ایک خبر ٹی وی پرکچھ یوں سنی : حکام نے بڑی ’’تعداد‘‘ میں مضرِ صحت دودھ برآمد کرلیا۔گویا خبر لکھنے والے کو تعداد اور مقدار کا فرق معلوم نہیں تھا ۔ اس نے یہ نہیں سوچا کہ تعداد تو اس چیز کی ہوتی ہے جس کو عدد سے ظاہر کیا جاسکتا ہو ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ تعداد اس چیز کی ہوتی ہے جو قابلِ شمار ہو یعنی جسے گنا جاسکتا ہو، مثلاً انڈے، کیلے وغیرہ جو عدد سے ظاہر کیے جاسکتے ہیں، مثلاً پانچ کیلے ،سات انڈے۔دودھ کو تعداد میں کیسے ظاہر کیا جاسکتا ہے ؟یعنی پانچ دودھ ، سات دودھ تو ہونہیںسکتا ۔
تعداد ، مقدار اور وزن پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔ اردو کے ایک پروفیسر صاحب یونی ورسٹی سے نکلے تو سامنے ریڑھی پر ایک شخص مالٹے بیچ رہاتھا ۔ پروفیسر صاحب نے مالٹے خریدنے سے پہلے پوچھا ’’میاں!وزناً بیچتے ہو یا عدداً؟‘‘یہ سن کر وہ گھبراگیا کہ خدا جانے مجھ پر کیا الزام لگارہے ہیں۔ بے چارہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا ’’صاحب جی !دونوں میں سے کچھ بھی نہیں بیچ رہا۔ میں تو صرف مالٹے بیچتا ہوں ‘‘۔
ہمارے خبر نویس بھی اب مالٹے بیچنے والوں کی طرح ہیں، الّا ماشاء اللہ۔ بے چارے کچھ نہیں جانتے کہ کیا بیچتے ہیں۔ البتہ پروفیسر صاحب نے بھی اتنی گاڑھی اردو میں سوال کیا کہ اس غریب کا حواس باختہ ہونا فطری تھا۔ آسان اردو میں پوچھتے کہ میاں کلو کے حساب سے دیتے ہو یا درجن کے حساب سے ۔یعنی مقدار کے لحاظ سے یا تعداد کے لحاظ سے۔
بات یہ ہے کہ کچھ اشیا غیرقابلِ شمار (uncountable) ہوتی ہیں ، جیسے آٹا، دودھ یا پانی، جسے ہم مثلاً ’’ایک آٹا، تین دودھ، دس پانی‘‘ نہیں کہہ سکتے ۔بلکہ بہت سا آٹا ،تھوڑا پانی، زیادہ دودھ وغیرہ کہتے ہیں ۔کیونکہ ایسی چیزوں کی تعداد نہیں ہوتی ، مقدار ہوتی ہے۔ مثلاً یوں کہیں گے کہ’’ بڑی تعداد میں خراب انڈے اور بڑی مقدار میں خراب دودھ پکڑا گیا‘‘۔اسی طرح ’’ پانی بڑی مقدار میں ضائع ہوگیا ‘‘۔ پانی یا دودھ قابلِ شمار اسم (countable noun)نہیں ہیں ۔ ان کی تعداد نہیں ہوسکتی۔ان کی مقدار ہوتی ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب تعداد اور مقدار کی بات ہو تو اسم بھی دو طرح کا ہوتا ہے ، معیّن اور غیر معیّن۔جس اسم کی تعداد معیّن یعنی طے شدہ ہے اس کی ٹھیک ٹھیک تعداد یا مقدار معلوم ہوسکتی ہے، جیسے پانچ بچے، دو بیویاں، تین کلو چینی ،چار بکریاں، دس گز کپڑا۔ ان مثالوںمیں تعداد یا مقدار طے شدہ اور ٹھیک ٹھیک بیان ہوئی ہے اور یہ تعداد یا مقدارمعین ہے۔ لیکن غیر معیّن تعداد یا مقدار کے لیے چند، کچھ، تھوڑے، بعض، ذرا جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے : چند کتابیں، کچھ لوگ، تھوڑے سے چاول، بعض لڑکے، ذرا سانمک ۔
جو چیز وزن سے بیچی جائے وہ مقدار میں ظاہر کی جاتی ہے البتہ مقدارمعیّن ہوتو اس کے ساتھ وزن کا عدد لگایا جاتا ہے ، مثلاً دس کلو آٹا (یہاںشمار کرنے کے لیے دس کا عدد آٹے کے لیے نہیں بلکہ کلو کے لیے آیا ہے)، تین گلاس پانی (یہاں تین کا عدد پانی کے لیے نہیں بلکہ گلاس کے لیے آیا ہے اور گلاسوں کو آپ گن سکتے ہیں )۔جو چیز عدد سے ظاہر کی جائے اس کے لیے تعداد کا لفظ آتا ہے ۔جس چیز کو عدد سے ظاہر نہیں کرسکتے اس کے لیے مقدار کا لفظ لایا جاتا ہے ۔ بعض اشیا وزن سے بھی بیچی جاتی ہیں، گن کر بھی اور ناپ کر بھی۔ ان کی وضاحت کے لیے ناپ یا وزن یا گنتی کا عددساتھ لگانا پڑتا ہے ،مثلاً ایک لکڑی ، دولکڑیاں،یہ تو گنتی ہوگئی۔ پانچ فٹ لمبی لکڑی ،یہ ناپ ہوگیا اور دومن لکڑی، یہ وزن ہوگیا۔
٭٭…ترکش یعنی ؟
حال ہی میں ایک اخبار میں خبر کی سرخی میں لفظ ’’ترکش‘‘ نظر سے گزرا۔ پہلے تو ہم سمجھے کہ یہ تر کش یعنی تیر رکھنے کے خول کا ذکر ہے ۔ لیکن معلوم ہوا کہ یہ ہمارے تُرک بھائیوں کاذکر ہے ۔خبر لکھنے والے افلاطون نے’’ ترکی سے تعلق رکھنے والا ‘‘کے مفہوم کے لیے انگریزی میںرائج لفظ ’’ٹرکش‘‘ (Turkish) کو مشرف بہ اردو کرنے کی سعی ٔ لاحاصل فرمائی ہے۔ سیدھی طرح تُرک (ت پر پیش ) لکھ دیتے۔
تعداد ، مقدار اور وزن پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔ اردو کے ایک پروفیسر صاحب یونی ورسٹی سے نکلے تو سامنے ریڑھی پر ایک شخص مالٹے بیچ رہاتھا ۔ پروفیسر صاحب نے مالٹے خریدنے سے پہلے پوچھا ’’میاں!وزناً بیچتے ہو یا عدداً؟‘‘یہ سن کر وہ گھبراگیا کہ خدا جانے مجھ پر کیا الزام لگارہے ہیں۔ بے چارہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا ’’صاحب جی !دونوں میں سے کچھ بھی نہیں بیچ رہا۔ میں تو صرف مالٹے بیچتا ہوں ‘‘۔
ہمارے خبر نویس بھی اب مالٹے بیچنے والوں کی طرح ہیں، الّا ماشاء اللہ۔ بے چارے کچھ نہیں جانتے کہ کیا بیچتے ہیں۔ البتہ پروفیسر صاحب نے بھی اتنی گاڑھی اردو میں سوال کیا کہ اس غریب کا حواس باختہ ہونا فطری تھا۔ آسان اردو میں پوچھتے کہ میاں کلو کے حساب سے دیتے ہو یا درجن کے حساب سے ۔یعنی مقدار کے لحاظ سے یا تعداد کے لحاظ سے۔
بات یہ ہے کہ کچھ اشیا غیرقابلِ شمار (uncountable) ہوتی ہیں ، جیسے آٹا، دودھ یا پانی، جسے ہم مثلاً ’’ایک آٹا، تین دودھ، دس پانی‘‘ نہیں کہہ سکتے ۔بلکہ بہت سا آٹا ،تھوڑا پانی، زیادہ دودھ وغیرہ کہتے ہیں ۔کیونکہ ایسی چیزوں کی تعداد نہیں ہوتی ، مقدار ہوتی ہے۔ مثلاً یوں کہیں گے کہ’’ بڑی تعداد میں خراب انڈے اور بڑی مقدار میں خراب دودھ پکڑا گیا‘‘۔اسی طرح ’’ پانی بڑی مقدار میں ضائع ہوگیا ‘‘۔ پانی یا دودھ قابلِ شمار اسم (countable noun)نہیں ہیں ۔ ان کی تعداد نہیں ہوسکتی۔ان کی مقدار ہوتی ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب تعداد اور مقدار کی بات ہو تو اسم بھی دو طرح کا ہوتا ہے ، معیّن اور غیر معیّن۔جس اسم کی تعداد معیّن یعنی طے شدہ ہے اس کی ٹھیک ٹھیک تعداد یا مقدار معلوم ہوسکتی ہے، جیسے پانچ بچے، دو بیویاں، تین کلو چینی ،چار بکریاں، دس گز کپڑا۔ ان مثالوںمیں تعداد یا مقدار طے شدہ اور ٹھیک ٹھیک بیان ہوئی ہے اور یہ تعداد یا مقدارمعین ہے۔ لیکن غیر معیّن تعداد یا مقدار کے لیے چند، کچھ، تھوڑے، بعض، ذرا جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے : چند کتابیں، کچھ لوگ، تھوڑے سے چاول، بعض لڑکے، ذرا سانمک ۔
جو چیز وزن سے بیچی جائے وہ مقدار میں ظاہر کی جاتی ہے البتہ مقدارمعیّن ہوتو اس کے ساتھ وزن کا عدد لگایا جاتا ہے ، مثلاً دس کلو آٹا (یہاںشمار کرنے کے لیے دس کا عدد آٹے کے لیے نہیں بلکہ کلو کے لیے آیا ہے)، تین گلاس پانی (یہاں تین کا عدد پانی کے لیے نہیں بلکہ گلاس کے لیے آیا ہے اور گلاسوں کو آپ گن سکتے ہیں )۔جو چیز عدد سے ظاہر کی جائے اس کے لیے تعداد کا لفظ آتا ہے ۔جس چیز کو عدد سے ظاہر نہیں کرسکتے اس کے لیے مقدار کا لفظ لایا جاتا ہے ۔ بعض اشیا وزن سے بھی بیچی جاتی ہیں، گن کر بھی اور ناپ کر بھی۔ ان کی وضاحت کے لیے ناپ یا وزن یا گنتی کا عددساتھ لگانا پڑتا ہے ،مثلاً ایک لکڑی ، دولکڑیاں،یہ تو گنتی ہوگئی۔ پانچ فٹ لمبی لکڑی ،یہ ناپ ہوگیا اور دومن لکڑی، یہ وزن ہوگیا۔
٭٭…ترکش یعنی ؟
حال ہی میں ایک اخبار میں خبر کی سرخی میں لفظ ’’ترکش‘‘ نظر سے گزرا۔ پہلے تو ہم سمجھے کہ یہ تر کش یعنی تیر رکھنے کے خول کا ذکر ہے ۔ لیکن معلوم ہوا کہ یہ ہمارے تُرک بھائیوں کاذکر ہے ۔خبر لکھنے والے افلاطون نے’’ ترکی سے تعلق رکھنے والا ‘‘کے مفہوم کے لیے انگریزی میںرائج لفظ ’’ٹرکش‘‘ (Turkish) کو مشرف بہ اردو کرنے کی سعی ٔ لاحاصل فرمائی ہے۔ سیدھی طرح تُرک (ت پر پیش ) لکھ دیتے۔