آج کل ’’رقص و سرور‘‘ (آخر میں رے)کی ترکیب استعمال ہورہی ہے اور کسی نے بتایا کہ برخط یعنی آن لائن کوئی لغت بنائی گئی ہے اس میں بھی بڑے طمطراق سے رقص و سرور لکھا گیا۔ حالانکہ صحیح ترکیب رقص وسرود (آخر میں دال) ہے۔
’’سُرود‘‘ (س۔ر۔و۔د)فارسی زبان کا لفظ ہے ۔ اس میں سین پر ضمہ یعنی پیش ہے اور واو معروف نیز واو مجہول سے بھی اس کا تلفظ کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن آخری حرف اس کا ’’رے ‘‘ (ر) نہیں ’’دال‘‘ (د) ہے۔ معنی ہیں : گیت، نغمہ، گانا۔دوسرے معنی ہیں مضراب سے بجایا جانے والا ایک ساز۔
غالب نے کہا :
شورشِ باطن سے یاں تک مجھ کو غفلت ہے کہ آہ
شیونِ دل یک سرودِ خانۂ ہمسایہ ہے
بانگ ِ درا میں ایک نظم ایک آرزو کے عنوان سے ہے جس کا ایک شعر ہے :
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہے میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
تو ’’رقص و سرود‘‘ کا مطلب ہے ناچ اور گانا۔
جبکہ ’’سُرور‘‘(س۔ر۔و۔ر) عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں : خوشی، فرحت۔ ہلکے سے نشے کو بھی سرور کہتے ہیں ۔ سرور میں سین پر پیش ہے اور واو معروف ۔ اس کا آخری حرف رے ہے۔ یعنی درست ترکیب ہے رقص و سرود (آخر میں دال کے ساتھ) نہ کہ رقص و سرور(آخر میں رے کے ساتھ)۔
سرور کی سند میں غالب کا شعردیکھیے:
ساقی بہارِ موسمِ گل ہے سرور بخش
پیماں سے ہم گزر گئے پیمانہ چاہیے
اقبال کے ہاں بھی سرور کا لفظ متعدد بار آیا ہے، مثلاًـ:
صحبتِ اہلِ صفا نور و حضور و سرور
سرخوش و پُر سوز ہے لالہ لبِ آبجو
چلتے چلتے یہ بھی بتادیا جائے کہ نشے کے مفہوم میں سرور کے ساتھ ایک اور لفظ خُمار (خ پر پیش) بھی استعمال ہوتا ہے لیکن سرور اور خمار میں فرق ہے۔ سروراس نشے کو کہتے ہیں جو چڑھ رہا ہو یا چڑھا ہوا ہو۔ جبکہ اترتے نشے یا نشہ اترنے کی کیفیت کو خمارکہتے ہیں۔ نیند کے اثر یا نیند غالب ہونے کی کیفیت کو بھی خمار کہتے ہیں۔
٭…قرض دام نہیں قرض وام
ایک حرف کو درست نہ پڑھنے کی وجہ سے اسی طرح کی غلطی ایک اور ترکیب میں بھی ہوتی ہے اور وہ ہے قرض وام ۔ قرض کے بعد دوسرا لفظ یہاں وام ہے (واو سے)، لیکن بعض لوگ اسے دام (دال سے) لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ وام فارسی کا لفظ ہے معنی ہیں ادھار ، قرض۔ ممکن ہے کوئی سوال کرے کہ جب قرض کہہ دیا تو پھر اسی کا ہم معنی وام کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری زبان میں ایسے کئی مرکبات رائج ہیں جن میں ہم معنی یا مترادف الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور ان کے درمیان واو عطف بھی نہیں آتا۔ شوکت سبزواری نے ایسے ترادفی مرکبات کا ذکر کرتے ہوئے یہ مثالیں دی ہیں: بھلا چنگا، خا ک دھول، اچھل کود، کتر بیونت، بھولا بھٹکا۔ ان میں دو ہم معنی الفاط بغیر واو عطف کے آتے ہیں۔ قرض وام بھی ایک ترادفی مرکب ہے اورواو عطف کے بغیر ہے۔
وام لینا یعنی قرض لینا ، مستعار لینا۔ غالب کے کلام میں بھی یہ مرکب آیا ہے۔ کہتے ہیں:
نگاہ ِ چشم ِ حاسد وام لے اے ذوق ِ خود بینی
تماشائی ہوں وحدت خانۂ آئینۂ دل کا
وام دینا یعنی ادھار دینا۔ شاد عظیم آبادی نے کہا ہے:
کیا اس سے بحث مفت ہمیں دے یا وام دے
احسان ہے اگر بہ سبیلِ دوام دے
’’سُرود‘‘ (س۔ر۔و۔د)فارسی زبان کا لفظ ہے ۔ اس میں سین پر ضمہ یعنی پیش ہے اور واو معروف نیز واو مجہول سے بھی اس کا تلفظ کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن آخری حرف اس کا ’’رے ‘‘ (ر) نہیں ’’دال‘‘ (د) ہے۔ معنی ہیں : گیت، نغمہ، گانا۔دوسرے معنی ہیں مضراب سے بجایا جانے والا ایک ساز۔
غالب نے کہا :
شورشِ باطن سے یاں تک مجھ کو غفلت ہے کہ آہ
شیونِ دل یک سرودِ خانۂ ہمسایہ ہے
بانگ ِ درا میں ایک نظم ایک آرزو کے عنوان سے ہے جس کا ایک شعر ہے :
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہے میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
تو ’’رقص و سرود‘‘ کا مطلب ہے ناچ اور گانا۔
جبکہ ’’سُرور‘‘(س۔ر۔و۔ر) عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں : خوشی، فرحت۔ ہلکے سے نشے کو بھی سرور کہتے ہیں ۔ سرور میں سین پر پیش ہے اور واو معروف ۔ اس کا آخری حرف رے ہے۔ یعنی درست ترکیب ہے رقص و سرود (آخر میں دال کے ساتھ) نہ کہ رقص و سرور(آخر میں رے کے ساتھ)۔
سرور کی سند میں غالب کا شعردیکھیے:
ساقی بہارِ موسمِ گل ہے سرور بخش
پیماں سے ہم گزر گئے پیمانہ چاہیے
اقبال کے ہاں بھی سرور کا لفظ متعدد بار آیا ہے، مثلاًـ:
صحبتِ اہلِ صفا نور و حضور و سرور
سرخوش و پُر سوز ہے لالہ لبِ آبجو
چلتے چلتے یہ بھی بتادیا جائے کہ نشے کے مفہوم میں سرور کے ساتھ ایک اور لفظ خُمار (خ پر پیش) بھی استعمال ہوتا ہے لیکن سرور اور خمار میں فرق ہے۔ سروراس نشے کو کہتے ہیں جو چڑھ رہا ہو یا چڑھا ہوا ہو۔ جبکہ اترتے نشے یا نشہ اترنے کی کیفیت کو خمارکہتے ہیں۔ نیند کے اثر یا نیند غالب ہونے کی کیفیت کو بھی خمار کہتے ہیں۔
٭…قرض دام نہیں قرض وام
ایک حرف کو درست نہ پڑھنے کی وجہ سے اسی طرح کی غلطی ایک اور ترکیب میں بھی ہوتی ہے اور وہ ہے قرض وام ۔ قرض کے بعد دوسرا لفظ یہاں وام ہے (واو سے)، لیکن بعض لوگ اسے دام (دال سے) لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ وام فارسی کا لفظ ہے معنی ہیں ادھار ، قرض۔ ممکن ہے کوئی سوال کرے کہ جب قرض کہہ دیا تو پھر اسی کا ہم معنی وام کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری زبان میں ایسے کئی مرکبات رائج ہیں جن میں ہم معنی یا مترادف الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور ان کے درمیان واو عطف بھی نہیں آتا۔ شوکت سبزواری نے ایسے ترادفی مرکبات کا ذکر کرتے ہوئے یہ مثالیں دی ہیں: بھلا چنگا، خا ک دھول، اچھل کود، کتر بیونت، بھولا بھٹکا۔ ان میں دو ہم معنی الفاط بغیر واو عطف کے آتے ہیں۔ قرض وام بھی ایک ترادفی مرکب ہے اورواو عطف کے بغیر ہے۔
وام لینا یعنی قرض لینا ، مستعار لینا۔ غالب کے کلام میں بھی یہ مرکب آیا ہے۔ کہتے ہیں:
نگاہ ِ چشم ِ حاسد وام لے اے ذوق ِ خود بینی
تماشائی ہوں وحدت خانۂ آئینۂ دل کا
وام دینا یعنی ادھار دینا۔ شاد عظیم آبادی نے کہا ہے:
کیا اس سے بحث مفت ہمیں دے یا وام دے
احسان ہے اگر بہ سبیلِ دوام دے