’’دینِ صحیح‘‘
’’دینِ صحیح‘‘ کو سمجھنے کے لیے جن دو چیزوں (کتاب اللہ، رجال اللہ) کی اہم ضرورت تھی، ا ن کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں۔ ہرایک اپنے اپنے اعتبار سے دین کو اپنے تابع بناکر سمجھنا چاہتاہے، العیاذ باللہ اس حوالے سے دو سو سال پہلے شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی لکھی تحریر بہت ہی اہمیت کی حامل ہے، جس میں آج بھی حقانیت کی خوشبو آرہی ہے، اس کو ہم نے پرانی اردو سے آسان اردو کی طرف نقل کیا ہے، اس میں ’’دینِ صحیح‘‘ کو سمجھنے اور اس پر چلنے کی کافی وافی رہنمائی موجود ہے:
’’بندے کو حکم دیاگیاہے کہ وہ صحیح راستہ اللہ سے طلب کرتا رہے، جیسا کہ سورۂ فاتحہ میں فرمایاگیا ہے کہ: ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ اس لیے ہر مسلمان کو نماز کی ہر رکعت میں اس دعا کی تلقین کی گئی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان شخصوں اور جماعتوں کو ذکر کیا جائے، جن کے ذریعے سے انسان صحیح راستے کو اختیار کرتا ہے، ان کے افعال واقوال کو دیکھ کر صحیح راستے پر آتا ہے اور غلط راستے سے جدائی اختیار کرتا ہے، ورنہ تو باطل مذہب میں سے ہر ایک اپنے آپ کے صحیح راستے پر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے ذہن میں ایک جماعت مقرر کرے کہ اس سے صحیح راستہ معلوم ہوسکے، اس لیے اللہ پاک نے صحیح راستے کو ’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ سے بیان فرمایا، یعنی ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے فضل کیا، اور اس جملے کو قرآن نے دوسری جگہ تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ چار جماعتیں ہیں:
1۔ انبیاء علیہم السلام
2- صدیقین
3۔ شہداء
4۔ صالحین
’’دینِ صحیح‘‘ کو سمجھنے کے لیے جن دو چیزوں (کتاب اللہ، رجال اللہ) کی اہم ضرورت تھی، ا ن کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں۔ ہرایک اپنے اپنے اعتبار سے دین کو اپنے تابع بناکر سمجھنا چاہتاہے، العیاذ باللہ اس حوالے سے دو سو سال پہلے شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی لکھی تحریر بہت ہی اہمیت کی حامل ہے، جس میں آج بھی حقانیت کی خوشبو آرہی ہے، اس کو ہم نے پرانی اردو سے آسان اردو کی طرف نقل کیا ہے، اس میں ’’دینِ صحیح‘‘ کو سمجھنے اور اس پر چلنے کی کافی وافی رہنمائی موجود ہے:
’’بندے کو حکم دیاگیاہے کہ وہ صحیح راستہ اللہ سے طلب کرتا رہے، جیسا کہ سورۂ فاتحہ میں فرمایاگیا ہے کہ: ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ اس لیے ہر مسلمان کو نماز کی ہر رکعت میں اس دعا کی تلقین کی گئی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان شخصوں اور جماعتوں کو ذکر کیا جائے، جن کے ذریعے سے انسان صحیح راستے کو اختیار کرتا ہے، ان کے افعال واقوال کو دیکھ کر صحیح راستے پر آتا ہے اور غلط راستے سے جدائی اختیار کرتا ہے، ورنہ تو باطل مذہب میں سے ہر ایک اپنے آپ کے صحیح راستے پر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے ذہن میں ایک جماعت مقرر کرے کہ اس سے صحیح راستہ معلوم ہوسکے، اس لیے اللہ پاک نے صحیح راستے کو ’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ سے بیان فرمایا، یعنی ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے فضل کیا، اور اس جملے کو قرآن نے دوسری جگہ تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ چار جماعتیں ہیں:
1۔ انبیاء علیہم السلام
2- صدیقین
3۔ شہداء
4۔ صالحین
Last edited: