ادبی لطائف

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
٭… رات کا وقت تھا۔ مجاز کسی میخانے سے نکل کر یونیورسٹی روڈ پر ترنگ میں جھومتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ اسی اثنا میں اْدھر سے ایک تانگہ گزرا۔ مجاز نے اسے آواز دی، تانگہ رُک گیا۔ مجاز اس کے قریب آئے اور لہرا کر بولے: "جناب، صدر جاؤگے؟“ تانگے والے نے جواب دیا: "ہاں، جاؤں گا۔” "اچھا تو جاؤ……..!” یہ کہہ کر مجاز لڑھکتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

٭… مجاز اور فراق کے درمیان کافی سنجیدگی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ ایک دم فراق کا لہجہ بدلا اور انہوں نے ہنستے ہوئے پوچھا: "مجاز! تم نے کباب بیچنے کیوں بند کر دیے؟” "آپ کے ہاں سے گوشت آنا جو بند ہو گیا۔” مجاز نے اُسی سنجیدگی سے فوراً جواب دیا۔

٭… مجاز تنہا کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب جو اُن کو جانتے نہیں تھے، اُن کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے۔ کافی کا آرڈر دے کر انہوں نے اپنی کن سُری آواز میں گنگنانا شروع کیا: "احمقوں کی کمی نہیں غالبؔ، ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں۔” مجاز نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: "ڈھونڈنے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے حضرت! خود بخود تشریف لے آتے ہیں۔

٭… کسی مشاعرے میں مجاز اپنی غزل پڑھ رہے تھے۔ محفل پورے رنگ پر تھی اور سامعین خاموشی کے ساتھ کلام سُن رہے تھے کہ اتنے میں کسی خاتون کی گود میں ان کا شیرخوار بچہ زور زور سے رونے لگا۔ مجاز نے اپنی غزل کا شعر ادھورا چھوڑتے ہوئے حیران ہو کر پوچھا: "بھئی! یہ نقشِ فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
فیروز خان نون کی پہلی بیوی، بیگم نون کے نام سے موسوم تھیں۔ جب فیروز خان نون نے دوسری شادی کرلی تو ان کی ایک شناسا نے مولانا سالک سے بطور مشورہ پوچھا : ’’اب دوسری بیوی کو کیا کہا جائے گا؟‘‘
مولانا نے بے ساختہ جواب دیا: ’’افٹر نون۔‘‘
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ایک بار پانی کی قلت سے مولانا عبدالمجید سالک بہت پریشان تھے۔ پطرس بخاری کو جب ان کی پریشانی کا علم ہوا تو وہ پانی کی کئی بالٹیاں کار میں رکھ کر مولانا کی کوٹھی پر لے گئے اور مولانا سے کہنے لگے: ’’دیکھئے حضور! آپ کو پانی پانی کرنے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔‘‘
سالک صاحب نے فوراً جواب دیا: ’’پطرس صاحب، آپ تو کیا، یہاں بڑے بڑے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔‘‘
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
سالک صاحب نے بڑی نکتہ رس طبیعت پائی تھی۔ ایک بار پنڈت ہری چند اختر سے فرمانے لگے… پنڈت جی آپ کا نام کیا ہوا، مسلم لیگ کا جھنڈا ہوگیا۔ پنڈت جی پوچھنے ہی والے تھے کہ سالک صاحب نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے وضاحت کی، ’’دیکھیے نا، یہ جھنڈے کا رنگ ہے سبز یعنی ’’ہری‘‘ اور اس پر چاند اور تارے کا نام یعنی ہری چند اختر۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
سالک صاحب، ہندو پاک مشاعرے میں شرکت کے لیے دہلی آئے ہوئے تھے۔ موتی محل ہوٹل میں قیام تھا۔ احباب میں گھرے بیٹھے تھے کہ ایک صاحبِ ذوق نے اپنے یہاں کھانے پر تشریف لانے کی درخواست کی۔ سالک صاحب نے عذر پیش کیا تو خوشتر گرامی نے کہا کہ مولانا ان کی دل شکنی نہ کیجئے دعوت قبول کر لیجیے۔ سالک صاحب نے اپنے روایتی تبسم کے ساتھ فرمایا: ’’مرغ وماہی کی اس دعوت کو قبول کرنے میں کوئی عذر نہیں، لیکن خطرہ یہ ہے کہ مرغ وماہی کے پیٹ میں مشاعرہ بھی چھپا ہوا ہے۔‘‘ ان کے اس جملہ پر محفل احباب قہقہہ زار بن گئی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
سالک صاحب روزنامہ ’’زمیندار‘‘ میں فکاہیہ کالم ’’افکار و حوداث‘‘ لکھا کرتے تھے۔ وہ ایک بار دہلی گئے تو خواجہ حسن نظامی سے ملنے کے لیے بستی نظام الدین بھی گئے۔ خواجہ صاحب بڑے تپاک سے پیش آئے اور درگاہ دکھانے کے لیے ان کو ساتھ لے کر چلے گئے۔ ایک معمولی سے مکان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: یہ ’’ایمان خانہ‘‘ ہے۔ سالک صاحب نے کہا: ’’اس پر کیا موقف ہے، اس نواح کے تو سبھی مکان ایمان خانے ہیں اور ہم جہاں سے اٹھ کر آئے ہیں کیا وہ ’’بے ایمان خانہ‘‘ ہے۔ خواجہ صاحب اس نکتہ سنجی پر خوب ہنسے اور فرمایا: آپ افکار لکھتے ہی نہیں، بولتے بھی ہیں۔

لارڈارون، ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے، ان کا دایاں ہاتھ جنگ میں کٹ چکا تھا۔ مختلف اخبارات نے اس تقرری پر مخالفانہ انداز میں لکھا، لیکن مولانا سالک نے ’’افکار و حوادث‘‘ میں جس طریقے سے لکھا وہ قابلِ تعریف ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ہندوستان پر حکومت کرنا، ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔‘‘
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
مولانا عبدالمجید سالک ہشاش و بشاش رہنے کے عادی تھے، جب تک دفتر میں رہتے، دفتر قہقہہ زار رہتا۔ اُن کی تحریروں میں بھی اُن کی طبیعت کی طرح شگفتگی تھی۔ جب لارڈویول ہندوستان کے وائسرے مقرر ہوئے تو سالک نے انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ وہ ایک آنکھ سے محروم ہیں، چنانچہ مولانا سالک نے انقلاب کے مزاحیہ کالم ’’افکار و حوادث‘‘ میں لکھا کہ لارڈویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘
 
Top