اسلام عبادت کی تلقین تو کرتا ہے، لیکن نہ اس قدر کہ آدمی عبادت کی خاطر سب کچھ چھوڑ بیٹھے، اس سلسلے میں وہ مشہور واقعہ پیش نظر رہنا چاہیے
کہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باہم طے کیا،
ایک نے کہا کہ: میں دن میں مسلسل روزے رکھوں گا۔
دوسرے نے کہا کہ : میں رات کو لگاتار نمازیں پڑھوں گا۔
تیسرے نے کہا کہ: میں نکاح نہیں کروں گا۔
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، میں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتاہوں اور میں نے نکاح بھی کیے اور میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں،
اس ارشاد مبارک کا منشأ یہی ہے کہ اسلام کو ہر معاملے میں اعتدال مطلوب ہے، آپ روزہ بھی رکھیں اور افطار کرکے اپنے جسم کو پاکیزہ وحلال غذاؤں سے لطف اندوز ہو نے کا موقع بھی فراہم کریں، آپ نمازیں بھی پڑھیں، لیکن نیند کے ذریعے اپنے بدن کو آرام بھی دیں:
’’حدثنا سعید بن أبی مریم ، أخبرنا محمد بن جعفر ، أخبرنا حمید بن أبی حمید الطویل أنہ سمع أنس بن مالک - رضی اللّٰہ عنہ - یقول: جاء ثلاثۃ رہط إلٰی بیوت أزواج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسألون عن عبادۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما أخبروا کأنہم تقالوہا، فقالوا: وأین نحن من النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قد غفر لہٗ ماتقدم من ذنبہٖ وما تأخر۔ قال أحدہم: أما أنا فإنی أصلی اللیل أبدا وقال آخر: أنا أصوم الدہر ، ولا أفطر وقال آخر: أنا أعتزل النساء ، فلا أتزوج أبدا ، فجاء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال : أنتم الذین قلتم کذا وکذا ؟ أما واللّٰہ ! إنی لأخشاکم للّٰہ وأتقاکم لہٗ ، لکنی أصوم وأفطر وأصلی وأرقد وأتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔‘‘
(صحیح البخاری ، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح ، ج:۷ ، ص:۲، ط: دار الشعب)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تین افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی بابت استفسار کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے پاس تشریف لائے، جب اُنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق بتلایا گیا تو انہوں نے اسے کم سمجھتے ہوئے کہا کہ: کہاں ہم اور کہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ؟! ان کے تو اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہوچکے ہیں، ان میں سے ایک نے کہا کہ: میں پوری زندگی ساری رات نماز پڑھتا رہوں گا۔ دوسرے نے کہا کہ: میں ساری عمر روزہ رکھوں گا۔ تیسرا بولا کہ: میں عورتوں سے دور رہوں گا، کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ :تم لوگوں نے یہ یہ باتیں کہی ہیں؟! بخدا! میں تم لوگوں سے زیادہ خدا کا خوف اور تقویٰ رکھتا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں، راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور نیند بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، (یہ میرا طریقہ ہے) جو شخص میری سنت اور طریقے سے منہ موڑے گا، اس کا مجھ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ‘‘
کہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باہم طے کیا،
ایک نے کہا کہ: میں دن میں مسلسل روزے رکھوں گا۔
دوسرے نے کہا کہ : میں رات کو لگاتار نمازیں پڑھوں گا۔
تیسرے نے کہا کہ: میں نکاح نہیں کروں گا۔
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، میں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتاہوں اور میں نے نکاح بھی کیے اور میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں،
اس ارشاد مبارک کا منشأ یہی ہے کہ اسلام کو ہر معاملے میں اعتدال مطلوب ہے، آپ روزہ بھی رکھیں اور افطار کرکے اپنے جسم کو پاکیزہ وحلال غذاؤں سے لطف اندوز ہو نے کا موقع بھی فراہم کریں، آپ نمازیں بھی پڑھیں، لیکن نیند کے ذریعے اپنے بدن کو آرام بھی دیں:
’’حدثنا سعید بن أبی مریم ، أخبرنا محمد بن جعفر ، أخبرنا حمید بن أبی حمید الطویل أنہ سمع أنس بن مالک - رضی اللّٰہ عنہ - یقول: جاء ثلاثۃ رہط إلٰی بیوت أزواج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسألون عن عبادۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما أخبروا کأنہم تقالوہا، فقالوا: وأین نحن من النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قد غفر لہٗ ماتقدم من ذنبہٖ وما تأخر۔ قال أحدہم: أما أنا فإنی أصلی اللیل أبدا وقال آخر: أنا أصوم الدہر ، ولا أفطر وقال آخر: أنا أعتزل النساء ، فلا أتزوج أبدا ، فجاء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال : أنتم الذین قلتم کذا وکذا ؟ أما واللّٰہ ! إنی لأخشاکم للّٰہ وأتقاکم لہٗ ، لکنی أصوم وأفطر وأصلی وأرقد وأتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔‘‘
(صحیح البخاری ، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح ، ج:۷ ، ص:۲، ط: دار الشعب)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تین افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی بابت استفسار کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے پاس تشریف لائے، جب اُنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق بتلایا گیا تو انہوں نے اسے کم سمجھتے ہوئے کہا کہ: کہاں ہم اور کہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ؟! ان کے تو اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہوچکے ہیں، ان میں سے ایک نے کہا کہ: میں پوری زندگی ساری رات نماز پڑھتا رہوں گا۔ دوسرے نے کہا کہ: میں ساری عمر روزہ رکھوں گا۔ تیسرا بولا کہ: میں عورتوں سے دور رہوں گا، کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ :تم لوگوں نے یہ یہ باتیں کہی ہیں؟! بخدا! میں تم لوگوں سے زیادہ خدا کا خوف اور تقویٰ رکھتا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں، راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور نیند بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، (یہ میرا طریقہ ہے) جو شخص میری سنت اور طریقے سے منہ موڑے گا، اس کا مجھ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ‘‘