا کے
مگر ہے آخرت پیش نظر اللہ تعالیٰ کے
منافق مرد ہوں یا عورتیں سب ایک جیسے ہیں
بھلائی سے عداوت ہےبدی سے پیار کرتے ہیں
بہت چلتے نظر آئے محض پیچھے گمانوں کے !
گماں ہے کب بدل حق کا خدا ہے با خبر ان سے
جنھیں آواز دیتے ہیں وہ کچھ پیدا نہیں کرتے
وہ خود مخلوق ہیں ، بے حس ہیں ، کچھ سمجھا نہیں کرتے
اگر ان میں کوئی بیٹی کی خوشخبری کو سنتا ہے
تو اس کا رنگ اڑجاتا ہے اس کا دل تڑپتا ہے
یہ رب کی نعمتوں کو جان کے انجان بنتے ہیں
تو ان کے حال پر چھوڑو نہیں جو شکر کرتے ہیں
فراغت دی مگر نا شکر نکلے لوگ بستی کے
انہیں فاقے کرائے اور لباس خوف پہنائے
گواہی دے اگر دل حق پہ وہ ایمان لے آئیں
نہ جی چاہے اگر ان کا تو پھر ایماں نہ وہ لائیں
جو گمراہی میں رہتے ہیں یہ کہدو آج تم ان سے
یہ شانِ رب ہے رسی کو بہت ہی ڈھیل دی اس نے
سمجھ پاتے کہاں دل سے کہاں سنتے ہیں کانوں سے
یہ آنکھیں تو نہیں اندھی مگر ان کے ہیں دل اندھے
سنو لوگو خدا کو چھوڑ کر جن کو بلاتے ہو !
وہ اک مکھی بھی پیدا کر نہیں سکتے جو چاہیں تو
یہ مشرک کہتے ہیں سب جھوٹ ہے جس کو وہ گڑھتا ہے
مدد اس کام میں اوروں کی بھی یہ شخص لیتا ہے
گماں رکھے ہو کیا ان سے کہ یہ سنتے سمجھتے ہیں
یہ بس ہیں جانور ان سے بھی کچھ زائد بھٹکتے ہیں
وہ بس اک دوسرے پر چاہتے تھے زیادتی کرنا
خدا کے حکم سے واقف تھے پھر بھی تفرقہ ڈالا
خود اپنے ہاتھ سے اپنے وہ گھر برباد کر بیٹھے
کریں حاصل وہ عبرت دیدۂ بینا جو ہیں رکھتے
بجھانا چاہتے ہیں نور یہ پھونکوں سے اللہ کا
مگر اللہ اپنے نور کو پھیلا کے مانے گا
خبر ہو گی نہ ہر گز منکروں کو اے نبی ایسے
تباہی کی طرف لے جائیں گے ہم ان کو دھیرے سے
بڑا ہی حق تلف انسان ہے نا شکر ہے کتنا
خدا کی نعتوں کو کس قدر دشوار ہے گننا
قرآن کی باتیں ۔شہاب اشرفؔ)
دشمن اسلام
دلوں پر منکروں کے مہر اللہ نے لگائی ہے
وہ ہیں بد عہد ان میں استواری کس نے پائی ہے
کہ تم کو قید کردیں، قتل کردیں بے وطن کر دیں
ادھر سازش تھی دشمن کی ادھر رب کی تھیں تدبیریں
ہمیں آواز دیتا ہے جب انسان زخم کھاتا ہے
مٹادیتے ہیں جب تکلیف ہم وہ بھول جاتا ہے
کوئی بھی ظلم لوگوں پر کہاں اللہ کرتا ہے
مگر انسان اپنی جان پر خود ظلم ڈھاتا ہے
لگائیں جھوٹ جو رب پر نجات اپنی نہ پائیں گے
اٹھالو فائدے کچھ دن سزائیں پھر چکھائیں گے
تمہیں اس سر زمین سے وہ نکلوانے کے ہیں درپے
تمہارے بعد وہ بھی دیکھنا ٹکنے نہ پا ئیں گے
سراب ہو جیسے ریگستان میں اعمال منکر کے
مگر جب پاس آئے تو وہاں پیاسا ہی رہ جائے
خدا کو چھوڑ کر جو غیر کے سائے میں آتے ہیں
وہ مکڑی کی طرح کمزور اپنا گھر بناتے ہیں
بڑا خود کو سمجھتے ہیں بُری تدبیر کرتے ہیں
وہ آخر مٹ کے رہتے ہیں بری جو چال چلتے ہیں
منافق اور منکر سے نہ دبنا اور گھبرانا
خدا پر ہی بھروسہ ہو وہی حامی ہے انساں کا
قیامت پاس ہے ٹکڑے ہوئے ہیں چاند کے دیکھو
نشانی کوئی بھی دیکھیں نہ آئے گا یقیں ان کو
اگر دیکھیں منافق کو تو پُر شوکت نظر آئیں
اگر باتیں سنیں ان کی تو بس سنتے ہی رہ جائیں
حقیقت میں نہیں انسان یہ لکڑی کے کندے ہیں
لگا کر ٹیک جو دیوار کے سب ساتھ رکھے ہیں
جو ڈالے وسوسے اے رب بچانا اس کے تو شر سے
دلوں میں ڈالد دیتا ہے مسلسل پاس جو آکے
بچانا صبح کے رب تو مجھے مخلوق کے شر سے
گرہ پر پھونکنے والوں کے شر اورشرسے حاسد کے
کمائی منکروں کی کیسے آخر ان کے کام آئے
کہ جیسے راکھ ہو اور اس پہ باد تند چل جائے
برا کلمہ ہے اک شجر خبیثہ جو کہ دھرتی سے
اکھڑجاتا ہے جڑ کے ساتھ اک جھٹکے میں مٹی سے
تمہارے واسطے اے منکرو مذہب تمہارا ہے
ہمارے واسطے اے منکرو مذہب ہمارا ہے
منافق نے تمہیں سوچا ہے جس دم قتل کرنے کا
کرم اس کا کہ ان کے ہاتھ کو اللہ نے روکا
بڑے مجرم جب اپنا جال بستی میں بچھاتے ہیں
خبر کیا ان کو اپنے جال میں میں وہ اپنے آپ پھنستے ہیں
جنہوں نے کردیا انکار ان شرطوں سےباتوں سے
و ہ کب سنتے ہیں یہ تنبیہ کب ہیں ماننے والے
خدا نے مُہر ان کے دل پہ کانوں پر لگادی ہے
ہے پردہ ان کی آنکھوں پر سزا ان کو تو پانی ہے
جو نافرمان ہے اس کو خدا گمراہ کرتا ہے!
خدا کے عہد کو وہ باندھ کر بھی توڑ دیتا ہے ٍ
جسےہے جوڑنے کا حکم اس کو کاٹ دیتا ہے
فساد اللہ کی دھرتی پہ وہ پھیلا کے رہتا ہے
حقیقت میں یہی ہیں لوگ جو برباد ہوتے ہیں
حقیقت میں یہی ہیں لوگ جو نقصان اٹھاتے ہیں
اے ایمان لانے والو دوسروں سے راز مت کہنا
نہیں جوچھوڑتےموقع تمہیں برباد کرنے کا
تمہیں نقصان ہو جس سے انہیں ہے بس وہی پیارا
نکل پڑتا ہے منہ سے بغض سارا دشمن دیں کا
زبردستی نہیں کوئی جو موڑیں اپنا منہ تم سے
نہیں بھیجا بنا کر منکروں کا پاسباں ہم نے
دغا بازی منافق گو خدا کے ساتھ کرتے ہیں
سزا اس چال کی اللہ سے وہ پانے والے ہیں
نہ منکر کو بناؤ دوست مومن چھوڑ کر لوگو
خدا پر پھر نہ ہوگا عذر کوئی کار گر لوگو
پکاریں کیا انہیں ہم اے محمد پوچھ لو ان سے
جو دے سکتے نہیں ہیں نفع، نقصان کر نہیں سکتے
تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کا اب بھلا ہوگا
جو ظالم ہے یقینا وہ بھلائی پا نہیں سکتا
عذاب اپنا مگر ان منکروں پہ آدھمکتا ہے
ہمارا یہ کرم ایمان والوں پر ہی رہتا ہے
منافق کی طرح اے مومنو دعویٰ تو کرتے ہیں
مگر سنتے سناتے کچھ نہیں منہ پھیر لیتے ہیں
یہی سب سے بُرے ہیں جانور نزدیک اللہ کے
نہیں ان میں سمجھ باقی یہ بہرے ہیں یہ ہیں گونگے
اگر تم دیکھ پاتے جب فرشتے روح منکر کی
ہیں کرتے قبض تو چہروں پہ ان کے مار ہے پڑتی
تمہیں مرغوب ہیں لوگو سروسامان دنیا کے
مگر ہے آخرت پیش نظر اللہ تعالیٰ کے
منافق مرد ہوں یا عورتیں سب ایک جیسے ہیں
بھلائی سے عداوت ہےبدی سے پیار کرتے ہیں
بہت چلتے نظر آئے محض پیچھے گمانوں کے !
گماں ہے کب بدل حق کا خدا ہے با خبر ان سے
جنھیں آواز دیتے ہیں وہ کچھ پیدا نہیں کرتے
وہ خود مخلوق ہیں ، بے حس ہیں ، کچھ سمجھا نہیں کرتے
اگر ان میں کوئی بیٹی کی خوشخبری کو سنتا ہے
تو اس کا رنگ اڑجاتا ہے اس کا دل تڑپتا ہے
یہ رب کی نعمتوں کو جان کے انجان بنتے ہیں
تو ان کے حال پر چھوڑو نہیں جو شکر کرتے ہیں
فراغت دی مگر نا شکر نکلے لوگ بستی کے
انہیں فاقے کرائے اور لباس خوف پہنائے
گواہی دے اگر دل حق پہ وہ ایمان لے آئیں
نہ جی چاہے اگر ان کا تو پھر ایماں نہ وہ لائیں
جو گمراہی میں رہتے ہیں یہ کہدو آج تم ان سے
یہ شانِ رب ہے رسی کو بہت ہی ڈھیل دی اس نے
سمجھ پاتے کہاں دل سے کہاں سنتے ہیں کانوں سے
یہ آنکھیں تو نہیں اندھی مگر ان کے ہیں دل اندھے
سنو لوگو خدا کو چھوڑ کر جن کو بلاتے ہو !
وہ اک مکھی بھی پیدا کر نہیں سکتے جو چاہیں تو
یہ مشرک کہتے ہیں سب جھوٹ ہے جس کو وہ گڑھتا ہے
مدد اس کام میں اوروں کی بھی یہ شخص لیتا ہے
گماں رکھے ہو کیا ان سے کہ یہ سنتے سمجھتے ہیں
یہ بس ہیں جانور ان سے بھی کچھ زائد بھٹکتے ہیں
وہ بس اک دوسرے پر چاہتے تھے زیادتی کرنا
خدا کے حکم سے واقف تھے پھر بھی تفرقہ ڈالا
خود اپنے ہاتھ سے اپنے وہ گھر برباد کر بیٹھے
کریں حاصل وہ عبرت دیدۂ بینا جو ہیں رکھتے
بجھانا چاہتے ہیں نور یہ پھونکوں سے اللہ کا
مگر اللہ اپنے نور کو پھیلا کے مانے گا
خبر ہو گی نہ ہر گز منکروں کو اے نبی ایسے
تباہی کی طرف لے جائیں گے ہم ان کو دھیرے سے
بڑا ہی حق تلف انسان ہے نا شکر ہے کتنا
خدا کی نعتوں کو کس قدر دشوار ہے گننا
قرآن کی باتیں ۔شہاب اشرفؔ)
Last edited: