’’لیس العلم بکثرۃ الروایۃ ولکن العلم الخشیۃ۔‘‘
’’علم خشیت الٰہی کا نام ہے، نہ کہ کثرتِ روایات کا۔ ‘‘فائدہ:
ایک صحابیِ رسول کی فراستِ ایمانی کا اندازہ لگائیے۔ خیر القرون میں رہتے ہوئے انہوں نے جس علمی فتنے کی نشاندہی فرمائی ہے، آج اُسے فتنہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔
علمِ دین کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ معرفتِ الٰہی حاصل ہو، اس معرفت کے نتیجے میں انسان کا رواں رواں خشیتِ الٰہی میں ڈوب کر سراپا اطاعت بن جائے۔ خشیت معرفت سے حاصل ہوتی ہے اور معرفت علم سے، انبیاء کرام o کو یہ معرفت سب سے مستند علم ’’وحی‘‘ سے براہِ راست حاصل ہوئی تھی، اس لیے ان میں خشیتِ الٰہی بھی بکمال پائی جاتی ہے۔
اس تعلقِ علم کی وجہ سے علماء کرام کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ وہ عام لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والے ہوتے ہیں:
’’إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمَائُ۔‘‘ (فاطر: ۲۸) ۔۔۔۔۔ ’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔‘‘
جو علم انسان کو خشیت سے دوچار کرنے کے بجائے محض جستجو کے لیے مہمیز کا کام دے، اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ ایسا شخص قابلِ رحم ہے جس کی معلومات تو وسیع ہوں، مقالے، مضامین، علمی تحقیقات نوکِ قلم پر ہوں، ہر عہد کی کتابوں سے نام بہ نام واقفیت ہو، مگر دل خشیتِ الٰہی سے خالی ہو۔
ایک اضافی خوبی کے لیے حقیقی مقصد کو نظر انداز کر دینا، پانی کی تلاش میں سراب کے پیچھے جان گنوانے کے مترادف ہے۔