صریح:
صریح کی تعریف:
صریح وہ لفظ ہے جس کی مراد بالکل واضح ہو اس طور پر کہ جب وہ بولا جائے تو مراد سمجھ میں آ جائے۔
صریح کی مثال:
اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا '' انت طالق'' تو فورا طلاق واقع ہو جائے گی اگرچہ وہ یہ کہے کہ غلطی سے میرے منہ سے نکل گیا تھا یا میں نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی کیونکہ لفظ ''طالق'' طلاق دینے میں بالکل صریح ہے اس میں نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
صریح میں نیت و تاویل کا اعتبار اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ اس طرح تو کوئی بھی شخص کچھ بھی صراحۃ کہہ کر مکر سکتا ہے حتی کہ معاذ اللہ کلمہ کفر تک بک کر یہ کہہ سکتا ہے کہ میری یہ نیت نہیں تھے۔
صریح کا حکم:
صریح سے کلام کی مراد ثابت ہو جاتی ہے اگرچہ وہ خبر، صفت یا ندا ہی کیوں نہ ہو اور اس میں نیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
یعنی صریح کا حکم یہ ہے کہ حکم نفس کلام سے متعلق ہو اور کلام اپنے معنی کے قائم مقام ہو اور ارادہ و نیت کی ضرورت نہ پڑے، اور حکم کو صریح کے ساتھ متعلق کرنے کے لیے اس کی ضرورت نہیں ہے کہ متکلم اس صریح لفظ سے معنی کا ارادہ بھی کرے بلکہ ارادے کے بغیر ہی حکم ثابت ہو جائے گا۔ اس لفظ کے بولنے والے نے اس مقصد کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو، حکم بہر حال ثابت ہو جائے گا۔
اگر شارع نے ایک چیز کو دوسری چیز کا سبب بنایا ہو تو اس چیز کے محض بولنے سے اس کا مسبب یعنی وجوب ثابت ہو جائے گا۔ اور بولنے والے کی نیت پر اس کا وجوب موقوف نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس لفظ کے معنی اس کے الفاظ سے ظاہر ہیں۔
کنایہ:
کنایہ کی تعریف:
یعنی کنایہ وہ لفظ ہے جس ک مراد پوشیدہ ہو، جب متکلم اس لفظ کو بولے تو سننے والے کا ذہن فوری طور پر اس کی طرف منتقل نہ ہو۔ جس طرح صریح، حقیقت و مجاز کی اقسام میں داخل ہے اسی طرح کنایہ بھی حقیقت و مجاز کی اقسام ہیں۔
مثال:
شوہر کا اپنی بیوی سے درج ذیل کلمات میں سے کوئی کلمہ کہنا:
اعتدی: تم اپنی عدت گزارو
حبلک علی غاربک: تیری رسی تیرے کندھے پر ہے۔
انت بائن: تم جدا ہو۔
الحقی باھلک: اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا۔
کنایہ کا حکم:
یعنی کنایہ کا حکم یہ ہے کہ اس لفظ کے بولنے سے بغیر نیت، قرینہ یا دلالت حال کے بغیر کسی چیز کا وجوب ثابت نہ ہو۔ اگر متکلم کی نیت نہ ہو تو نیت کے قائم مقام کوئی چیز ہو جو اس کے معنی و مراد پر دلالت کرے۔
مثلا شوہر اپنی بیوی سے درج ذیل کلمات میں سے کوئی کلمہ کہے:
انت علی حرام: تم میرے اوپر حرام ہو۔
الحقی باھلک: اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا۔
اعتدی: اپنی عدت گزارو۔
اس طرح کے کلمات سے شوہر کی مراد طلاق ہو، تو اس عورت کو اس وقت تک طلاق نہیں ہو سکتی جب تک وہ الفاظ کو بول کر طلاق کی نیت بھی نہ کرلے۔ اگر یہ الفاظ بول کر طلاق کی نیت نہیں کی تو طلاق نہیں ہو گی۔
ظاہر:
ظاہر کی تعریف:
یعنی ظاہر ہر اس لفظ یا کلام کو کہتے ہیں جس کے معنی خود بخود واضح ہوں، ان الفاظ، یا کلام کا واضح ہونا کسی خارجی قرینہ پر موقوف نہ ہو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ سننے والا اہل زبان ہو۔ اور کلام کے سیاق سے یہ بات معلوم ہو کے اس لفظ کے یہ ظاہری معنی اصلی میں مقصود نہیں ہیں۔
مثال:
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
یہ آیت خرید و فروخت کو حلال کرنے وار سود کو حرام کرنے میں ظاہر ہے۔ کیونکہ یہ معنی اس آیت میں موجود دو الفاظ احل اور حرم سے ظاہر ہیں وار بلا غور و فکر کے سمجھ میں آتے ہیں۔ اور ان دونوں باتوں کو سمجھنے کے لیے کسی خارجی قرینہ کی ضرورت نہیں ہے۔
ظاہر کا حکم:
ظاہر کا حکم چونکہ قطعی اور یقینی ہوتا ہے اس لیے اس سے حدود اور کفارات کو ثابت کرنا بھی درست ہے۔ اور ظاہر کا حکم یہ ہے کہ اس کے ظاہری معنی پر اس وقت تک عمل کرنا ضروری ہے جب تک ایسی کوئی دلیل موجود نہ ہو جو ظاہری معنی سے ہٹا کر کسی دوسرے معنی کو بتلاتی ہو۔ کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے اس وقت تک نہ پھیرا جائے جب تک کوئی دلیل اس کی متقاضی نہ ہو۔
جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
یہ آیت خرید و فروخت کو جواز اور سود کو حرام کرنے میں ظاہر ہے۔ اس آیت سے ظاہری حکم یہ نکلتا ہے کہ ہر قسم کی بیع حلال ہے۔ لیکن اس عمومی حکم سے شراب کی بیع کی تخصیص کی گئی ہے۔ اس لیے شراب کی خرید فروخت نا جائز ہے اسی طرح اس چیز کی بیع بھی ناجائز ہے جو بیچنے والے کی ملکیت نہ ہو۔ اور اس عمومی اجازت سے بیع کی وہ تمام قسمیں خارج ہو جاتی ہیں جن ک شارع نے ممانعت کی ہے۔ اس لیے وہ اس جائز بیع میں شامل نہیں ہیں جن کا جواز آیت کے ظاہر سے معلوم ہو رہا ہے۔
نص:
نص کی تعریف:
مثال
جیسے
یہ کلام نکاح کے جواز اور مباح ہونے کو بتانے میں ظاہر ہے، کیونکہ کلام کو سنتے ہی اہل زبان یہ بات سمجھا جاتا ہے،اور عدد بتانے میں یہ کلام نص ہے کیونکہ عدد بتانے کے لئے ہی یہ کلام چلایا گیا ہے ۔
نص کا حکم:
یعنی نص کا حکم یہ ہے کہ اس وقت تک اس پر عمل کرنا واجب ہے جب تک کوئی ایسی دلیل موجود نہ ہو جو اس کی تاویل کی متقاضی ہو، تاویل کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قرینہ یا دلیل موجود ہو جو اس منصوص حکم کے علاوہ دوسرے حکم پر دلالت کر رہی ہو۔ اور دلیل میں اس بات کی وضاحت موجود ہو کہ جو حکم ظاہری طور سمجھ میں آ رہا ہے وہ اس سے مراد نہیں ہے۔
نص ظاہر اور نص کے درمیان فرق:
ظاہر اور نص کے درمیان فرق درج ذیل چار صورتیں ہیں:
مفسر کی تعریف:
مفسر اس کلام کوکہتے ہیں جس میں نص سے زیادہ وضاحت ہو ،نص سے زیادہ وضاحت اس لئے ہوگی کہ اس میں تخصیص وتاویل کا احتمال نہیں رہے گا جبکہ نص میں یہ احتمال ہے۔
مثال:
جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد’’ تمام فرشتوں نے ایک ساتھ سجدہ کیا‘‘،یہ کلام تمام فرشتوں کے سجدہ کرنے کے سلسلہ میں ظاہر ہے، لیکن اس میں تخصیص کا احتمال ہے کہ بعض نے سجدہ کیا ہو، سب نے نہ کیا ہو مگر جب کلھم کہا تو یہ نص ہوگیا کیونکہ یہ احتمال ختم ہوگیا اور پہلے سے زیادہ وضاحت ہوگئی ،لیکن تاویل کا احتمال ہے کہ سب نے ایک ساتھ نہ کیا ہو ،الگ الگ سجدہ کیا ہو ،مگر جب اجمعون کہا تاویل کا احتمال بھی ختم ہوگیااور کلام مفسر ہوگیا لیکن مفسر میں نسخ کا احتمال ہوتا ہے مگر احتمالِ نسخ حضور ﷺکے زمانے کے ساتھ مختص ہے ،آپﷺ کے بعد تو سارا قرآن محکم ہے جس میں نسخ و تبدیل کا احتمال نہیں ہے۔
یہاں ایک سوال ہے کہ یہ کلام مفسر کیسے ہوا یہ تو محکم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خبر دے رہے ہیں کہ تمام فرشتوں نے ایک ساتھ سجدہ کیا ،اور اللہ کی خبر میں نسخ نہیں ہوسکتاہے، ورنہ باری تعالیٰ پر کذب لازم آئے گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اصل کلام نسخ کا احتمال رکھتا ہے البتہ ایک عارض کی وجہ سے یعنی اس کلام کے اللہ تعالیٰ کی خبرہونے کی وجہ سے یہ احتمال مرتفع ہوگیا لیکن اس کی بہترین مثال اللہ تعالی کا ارشاد
ہے کہ تمام مشرکین سے قتال کرو، یہ کلام ازقبیل حکم ہے، ازقبیل خبر نہیں ہے، لہٰذا اس میں نسخ کا احتمال ہے۔
مفسر کا حکم:
مفسر کا حکم یہ ہے کہ جس عمل کو یہ قطعی طور پر بتلائے اس پر عمل کرنا واجب ہے، اگرچہ عہد رسالت میں اس کے منسوخ ہونے کا بھی احتمال رہتا ہے، بشرطیکہ اس کا تعلق ان احکام سے ہو جو قابل نسخ ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن و سنت میں سے ہر ایک کا شمار محکم میں سے ہوتا ہے، وحی کے منقطع رہنے کے سبب اب ان میں نسخ کا کوئی احتمال نہیں رہا۔
محکم:
محکم کی تعریف:
اس میں نسخ وتبدیل کا بھی احتمال نہ رہے، جیسے ان اللہ بکل شیٔ علیم ،الجہاد ماض الی یوم القیمۃ،جہاد قیامت تک چلتا رہے گا ،ان دونوں میں کسی نسخ وتبدیل کا احتمال نہیں ہے۔
مثال:
نسخ وتبدیل کا احتمال نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں
ایک یہ کہ کلام اپنی ذات میں ہی نسخ کو قبول نہ کرے، جیسے آیاتِ توحید، آیاتِ صفات باری تعالیٰ
دوم یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد نسخ کا احتمال ختم ہوگیا ہو۔
پہلی صورت کو محکم لعینہ اور دوسرے کو محکم لغیرہ کہیں گے۔
مذکورہ چاروں اقسام حکم کو قطعی اور یقینی طور پر واجب کرتی ہیں ،البتہ ان چاروں کے حکم میں تعارض کے وقت فرق ظاہر ہوگا ،اس وقت اعلی پر عمل کریں گے ادنی کو چھوڑ دیں گے ،یعنی ظاہر اور نص میں تعارض ہوتو نص پر عمل کریں گے کیونکہ یہ ظاہر سے اعلی ہے ،اور اگر نص اور مفسر میں تعارض ہوتو مفسر پر عمل کرینگے کیونکہ یہ نص سے اعلی ہے اور اگر مفسر اور محکم میں تعارض ہوتو محکم پر عمل کرینگے کیونکہ یہ مفسر سے اقوی ہے۔
محکم کا حکم:
یعنی محکم جس چیز کو قطعی طور پر بتلائے اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ اس میں یہ احتمال نہیں ہوتا کہ ان معنی کے علاوہ جو لفظ محکم بتلا رہا ہے اس کے کوئی دوسرے معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ ظاہر، نص اور مفسر بھی اگرچہ مفید یقین ہونے میں قطعی ہوتے ہیں لیکن محکم مفید یقین میں تمام قطعیات سے افضل و اکمل ہے۔
صریح کی تعریف:
ما ظھر بہ المعنی المراد ظھورا بینا بسبب کثرۃ الاستعمال حقیقۃ کان او مجازا
صریح وہ لفظ ہے جس کے معنی اور مراد کسی خاص معنی میں کثرت کے سبب بالکل واضح ہو، خواہ وہ صریح حقیق ہو یا مجازی۔
صریح وہ لفظ ہے جس کے معنی اور مراد کسی خاص معنی میں کثرت کے سبب بالکل واضح ہو، خواہ وہ صریح حقیق ہو یا مجازی۔
صریح وہ لفظ ہے جس کی مراد بالکل واضح ہو اس طور پر کہ جب وہ بولا جائے تو مراد سمجھ میں آ جائے۔
صریح کی مثال:
اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا '' انت طالق'' تو فورا طلاق واقع ہو جائے گی اگرچہ وہ یہ کہے کہ غلطی سے میرے منہ سے نکل گیا تھا یا میں نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی کیونکہ لفظ ''طالق'' طلاق دینے میں بالکل صریح ہے اس میں نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
صریح میں نیت و تاویل کا اعتبار اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ اس طرح تو کوئی بھی شخص کچھ بھی صراحۃ کہہ کر مکر سکتا ہے حتی کہ معاذ اللہ کلمہ کفر تک بک کر یہ کہہ سکتا ہے کہ میری یہ نیت نہیں تھے۔
صریح کا حکم:
صریح سے کلام کی مراد ثابت ہو جاتی ہے اگرچہ وہ خبر، صفت یا ندا ہی کیوں نہ ہو اور اس میں نیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
یعنی صریح کا حکم یہ ہے کہ حکم نفس کلام سے متعلق ہو اور کلام اپنے معنی کے قائم مقام ہو اور ارادہ و نیت کی ضرورت نہ پڑے، اور حکم کو صریح کے ساتھ متعلق کرنے کے لیے اس کی ضرورت نہیں ہے کہ متکلم اس صریح لفظ سے معنی کا ارادہ بھی کرے بلکہ ارادے کے بغیر ہی حکم ثابت ہو جائے گا۔ اس لفظ کے بولنے والے نے اس مقصد کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو، حکم بہر حال ثابت ہو جائے گا۔
اگر شارع نے ایک چیز کو دوسری چیز کا سبب بنایا ہو تو اس چیز کے محض بولنے سے اس کا مسبب یعنی وجوب ثابت ہو جائے گا۔ اور بولنے والے کی نیت پر اس کا وجوب موقوف نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس لفظ کے معنی اس کے الفاظ سے ظاہر ہیں۔
کنایہ:
کنایہ کی تعریف:
الکنایۃ ھی لفظ استتر المراد منہ فی نفسہ فلا یفھم الا بقرینۃ سواء کان المراد معنی حقیقیۃ ام معنی مجازیا
کنایہ وہ لفظ ہے جس کے معنی و مراد پوشیدہ ہوں، اور بغیر کسی قرینہ کے اس کی مراد مسجھ میں نہ آتی ہو، خواہ وہ معنی و مراد حقیقی ہوں ی مجازی۔
کنایہ وہ لفظ ہے جس کے معنی و مراد پوشیدہ ہوں، اور بغیر کسی قرینہ کے اس کی مراد مسجھ میں نہ آتی ہو، خواہ وہ معنی و مراد حقیقی ہوں ی مجازی۔
یعنی کنایہ وہ لفظ ہے جس ک مراد پوشیدہ ہو، جب متکلم اس لفظ کو بولے تو سننے والے کا ذہن فوری طور پر اس کی طرف منتقل نہ ہو۔ جس طرح صریح، حقیقت و مجاز کی اقسام میں داخل ہے اسی طرح کنایہ بھی حقیقت و مجاز کی اقسام ہیں۔
مثال:
شوہر کا اپنی بیوی سے درج ذیل کلمات میں سے کوئی کلمہ کہنا:
اعتدی: تم اپنی عدت گزارو
حبلک علی غاربک: تیری رسی تیرے کندھے پر ہے۔
انت بائن: تم جدا ہو۔
الحقی باھلک: اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا۔
کنایہ کا حکم:
حکم الکنایۃ ان لا یجب العمل بھا الا بالنیۃ ای بنیۃ المتکم لکونھا مستترۃ المراد۔
کنایہ کا حکم یہ ہے کہ متکلم کی نیت کے بغیر اس پر عمل کرنا ضروری نہ ہو کیونکہ کنایہ کا معنی و مراد پوشیدہ ہوتے ہیں۔
کنایہ کا حکم یہ ہے کہ متکلم کی نیت کے بغیر اس پر عمل کرنا ضروری نہ ہو کیونکہ کنایہ کا معنی و مراد پوشیدہ ہوتے ہیں۔
یعنی کنایہ کا حکم یہ ہے کہ اس لفظ کے بولنے سے بغیر نیت، قرینہ یا دلالت حال کے بغیر کسی چیز کا وجوب ثابت نہ ہو۔ اگر متکلم کی نیت نہ ہو تو نیت کے قائم مقام کوئی چیز ہو جو اس کے معنی و مراد پر دلالت کرے۔
مثلا شوہر اپنی بیوی سے درج ذیل کلمات میں سے کوئی کلمہ کہے:
انت علی حرام: تم میرے اوپر حرام ہو۔
الحقی باھلک: اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا۔
اعتدی: اپنی عدت گزارو۔
اس طرح کے کلمات سے شوہر کی مراد طلاق ہو، تو اس عورت کو اس وقت تک طلاق نہیں ہو سکتی جب تک وہ الفاظ کو بول کر طلاق کی نیت بھی نہ کرلے۔ اگر یہ الفاظ بول کر طلاق کی نیت نہیں کی تو طلاق نہیں ہو گی۔
ظاہر:
ظاہر کی تعریف:
ھُو مَا ظھَرَ المرادُ مِنہ بِنفسِ الصیغۃِ
ظاہر اس کلام کو کہتے ہیں کہ سننے والے کو سنتے ہی اس کی مراد معلوم ہوجائے یعنی محض صیغہ سے ہی وہ کلام کی مراد سمجھ جائے، بشر طیکہ جس زبان میں کلام کیا جائے وہ اس زبان کو جانتا ہو۔
ظاہر اس کلام کو کہتے ہیں کہ سننے والے کو سنتے ہی اس کی مراد معلوم ہوجائے یعنی محض صیغہ سے ہی وہ کلام کی مراد سمجھ جائے، بشر طیکہ جس زبان میں کلام کیا جائے وہ اس زبان کو جانتا ہو۔
یعنی ظاہر ہر اس لفظ یا کلام کو کہتے ہیں جس کے معنی خود بخود واضح ہوں، ان الفاظ، یا کلام کا واضح ہونا کسی خارجی قرینہ پر موقوف نہ ہو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ سننے والا اہل زبان ہو۔ اور کلام کے سیاق سے یہ بات معلوم ہو کے اس لفظ کے یہ ظاہری معنی اصلی میں مقصود نہیں ہیں۔
مثال:
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
و احل اللہ البیع و حرم الربوا
اور اللہ تعالی اس بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔
اور اللہ تعالی اس بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔
یہ آیت خرید و فروخت کو حلال کرنے وار سود کو حرام کرنے میں ظاہر ہے۔ کیونکہ یہ معنی اس آیت میں موجود دو الفاظ احل اور حرم سے ظاہر ہیں وار بلا غور و فکر کے سمجھ میں آتے ہیں۔ اور ان دونوں باتوں کو سمجھنے کے لیے کسی خارجی قرینہ کی ضرورت نہیں ہے۔
ظاہر کا حکم:
حکمہ وجوب العمل بمعناہ المتبادر منہ قطعا و یقینا سواء کا اللفظ عاما ام خاصا۔
ظاہر کا حکم یہ ہے کہ متکلم کے کلام سے جو معنی اور مطلب ظاہر ہوتا ہو اس پر قطعی اور یقینی طور پر عمل کرنا واجب ہے، چاہے لفظ عام ہو یا خاص۔
ظاہر کا حکم یہ ہے کہ متکلم کے کلام سے جو معنی اور مطلب ظاہر ہوتا ہو اس پر قطعی اور یقینی طور پر عمل کرنا واجب ہے، چاہے لفظ عام ہو یا خاص۔
ظاہر کا حکم چونکہ قطعی اور یقینی ہوتا ہے اس لیے اس سے حدود اور کفارات کو ثابت کرنا بھی درست ہے۔ اور ظاہر کا حکم یہ ہے کہ اس کے ظاہری معنی پر اس وقت تک عمل کرنا ضروری ہے جب تک ایسی کوئی دلیل موجود نہ ہو جو ظاہری معنی سے ہٹا کر کسی دوسرے معنی کو بتلاتی ہو۔ کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے اس وقت تک نہ پھیرا جائے جب تک کوئی دلیل اس کی متقاضی نہ ہو۔
جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
و احل اللہ البیع و حرم الربوا
اور اللہ تعالی اس بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔
اور اللہ تعالی اس بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔
یہ آیت خرید و فروخت کو جواز اور سود کو حرام کرنے میں ظاہر ہے۔ اس آیت سے ظاہری حکم یہ نکلتا ہے کہ ہر قسم کی بیع حلال ہے۔ لیکن اس عمومی حکم سے شراب کی بیع کی تخصیص کی گئی ہے۔ اس لیے شراب کی خرید فروخت نا جائز ہے اسی طرح اس چیز کی بیع بھی ناجائز ہے جو بیچنے والے کی ملکیت نہ ہو۔ اور اس عمومی اجازت سے بیع کی وہ تمام قسمیں خارج ہو جاتی ہیں جن ک شارع نے ممانعت کی ہے۔ اس لیے وہ اس جائز بیع میں شامل نہیں ہیں جن کا جواز آیت کے ظاہر سے معلوم ہو رہا ہے۔
نص:
نص کی تعریف:
ھُوَ ما ازدَادَ وُضوحًا عَلٰی الظاھرِ بِمَعنٰی فی المتکلمِ نحو قُولہِ تَعالٰی فَانکِحُوا مَاطَابَ لَکُم مِنَ النِّسَاءِ مَثنٰی وَثُلٰثَ ورُبَاع الاٰیۃ فاَنہٗ ظَاھِرٌ فی الْاِطْلَاقِ نَصٌّ فِی بَیَانِ العَدَ دِلِانہٗ سِیقَ الکلامُ لِاَجَلِہِ
نص اس کلام کو کہتے ہیں کہ جس میں ظاہر سے زیادہ ظہور ہو،کیونکہ اس میں ظہور صیغہ اور لفظ کے علاوہ ایسے سبب سے بھی ہے جو متکلم کی طرف راجع ہے،یعنی متکلم یہ معنی بیان کرنے کے لئے بالقصد یہ کلام لایا ہے، اور ظاہر میں معنی بتانے کے لئے کلام کو بالقصد لایا نہیں جاتا ہے۔
نص اس کلام کو کہتے ہیں کہ جس میں ظاہر سے زیادہ ظہور ہو،کیونکہ اس میں ظہور صیغہ اور لفظ کے علاوہ ایسے سبب سے بھی ہے جو متکلم کی طرف راجع ہے،یعنی متکلم یہ معنی بیان کرنے کے لئے بالقصد یہ کلام لایا ہے، اور ظاہر میں معنی بتانے کے لئے کلام کو بالقصد لایا نہیں جاتا ہے۔
مثال
جیسے
فَانکِحُوا مَاطَابَ لَکُم مِنَ النِّسَاءِ مَثنٰی وَثُلٰثَ ورُبَاع،
یہ کلام نکاح کے جواز اور مباح ہونے کو بتانے میں ظاہر ہے، کیونکہ کلام کو سنتے ہی اہل زبان یہ بات سمجھا جاتا ہے،اور عدد بتانے میں یہ کلام نص ہے کیونکہ عدد بتانے کے لئے ہی یہ کلام چلایا گیا ہے ۔
نص کا حکم:
حکمہ وجوب العمل بما وضح علی احتمال تاویل ھو حیز المجاز
نص کا حکم یہ ہے کہ جو معنی نص سے واضح ہوں ان پر عمل کرنا واجب ہے مگر اس میں تاویل باقی رہتا ہے۔
نص کا حکم یہ ہے کہ جو معنی نص سے واضح ہوں ان پر عمل کرنا واجب ہے مگر اس میں تاویل باقی رہتا ہے۔
یعنی نص کا حکم یہ ہے کہ اس وقت تک اس پر عمل کرنا واجب ہے جب تک کوئی ایسی دلیل موجود نہ ہو جو اس کی تاویل کی متقاضی ہو، تاویل کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قرینہ یا دلیل موجود ہو جو اس منصوص حکم کے علاوہ دوسرے حکم پر دلالت کر رہی ہو۔ اور دلیل میں اس بات کی وضاحت موجود ہو کہ جو حکم ظاہری طور سمجھ میں آ رہا ہے وہ اس سے مراد نہیں ہے۔
نص ظاہر اور نص کے درمیان فرق:
ظاہر اور نص کے درمیان فرق درج ذیل چار صورتیں ہیں:
- نص کی اپنے معنی پر دلالت، ظاہر کی بہ نسبت زیادہ واضح ہوتی ہے۔
- کلام میں اصلا نص کے معنی مقصود ہوتے ہیں اور کلا اسی معنی کے لیے لایا جاتا ہے، جبکہ کلام سے ظاہر کے معنی تبعا مقصود ہوتے ہیں۔
- نص میں تاویل کا احتمال ظاہر کی بہ نسبت کم ہوتا ہے۔
- دونوں کے درمیان تعارض کی صورت میں نص کو ظاہر پر ترجیح دی جاتی ہے۔
مفسر کی تعریف:
وَهوَ مَا ازْدَادَ وُضُوْحًا عَلَی النَّصِ عَلی وَجْه لَا یَبْقی فِیْه اِحْتِمَالُ التَّخْصِیْصِ وَالتَّاوِیْلِ نَحْوقَوْلِه تَعَالی فَسَجَدَ المَلئِکَة کُلُّهمْ اَجْمَعُوْنَ وَحُکْمُه اَلْاِیْجَابُ قَطْعاً بِلَا اِحْتِمَالِ تَخْصِیْصٍ وَلَاتَأوِیْلٍ اِلَّا اَنَّه یَحْتَمِلُ النَّسْخَ
اورمفسر وہ کلام ہے جو بڑھا ہوا ہو وضاحت کے اعتبار سے نص پر اس طور پر کہ نہ باقی رہے اس میں تخصیص وتاویل کا احتمال جیسے اللہ تعالی کافرمان فسجد الملئکۃ کلھم اجمعون تمام فرشتوں نے ایک ساتھ سجدہ کیا ، اور مفسر کا حکم قطعی طور پر حکم کو ثابت کرناہے بغیر تخصیص وتاویل کے احتمال کے مگر یہ کہ مفسر نسخ کا احتمال رکھتا ہے ، پس جب بڑھ جائے مفسر قوت کے اعتبار سے اور محکم (مضبوط ) ہوجائے اس کی تبدیل سے تو اس کا نام رکھا جائے گا محکم ۔
اورمفسر وہ کلام ہے جو بڑھا ہوا ہو وضاحت کے اعتبار سے نص پر اس طور پر کہ نہ باقی رہے اس میں تخصیص وتاویل کا احتمال جیسے اللہ تعالی کافرمان فسجد الملئکۃ کلھم اجمعون تمام فرشتوں نے ایک ساتھ سجدہ کیا ، اور مفسر کا حکم قطعی طور پر حکم کو ثابت کرناہے بغیر تخصیص وتاویل کے احتمال کے مگر یہ کہ مفسر نسخ کا احتمال رکھتا ہے ، پس جب بڑھ جائے مفسر قوت کے اعتبار سے اور محکم (مضبوط ) ہوجائے اس کی تبدیل سے تو اس کا نام رکھا جائے گا محکم ۔
مفسر اس کلام کوکہتے ہیں جس میں نص سے زیادہ وضاحت ہو ،نص سے زیادہ وضاحت اس لئے ہوگی کہ اس میں تخصیص وتاویل کا احتمال نہیں رہے گا جبکہ نص میں یہ احتمال ہے۔
مثال:
جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد’’ تمام فرشتوں نے ایک ساتھ سجدہ کیا‘‘،یہ کلام تمام فرشتوں کے سجدہ کرنے کے سلسلہ میں ظاہر ہے، لیکن اس میں تخصیص کا احتمال ہے کہ بعض نے سجدہ کیا ہو، سب نے نہ کیا ہو مگر جب کلھم کہا تو یہ نص ہوگیا کیونکہ یہ احتمال ختم ہوگیا اور پہلے سے زیادہ وضاحت ہوگئی ،لیکن تاویل کا احتمال ہے کہ سب نے ایک ساتھ نہ کیا ہو ،الگ الگ سجدہ کیا ہو ،مگر جب اجمعون کہا تاویل کا احتمال بھی ختم ہوگیااور کلام مفسر ہوگیا لیکن مفسر میں نسخ کا احتمال ہوتا ہے مگر احتمالِ نسخ حضور ﷺکے زمانے کے ساتھ مختص ہے ،آپﷺ کے بعد تو سارا قرآن محکم ہے جس میں نسخ و تبدیل کا احتمال نہیں ہے۔
یہاں ایک سوال ہے کہ یہ کلام مفسر کیسے ہوا یہ تو محکم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خبر دے رہے ہیں کہ تمام فرشتوں نے ایک ساتھ سجدہ کیا ،اور اللہ کی خبر میں نسخ نہیں ہوسکتاہے، ورنہ باری تعالیٰ پر کذب لازم آئے گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اصل کلام نسخ کا احتمال رکھتا ہے البتہ ایک عارض کی وجہ سے یعنی اس کلام کے اللہ تعالیٰ کی خبرہونے کی وجہ سے یہ احتمال مرتفع ہوگیا لیکن اس کی بہترین مثال اللہ تعالی کا ارشاد
قاتلو المشرکین کافۃ
ہے کہ تمام مشرکین سے قتال کرو، یہ کلام ازقبیل حکم ہے، ازقبیل خبر نہیں ہے، لہٰذا اس میں نسخ کا احتمال ہے۔
مفسر کا حکم:
مفسر کا حکم یہ ہے کہ جس عمل کو یہ قطعی طور پر بتلائے اس پر عمل کرنا واجب ہے، اگرچہ عہد رسالت میں اس کے منسوخ ہونے کا بھی احتمال رہتا ہے، بشرطیکہ اس کا تعلق ان احکام سے ہو جو قابل نسخ ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن و سنت میں سے ہر ایک کا شمار محکم میں سے ہوتا ہے، وحی کے منقطع رہنے کے سبب اب ان میں نسخ کا کوئی احتمال نہیں رہا۔
محکم:
محکم کی تعریف:
فَاِذَا ازْدَادَ قُوَّۃً وَاُحْکِمَ الْمرَادُ بِہِ عَنِ التَّبْدِیْلِ سُمِّیَ مُحْکَمًا
محکم اس کلام کو کہتے ہیں جس کی مراد مفسر سے زیادہ قوی اور مضبوط ہو
محکم اس کلام کو کہتے ہیں جس کی مراد مفسر سے زیادہ قوی اور مضبوط ہو
اس میں نسخ وتبدیل کا بھی احتمال نہ رہے، جیسے ان اللہ بکل شیٔ علیم ،الجہاد ماض الی یوم القیمۃ،جہاد قیامت تک چلتا رہے گا ،ان دونوں میں کسی نسخ وتبدیل کا احتمال نہیں ہے۔
مثال:
وَ لَاتَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً أبَدًا
جس کو ’’حد قذف‘‘ لگ چکی ہو اس کی گواہی کبھی نہیں قبول کی جائے گی، اس حکم شرعی کو ’’محکم‘‘ کہتے ہیں ، اس لیے کہ اس میں ’’أَبَدًا‘‘ کا لفظ آیا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی نسخ کے احتمال کو ختم کر رہا ہے۔
جس کو ’’حد قذف‘‘ لگ چکی ہو اس کی گواہی کبھی نہیں قبول کی جائے گی، اس حکم شرعی کو ’’محکم‘‘ کہتے ہیں ، اس لیے کہ اس میں ’’أَبَدًا‘‘ کا لفظ آیا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی نسخ کے احتمال کو ختم کر رہا ہے۔
نسخ وتبدیل کا احتمال نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں
ایک یہ کہ کلام اپنی ذات میں ہی نسخ کو قبول نہ کرے، جیسے آیاتِ توحید، آیاتِ صفات باری تعالیٰ
دوم یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد نسخ کا احتمال ختم ہوگیا ہو۔
پہلی صورت کو محکم لعینہ اور دوسرے کو محکم لغیرہ کہیں گے۔
وَاِنَّمَا یَظْھَرُ التَّفَاوُتُ فِیْ مُوْجَبِ ھٰذِہٖ الْاَسَامِی عِنْدَ التَّعَارُضِ اَمَّا الْکُلُّ فَیُوْجِبُ ثُبُوْتَ مَا انْتَظَمَہٗ یَقِیْنًا
اور ظاہر ہوگا تفاوت ان اقسام کے مُو جَب (حکم )میں تعارض کے وقت ،بہر حال تمام اقسام پس واجب کرتی ہیں اس چیز کے ثبوت کو جس کو یہ اقسام شامل ہیں یقین کے درجہ میں۔
اور ظاہر ہوگا تفاوت ان اقسام کے مُو جَب (حکم )میں تعارض کے وقت ،بہر حال تمام اقسام پس واجب کرتی ہیں اس چیز کے ثبوت کو جس کو یہ اقسام شامل ہیں یقین کے درجہ میں۔
مذکورہ چاروں اقسام حکم کو قطعی اور یقینی طور پر واجب کرتی ہیں ،البتہ ان چاروں کے حکم میں تعارض کے وقت فرق ظاہر ہوگا ،اس وقت اعلی پر عمل کریں گے ادنی کو چھوڑ دیں گے ،یعنی ظاہر اور نص میں تعارض ہوتو نص پر عمل کریں گے کیونکہ یہ ظاہر سے اعلی ہے ،اور اگر نص اور مفسر میں تعارض ہوتو مفسر پر عمل کرینگے کیونکہ یہ نص سے اعلی ہے اور اگر مفسر اور محکم میں تعارض ہوتو محکم پر عمل کرینگے کیونکہ یہ مفسر سے اقوی ہے۔
محکم کا حکم:
حکم المحکم وجوب العمل بہ من غیر احتمال
حکم کا حکم یہ ہے کہ اس پر عمل کرنا واجب ہے اور اس میں کسی طرح کا کوئی احتمال نہیں ہوتا نہ تاویل و تخصیص کا اور نہ ہی منسوخ ہونے کا۔
حکم کا حکم یہ ہے کہ اس پر عمل کرنا واجب ہے اور اس میں کسی طرح کا کوئی احتمال نہیں ہوتا نہ تاویل و تخصیص کا اور نہ ہی منسوخ ہونے کا۔
یعنی محکم جس چیز کو قطعی طور پر بتلائے اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ اس میں یہ احتمال نہیں ہوتا کہ ان معنی کے علاوہ جو لفظ محکم بتلا رہا ہے اس کے کوئی دوسرے معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ ظاہر، نص اور مفسر بھی اگرچہ مفید یقین ہونے میں قطعی ہوتے ہیں لیکن محکم مفید یقین میں تمام قطعیات سے افضل و اکمل ہے۔