عہد رسول حضرت محمد رسول ﷲ خاتم النبیین صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم اور عہد صحابہ رضی ﷲ عنہم میں تفسیر کا ارتقاء

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
عہد نبوت

عہد نبوت سے عہد حاضر تک قرآن مجید کی تفسیر کئی مراحل سے گزری ہے۔ ہر ایک مرحلہ میں مفسرین حضرات اپنے اپنے اغراض و مقاصد کے پیش نظر نئے نئے انداز میں کام کرتے رہے ہیں۔ یہی اغراض و مقاصد دراصل تفسیر نویسی میں تنوع کا سبب بنتے رہے اور نتیجہ کے طور پر کئی کئی جلدوں پر مشتمل تفسیریں عالم وجود میں آتی رہیں۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور انشاءﷲ تا قیامت جاری رہے گا۔ یہاں نبی کریم صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کے عہد مبارک سے عہد صحابہ کے زمانہ تک علم تفسیر کے ارتقائی مراحل اور ہر ایک مرحلہ کی تفسیری خصوصیات کو بالاختصار بیان کیا جاتا ہے۔

عہد نبوت صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم میں تفسیر کا ارتقاء:

نبوت کے مبارک عہد میں تفسیر قرآن کا اسلوب یہ تھا کہ '' اگر کسی آیت کے متعلق حضورصلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم نے وضاحت کی ضرورت محسوس فرمائی تو ﷲ تعالی کی منشاء و مراد بتا دی یا کسی کو کوئی اشکال پیش آیا تو رسول صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پوچھ کر تشفی کر لی اور وہ آیات جن کا تعلق عمل سے ہے اسے حضور صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کر کے بتا دیا ''۔

اس عہد میں مفسر اور تفسیر کا اطلاق حضور صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات طیبہ اور آپ صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر ہوتا ہے، چناچہ مولانا بلخی علماء کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: '' عہد نبوت میں اسوہ نبویہ صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم بمنزلہ تفسیر قرآن کے تھا''۔

مطلب یہ کہ نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہر ارشاد اور آپ صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہر عمل قرآن کی تفسیر و تشریح تھا۔ اس لیے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حیات طیبہ محض ایک بشر کی زندگی نہ تھی بلکہ دراصل وہ آیات قرآنیہ کی چلتی پھرتی تصویر تھی۔ قرآنی ہدایات و تعلیمات کے متشکل ہو جانے کا نام اسو‎ہ رسول‎‎ صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم ہے اور اسوہ رسول صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کا دوسرا نام تفسیر قرآن ہے''۔

اس ضمن میں عبد الصمد صارم علماء کے حوالے سے لکھتے ہیں: '' قرآن مجید کے مفسر اول حضور صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم اور پہلی تفسیر حدیث رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم ہے''۔

امام شافعی نے فرمایا ہے کہ: ''حضور صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا استنباط قرآنی آیات سے کیا ہے''۔

ابن جرجانی کا قول ہے کہ: ''جس قدر صحیح حدیثیں ہیں ان کی اصلیت قرآن میں بجنسہ یا قریب قریب موجود ہے۔ اس وجہ سے اکثر صحابہ کا یہ طرز تھا کہ جب کوئی حدیث بیان کرے تو تصدیق و توثیق کے لیے آیت پڑھے''۔

حضور صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس مبارک دور میں حدیث کے جو مجموعے تحریر ہوئے ان میں سے '' ہر مجموعہ قرآن کو تفسیر ہے، (مثلا کتاب الصدقہ خود حضور صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حضرت ابو بکر بن حزم صحابی کو لکھائی۔ یہ دو صفحہ کا رسالہ تھا، اس میں زکوۃ کے احکام تھے گویا آیات زکوۃ کی تفسیر تھی۔ اس کی نقول دیگر امراء کو بھی بھیجی گئی''۔ '' حضور صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حضرت وائل بن حجر صحابی کو نماز، روزہ، ربا، شراب وغیرہ کے احکام لکھا دیتے تھے گویا یہ آیات صوم و صلوۃ وغیرہ کی تفسیر تھی"، لیکن حضور صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کے عہد میں جو کچھ لکھا گیا وہ سب حدیثوں کا ذخیرہ تھا، گویا خالص تفسیر کے نام سے کوئی مجموعہ نہ تھا''۔

مختصر یہ ہے کہ: '' حضور صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زندگی کا سارا نبوی دور قرآن کریم کی تفسیر کا دور ہے۔ کیونکہ اس سارے دور میں قرآن حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوتا رہا اور آپ صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ساتھ ہی نزول آیات کا مطلب و مدعا لوگوں کو بیان کر کے سناتے رہے اور ہدایت کا پیغام دیتے رہے''۔

عہد صحابہ رضی ﷲ عنہم کے دور میں تفسیر کا ارتقاء

جہاں تک عہد صحابہ رضی ﷲ عنہم کا تعلق ہے تو اس میں '' قرآنی علوم اور تفسیر'' کے پیشوا دس صحابہ مانے گئے ہیں۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  • حضرت علی المرتضی رضی ﷲ عنہ
  • حضرت ابو بکر صدیق رضی ﷲ عنہ
  • حضرت عمربن خطاب رضی ﷲ عنہ
  • حضرت عثمان بن عفان رضی ﷲ عنہ
  • حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ
  • حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہ
  • حضرت عبدﷲ بن زبیر رضی ﷲ عنہ
  • حضرت ابی بن کعب رضی ﷲ عنہ
  • حضرت معاذ بن جبل رضی ﷲ عنہ
  • حضرت ابوالدرداء رضی ﷲ عنہ
تفسیری منابع:

تفسیری منابع یعنی مصادر و مآخذ کے حوالے سے صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کے عہد کا اطلاق اس زمانے پر بھی ہو گا جسے انھوں نے مفسر اول صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں گزارا اور اس وقت پر بھی ہو گا جسے آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کی رخصت ہو جانے یعنی 11 ہجری کے بعد گزارا ہے۔ گویا یہ عہد نبوت اور عہد صحابہ دونوں کو شامل ہے۔ مگر جب عہد خلفا‎ۓ راشدین کہا جاۓ تو اس کا اطلاق صرف 11 ہجری سے 40 ہجری تک کے زمانے پر ہو گا۔ قرآنی آیات کی تفسیر کرنے کے لیے صحابہ کرام جن منابع پر اعتماد کرتے تھے علماء نے ان کی تعداد چار بیان کی ہے:

  • قرآن مجید
  • نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم
  • اجتھاد و قوت استنباط
  • اہل کتاب
  • قرآن مجید:
کیونکہ قرآن مجید کی بعض آیات بعض کی تفسیر کرتی ہیں۔ جیسے کہ لیلۃالمبارکہ نے مراد لیلۃالقدر ہے

  • نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم:
ان کی بابت قرآن مجید میں موجود ہے

بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

دلیلیں اور کتابیں دے کر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں (سورۃ نحل: 44)

نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے قرآنی آیات کی تفسیر کی درج ذیل اسالیب فرمائی:

  • مجمل یا مشکل آیات کی توضیح، عام آیات کی تخصیص اور مطلق کی تقیید کی۔
  • الفاظ آیات کی تشریح کی جیسے مغضوب علیھم سے مراد یہودی اور الضالین سے مراد عیسائی ہیں۔
  • قرآنی احکام سے زائد احکام بیان کیے جیسے صدقہ فطر کا حکم، پھوپھی، بھتیجی، خالہ، بھانجی سے بیک وقت نکاح کی ممانعت اور شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے کا حکم وغیرہ۔
  • ناسخ و منسوخ آیات کی نشاندہی فرمائی جیسے کہ وارث کے حق میں آیت وصیت کو حکما منسوخ کیا۔
  • قرآن مجید میں مذکور حکم کی تائید و تاکید فرمائی جیسے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا

مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہو جائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے (سورۃالنساء:29)

کی تائید میں فرمایا:

لا یحل مال امریء مسلم الا بطیب نفسہ

مسلمان کا مال اس کی رضامندی کے بغیر حلال نہیں

3)اجتھاد و قوت استنباط:

جن آیات کی تفسیر میں فکر و نظر کی ضرورت ہوتی تو ان کی تفسیر کرنے میں متعدد صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم اپنی راۓ و اجتھاد پر اعتماد کرتے اور اس اسلوب میں درج ذیل اسلوب کی مدد لیتے:

  • عربی زبان کے اوضاع و اسرار کی معرفت۔
  • عربوں کی عادت سے متعلقہ آیات کی تفسیر میں ان کی عادت کی معرفت جیسے:
إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

امن کے کس مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا کفر میں اضافہ کرتا ہے اس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں۔ ایک سال تو اس کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام۔ تاکہ ادب کے مہینوں کو جو خدا نے مقرر کئے ہیں گنتی پوری کر لیں۔ اور جو خدا نے منع کیا ہے اس کو جائز کر لیں۔ ان کے برے اعمال ان کے بھلے دکھائی دیتے ہیں۔ اور خدا کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا (سورۃالتوبہ:37)

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے اور نیکی اس بات میں نہیں کہ (احرام کی حالت میں) گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ۔ بلکہ نیکوکار وہ ہے جو پرہیز گار ہو اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ نجات پاؤ (سورۃبقرہ: 189)

  • یہود و نصاری کے متعلق نازل ہونے والی آیات کی تفسیر میں اس وقت موجود اہل کتاب کے احوال کی معرفت کہ اس سے ان کے فہم میں بڑی مدد ملتی ہے۔
  • نہایت پوشیدہ مفہوم والی آیات کے لیے خداداد قوت فہم اور وسعت ادراک کی صلاحیت جیسے حضرت عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما تھے۔
4)اہل کتاب:

چوتھا مصدر اہل کتاب تھے کیونکہ بعض مسائل میں قرآن مجید، تورات اور انجیل میں موافقت ہے۔ تحریف کے پیش نظر اس مصدر کی اہمیت بہت کم ہے۔

عہد صحابہ کی مکتوبہ تفسیریں:

مصادر سے پتہ چلتا ہے کہ عہد صحابہ میں دو تفسیروں کو کتابی صورت میں مدون کیا گیا تھا۔

  • تفسیر ابی بن کعب رضی ﷲ عنہ
  • تفسیر عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما
تفسیر ابی بن کعب رضی ﷲ عنہ:

مولانا محمد عبدالحلیم چشتی کی تحقیق کے مطابق یہ تفسیر عہد صحابہ کی سب سے پہلی تفسیر ہے۔ وہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: '' پہلی صدی ہجری میں قرآن کی تفسیر سب سے پہلے ابی بن کعب نے لکھی تھی۔ موصوف کا انتقال عہد فاروقی میں ہوا تھا، جس سے یہ ثابت ہے کہ یہ عہد فاروقی یا عہد صدیقی کی تالیفات میں سے ہے۔ مشہور مفسر ابن جریر طبری اور ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیروں میں اس سے بکثرت روایتیں کی ہیں۔ اسی طرح ابو عبدﷲ الحاکم اپنی مستدرک میں اور امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں اس سے روایات بیان کرتے ہیں''۔

حاکم نے 405 ہجری میں وفات پائی، اس لیے یہ تفسیر پانچویں صدی تک ضرور موجود تھی۔

تفسیر عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما:

یہ عہد صحابہ میں کتابی صورت میں مدون ہونے والی دوسری تفسیر ہے۔ اسکے متعلق امام احمد بن حنبل کے حوالے سے ابوالخیر طاش کبری لکھتے ہیں کہ: '' امام احمد بن حنبل نے فرمایا تفسیر میں ایک صحیفہ مصر میں موجود ہے جس کو علی ابن طلحہ روایت کرتے ہیں۔ اگر کوئی اس کی طلب میں مصر سفر کرے تو کوئی بڑی بات نہیں۔ اور یہ وہ نسخہ ہے جس پر امام بخاری نے اپنی تمام صحیح روایات کو بیان کیا ہے اور علی ابن طلحہ اور ابن عباس میں صرف ایک واسطہ ہے اور وہ مجاہد یا سعید ابن جبیر کا ہے۔ حافظ ابن حجر کا بیان ہے کہ واسطہ معروف اور ثقہ ہے تو پھر روایت کرنے میں کوئی نقصان نہیں''۔

اسلوب:

ان دونوں تفسیروں کے اسلوب کے بارے میں مولانا افتخار احمد بلخی لکھتے ہیں: ''صحابہ کرام سے قرآن کی جو تفسیریں منقول ہیں اور بعض کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دو تحریری طور پر قلمبند کی گئی تھیں۔ ایک تفسیر عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما اور دوسری ابی بن کعب کی۔ ان کا بیشتر حصہ قرآن کے مفرد اور غریب الفاظ کی تشریح سے تعلق رکھتا ہے۔ یا آیات احکام سے متعلق کوئی حدیث معلوم نہ ہوتی تو وہی ان آیات کی توضیح اور تشریح میں بیان کر دیتے اور اگر کوئی حدیث انہیں معلوم نہ ہوتی اور وقت کا تقاضا ہوتا تو پھر خود ہی فقہی نقطہ نظر سے ان کی تشریح کر دیتے مگر ایسا بہت کم ہوتا۔ رہے اعتقادی مسائل اور اسرار کائنات سے متعلق تفسیریں تو اس باب میں صحابہ سے بہت کم چیزیں منقول ہیں''۔

علماء کی نظر میں ان تفاسیر کی خصوصیات:

علماء کرام کے بیان کردہ تفسیری خصائص سے بھی اس کی اسلوب کا پتا چلتا ہے۔

  • اس دور میں قرآن مجید کی پوری تفسیر بیان نہیں کی گئی۔
  • صرف مشکل اور اجمالی آیات کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔
  • صحابہ کرام نے قرآن مجید کے اجمالی معانی پر اکتفا کیا ہے۔
  • قرآنی مجید کے معانی کے فہم میں بہت کم اختلاف ہے۔
  • صحابہ کرام لغوی معنی کی توضیح پر اکتفا کرتے ہیں۔
  • متحدالعقیدہ ہونے اور مذہبی اختلافات کے عدم وجود کی وجہ سے صحابہ کرام شاذ و نادر ہی فقہی احکام کا استنباط کرتے ہیں۔
اس بحث سے جو چیز سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اس دور کی تفسیر کا اسلوب سادہ تھا۔ یہ تفسیری دور کی ابتدا تھی اور ابتدا میں کسی کام کی نوعیت ہوتی ہے اس سے اہل عقل و دانش بخوبی آگاہ ہیں۔
 
Top