تفسیر بالرائے کا مفہوم:
تفسیر بالرائے، اسے تفسیر بالدرایۃ یا تفسیر بالعقل یا تفسیر بالاجتھاد بھی کہتے ہیں۔ اس کا اطلاق قرآن پاک کی ان آیات پر ہوتا ہے جس میں مفسر کی ذاتی اجتھاد کا عمل دخل ہو۔ اجتھاد کرنے والے کو مجتہد کہتے ہیں۔
تفسیر بالرائے کا حکم:
علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ: ''بعض غلو پسند لوگوں نے اس حدیث سے یہ مطلب سمجھا کہ قرآن کریم کے بارے میں کوئی بات فکر و رائے کی بنیا دپر کہنا جائز نہیں، یہاں تک کہ اجتھاد کے ذریعے قرآن کریم سے ایسے معانی بھی مستنبط نہیں کیے جاسکتے جو اصول شرعیہ کے مطابق ہوں، لیکن یہ خیال درست نہیں، کیونکہ خود قرآن کریم نے تدبر اور استنباط کو جا بجا مستحسن قرار دیا ہے اور اگر فکر و تدبر پر بالکل پابندی لگا دی جائے تو قرآن وسنت سے شرعی احکام و قوانین مستنبط کرنے کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا، لہٰذا اس حدیث کا مطلب ہر قسم کی رائے پر پابندی لگانا نہیں ہے''۔
جو شخص قرآن کریم کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ البتہ تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر میں کسی ایسی رائے کا اظہار کیا جائے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہے، البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن و سنت کے وسیع وعمیق علم اور اسلامی علوم میں مہارت کے بغیر ممکن نہیں اور علماء نے اس کے لیے بھی کچھ کارآمد اصول مقرر فرمائے ہیں جو اصول فقہ اور اصول تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کا ایک نہایت مفید خلاصہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ ﷲ نے اپنی کتاب "البرہان فی علوم القرآن'' کی نوع 41 میں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان (صفحہ:164۔ 170)بیان فرمایا ہے، یہ پوری بحث نہایت قابل قدر ہے۔ لیکن چونکہ عربی زبان و علوم کی مہارت کے بغیر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ،اس لیے اس کا ترجمہ یہاں نقل کرنا بے فائدہ ہے۔
مفسر کے لیے ضروری علوم:
تفسیر قرآن مجید نہایت عظیم، اہم اور حساس کام ہے۔ دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں جس کی انجام دہی کیلئے کچھ ضروری مہارت اور بنیادی علوم کو جاننا ضروری نہ ہو۔ طبابت کا شعبہ ہو یا انجینئرنگ کا، تجارت ہو یا صنعت و حرفت کا شعبہ، کسی بھی جگہ اصول و ضوابط کی پابندی اور کچھ پیشگی مہارت کے بغیر کوئی کام بھی ممکن نہیں ہے۔ تفسیر کیلئے بھی علماء نے کچھ علوم میں مہارت کو لازمی قراردیا ہے۔
اس سلسلے میں علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے بنیادی علوم کا ذکر کیا ہے جو ایک مفسر کیلئے ضروری ہیں اور کسی شخص کو ان علوم میں مہارت حاصل کیے بغیر تفسیرِ قرآن جیسے اہم کام کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔ علامہ سیوطیؒ کے بیان کردہ علوم یہ ہیں۔
امام بیہقی ؒ نے اپنی کتاب" شعب الایمان"میں امام مالکؒ کا قول نقل کیا ہے:
"میں ایسے شخص کو ضرور سزا دوں گا اگر وہ میرے پاس لایا جائے کہ وہ عربی زبان جانے بغیر قرآن کی تفسیر کرے"۔
علامہ سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ: ''مفسر کیلئے عربی زبان جاننا ضروری ہے کیونکہ اسی سے مفرد الفاظ اور الفاظ، جن پہلوؤں پر دلالت کرتے ہیں ،ان کا علم ہوتا ہے''۔
علامہ زرکشی ؒ نے امام احمد بن حنبل ؒ کے بارے میں روایت کی ہے کہ: ''وہ اس بات کو نا پسند اور مکروہ قرار دیتے ہیں کہ عربی زبان جانے بغیر تفسیر کرے''۔
تفسیر کرنے والے کیلئے محض لغتِ عربیہ سے شناسائی اور کچھ چیزوں کا جاننا ہی کافی نہیں بلکہ اس کیلئے مہارت تامہ درکار ہے۔ قرآن کی زبان کی عظمت اور بلندی کا حساب لگانے کیلئے تو سینکڑوں ماہرین نے اپنی صلاحیتوں کے اظہار میں اپنی زندگیاں وقف کر دیں لیکن یہ دعویٰ نہیں کر پائے کہ انہوں نے قرآن کی لسانیاتی عظمت کو پا لیا ہے۔ وہ جس قدر گہرائی میں گئے قرآن سے نئے نئے گوہر نایاب اور لسانیاتی عظمت کے نشانات حاصل کرتے چلے گئے۔
قرآن مجید عربی زبان میں ہے۔ قرآن مجید فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اس قدر بلند مقام رکھتا ہے کہ اس جیسا کلام تیار کرنا انسانی بس کی بات نہیں۔ چودہ سو برس کے ماہرین لسان نے قرآن کی زبان کی عظمت کا اقرار کیا ہے۔ قرآن کی زبان کی عظمت ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ کوئی شخص محض لغات کی مدد سے چند الفاظ کے معنیجاننے کے بعد یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ عربی زبان سے آگاہ ہے، اور قرآن کی تفسیر کرنے لگے، یہ صورت جائز بھی نہیں اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ یہ بات بالکل بدیہی اور واضح ہے کہ قرآن چونکہ اعلیٰ درجہ کی عربی میں ہے، قرآن مجید کی مہارت بھی اعلیٰ درجہ کی ہونی ضروری ہے۔ مفسر عربی مہاورات، مترادفات کو بخوبی سمجھتا ہو۔
اسکی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ زبر، زیر اور پیش کے فرق سے معنی میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ قرآن مجید کے آخر میں بعض نسخوں میں اُن مقامات کی فہرست بھی دی گئی ہوتی ہے اگر ان مقامات پر اعراب میں غلطی سرزد ہو جائے تو معنی کفر تک پہنچ جاتا ہے۔
مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس سلسلے میں موجود تمام اختلافی بحثوں کی حقیقت سے آگاہ ہو جو قرآن میں نسخ کی موجودگی یا عدم موجودگی کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔ علماء کرام کے ہاں نقطہ نگاہ یہ بھی ہے کہ قرآن میں نسخ موجود نہیں، اور جن لوگوں نے بعض آیات کو منسوخ قرار دیا ہے وہ منسوخ نہیں۔ دراصل ان کے اطلاق کے حالات اب موجود نہیں۔ اگر قیامت تک کسی دور میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو ان کا اطلاق ممکن ہو گا۔ گویا علماء میں نسخ کی موجودگی میں بھی اختلاف ہے۔ پھر ان آیات کی تعیین میں بھی فرق ہے۔ کسی کے نزدیک کچھ آیات منسوخ ہیں، جبکہ دوسروں کے نزدیک کچھ دوسری آیات منسوخ ہیں۔ مفسر کیلئے اس موضوع پر مکمل دسترس رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ تفسیر پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
اس حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد ہے:
تفسیر بالرائے، اسے تفسیر بالدرایۃ یا تفسیر بالعقل یا تفسیر بالاجتھاد بھی کہتے ہیں۔ اس کا اطلاق قرآن پاک کی ان آیات پر ہوتا ہے جس میں مفسر کی ذاتی اجتھاد کا عمل دخل ہو۔ اجتھاد کرنے والے کو مجتہد کہتے ہیں۔
تفسیر بالرائے کا حکم:
"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"
جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ "مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ"
جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔
جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ "مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ"
جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔
علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ: ''بعض غلو پسند لوگوں نے اس حدیث سے یہ مطلب سمجھا کہ قرآن کریم کے بارے میں کوئی بات فکر و رائے کی بنیا دپر کہنا جائز نہیں، یہاں تک کہ اجتھاد کے ذریعے قرآن کریم سے ایسے معانی بھی مستنبط نہیں کیے جاسکتے جو اصول شرعیہ کے مطابق ہوں، لیکن یہ خیال درست نہیں، کیونکہ خود قرآن کریم نے تدبر اور استنباط کو جا بجا مستحسن قرار دیا ہے اور اگر فکر و تدبر پر بالکل پابندی لگا دی جائے تو قرآن وسنت سے شرعی احکام و قوانین مستنبط کرنے کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا، لہٰذا اس حدیث کا مطلب ہر قسم کی رائے پر پابندی لگانا نہیں ہے''۔
جو شخص قرآن کریم کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ البتہ تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر میں کسی ایسی رائے کا اظہار کیا جائے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہے، البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن و سنت کے وسیع وعمیق علم اور اسلامی علوم میں مہارت کے بغیر ممکن نہیں اور علماء نے اس کے لیے بھی کچھ کارآمد اصول مقرر فرمائے ہیں جو اصول فقہ اور اصول تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کا ایک نہایت مفید خلاصہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ ﷲ نے اپنی کتاب "البرہان فی علوم القرآن'' کی نوع 41 میں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان (صفحہ:164۔ 170)بیان فرمایا ہے، یہ پوری بحث نہایت قابل قدر ہے۔ لیکن چونکہ عربی زبان و علوم کی مہارت کے بغیر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ،اس لیے اس کا ترجمہ یہاں نقل کرنا بے فائدہ ہے۔
مفسر کے لیے ضروری علوم:
تفسیر قرآن مجید نہایت عظیم، اہم اور حساس کام ہے۔ دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں جس کی انجام دہی کیلئے کچھ ضروری مہارت اور بنیادی علوم کو جاننا ضروری نہ ہو۔ طبابت کا شعبہ ہو یا انجینئرنگ کا، تجارت ہو یا صنعت و حرفت کا شعبہ، کسی بھی جگہ اصول و ضوابط کی پابندی اور کچھ پیشگی مہارت کے بغیر کوئی کام بھی ممکن نہیں ہے۔ تفسیر کیلئے بھی علماء نے کچھ علوم میں مہارت کو لازمی قراردیا ہے۔
اس سلسلے میں علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے بنیادی علوم کا ذکر کیا ہے جو ایک مفسر کیلئے ضروری ہیں اور کسی شخص کو ان علوم میں مہارت حاصل کیے بغیر تفسیرِ قرآن جیسے اہم کام کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔ علامہ سیوطیؒ کے بیان کردہ علوم یہ ہیں۔
- عربی زبان میں مہارت:۔
امام بیہقی ؒ نے اپنی کتاب" شعب الایمان"میں امام مالکؒ کا قول نقل کیا ہے:
"میں ایسے شخص کو ضرور سزا دوں گا اگر وہ میرے پاس لایا جائے کہ وہ عربی زبان جانے بغیر قرآن کی تفسیر کرے"۔
علامہ سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ: ''مفسر کیلئے عربی زبان جاننا ضروری ہے کیونکہ اسی سے مفرد الفاظ اور الفاظ، جن پہلوؤں پر دلالت کرتے ہیں ،ان کا علم ہوتا ہے''۔
علامہ زرکشی ؒ نے امام احمد بن حنبل ؒ کے بارے میں روایت کی ہے کہ: ''وہ اس بات کو نا پسند اور مکروہ قرار دیتے ہیں کہ عربی زبان جانے بغیر تفسیر کرے''۔
تفسیر کرنے والے کیلئے محض لغتِ عربیہ سے شناسائی اور کچھ چیزوں کا جاننا ہی کافی نہیں بلکہ اس کیلئے مہارت تامہ درکار ہے۔ قرآن کی زبان کی عظمت اور بلندی کا حساب لگانے کیلئے تو سینکڑوں ماہرین نے اپنی صلاحیتوں کے اظہار میں اپنی زندگیاں وقف کر دیں لیکن یہ دعویٰ نہیں کر پائے کہ انہوں نے قرآن کی لسانیاتی عظمت کو پا لیا ہے۔ وہ جس قدر گہرائی میں گئے قرآن سے نئے نئے گوہر نایاب اور لسانیاتی عظمت کے نشانات حاصل کرتے چلے گئے۔
قرآن مجید عربی زبان میں ہے۔ قرآن مجید فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اس قدر بلند مقام رکھتا ہے کہ اس جیسا کلام تیار کرنا انسانی بس کی بات نہیں۔ چودہ سو برس کے ماہرین لسان نے قرآن کی زبان کی عظمت کا اقرار کیا ہے۔ قرآن کی زبان کی عظمت ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ کوئی شخص محض لغات کی مدد سے چند الفاظ کے معنیجاننے کے بعد یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ عربی زبان سے آگاہ ہے، اور قرآن کی تفسیر کرنے لگے، یہ صورت جائز بھی نہیں اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ یہ بات بالکل بدیہی اور واضح ہے کہ قرآن چونکہ اعلیٰ درجہ کی عربی میں ہے، قرآن مجید کی مہارت بھی اعلیٰ درجہ کی ہونی ضروری ہے۔ مفسر عربی مہاورات، مترادفات کو بخوبی سمجھتا ہو۔
- علم ِنحو:۔
اسکی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ زبر، زیر اور پیش کے فرق سے معنی میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ قرآن مجید کے آخر میں بعض نسخوں میں اُن مقامات کی فہرست بھی دی گئی ہوتی ہے اگر ان مقامات پر اعراب میں غلطی سرزد ہو جائے تو معنی کفر تک پہنچ جاتا ہے۔
- علم الصرف:۔
- محکم متشابہات کا علم:۔
- علم الاشتقاق:۔
- علم معانی، علم البیان، علم البدیع:۔
- غریب القرآن کی معرفت:۔
- علم اصول الدین:۔
- اصول فقہ سے آگاہی:۔
- علم ِ اسباب النُّزول و القصص:۔
- اسلوبِ قرآن کی معرفت :۔
- نسخ فی القرآن کی معرفت:۔
مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس سلسلے میں موجود تمام اختلافی بحثوں کی حقیقت سے آگاہ ہو جو قرآن میں نسخ کی موجودگی یا عدم موجودگی کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔ علماء کرام کے ہاں نقطہ نگاہ یہ بھی ہے کہ قرآن میں نسخ موجود نہیں، اور جن لوگوں نے بعض آیات کو منسوخ قرار دیا ہے وہ منسوخ نہیں۔ دراصل ان کے اطلاق کے حالات اب موجود نہیں۔ اگر قیامت تک کسی دور میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو ان کا اطلاق ممکن ہو گا۔ گویا علماء میں نسخ کی موجودگی میں بھی اختلاف ہے۔ پھر ان آیات کی تعیین میں بھی فرق ہے۔ کسی کے نزدیک کچھ آیات منسوخ ہیں، جبکہ دوسروں کے نزدیک کچھ دوسری آیات منسوخ ہیں۔ مفسر کیلئے اس موضوع پر مکمل دسترس رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ تفسیر پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
- علم الحدیث:۔
- علم الکلام اور علم الادیان سے آگاہی:۔
- علم الموھبہ:۔
اس حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد ہے:
یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّؤْتِ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوْتِیَ خَیْراً کَثِیراً(البقرۃ ۲،۲۶۹)
وہ(ﷲ تعالیٰ) جسے چاہتا ہے حکمت عطا کردیتا ہے۔ اور جس کووہ حکمت عطا کردے تو گویا اس کو خیر کثیر عطا کر دی گئی۔
وہ(ﷲ تعالیٰ) جسے چاہتا ہے حکمت عطا کردیتا ہے۔ اور جس کووہ حکمت عطا کردے تو گویا اس کو خیر کثیر عطا کر دی گئی۔
- گزشتہ قوموں کے حالات سے آگاہی:۔