یہ تعصب بھی عجیب مرض ہے بھئی، اس کا مریض نسل، وطن، زبان، مذہب اور فرقے کی بنیاد پر اپنے اور غیر کے درمیان امتیاز کی ایک لکیر کھینچتا ہے اور پھر اس لکیر کا فقیر ہوجاتا ہے۔
قسمت کی لکیر کا بدلنا آسان ہے مگر نفرت کی اس لکیر کا مٹنا بہت مشکل۔ لیکن جب یہ لکیر مشکل میں ڈالتی ہے تو اس مشکل کو آسان کرنا مصیبت بن جاتا ہے، کبھی کبھی تو یہ مشکل معاشروں اور ملکوں کی شکل ہی بدل دیتی ہے۔ پھر چاہے یہ کہہ کر پچھتاتے رہیے کہ ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ بگڑی نہیں بنتی، یعنی ’گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر‘۔
ہندو پانی اور مسلم پانی کی لکیر کا نتیجہ ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں نکلا اور بنگالیوں سے تعصب پر مبنی سلوک اور پھر ’اُدھر تم اِدھر ہم‘ کے نعرے نے اس لکیر کو خلیج میں بدل دیا، یہاں وضاحت کردیں کہ یہ وہ خلیج نہیں جس کے خلیجی ممالک سے امداد آتی ہے، ہم اس خلیج کا تذکرہ کر رہے ہیں جس نے آن کی آن میں پاکستانیوں کی تعداد کم کردی تھی۔ آبادی پر اتنی تیزی سے قابو پانے کا یہ طریقہ ہماری ہی ایجاد ہے، جسے کوئی اور ملک اپنانے کی ہمت نہیں کرسکا۔
ہمارے ساتھ ایک اور مصیبت یہ ہوئی کے سانپ کے نکلنے کے بعد جس سرحد کی لکیر کو پیٹنا تھا وہ ہم سے کوئی ہزار میل دُور تھی، اس لیے ہم بس اپنے سَر اور سینے پیٹ کر رہ گئے۔ یہ حقیقت بھی بتادیں کہ نفرت اور بے گانگی کی لکیر بناتا تعصب کا سانپ اپنی لکیر زہر کی نہر کی صورت چھوڑ جاتا ہے۔ یہ دو منہ کا سانپ دوسروں کو ڈسنے کے لیے آستین میں پالا جاتا ہے۔ اسے خوب دودھ پلایا جاتا ہے، مگر یہ دودھ بخشتا ہے نہ پلانے والے کو۔
محبت اندھی ہوتی ہے اور تعصب عقل کا اندھا ہی نہیں ہوتا بلکہ تمام حسوں سے محروم ہوتا ہے۔ اس کا معاملہ یہ ہے کہ ’اپنوں‘ کے لیے حساس اور ’غیروں‘ کے لیے ’بے حس‘۔ اپنوں کے لیے یہ حساس اپنا حصہ بھتوں کی صورت اپنوں ہی سے وصول کرتا ہے۔ ساون کے اندھے کو ہری ہری سوجھتی ہے، لیکن تعصب کے اندھے کو کچھ نہیں سوجھتا تو وہ سبز باغ کی ہریالی دکھا کر اپنا کام چلاتا ہے۔
جرمنوں کو یہ باغ ہٹلر نے دکھائے تھے، جس سے ان کا دل باغ باغ ہوگیا تھا۔ ہٹلر کی پارٹی والے اور ان کے ہم نوا یہ سمجھتے رہے کہ دنیا پر آریہ نسل کے راج کا دور ’آریا‘ ہے۔ مگر اس سبز باغ کا نتیجہ اجڑے چمن کی صورت میں نکلا۔ آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا، لٹتا کیوں نہ، اس گلستاں کی ہر شاخ پر نسلی برتری کا شکار اُلو بیٹھے تھے
تعصب کا اندھا جب ریوڑیاں بانٹتا ہے تو اپنوں اپنوں کو دیتا ہے، مگر یہ سیانا بانٹنے کے لیے صرف ریوڑیاں ہی منتخب کرتا ہے کیونکہ سستی ہوتی ہیں۔ چلغوزے ہاتھ آئیں تو بانٹتا نہیں بیچتا ہے اور اپنے اور غیر کے فرق سے بے نیاز ہوکر بس اپنے دام کھرے کرتا ہے۔
تعصب غیروں کی طرح اپنوں کو بھی مارتا ہے لیکن اس میں بھی فرق صاف ظاہر ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ’اپنا مارے گا تو چھاؤں میں ڈالے گا‘۔ اپنائیت زیادہ ہو تو اپنوں کو مارنے کے بعد سائے میں ڈالنے کی مشقت نہیں کی جاتی، بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ اپنے کو دھوپ میں مارا بھی نہ جائے، اسی لیے زیادہ تر اپنے اندھیرے میں اور تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں۔
تعصب جب انتہاپسندی میں ڈھل جائے تو مارنے کے معاملے میں اتنا حساس ہوجاتا ہے کہ سوچتا ہے اس سے پہلے کہ اپنے کو کوئی دوسرا مارے ہم خود کیوں نہ ماردیں۔ چنانچہ گاندھی جی کو نتھو رام گوڈسے نے قتل کردیا اور قائداعظم کی جان لینے کے لیے رفیق صابر ’یہی تو ہے وہ اپنا پن‘ کہتا چلا آیا۔
آنکھ کو من پسند نظارے دکھانے کے لیے تعصب کی عینک ایجاد کی گئی، جس کا نمبر تعصب کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے۔ یہ قریب اور دُور کی نظر کی نہیں فریبِ نظر کی عینک ہوتی ہے۔ یہ عینک مناظر کو یکسر بدل دیتی ہے، مثلاً اگر اپنا غیر کو تھپڑ مار رہا ہے، تو یوں لگے گا کہ غیر اپنے کی ہتھیلی پر گال مار رہا ہے۔ امریکا اور مغربی میڈیا فلسطینیوں اور اسرائیل کا معاملہ یہی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔
تعصب کو پیار سے تعاقب کہتے ہیں، کیونکہ اس میں مبتلا شخص ماضی کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ شہروں کے معروف نام چھین کر انہیں صدیوں پرانے نام دیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس پرانے ناموں کو بدل کر مقامات کو اپنا بنانے کا چلن بھی ہے۔
یوں تو تاریخ خود کو دہراتی ہے لیکن تعصب کی تاریخ خود کو بناتی ہے۔ اپنوں کی تاریخ لکھتے ہوئے سیاہ باب اور سیاہ کار باپ نکال دیے جاتے ہیں، ان کی جگہ سنہری اوراق اور دمکتے اجداد شامل کیے جاتے ہیں۔ مشکل پیش آئے تو اجداد کو دھو دھلا کر اور چمک پٹی لگاکر چمکا لیا جاتا ہے۔ تاریخ کیا اب تو تعصب کے نصاب میں سائنس بھی شامل ہوگئی ہے، جس کے مطابق ہر ٹیکنالوجی سیکڑوں ہزاروں سال پہلے پُرکھوں نے ایجاد کرلی تھی، جسے بعد میں غیروں نے اپنے نام کرلیا۔
ایک غزل ہےناں ’محبت بڑے کام کی چیز ہے‘۔ محبت کا تو معلوم نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ تعصب بڑے کام کی چیز ہے۔ یہ ’پگ نوں لگ گیا داغ‘ کا نعرہ لگاکر الیکشن جتوادیتا ہے، دیسی مال خریدنے کی ترغیب دے کر ملکی سرمایہ داروں کے وارے نیارے کردیتا ہے اور ہتھیاروں کے کاروبار کا بیڑا پار لگادیتا ہے۔ تو بھئی اتنے فائدے والے جذبے کے دنیا سے خاتمے کا کوئی امکان کم از کم مجھے تو نظر نہیں آتا۔
قسمت کی لکیر کا بدلنا آسان ہے مگر نفرت کی اس لکیر کا مٹنا بہت مشکل۔ لیکن جب یہ لکیر مشکل میں ڈالتی ہے تو اس مشکل کو آسان کرنا مصیبت بن جاتا ہے، کبھی کبھی تو یہ مشکل معاشروں اور ملکوں کی شکل ہی بدل دیتی ہے۔ پھر چاہے یہ کہہ کر پچھتاتے رہیے کہ ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ بگڑی نہیں بنتی، یعنی ’گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر‘۔
ہندو پانی اور مسلم پانی کی لکیر کا نتیجہ ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں نکلا اور بنگالیوں سے تعصب پر مبنی سلوک اور پھر ’اُدھر تم اِدھر ہم‘ کے نعرے نے اس لکیر کو خلیج میں بدل دیا، یہاں وضاحت کردیں کہ یہ وہ خلیج نہیں جس کے خلیجی ممالک سے امداد آتی ہے، ہم اس خلیج کا تذکرہ کر رہے ہیں جس نے آن کی آن میں پاکستانیوں کی تعداد کم کردی تھی۔ آبادی پر اتنی تیزی سے قابو پانے کا یہ طریقہ ہماری ہی ایجاد ہے، جسے کوئی اور ملک اپنانے کی ہمت نہیں کرسکا۔
ہمارے ساتھ ایک اور مصیبت یہ ہوئی کے سانپ کے نکلنے کے بعد جس سرحد کی لکیر کو پیٹنا تھا وہ ہم سے کوئی ہزار میل دُور تھی، اس لیے ہم بس اپنے سَر اور سینے پیٹ کر رہ گئے۔ یہ حقیقت بھی بتادیں کہ نفرت اور بے گانگی کی لکیر بناتا تعصب کا سانپ اپنی لکیر زہر کی نہر کی صورت چھوڑ جاتا ہے۔ یہ دو منہ کا سانپ دوسروں کو ڈسنے کے لیے آستین میں پالا جاتا ہے۔ اسے خوب دودھ پلایا جاتا ہے، مگر یہ دودھ بخشتا ہے نہ پلانے والے کو۔
محبت اندھی ہوتی ہے اور تعصب عقل کا اندھا ہی نہیں ہوتا بلکہ تمام حسوں سے محروم ہوتا ہے۔ اس کا معاملہ یہ ہے کہ ’اپنوں‘ کے لیے حساس اور ’غیروں‘ کے لیے ’بے حس‘۔ اپنوں کے لیے یہ حساس اپنا حصہ بھتوں کی صورت اپنوں ہی سے وصول کرتا ہے۔ ساون کے اندھے کو ہری ہری سوجھتی ہے، لیکن تعصب کے اندھے کو کچھ نہیں سوجھتا تو وہ سبز باغ کی ہریالی دکھا کر اپنا کام چلاتا ہے۔
جرمنوں کو یہ باغ ہٹلر نے دکھائے تھے، جس سے ان کا دل باغ باغ ہوگیا تھا۔ ہٹلر کی پارٹی والے اور ان کے ہم نوا یہ سمجھتے رہے کہ دنیا پر آریہ نسل کے راج کا دور ’آریا‘ ہے۔ مگر اس سبز باغ کا نتیجہ اجڑے چمن کی صورت میں نکلا۔ آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا، لٹتا کیوں نہ، اس گلستاں کی ہر شاخ پر نسلی برتری کا شکار اُلو بیٹھے تھے
تعصب کا اندھا جب ریوڑیاں بانٹتا ہے تو اپنوں اپنوں کو دیتا ہے، مگر یہ سیانا بانٹنے کے لیے صرف ریوڑیاں ہی منتخب کرتا ہے کیونکہ سستی ہوتی ہیں۔ چلغوزے ہاتھ آئیں تو بانٹتا نہیں بیچتا ہے اور اپنے اور غیر کے فرق سے بے نیاز ہوکر بس اپنے دام کھرے کرتا ہے۔
تعصب غیروں کی طرح اپنوں کو بھی مارتا ہے لیکن اس میں بھی فرق صاف ظاہر ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ’اپنا مارے گا تو چھاؤں میں ڈالے گا‘۔ اپنائیت زیادہ ہو تو اپنوں کو مارنے کے بعد سائے میں ڈالنے کی مشقت نہیں کی جاتی، بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ اپنے کو دھوپ میں مارا بھی نہ جائے، اسی لیے زیادہ تر اپنے اندھیرے میں اور تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں۔
تعصب جب انتہاپسندی میں ڈھل جائے تو مارنے کے معاملے میں اتنا حساس ہوجاتا ہے کہ سوچتا ہے اس سے پہلے کہ اپنے کو کوئی دوسرا مارے ہم خود کیوں نہ ماردیں۔ چنانچہ گاندھی جی کو نتھو رام گوڈسے نے قتل کردیا اور قائداعظم کی جان لینے کے لیے رفیق صابر ’یہی تو ہے وہ اپنا پن‘ کہتا چلا آیا۔
آنکھ کو من پسند نظارے دکھانے کے لیے تعصب کی عینک ایجاد کی گئی، جس کا نمبر تعصب کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے۔ یہ قریب اور دُور کی نظر کی نہیں فریبِ نظر کی عینک ہوتی ہے۔ یہ عینک مناظر کو یکسر بدل دیتی ہے، مثلاً اگر اپنا غیر کو تھپڑ مار رہا ہے، تو یوں لگے گا کہ غیر اپنے کی ہتھیلی پر گال مار رہا ہے۔ امریکا اور مغربی میڈیا فلسطینیوں اور اسرائیل کا معاملہ یہی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔
تعصب کو پیار سے تعاقب کہتے ہیں، کیونکہ اس میں مبتلا شخص ماضی کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ شہروں کے معروف نام چھین کر انہیں صدیوں پرانے نام دیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس پرانے ناموں کو بدل کر مقامات کو اپنا بنانے کا چلن بھی ہے۔
یوں تو تاریخ خود کو دہراتی ہے لیکن تعصب کی تاریخ خود کو بناتی ہے۔ اپنوں کی تاریخ لکھتے ہوئے سیاہ باب اور سیاہ کار باپ نکال دیے جاتے ہیں، ان کی جگہ سنہری اوراق اور دمکتے اجداد شامل کیے جاتے ہیں۔ مشکل پیش آئے تو اجداد کو دھو دھلا کر اور چمک پٹی لگاکر چمکا لیا جاتا ہے۔ تاریخ کیا اب تو تعصب کے نصاب میں سائنس بھی شامل ہوگئی ہے، جس کے مطابق ہر ٹیکنالوجی سیکڑوں ہزاروں سال پہلے پُرکھوں نے ایجاد کرلی تھی، جسے بعد میں غیروں نے اپنے نام کرلیا۔
ایک غزل ہےناں ’محبت بڑے کام کی چیز ہے‘۔ محبت کا تو معلوم نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ تعصب بڑے کام کی چیز ہے۔ یہ ’پگ نوں لگ گیا داغ‘ کا نعرہ لگاکر الیکشن جتوادیتا ہے، دیسی مال خریدنے کی ترغیب دے کر ملکی سرمایہ داروں کے وارے نیارے کردیتا ہے اور ہتھیاروں کے کاروبار کا بیڑا پار لگادیتا ہے۔ تو بھئی اتنے فائدے والے جذبے کے دنیا سے خاتمے کا کوئی امکان کم از کم مجھے تو نظر نہیں آتا۔