صحت زبان:صحیح یا سہی

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
عام طورپرجن الفاظ کے لکھنے میں اشتباہ ہوتاہے، ان میں سے "صحیح "اور "سہی "بھی ہیں، کہ بسااوقات اچھے خاصے ذی علم افرادبھی ان کے اصل مواقعِ استعمال کاادراک نہیں کرپاتے اورایک کودوسرے کی جگہ استعمال کربیٹھتے ہیں ـ
صحیح اسمِ صفت ھے، اصلاً عربی زبان کالفظ ہے اور "سالم "کے مترادف کے طورپربھی مستعمل ہے، اس کامعنی ہے درست، تندرست، پورا، سارا، سموچا،کسی قول یافعل کی تصدیق کرنا ...البتہ درست کے معنی میں "صحیح "کااستعمال شائع وذائع ہے؛ لیکن جب تندرست کے معنی میں استعمال ہوتاہے، تو عام طورپر "صحیح سلامت"یا "صحیح سالم "لکھتے اوربولتے ہیں، اسی طرح پورااورمکمل کے معنی میں بھی عام طورپرصرف "سالم "لکھتے یابولتے ہیں،جیسے:

دیوارتوہے راہ میں سالم کھڑی ہوئی
سایہ ہے درمیان سے کٹ کرپڑاہوا

لغت کی کتابوں میں "صحیح "کاایک معنی دستخط بھی مذکورہے، مگرمیرے مطالعے میں اس معنی میں یہ لفظ اب تک نہیں آیاہے ـ
فی الجملہ اس لفظ کے محلِ استعمال میں کوئی اشتباہ نہیں ہوناچاہیے، کیوں کہ اس کااستعمال ہراس مقام پرہوتاہے، جہاں کسی قول، فعل، امر یاشئ کی تاییدمقصودہو، مثلاً: آپ کاموقف صحیح ہے، آپ کی بات صحیح تھی، آپ نے صحیح قدم اٹھایا وغیرہ ـ

"سہی "کی اصل بھی "صحیح "ہی ہے، البتہ اس کااستعمال "صحیح "جتناعام نہیں ہے اورنہ اس کے محلِ استعمال میں عمومیت ہے،فرہنگِ آصفیہ میں اس لفظ کاایک تلفظ "سئی "بھی بتایاگیاہے اور اس کے کل گیارہ مواقعِ استعمال درج کیے گئے ہیں، ہم ذیل میں بالاختصاران کاذکرکرتے ہیں؛ تاکہ سمجھنے میں بھی سہولت ہواور "سہی "کے استعمال کے صحیح مواقع کی شناخت ہوسکے:
1:ٹھیک، بجا، درست کے معنی میں جیسے:جوتم کہو، سوہی سہی!
2:براے ایجاب، قبول، منظور، تسلیم، مانا، فرض کیا، جیسے غالب کے اس شعرمیں:
ہم بھی دشمن تونہیں،ہیں اپنے
غیرکوتجھ سے محبت ہی سہی!
3:براے شرط جیسے: آتوسہی! کھاتوسہی! جاتوسہی! وغیرہ
4:تکمیلِ فعل کے لیے، جیسے:میاں کھاؤتوسہی پھرتکلف کرلینا!یعنی پہلے کھاناتوکھالو یاجیسے:
اس کویاں لاتوسہی، سوچ میں بیٹھی ہے کیوں؟
(رنگین)
5:غنیمت ہے، مغتنم ہے، بہترہے کے معنوں میں، جیسے:
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھرکی رونق
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی!
(غالب)
یارسے چھیڑچلی جائے اسد
گرنہیں وصل توحسرت ہی سہی!
(غالب)
6:تسلیِ خاطر کے واسطے، جیسے:
اپنی ہستی سے ہوجوکچھ ہو
آگہی گرنہیں، غفلت ہی سہی!
(غالب)
ہم بھی تسلیم کی خوڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی!
(غالب)
7:تاکیدکے لیے، جیسے:
کچھ تودے اے فلکِ ناہنجار
آہ وفریادکی رخصت ہی سہی!
(غالب)
8:تسلسل کے معنی میں، جیسے:
قطع کیجے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے توعداوت ہی سہی!
(غالب)
9:تاکیدِکلام یعنی مانو، جانو، خیال کروکے معنی میں،جیسے:
عشق مجھ کونہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی!
(غالب)
10:منظورکرو، قبول کروکے معنی میں، جیسے:
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں، خلوت ہی سہی!
(غالب)
یعنی جلوت نہ سہی، مجھے خلوت میں ھی بلانامنظورکرو
11:ہرچہ باداباد، کچھ بھی ہو، کچھ پروانہیں کے معنی میں، جیسے:
چلویونہی سہی، ہم فقیرھی سہی وغیرہ

(مستفادازفرہنگِ آصفیہ، جلد: سوم، ص: 140-141،فیروزاللغات وغیرہ)

نوٹ: اس بارے میں کسی صاحب کومزیدتحقیق ہویامیری تحریرمیں کوئی قابلِ توجہ امرہو، توضرورآگاہ فرمائیں ..
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آپ کی تحریر کافی لمبی چھو ڑی سہی لیکن صحیح کہہ رہی ہیں آپ ۔

سمجھا تھا جو غلط مرے لفظ صحیح کو
جاہل تھا بے وقوف تھا بے امتیاز تھا
 
Top