اس سے مراد وہ تفسیر ہے جو قرآن، احادیث نبویہ ﷺ یا اقوال صحابہ و تابعین سے منقول ہو ان مأخذوں کے ساتھ تفسیر کرنا تفسیر بالماثور کہلاتا ہے۔ ان کے علاوہ کسی تفسیر کو تفسیر بالماثور نہیں کہہ سکتے۔ احادیث اور اقوال صحابہ و تابعین سے منقول تفسیر کے بارے میں سندی حیثیت کو جاننا اور تحقیق کرنا انتہائی ضروری ہے اگر وہ صحیح سند سے ثابت ہو تو مقبول ہو گی ورنہ نہیں۔
تفسیر بالماثور کا ارتقاء:
تفسیر بالماثور کا ارتقاء چار مراحل پر مشتمل ہے۔
تو جس طرح ﷲ تعالی نے انسانی زندگی کو بندگی بنانے کے لیے اپنے احکامات کو قرآن حکیم کی شکل میں نازل فرمایا ،اسی طرح ان احکامات پر عمل آوری کے لیے آپ ﷺکے پوری عملی زندگی کو در حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر بناکر مبعوث فرمایا، جو کچھ احکامات قرآن کریم کی شکل میں نازل کیے گئے ان پر سب سے پہلے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم ہی نے عمل کرکے دکھلایا اور ان احکامات خدا وندی کو عملی جامہ پہناکر دنیا کے سامنے پیش کرنا یہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت ہے ،خواہ وہ حکم ایمان ،توحید، نماز، روزہ ،زکوۃ ،حج، صدقہ و خیرات ،جنگ وجدال، ایثار و قربانی، عزم و استقلال، صبر و شکر سے تعلق رکھتا ہو یا حسن معاشرت وحسن اخلاق سے، ان سب میں قرآن مجید کی سب سے پہلی وعمدہ عملی تفسیر نمونہ و آئیڈیل کے طور پر آنحضرت ﷺ ہی کی ذات اقدس میں ملے گی، اس میں بھی دو قسم کی تفسیر ہے ایک تفسیر تو وہ قرآن پاک کے مجمل الفاظ و آیات کی تفسیر و توضیح ہے جن کی مراد خداوندی واضح نہیں تو ان کی مراد و اجمال کی تفصیل کو زبان رسالت مآب ﷺ نے واضح فرما دیا اور دوسری قسم عملی تفسیر کی ہے، یعنی قرآن حکیم کی وہ آیات جن میں واضح احکامات دیئے گئے ہیں جن کا تعلق عملی زندگی کے پورے شعبۂ حیات سے ہے،خواہ وہ عقائد، عبادات، معاملات کی رو سے ہوں یا حسن معاشرت وحسن اخلاق کی رو سے اس میں بھی آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نہ وہ کمال درجہ کی عبد یت اور اطاعت و فرمانبرداری کی ایسی بے مثال وبے نظیر عملی تفسیر و تصویر امت کے سامنے پیش فرمائی جس طرح کلام ﷲ تمام انسانی کلاموں پر اعجاز و فوقیت رکھتا ہے اسی طرح آپ کی عملی زندگی کا ہر قول وفعل بھی تمام انسانی زندگیوں پر اعجاز و فوقیت رکھتا ہے، دوسری قسم کی مثالیں کتب سیر، کتب مغازی، کتب تاریخ، کتب دلائل اور کتب شمائل میں بکثرت ملیں گے، بلکہ یہ کتابیں تو آپ ہی کی عملی تفسیر پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں۔
یہ ہے حضرات صحابہ کا براہ راست آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے تعلیم وتربیت کا سیکھنا کہ جتنا سیکھتے اتنا عمل کا بھی اہتمام فرماتے شاید اسی وجہ سے مسند احمد میں انس کا یہ اثرمنقول ہے:
اور موطا مالک کی روایت میں ہے:
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ابن عمر اتنے کمزور ذہن والے تھے کہ سورۃ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے، جبکہ موجودہ دور میں کمزور سے کمزور طالب علم اتنے عرصہ سے کم میں پورا قرآن کریم حفظ کر لیتا ہے، دراصل بات یہ تھی کہ آٹھ سال کی مدت ابن عمر کو سورۃ بقرہ کے الفاظ اور اس کی تفسیر و تاویل اور اس کے متعلقات کے ساتھ حاصل کرنے میں لگی، اس کی تائید ابن مسعود کے اس اثر سے ہوتی ہے جس کو ابن کثیر نے نقل کیا ہے:
صحابہ کرام میں ایسے حضرات بھی موجود تھے جو احادیث کی روشنی میں قرآن مجید کی تفسیر کرتے تھے، جسے بعد میں ''تفسیر القرآن بالاحادیث'' کہہ کر تفسیر بالماثور کی دوسری قسم قرار دے دیا گیا۔ اور یہی حضرات اپنی آراء سے بھی تفسیر کرتے تھے جسے ''تفسیر القرآن باقوال صحابہ'' کا نام دیا گیا۔
اس معاملہ میں علامہ ابن کثیر نے بہت ہی معتدل بات لکھی ہے کہ: '' اگر کوئی تابعی کسی صحابی سے تفسیر نقل کر رہے ہوں تو اس کا حکم صحابی کی تفسیر جیسا ہوگا اور اگر خود تابعی اپنا قول بیان کریں تو دیکھا جائے گا کہ دوسرے کسی تابعی کا قول ان کے خلاف تو نہیں اگر خلاف میں کوئی قول ہو تو پھر اس تابعی کے قول کو حجت نہیں قرار دیا جائےگا، بلکہ ایسی آیات کی تفسیر کے لیے قرآن کی دوسری آیتیں احادیث نبویہ آثارصحابہ اور لغت عرب جیسے دوسرے دلائل پر غور کرکے فیصلہ کیا جائےگا، ہاں اگر تابعین کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہو تو ان کے تفسیری اقوال کو بلاشبہ حجت اورواجب الاتباع قرار دیا جائے گا''۔ یہی اضافہ بعد میں تفسیر بالماثور کی ایک مستقل قسم کا سبب بنا جسے ''تفسیر القرآن باقوال التابعین'' کا نام دیا گیا۔
اس کو ''تفسیرالقرآن باقوال تبع تابعین'' کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کو تفسیر بالماثور کی بجاۓ تفسیر بالراۓ کی قسم میں شمار کیا جاتا ہے۔
تفسیر بالماثور کا ارتقاء:
تفسیر بالماثور کا ارتقاء چار مراحل پر مشتمل ہے۔
- عہد رسول صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم
- عہد صحابہ رضی ﷲ عنہما
- عہد تابعین رحمہم ﷲ
- عہد تبع تابعین
- عہد رسول صلی ﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم:
تو جس طرح ﷲ تعالی نے انسانی زندگی کو بندگی بنانے کے لیے اپنے احکامات کو قرآن حکیم کی شکل میں نازل فرمایا ،اسی طرح ان احکامات پر عمل آوری کے لیے آپ ﷺکے پوری عملی زندگی کو در حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر بناکر مبعوث فرمایا، جو کچھ احکامات قرآن کریم کی شکل میں نازل کیے گئے ان پر سب سے پہلے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم ہی نے عمل کرکے دکھلایا اور ان احکامات خدا وندی کو عملی جامہ پہناکر دنیا کے سامنے پیش کرنا یہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت ہے ،خواہ وہ حکم ایمان ،توحید، نماز، روزہ ،زکوۃ ،حج، صدقہ و خیرات ،جنگ وجدال، ایثار و قربانی، عزم و استقلال، صبر و شکر سے تعلق رکھتا ہو یا حسن معاشرت وحسن اخلاق سے، ان سب میں قرآن مجید کی سب سے پہلی وعمدہ عملی تفسیر نمونہ و آئیڈیل کے طور پر آنحضرت ﷺ ہی کی ذات اقدس میں ملے گی، اس میں بھی دو قسم کی تفسیر ہے ایک تفسیر تو وہ قرآن پاک کے مجمل الفاظ و آیات کی تفسیر و توضیح ہے جن کی مراد خداوندی واضح نہیں تو ان کی مراد و اجمال کی تفصیل کو زبان رسالت مآب ﷺ نے واضح فرما دیا اور دوسری قسم عملی تفسیر کی ہے، یعنی قرآن حکیم کی وہ آیات جن میں واضح احکامات دیئے گئے ہیں جن کا تعلق عملی زندگی کے پورے شعبۂ حیات سے ہے،خواہ وہ عقائد، عبادات، معاملات کی رو سے ہوں یا حسن معاشرت وحسن اخلاق کی رو سے اس میں بھی آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نہ وہ کمال درجہ کی عبد یت اور اطاعت و فرمانبرداری کی ایسی بے مثال وبے نظیر عملی تفسیر و تصویر امت کے سامنے پیش فرمائی جس طرح کلام ﷲ تمام انسانی کلاموں پر اعجاز و فوقیت رکھتا ہے اسی طرح آپ کی عملی زندگی کا ہر قول وفعل بھی تمام انسانی زندگیوں پر اعجاز و فوقیت رکھتا ہے، دوسری قسم کی مثالیں کتب سیر، کتب مغازی، کتب تاریخ، کتب دلائل اور کتب شمائل میں بکثرت ملیں گے، بلکہ یہ کتابیں تو آپ ہی کی عملی تفسیر پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں۔
- عہد صحابہ:
"حَدَّثَنَا الَّذِيْنَ كَانُوْا يَقْرَؤَوْنَ الْقُرَآنَ كَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَغَيْرِهِمَا أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا تَعَلَّمُوْا مِنَ النَّبِيِّﷺ عَشَرَ آيَاتِ لَمْ يَتَجَاوَزُوْهَا حَتَّى يَعْلَمُوْا مَافِيْهَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ"۔
''صحابہ میں سے جو قرآن کی تعلیم آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے حاصل کیا کرتے تھے،مثلاًعثمان بن عفان، عبد ﷲ بن مسعود وغیرہ انہوں نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ لوگ جب آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے دس آیتیں سیکھتے تو ان آیتوں سے آگے نہ بڑھتے جب تک ان آیتوں کی تمام علمی وعملی باتوں کو نہ جان لیتے''۔
''صحابہ میں سے جو قرآن کی تعلیم آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے حاصل کیا کرتے تھے،مثلاًعثمان بن عفان، عبد ﷲ بن مسعود وغیرہ انہوں نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ لوگ جب آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے دس آیتیں سیکھتے تو ان آیتوں سے آگے نہ بڑھتے جب تک ان آیتوں کی تمام علمی وعملی باتوں کو نہ جان لیتے''۔
یہ ہے حضرات صحابہ کا براہ راست آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے تعلیم وتربیت کا سیکھنا کہ جتنا سیکھتے اتنا عمل کا بھی اہتمام فرماتے شاید اسی وجہ سے مسند احمد میں انس کا یہ اثرمنقول ہے:
"كَانَ الرَّجُلُ إِذَاقَرَأ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ جَدَّ فِيْنَا"۔
''یعنی جب کوئی شخص سورۃ بقرہ وآل عمران کو پڑھ لیتا تووہ ہماری نظروں میں بہت ہی عزت والا سمجھا جاتا''۔
''یعنی جب کوئی شخص سورۃ بقرہ وآل عمران کو پڑھ لیتا تووہ ہماری نظروں میں بہت ہی عزت والا سمجھا جاتا''۔
اور موطا مالک کی روایت میں ہے:
"أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مَكَثَ عَلَى سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثَمَانِيَ سِنِينَ يَتَعَلَّمُهَا"۔
''عبد ﷲ ابنِ عمر کو سورۃ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے''۔
''عبد ﷲ ابنِ عمر کو سورۃ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے''۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ابن عمر اتنے کمزور ذہن والے تھے کہ سورۃ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے، جبکہ موجودہ دور میں کمزور سے کمزور طالب علم اتنے عرصہ سے کم میں پورا قرآن کریم حفظ کر لیتا ہے، دراصل بات یہ تھی کہ آٹھ سال کی مدت ابن عمر کو سورۃ بقرہ کے الفاظ اور اس کی تفسیر و تاویل اور اس کے متعلقات کے ساتھ حاصل کرنے میں لگی، اس کی تائید ابن مسعود کے اس اثر سے ہوتی ہے جس کو ابن کثیر نے نقل کیا ہے:
"والذي لا إله غيره، ما نزلت آية من، كتاب الله إلا وأنا أعلم فيمن نزلت؟ وأين نزلت؟ ولو أعلم أحد اأعلم بکتاب ﷲ منی تنالہ المطایا لاتیتہ"۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس بارے میں اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی شخص ایسی معلومات مجھ سے زیادہ رکھتا ہے اور سواریاں اس شخص تک پہونچاسکتی ہیں تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس بارے میں اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی شخص ایسی معلومات مجھ سے زیادہ رکھتا ہے اور سواریاں اس شخص تک پہونچاسکتی ہیں تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔
صحابہ کرام میں ایسے حضرات بھی موجود تھے جو احادیث کی روشنی میں قرآن مجید کی تفسیر کرتے تھے، جسے بعد میں ''تفسیر القرآن بالاحادیث'' کہہ کر تفسیر بالماثور کی دوسری قسم قرار دے دیا گیا۔ اور یہی حضرات اپنی آراء سے بھی تفسیر کرتے تھے جسے ''تفسیر القرآن باقوال صحابہ'' کا نام دیا گیا۔
- عہد تابعین:
اس معاملہ میں علامہ ابن کثیر نے بہت ہی معتدل بات لکھی ہے کہ: '' اگر کوئی تابعی کسی صحابی سے تفسیر نقل کر رہے ہوں تو اس کا حکم صحابی کی تفسیر جیسا ہوگا اور اگر خود تابعی اپنا قول بیان کریں تو دیکھا جائے گا کہ دوسرے کسی تابعی کا قول ان کے خلاف تو نہیں اگر خلاف میں کوئی قول ہو تو پھر اس تابعی کے قول کو حجت نہیں قرار دیا جائےگا، بلکہ ایسی آیات کی تفسیر کے لیے قرآن کی دوسری آیتیں احادیث نبویہ آثارصحابہ اور لغت عرب جیسے دوسرے دلائل پر غور کرکے فیصلہ کیا جائےگا، ہاں اگر تابعین کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہو تو ان کے تفسیری اقوال کو بلاشبہ حجت اورواجب الاتباع قرار دیا جائے گا''۔ یہی اضافہ بعد میں تفسیر بالماثور کی ایک مستقل قسم کا سبب بنا جسے ''تفسیر القرآن باقوال التابعین'' کا نام دیا گیا۔
- عہد تبع تابعین:
اس کو ''تفسیرالقرآن باقوال تبع تابعین'' کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کو تفسیر بالماثور کی بجاۓ تفسیر بالراۓ کی قسم میں شمار کیا جاتا ہے۔