تفسیر و تاویل میں فرق
تفسیر و تاویل کے فرق میں دو طرح رجحان پاۓ جاتے ہیں:
اس رجحان کے نمائندے متقدمین حضرات ہیں جن کے نزدیک تفسیر و تاویل میں کوئی معنوی فرق نہیں پایا جاتا۔
اس رجحان کے نمائندے متاخرین مفسرین حضرات ہیں جو تفسیر و تاویل میں فرق کرتے ہیں۔ مثلا
تفسیر و تاویل کے فرق میں دو طرح رجحان پاۓ جاتے ہیں:
- جو ان دونوں کو مترادف سمجھتا ہے۔
- جو ان دونوں میں فرق کرتا ہے۔
اس رجحان کے نمائندے متقدمین حضرات ہیں جن کے نزدیک تفسیر و تاویل میں کوئی معنوی فرق نہیں پایا جاتا۔
- مشہور تابعی مجاھد فرماتے ہیں: علماء کرام قرآن مجید کی تاویل جانتے ہیں۔ یہاں لفظ تاویل سے مجاھد کی مراد ''تفسیر'' ہے۔
- امام محمد ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر کا نام ہی ''جامع البیان عن تاویل آی القرآن'' رکھا ہے۔ وہ اس میں اکثر یہ جملہ استعمال کرتے ہیں ''القول فی تاویل قولہ تعالیٰ کذا و کذا''۔ امام طبری کی تفسیر کے نام میں اور اس جملہ میں تاویل سے مراد تفسیر ہے۔
اس رجحان کے نمائندے متاخرین مفسرین حضرات ہیں جو تفسیر و تاویل میں فرق کرتے ہیں۔ مثلا
- امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ: ''تفسیر تاویل سے زیادہ عام ہے۔ 1) تفسیر کا استعمال الفاظ کی وضاحت اور تاویل کا استعمال معنی کی وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔ 2) تاویل کا اکثر استعمال آسمانی کتابوں کی وضاحت کے لیے جبکہ تفسیر کا استعمال آسمانی و غیر آسمانی دونوں طرح کی کتابوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 3) تفسیر مفرد الفاظ کی وضاحت کے لیے اور تاویل اکثر جملوں کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتا ہے''۔
- امام ابو منصور ماتریدی فرماتے ہیں کہ: ''یقین سے بیان کرنا کہ اس لفظ کے یہ معنی ہیں اور اس بات کی شہادت دینا کہ ﷲ نے اس لفظ سے یہ معنی مراد لیا ہے، یہ تفسیر ہے۔ اور تاویل یہ ہے کہ کسی ایک لفظ کے کئی احتمالات میں سے کسی ایک احتمال کو بغیر یقین اور بغیر شہادت الہی کے متعین کرنا(ترجیح دینا)''۔
- ابو طالب ثعلبی کہتے ہیں کہ: '' لفظ جس معنی کے لیے وضع کیا گیا ہو اس معنی کو حقیقت یا مجاز کے طور پر بیان کرنا تفسیر ہے۔ جیسے لفظ صراط کی تفسیر راستہ اور لفظ صیب کی تفسیر بارش ہے۔ کسی لفظ کے باطنی مفہوم کی توضیح کرنا تاویل ہے۔ مثلا '' ان ربک لبامرصاد'' کا لفظی معنی بیشک تیرا رب ضرور گھات میں ہے اور اس کی تاویل یہ ہے کہ وہ نافرمانوں کو دیکھ رہا ہے''۔
- امام بغوی فرماتے ہیں کہ" کسی آیت سے ایسا مفہوم مراد لینا جس کی اس میں گنجائش ہو اور وہ مفہوم کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو اور وہ مفہوم آیت کے سیاق و سباق سے مطابقت رکھتا ہو تو وہ تاویل ہے جبکہ کسی آیت کے سبب نزول اور متعلقہ واقعات کو بیان کر دینا تفسیر ہے''۔
- امام قشیری فرماتے ہیں کہ:" تفسیر سماع اور اتباع پر موقوف ہے اور تاویل، اجتہاد و استنباط کا نام ہے''۔
- بعض علماء کا موقف ہے کہ: '' ترتیب عبارت سے ماخوذ ہونے والے معنی کو بیان کر دینا تفسیر ہے اور عبارت سے اشارہ کے طور پر معلوم ہونے والے معانی کو بیان کر دینا تاویل ہے۔
- متاخرین کے نزدیک مشہور ہے کہ: '' قرآنی آیات سے جو معنی معلوم ہو وہ تفسیر اور اشارہ الفاظ سے جو معلوم ہوں وہ تاویل''۔