تفسیرو تاویل کی لغوی و اصطلاحی تعریف

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
تفسیر:
الف ) لغوی معنی:

لفظ ''تفسیر'' کا مادہ فسر (ف،س،ر) سے ہے۔ جس کے معنی ہیں ظاہر کرنا، کشف کرنا، بند چیز کو کھولنا، تشریح کرنا، توضیح و تفصیل کرنا اور کسی عبارت کے مطلب کو واضح اور بیان کرنا۔

ارشاد ربانی ہے:

وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرً‌ا۝

یہ کافر آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ تفصیل آپ کوبتادیں گے (سورۃ فرقان: 33)

تفسیر کی مفسرین نے مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے زیادہ مشہور یہ ہے :

''ھو علم یبحث فیہ عن احوال القرا ن المجید من حیث ولا لتیہ علی مراد ﷲ تعالیٰ بقدر الطاقتۃ البشریتۃ''

'' تفسیر ایسا علم ہے جس میں انسانی طاقت کے مطابق قرآن مجید کے احوال کے بارے میں اس طرح بحث کی جائے کہ اس سے ﷲ کی مراد حاصل ہو جائے ''۔

علامہ محمد ابن جریر طبری نے تفسیر سے مراد ''تفصیل'' اور ''بیان'' لیا ہے۔

قاضی زاہد الحسینی کے مطابق '' تفسیر کا لفظی معنی وہ طریق کار ہے جس سے کسی چیز کی حقیقت تلاش کی جا‎ۓ جیسا کہ طبیب مریض کا حال معلوم کرنے کے لیے پورے غور و فکر سے کام لیتا ہے''۔

ب ) اصطلاحی معنی:

اصطلاح میں تفسیر کے معنی ہیں '' قرآن مجید کی تشریح و توضیح و تفصیل کرنا، اسکے مشکل الفاظ کا اور جملوں کے مفہوم و مطالب کو ظاہر کرنا''۔

علماء نے اس کی کئی تعریفیں کی ہیں:

  • علامہ زرکشی کہتے ہیں: ''تفسیر وہ علم ہے جس کے ذریعے ﷲ تعالیٰ کی کتاب جو کہ نبی پاک صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئی، کے مطالب، اس کے احکام اور اس کی حکمت سمجھی جا سکتی ہے''۔
  • علامہ ابو حیان اندلسی لکھتے ہیں ''تفسیر وہ علم (تمام علوم) ہے جس میں الفاظ قرآن کی کیفیت نطق (علم قرات) و تلفظ، ان کے مدلولات(علم لغت)، ان کے مفرد اور مرکب ہونے کے احکام(عربی گرائمر)، حالت ترکیب میں ان کے معنی اور ان کے تتمات سے بحث کی جاتی ہے''۔
  • مولانا محمد مالک کاندھلوی نے تفسیر کو یوں بیان کیا ہے: '' کلام ﷲ کے مدلول و مفہوم کے ساتھ یہ بھی بیان کرنا کہ نزول کا سبب کیا ہے، احوال نزول کیا ہے، واقعات متعلقہ کیا ہیں، آیات مکی ہیں یا مدنی، آیات کی دلالت حلت پر ہے یا حرمت پر اور اس کا مضمون کیا ہے''۔
  • ڈاکٹر محمد ذھبی کہتے ہیں کہ ''تفسیر ایک ایسا علم ہے جس میں انسانی اسطاعت کی حد تک مراد الہی کو واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے''۔
تاویل

الف) لغوی معنی:

عربی لغت کے اعتبار سے '' تاویل'' باب تفعیل سے مصدر ہے( اوّل، یووّل، تاویلا، مووّل)۔ اس کا مصدر اوّل ہے۔ یعنی '' تاویل'' اوّل سے نکلا ہے جس کے معنی رجوع کرنا، اور پھیرنا بھی ہے۔

قاضی ابو البقاء لکھتے ہیں '' تاویل کا لفظ اوّل سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں پھیرنا''۔

بعض کہتے ہیں تاویل ''ایالۃ'' سے ماخوذ ہےجس کے معنی ہیں سیاست و حکمرانی۔ گویا مووّل (تاویل کرنے والا) کلام پر حکمرانی کرتا ہے۔

قرآن مجید میں تاویل کا لفظ تفسیر و تعین، نتیجہ اور خواب کی تعبیر کے لیے استعمال ہوا ہے۔ لیکن یہ اپنے لفظ تفسیر کے مترادف ہے۔ گویا تاویل کے معنی ہو‎ۓ ''تشریح و توضیح'' کرنا۔

ب) اصطلاحی معنی:

اصطلاح میں تاویل کا معنی یہ ہے کہ جب قرآن مجید کی کسی آیت یا کسی لفظ کے متعدد معانی ہوں تو ان معانی میں سے کسی ایک ایسے معنی کو دلیل و تدبر سے منتخب کر لینا جس معنی کا تقاضا وہ آیت یا لفظ کرتا ہے۔ انتخاب معنی کا یہ عمل تاویل کہلاتا ہے۔

علّامہ جرجانی کے مطابق'' اصطلاح شرع میں تاویل کے معنی ہیں ایک لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے ہٹا کر ایک ایسے معنی پر محمول کرنا جس کا وہ احتمال کرتا ہو اور احتمال کتاب و سنت کے مطابق ہو۔ مثلا

يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَكَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ۝

وہی زندے کو مردے سے نکالتا اور (وہی) مردے کو زندے سے نکالتا ہے اور( وہی) زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ اور اسی طرح تم (دوبارہ زمین میں سے) نکالے جاؤ گے (سورۃ الروم: 19)

اگر اس آیت میں انڈے سے پرندے کو نکالنا مراد ہو تو تفسیر اور اگر کافر سے مومن کو پیدا کرنا یا جاہل سے عالم کو پیدا کرنا مراد ہو تو یہ تاویل ہے۔
 
Top