تفسیر بالرائے اور مفسر کے لئے ضروری علوم

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
تفسیر بالرائے کا مفہوم:

تفسیر بالرائے، اسے تفسیر بالدرایۃ یا تفسیر بالعقل یا تفسیر بالاجتھاد بھی کہتے ہیں۔ اس کا اطلاق قرآن پاک کی ان آیات پر ہوتا ہے جس میں مفسر کی ذاتی اجتھاد کا عمل دخل ہو۔ اجتھاد کرنے والے کو مجتہد کہتے ہیں۔

تفسیر بالرائے کا حکم:

"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"

جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ "مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ"

جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔

علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ: ''بعض غلو پسند لوگوں نے اس حدیث سے یہ مطلب سمجھا کہ قرآن کریم کے بارے میں کوئی بات فکر و رائے کی بنیا دپر کہنا جائز نہیں، یہاں تک کہ اجتھاد کے ذریعے قرآن کریم سے ایسے معانی بھی مستنبط نہیں کیے جاسکتے جو اصول شرعیہ کے مطابق ہوں، لیکن یہ خیال درست نہیں، کیونکہ خود قرآن کریم نے تدبر اور استنباط کو جا بجا مستحسن قرار دیا ہے اور اگر فکر و تدبر پر بالکل پابندی لگا دی جائے تو قرآن وسنت سے شرعی احکام و قوانین مستنبط کرنے کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا، لہٰذا اس حدیث کا مطلب ہر قسم کی رائے پر پابندی لگانا نہیں ہے''۔

جو شخص قرآن کریم کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ البتہ تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر میں کسی ایسی رائے کا اظہار کیا جائے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہے، البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن و سنت کے وسیع وعمیق علم اور اسلامی علوم میں مہارت کے بغیر ممکن نہیں اور علماء نے اس کے لیے بھی کچھ کارآمد اصول مقرر فرمائے ہیں جو اصول فقہ اور اصول تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کا ایک نہایت مفید خلاصہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ ﷲ نے اپنی کتاب "البرہان فی علوم القرآن'' کی نوع 41 میں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان (صفحہ:164۔ 170)بیان فرمایا ہے، یہ پوری بحث نہایت قابل قدر ہے۔ لیکن چونکہ عربی زبان و علوم کی مہارت کے بغیر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ،اس لیے اس کا ترجمہ یہاں نقل کرنا بے فائدہ ہے۔

مفسر کے لیے ضروری علوم:

تفسیر قرآن مجید نہایت عظیم، اہم اور حساس کام ہے۔ دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں جس کی انجام دہی کیلئے کچھ ضروری مہارت اور بنیادی علوم کو جاننا ضروری نہ ہو۔ طبابت کا شعبہ ہو یا انجینئرنگ کا، تجارت ہو یا صنعت و حرفت کا شعبہ، کسی بھی جگہ اصول و ضوابط کی پابندی اور کچھ پیشگی مہارت کے بغیر کوئی کام بھی ممکن نہیں ہے۔ تفسیر کیلئے بھی علماء نے کچھ علوم میں مہارت کو لازمی قراردیا ہے۔

اس سلسلے میں علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے بنیادی علوم کا ذکر کیا ہے جو ایک مفسر کیلئے ضروری ہیں اور کسی شخص کو ان علوم میں مہارت حاصل کیے بغیر تفسیرِ قرآن جیسے اہم کام کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔ علامہ سیوطیؒ کے بیان کردہ علوم یہ ہیں۔

  • عربی زبان میں مہارت:۔
مجاہد ؒ سے منقول ہے کہ: ''کسی ایسے شخص کیلئے جو ﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان رکھتا ہو ،یہ حلال نہیں کہ کتاب ﷲ کے بارے میں لب کشائی کرے تا وقت یہ کہ وہ لغت عربیہ کا ماہر نہ ہو''۔

امام بیہقی ؒ نے اپنی کتاب" شعب الایمان"میں امام مالکؒ کا قول نقل کیا ہے:

"میں ایسے شخص کو ضرور سزا دوں گا اگر وہ میرے پاس لایا جائے کہ وہ عربی زبان جانے بغیر قرآن کی تفسیر کرے"۔

علامہ سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ: ''مفسر کیلئے عربی زبان جاننا ضروری ہے کیونکہ اسی سے مفرد الفاظ اور الفاظ، جن پہلوؤں پر دلالت کرتے ہیں ،ان کا علم ہوتا ہے''۔

علامہ زرکشی ؒ نے امام احمد بن حنبل ؒ کے بارے میں روایت کی ہے کہ: ''وہ اس بات کو نا پسند اور مکروہ قرار دیتے ہیں کہ عربی زبان جانے بغیر تفسیر کرے''۔

تفسیر کرنے والے کیلئے محض لغتِ عربیہ سے شناسائی اور کچھ چیزوں کا جاننا ہی کافی نہیں بلکہ اس کیلئے مہارت تامہ درکار ہے۔ قرآن کی زبان کی عظمت اور بلندی کا حساب لگانے کیلئے تو سینکڑوں ماہرین نے اپنی صلاحیتوں کے اظہار میں اپنی زندگیاں وقف کر دیں لیکن یہ دعویٰ نہیں کر پائے کہ انہوں نے قرآن کی لسانیاتی عظمت کو پا لیا ہے۔ وہ جس قدر گہرائی میں گئے قرآن سے نئے نئے گوہر نایاب اور لسانیاتی عظمت کے نشانات حاصل کرتے چلے گئے۔

قرآن مجید عربی زبان میں ہے۔ قرآن مجید فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اس قدر بلند مقام رکھتا ہے کہ اس جیسا کلام تیار کرنا انسانی بس کی بات نہیں۔ چودہ سو برس کے ماہرین لسان نے قرآن کی زبان کی عظمت کا اقرار کیا ہے۔ قرآن کی زبان کی عظمت ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ کوئی شخص محض لغات کی مدد سے چند الفاظ کے معنیجاننے کے بعد یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ عربی زبان سے آگاہ ہے، اور قرآن کی تفسیر کرنے لگے، یہ صورت جائز بھی نہیں اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ یہ بات بالکل بدیہی اور واضح ہے کہ قرآن چونکہ اعلیٰ درجہ کی عربی میں ہے، قرآن مجید کی مہارت بھی اعلیٰ درجہ کی ہونی ضروری ہے۔ مفسر عربی مہاورات، مترادفات کو بخوبی سمجھتا ہو۔

  • علم ِنحو:۔
نحو وہ علم ہے جو الفاظ و کلمات کے اعراب سے تعلق رکھتا ہے۔ معانی کا مدار اعراب پر ہوتا ہے۔ زبر،زیر، پیش کے فرق سے معانی میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص "وَعَصٰی اٰدَمُ رَبَّہٗ " میں " اٰدَمَ " فتح کے ساتھ ،اور "رَبُّہٗ" رفع کے ساتھ پڑھے تو معانی فاسد اور لغو ہو جائیں گے۔ اس فرق سے آیت میں مذکور مضمون حضرت آدم کی لغزش کی بجائے ﷲ کی خطا اور غلطی بن جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص "إِنَّ ﷲ بَرِیْئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہٗ" کو لام کے کسرہ کے ساتھ ادا کرے تو معنی فاسد ہو جائے گا۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ"ﷲ اور اس کا رسول مشرکین سے بری ہیں''۔ لیکن" وَرَسُوْلِہٖ" پڑھنے سے ترجمہ یوں بن جائے گا کہ ﷲ تعالیٰ مشرکین سے اور اپنے رسول سے بری ہے۔ اور اسی طرح سورہ الفاتحہ میں "أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ" میں "أَنْعَمْتُ عَلَیْھِمْ" پڑھا جائے تو معنی الٹ ہو جائے گا۔

اسکی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ زبر، زیر اور پیش کے فرق سے معنی میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ قرآن مجید کے آخر میں بعض نسخوں میں اُن مقامات کی فہرست بھی دی گئی ہوتی ہے اگر ان مقامات پر اعراب میں غلطی سرزد ہو جائے تو معنی کفر تک پہنچ جاتا ہے۔

  • علم الصرف:۔
علم صرف الفاظ اور فقرات بنانے کا علم ہے۔ ترجمہ کیلئے یہ جانناضروری ہے کہ کوئی کلمہ کونسا صیغہ ہے، بغیر اس کےتو اس وقت تک اس کا درست معنی کیا ہی نہیں جا سکتا۔ عربی زبان میں علم الصرف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور مفسر کیلئے اس علم کا جاننا ناگزیر ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ علم تشریح الاعضاء کا علم جانے بغیر کوئی شخص مریض کا آپریشن کرنا شروع کر دے۔

  • محکم متشابہات کا علم:۔
سورہ الزمر کی آیت نمبر ۲۳ میں فرمایا کہ قرآن کی آیات اپنے مضامین کے اعتبار سے ایک دوسری سے ملتی جلتی اور ہم مضمون ہیں۔ اور قرآن کی بہترین اور اعلیٰ تفسیر یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن کی روشنی میں کی جائے۔ لہٰذا مفسر کیلئے ضروری ہے کہ اسے قرآنی مضامین پر اس اعتبار سے دسترس حاصل ہو کہ کسی آیت کی دیگر ہم مضمون آیات کون کونسی ہیں۔ ان تمام آیات کے اندر بیان کردہ کسی مضمون کے تمام پہلوؤں کے مجموعی مطالعہ کے بعد ہی کسی مضمون پر قرآن مجید کے نقطہ نگاہ کا پتہ چلے گا۔

  • علم الاشتقاق:۔
کسی مادے سے الفاظ تشکیل دینا علم الاشتقاق کہلاتا ہے۔ بعض اوقات دو الفاظ کی صورت یکساں ہوتی ہے، لیکن مادہ کے اختلاف کی وجہ سے معنی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ مثلاً لفظ مسیح"سیاحت" یعنی سیر سے بھی مشتق ہو سکتا ہے اور "مسح" سے بھی مفعول کا صیغہ ہو سکتا ہے جسکا معنی "ملاہوا" ،"مسح کیا ہوا" کے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ لفظ مسیح کا معنی متعین کرنے کیلئے اصل مادہ کا معلوم اور متعین ہونا ضروری ہے۔

  • علم معانی، علم البیان، علم البدیع:۔
ان تین علوم کا تعلق کسی کلام کے لسانی محاسن کے ساتھ ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے لسانی محاسن جاننے کیلئے ان علوم کا جاننا نہایت ضروری ہے۔ قرآن مجید میں جا بجا استعارات ،کنایات،تشبیہات اور فصاحت و بلاغت کے حوالے سے بہت سی بلیغ و بلند پایا مثالیں موجود ہیں۔ قرآن میں حقیقت و مجاز کا استعمال بھی بہت سے مقامات پر کیا گیا ہے۔ یہ نکات قرآن مجید کے اعجاز کی وجوہ ہیں۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اس کی لسانی عظمت کو ماہر عربی ہی جان سکتا ہے۔ محض عربی زبان سے واقفیت ہی قرآن کے اعجاز کو سمجھنے کیلئے کافی نہیں۔ بلکہ اس میں گہری مہارت درکار ہے۔

  • غریب القرآن کی معرفت:۔
غریب القرآن سے مراد وہ الفاظ ہیں جو قرآن میں عام معنی سے ہٹ کر مخصوص معنی میں استعمال ہوئے یا یہ الفاظ عربی میں بہت شاذ و نادر استعمال ہوتے ہیں۔ اور ہر شخص ان معانی سے واقف نہیں ہوتا۔ ان الفاظ کے مستند معانی معلوم کرنے کیلئے مخصوص ذرائع ہیں۔ شاہ ولی ﷲ نے پانچ ایسے ذرائع بیان کیے ہیں ،جن سے معلوم ہونے والے غریب الفاظ کے معانی معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ ہر کسی کو ان الفاظ کے معانی کے پیچھے پڑنے کی اجازت نہیں۔ حضرت عمر نے ایسے شخص کو سزادی تھی جو محض اپنے علم کے اظہار کیلئے لوگوں کو جمع کر کے غریب الفاظ کے معانی بیان کرتا تھا۔ غریب الفاظ کے معتبر معانی جانے بغیر تفسیر کرنے سے تفسیر میں لوگوں کی من مانی تشریحات شامل ہو جائیں گی اور قر آن تفسیر کرنے والوں کی ذاتی آماجگاہ بن جائے گا۔

  • علم اصول الدین:۔
قرآن مجید میں مختلف مسائل کےبیان کے مختلف اسالیب ہیں۔ کونسی چیز حلال ہے کونسی حرام، کونسی چیز مکروہ ہے، کونسی مستحب اور مباح، اس کا فیصلہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اصولی احکام دیے گئے ہیں انکی مزید وضاحت اور ان کی حیثیت اور مقام کو جاننے کیلئے پہلے تو مفسر کیلئے ضروری ہے پورا قرآن مجید مکمل طور پر اس کی نگاہ میں ہو۔ اسباب نزول اور سیاق و سباق آیات بھی کسی جگہ بیان شدہ حکم کی حیثیت کا تعین کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اسکے بعد حدیث نبوی ﷺ کے عظیم الشان ذخیرہ اور اس ذخیرہ میں سے معتبر اور ثقہ احادیث سے استفادہ کرنا، اگر کسی حدیث میں کوئی ضعف ہو تو یہ ضعف کس طرح دور کیا جا سکتا ہے۔ اصول الدین ایک مستقل شعبہ ہے۔ استنباط مسائل کا عمل ان اصولو ں کو جانے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو پھر دین کے انحراف اور من پسند استنباطات کے دروازے کھل جائیں گے۔ قرآن سے ہر کوئی اپنے مقصد کے تحت نتائج حاصل کرے گا۔ قرآن اختلافات کا شکار ہو جائے گا۔

  • اصول فقہ سے آگاہی:۔
مفسر کیلئے ضروری علوم میں اصول فقہ کے علم سے آگاہی کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اصول الدین اور اصول فقہ کو بیک وقت ذہن میں رکھ کر مسائل کا استنباط کیا جاتا ہے۔ یہی چیز اجتھاد کی بنیاد ہوتی ہے۔ ہر مجتہد کے کچھ اصول ِاجتھاد ہوتے ہیں۔ اور وہ دوران اجتھاد ان اصولوں سے انحراف نہیں کر تا۔ اجتھاد کا علم اصول فقہ کے گرد بھی گھومتا ہے۔

  • علم ِ اسباب النُّزول و القصص:۔
اسباب نزول وہ پس منظر ہے جس کے تناظر میں کوئی آیت نازل ہوئی تھی۔ جب کسی آیت کے نزول کا محرک اور پس منظر معلوم ہو تو تبھی اس آیت میں بیان شدہ تمام پہلوؤں کی وضاحت ہوتی ہے۔ بہت سے مواقع پر آیت سے جو معنی ظاہر ہو رہا ہوتا ہے اس میں بیان شدہ اصل مضمون مختلف ہوتا ہے۔ آیت کا سببِ نزول اصل تفسیر کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ بعض اوقات سبب ِنزول کے بغیر بظاہر تفسیر نظر آرہی ہوتی ہے لیکن حقیقی تفسیر سببِ نزول سے معلوم ہوتی ہے۔ بعض اوقات کسی آیت میں کسی اچھے کام کے کرنے والے اور اس کے اجر کا ذکر ہوتا ہے، یا کسی برے کام اور اس کے برے انجام کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن سببِ نزول متعین طور پر بتا دیتا ہے کہ اس اچھے یا برے کام کا اصل مصداق کون شخص ہے۔ اس کے علاوہ بھی تفسیر کی کئی ایسی شکلیں ہیں جن کی وضاحت سببِ نزول کی مدد سے ہی ہوتی ہے۔ شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی نے بھی انہی اسباب کی بناء پر فرمایا ہے کہ مفسر کیلئے کسی آیت سے متعلق سببِ نزول کی تمام روایات کا جاننا ضروری ہے۔ سببِ نزول آیت کو مضمون کی اطلاقی پہلوؤں سے مختلف جہتوں کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے۔

  • اسلوبِ قرآن کی معرفت :۔
قرآن مجید کا اسلوب ایک منفرد نوعیت کا ہے۔ اس اسلوب کی حقیقت کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو قرآن پر مجموعی طور پر گہری نگاہ رکھتا ہو، اور وہ قرآن کے مزاج سے گہری آگاہی رکھتا ہو قرآن کا کسی حکم کے بیان میں انداز بیاں اس کا تعین کرتا ہے۔ کہ یہاں کوئی عمل فرض ہے، واجب ہے یا مستحب۔ اسی طرح ممنوعہ امور کے بیان میں قرآن کا پیرایہ اس کا تعین کرتا ہے یہ کام حرام ہے یا مکروہ اسکی مثال اسلامی حدود و قصاص کا حکم ہے۔

  • نسخ فی القرآن کی معرفت:۔
مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید کی ناسخ و منسوخ آیات کے بارے میں بھی مکمل دسترس رکھتا ہو۔ اس صلاحیت کے بغیر اگر کوئی تفسیر کرے گا تو ہو سکتا ہے کہ وہ ناسخ آیت کو منسوخ سمجھ لے یا منسوخ آیت کو ناسخ سمجھ کر تفسیر کرنے لگے۔ وہ منسوخ آیت کو محکم سمجھ بیٹھے۔ یا کسی محکم آیت کے بارے میں کہ دے کہ میں اسے منسوخ سمجھتا ہوں۔ اس طرح قرآن کی آیات سے انحراف کی راہیں کھل جائیں گی۔

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس سلسلے میں موجود تمام اختلافی بحثوں کی حقیقت سے آگاہ ہو جو قرآن میں نسخ کی موجودگی یا عدم موجودگی کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔ علماء کرام کے ہاں نقطہ نگاہ یہ بھی ہے کہ قرآن میں نسخ موجود نہیں، اور جن لوگوں نے بعض آیات کو منسوخ قرار دیا ہے وہ منسوخ نہیں۔ دراصل ان کے اطلاق کے حالات اب موجود نہیں۔ اگر قیامت تک کسی دور میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو ان کا اطلاق ممکن ہو گا۔ گویا علماء میں نسخ کی موجودگی میں بھی اختلاف ہے۔ پھر ان آیات کی تعیین میں بھی فرق ہے۔ کسی کے نزدیک کچھ آیات منسوخ ہیں، جبکہ دوسروں کے نزدیک کچھ دوسری آیات منسوخ ہیں۔ مفسر کیلئے اس موضوع پر مکمل دسترس رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ تفسیر پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

  • علم الحدیث:۔
حدیث قرآنِ مجید کی تفسیر کا دوسرا بنیادی مأخذ ہے۔ بلکہ قرآنِ مجید کے معنی کی حفاظت کے سلسلہ میں حدیث کی مسلمہ حقیقت ہے۔ احادیث میں ہر طرح کی احادیث موجود ہیں اور محدثین نے انکی درجہ بندی اور ہر حدیث کے بارے میں فیصلہ کر دیا ہوا ہے کہ ثقافت و اعتبار کے حوالے سے کس درجہ میں ہے۔ اور اگر اس میں کوئی ضعف پایا جاتا ہے تو اس ضعف کا سبب کیا ہے۔ کیا اس سبب کو دوسرے ذرائع سے دور کیا جا سکتا ہے، مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ محدثین کے کسی بھی حدیث کے بارے میں فیصلے سے آگاہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کمزور اور موضوع روایات سے استدلا ل کرتا پھرے۔ ماضی میں ایسا ہوا کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے اپنے اپنے نقطہ نگاہ کی تائید میں کمزور روایات سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوششیں کیں۔ کوئی بدنیت شخص کسی معتبر ثقہ روایت کو اس لیے چھوڑ دے کہ میرے نزدیک یہ معتبر نہیں ہے اور وہ غیر معتبر کو اپنے نقطہ نگاہ کی تائید کیلئے استعمال کرنے لگے۔

  • علم الکلام اور علم الادیان سے آگاہی:۔
درست عقائد کے اثبات اور غلط عقائد کے رد کے دلائل سے جو علم بحث کرتا ہے اسے علم الکلام کہتے ہیں۔ قرآن کے بنیادی مضامین میں عقائد (توحید،رسالت،ملائکہ،کتابیں،آخرت)بھی شامل ہیں۔ علمِ مخاصمہ میں بھی بنیادی طور پر درست عقائد کے اثبات اور باطل عقائد کا رد کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مفسّر کیلئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کے اس موضوع کے بیان میں اس کے اسلوبِ استدلال سے مکمل آگاہی حاصل کرے ورنہ اثبات و ابطال عقائد میں قرآن کے زورِبیان اور زورِ استدلال سے آگاہی حاصل نہ ہو گی۔ اگر کوئی شخص آج کے دور میں تفسیر کرتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ عقائد کے بارے میں قرآنی دلائل کے علم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تاریخ میں فکری کشاکش اور مختلف گروہوں کے عقائد و دلائل سے آگاہ ہو۔ قرآن مشرکین سے بحث کرتے ہوئے انکی جہالت و گمراہی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بالکل سادہ اور عام فہم دلائل پیش کرتا ہے۔ یہود کے عقائد اور ان کے طرزِ عمل میں دلائل کا رنگ اور ہے۔ نصاریٰ سے بات کرتے ہوئے انکے ساتھ پہلے دونوں مذاہب سے مختلف رویہ اختیار کرتا ہے۔ اس فرق کو جاننا مفسر کیلئے ضروری ہے۔ اس فرق کا اگر مشاہدہ کرنا ہو تو مشرکین کے حوالے سے سورۃ الانعام اور سورۃ النحل کا مطالعہ سب سے زیادہ مفید ہوگا۔ یہود کی مذمت کے حوالے سے سورۃ المائدہ اور سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران میں سب سے زیادہ مواد موجود ہے۔ نصاریٰ سے مخاصمہ کیلئے سورۃ آل عمران دلائل کا شاہکار ہے۔ منافقین کے طرزِ عمل کی مذمت دیکھنی ہوتو سورۃ التوبہ،سورۃ المنافقون،سورۃ النساء کا کچھ حصہ، سورۃ الأحزاب کے ابتدائی رکوع اور سورۃ الحدید کی کچھ آیات اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس مناسبت سے مفسر کیلئے تاریخ مذاہب سے مکمل آگاہی ضروری ہے۔

  • علم الموھبہ:۔
نبی کریم ﷺ کے چہار گانہ فرائض سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۶۴ میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ فرائض تلاوتِ آیات، تزکیہ نفوسِ، تعلیمِ کتاب اور حکمت و دانائی کی تعلیم ہیں۔ حکمت و دانائی ایک نور ہے۔ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہر شخص جو اس کا اہل اور طالب ہو،اسے عطا کیا جاتا ہے۔ یہ نور اور فہمِ قرآن سے محبت، احسان کے درجہ میں نیک اعمال اختیار کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ احسان یہ ہے کہ اخلاص، ﷲ تعالیٰ کی رضا کیلئے، نیکی میں مسابقت کے جذبہ کے ساتھ بہترین انداز سے نیکی کے کام سر انجام دینا۔

اس حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد ہے:

یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّؤْتِ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوْتِیَ خَیْراً کَثِیراً(البقرۃ ۲،۲۶۹)

وہ(ﷲ تعالیٰ) جسے چاہتا ہے حکمت عطا کردیتا ہے۔ اور جس کووہ حکمت عطا کردے تو گویا اس کو خیر کثیر عطا کر دی گئی۔

  • گزشتہ قوموں کے حالات سے آگاہی:۔
قرآنِ مجید کے بنیادی مضامین میں تذکیر بایام ﷲ ہے۔ یعنی گذشتہ قوموں کے فرمانبردار لوگوں کا رویہ اور ان کی کامیابی اور نافرمانیوں کی طرف سے انبیاء کی مخالفت ،حق کا انکار اور ان لوگوں کے برے انجام کی خبر دی ہے۔ اس لیے مفسر کیلئے ضروری ہے کہ تاریخ،جغرافیہ اور انسانی نفسیات جیسے علوم سے آگاہ ہو۔ جن علاقوں میں کوئی قوم کب آباد تھی،اس زمانے کے سیاسی و معاشرتی و فکری اور معاشی حالات معلوم ہوں گے تو قصص قرآنی کی بہتر تفسیر ہو سکے گی نیز مالی فراوانی یا مالی تنگ دستی کے حالات میں لوگوں کے رویّے کیا ہوتے ہیں،ان سے آگاہی تفسیرِ قرآن میں ہوتی ہے۔ گذشتہ قوموں کے احوال میں انسانی رویوں کا ذکر اکثرملتا ہے۔ (مثلاً القصص :58، بنی اسرائیل:8۔ 4، النحل:111،112، سورۃ السبا کا دوسرا رکوع)
 
Top