ہاں میں مدرسے کا سفیر ہوں۔ جی وہی سفیر جسے عرف عام میں مُچَنِّد اور چندہ کرنے والا کہا جاتا ہے۔ جسے غلط نگاہوں سے قوم دیکھتی ہے۔ ہم شہر میں تو مہمان بن کر آتے ہیں؛ لیکن رؤسائے شہر پیسوں کے زعم میں ہمارے ساتھ ذلت کا معاملہ کرتے ہیں۔ ہاں میں مدارسِ اسلامیہ ہند کا سفیر ہوں۔ رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں جہاں لوگ اپنے گھروں میں مقدس ماہ کی مبارک ساعتیں گزارتے ہیں وہیں ہم سفراء مدارسِ اسلامیہ طلبائے مدارس اسلامیہ کے سال بھر کے نان ونفقہ کے لیے دور دراز کے علاقوں کا سفر کرتے ہیں، مہمانانِ رسول کے قیام وطعام کے انتظام کے لئے تگ و دو کرتے ہیں، سفر کے مصائب و آلام برداشت کرتے ہیں، ہم عموماً ایسے علاقوں میں مدرسے چلاتے ہیں جہاں کی آبادی غریب ہے، جہاں مسلمان کسمپرسی کے عالم میں ہیں، جہاں مسلمان پریشان حال ہیں، ایسے علاقے کے مدرسوں میں پڑھ رہے طلباء اسلامیہ کے لیے ہم شہروں کا رخ کرتے ہیں؛ تاکہ مدرسے کا چندہ کرکے ان کے اخراجات پورے کرسکیں، انہیں سہولیات فراہم کرسکیں؛ تاکہ وہ قیام وطعام کی فکر سے آزاد ہوکر پورے انہماک سے تعلیم پر توجہ دیں، ہم اس لیے چندہ کرتے ہیں؛ تاکہ مدرسوں کی تعمیر ومرمت کی جاسکے، ان کی خستہ حالی دور کی جاسکے، ہم اساتذہ کو تنخواہ بروقت مل سکے۔ ان سیٹھوں کی زکوۃ مستحقین تک پہنچ سکے؛ لیکن جب ہم شہر میں پہنچتے ہیں۔ یہاں کے بڑے سیٹھوں کے پاس اپنے مدارس کی رسید دکھاتے ہیں ، تو کچھ سیٹھ تو ہمیں احترام کے ساتھ چندہ دے دیتے ہیں ، زیادہ تر سیٹھ لائن لگواتے ہیں،ہم روزہ دار سفراء کو قطار میں کھڑا کردیتے ہیں، تو کچھ امیر لوگ دھکے مار کر بھگا بھی دیتے ہیں ۔ کچھ مدارس کے سفرا کو حقیر سمجھتے ہیں اورکبرو نخوت سے پیش آکر سفرائے مدارس اسلامیہ کو ذلیل کرتے ہیں شاید انہیں یہ لگتا ہے کہ یہ لوگ بھکاری ہیں، اپنا پیٹ پالنے کےلیے اس طرح کی حرکتیں کررہے ہیں حالانکہ وہ زکوٰۃ ادا کررہے ہوتے ہیں، اپنے رب کے فرمان کو پورا کررہے ہوتے ہیں، انہیں تو درست طریقے سے رب العالمین کے حکم پر عمل کرناچاہئے تھا۔ انہیں شاید کم علمی کی وجہ سے یہ نہیں معلوم ہے کہ مدارسِ اسلامیہ ہی ہندوستان میں دین کی بقا کا ضامن ہیں ، ان ہی خستہ حال عمارتوں میں بوریہ پر بیٹھ کر قرآن وحدیث پڑھانے و الوں کی وجہ سے ہی ہندوستان میں قال اللہ وقال الرسول کی صدا بلند ہورہی ہے، اگر ان پر توجہ نہیں دی گئی، ان کے ساتھ اس طرح کا بدبختانہ رویہ برتا جاتا رہا تو عنقریب ہندوستان میں برما وشام کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ بوسنیا کی تاریخ دہرائی جائے گی، غرناطہ کی تاریخ دہرائی جائے گی جہاں اسلام کا نام لینا جرم عظیم قرار دیا جائے گا، جہاں قرآن پڑھنا پڑھانا جرم ہوگا ۔
اگر اسی طرح سے ہم سفرائے مدارس اسلامیہ کو یہ سیٹھ حضرات ذلیل کرنے کا کام کرتے رہے ، قوم کے سامنے رسوا کرتے رہے ، توہینِ علماء کے مرتکب ہوتے رہے تو انجام دنیا وآخرت میں خطرناک ہوگا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تمام سفرائے مدارس اسلامیہ درست ہیں، سبھی اچھے ہیں، نہیں؛ ہماری جماعتوں میں بھی کچھ جعلی، فراڈی در آئے ہیں، مدرسہ نہ ہونے کے باوجود بھی وہ رسیدیں چھپوا کر چندہ جمع کرکے اپنے لئے جہنم کا ایندھن جمع کررہے ہیں، مستحقین زکوۃ تک زکوۃ پہنچنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں، کچھ فراڈی سفیر گائوں میں مدرسے بنانے کی بات کرکے یہاں کے سیٹھوں سے چندہ جمع کرتے ہیں اور جب کسی سیٹھ کا اس گائوں کا دورہ ہوتا ہے تو اپنے پیٹ کو گنبد اور دونوں ہاتھوں کو مینار سے تعبیر کرکے اپنی جہالت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ان جیسے فراڈیوں کی غلط حرکت کی وجہ سے پورے سفراء کرام کی جماعت کو حقارت بھری نگاہوں سے دیکھنا بالکل غلط ہے۔ ان فراڈیوں کے ساتھ آپ سختی سے پیش آئیں انہیں اپنی زکوۃ دے کرخراب نہ کریں؛ بلکہ ان پر لگام کسیں، ان کا بائیکاٹ کریں؛ لیکن ہم جن کے پاس تمام ثبوت اور تمام دستاویزات ہوتے ہیں،جنہیں جمعیۃ علماء ہند اور دیگر دینی اداروں نے نہایت باریک بینی سے جانچ پڑتال کرنے کےبعد ممبئی واطراف ممبئی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں میں چندہ جمع کرنے کی تصدیق دی ہے ، اسی طرح بریلوی حضرات اور دیگر مکاتبِ فکر کے یہاں سے بھی ان کی موقر جماعتوں کی جانب سے تصدیق نامے جارے کیے جاتے ہیں، ان کی تصدیقات کو مدنظر رکھتےہوئے ان مدارس کے سفرا کے ساتھ بہترین رویہ اپنائیں، سبھی کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکیں۔ تمام مکاتبِ فکر کے دینی مدارس کے سفراء کے ساتھ جو حقیقی معنوں میں مدارس اسلامیہ کی خدمت کرتے ہیں، مہمانوں جیسا سلوک کریں، ہم ہندوستان کے کونے کونے سے شہر ممبئی، کولکاتہ، دہلی، چنئی، پونہ وغیرہ کا سفر کرتے ہیں، تعب و تھکن کے باوجود رمضان میں روزہ کی حالت میں در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، کبھی ہمیں کل بلایا جاتا ہے تو کبھی ہمیں پرسوں پر ٹالا جاتا ہے تو کبھی بلا کر ہمیں بھگا دیا جاتا ہے۔دھتکار دیا جاتا ہے،ذلیل کرنے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑا جاتا ہے، سب سے زیادہ تکلیف تو اس وقت ہوتی ہے جب ہر سیٹھ یہ کہتا ہے کہ ستائیس رمضان المبارک کو آنا،اب آپ ہی بتائیں کہ ایک ہی سفیر ستائیس رمضان کو کہاں کہاں پہنچے گا؟ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمیں ستائیس کو بلاکر فورا چندہ دے دیا جاتا ہے، گھنٹوں انتظار کے بعد ہمیں چندہ دیا جاتا ہے، جب ایک سیٹھ تمام سفراء کو ستائیس رمضان کو ہی بلائے گا تو یقیناً بھیڑ ہوگی اور سیٹھوں کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ لوگ دیکھیں فلاں سیٹھ بہت زکوٰۃ دیتا ہے، کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ جب بھی کوئی سفیر کسی سیٹھ کے یہاں جائے وہ فوراً چندہ دیکر سفیر کو شکریہ کے ساتھ رخصت کرے کہ حضرت یہ تو آپ کا احسان ہے کہ آپ ہماری زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے ہمارے پاس آئے، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہم اپنی زکوٰۃ خود آپ تک پہنچادیتے؛ لیکن ہماری سستی اور کوتاہی کی وجہ سے ایسا نہیں ہوپایا، ایک مہتَم بالشان فریضے کی ادائیگی میں آپ نے ہمارا تعاون کیا اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔
خدارا ہم سفرائے مدارسِ اسلامیہ کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیں، ہماری جگہ پر خود کو رکھ کر دیکھیں، چندہ لینے والے آپ ہوں اور دینے والا میں ہوں اور میں آپ کو کل، پرسوں نرسوں پر ٹرخا کر ذلیل کرتا رہوں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ وقت کبھی بھی بدل سکتا ہے، زکوٰۃ دینے والا کب لینے والا بن جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا، اسلئے ہماری قدر کریں،ہمارے وقت کا خیال رکھیں، ہمارے اندر بھی عزت نفس ہے، ہم بھی بآسانی دوسرا پیشہ اختیار کرسکتے ہیں اور مدرسے کی تنخواہ سے زیادہ کماسکتے ہیں؛ لیکن صرف دینِ اسلام کی حفاظت اور دینِ محمدی کی سربلندی کے لئے سب کچھ برداشت کرتے ہیں، ہم چندہ مانگ کر اپنا پیٹ نہیں پالتے، بلکہ قوم کے ان نونہالوں کی تربیت پر صَرف کرتے ہیں جو دینِ اسلام کی بقا کے لیےاپنی جان تک دینے کو قربان رہیں گے، جو ہندوستان میں دین کی بقا کے ضامن ہوں گے۔ جورنگ ونسل سے تو ہندوستانی ہوں گے؛ لیکن سوچ، فکروعمل سے اسلامی ہوں گے۔ جو ملک کے تئیں وفادار ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام پر مرمٹنے کو ہمہ وقت تیار رہیں گے۔ تلخ کلامی اور حقیقت بیانی کے لئے معذرت خواہ ہوں اور اس شعر کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں :
ان مانگنے والوں کو ہرگز نہ گدا سمجھو
یہ شانِ نبوت ہے انداز فقیرانہ
اگر اسی طرح سے ہم سفرائے مدارس اسلامیہ کو یہ سیٹھ حضرات ذلیل کرنے کا کام کرتے رہے ، قوم کے سامنے رسوا کرتے رہے ، توہینِ علماء کے مرتکب ہوتے رہے تو انجام دنیا وآخرت میں خطرناک ہوگا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تمام سفرائے مدارس اسلامیہ درست ہیں، سبھی اچھے ہیں، نہیں؛ ہماری جماعتوں میں بھی کچھ جعلی، فراڈی در آئے ہیں، مدرسہ نہ ہونے کے باوجود بھی وہ رسیدیں چھپوا کر چندہ جمع کرکے اپنے لئے جہنم کا ایندھن جمع کررہے ہیں، مستحقین زکوۃ تک زکوۃ پہنچنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں، کچھ فراڈی سفیر گائوں میں مدرسے بنانے کی بات کرکے یہاں کے سیٹھوں سے چندہ جمع کرتے ہیں اور جب کسی سیٹھ کا اس گائوں کا دورہ ہوتا ہے تو اپنے پیٹ کو گنبد اور دونوں ہاتھوں کو مینار سے تعبیر کرکے اپنی جہالت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ان جیسے فراڈیوں کی غلط حرکت کی وجہ سے پورے سفراء کرام کی جماعت کو حقارت بھری نگاہوں سے دیکھنا بالکل غلط ہے۔ ان فراڈیوں کے ساتھ آپ سختی سے پیش آئیں انہیں اپنی زکوۃ دے کرخراب نہ کریں؛ بلکہ ان پر لگام کسیں، ان کا بائیکاٹ کریں؛ لیکن ہم جن کے پاس تمام ثبوت اور تمام دستاویزات ہوتے ہیں،جنہیں جمعیۃ علماء ہند اور دیگر دینی اداروں نے نہایت باریک بینی سے جانچ پڑتال کرنے کےبعد ممبئی واطراف ممبئی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں میں چندہ جمع کرنے کی تصدیق دی ہے ، اسی طرح بریلوی حضرات اور دیگر مکاتبِ فکر کے یہاں سے بھی ان کی موقر جماعتوں کی جانب سے تصدیق نامے جارے کیے جاتے ہیں، ان کی تصدیقات کو مدنظر رکھتےہوئے ان مدارس کے سفرا کے ساتھ بہترین رویہ اپنائیں، سبھی کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکیں۔ تمام مکاتبِ فکر کے دینی مدارس کے سفراء کے ساتھ جو حقیقی معنوں میں مدارس اسلامیہ کی خدمت کرتے ہیں، مہمانوں جیسا سلوک کریں، ہم ہندوستان کے کونے کونے سے شہر ممبئی، کولکاتہ، دہلی، چنئی، پونہ وغیرہ کا سفر کرتے ہیں، تعب و تھکن کے باوجود رمضان میں روزہ کی حالت میں در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، کبھی ہمیں کل بلایا جاتا ہے تو کبھی ہمیں پرسوں پر ٹالا جاتا ہے تو کبھی بلا کر ہمیں بھگا دیا جاتا ہے۔دھتکار دیا جاتا ہے،ذلیل کرنے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑا جاتا ہے، سب سے زیادہ تکلیف تو اس وقت ہوتی ہے جب ہر سیٹھ یہ کہتا ہے کہ ستائیس رمضان المبارک کو آنا،اب آپ ہی بتائیں کہ ایک ہی سفیر ستائیس رمضان کو کہاں کہاں پہنچے گا؟ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمیں ستائیس کو بلاکر فورا چندہ دے دیا جاتا ہے، گھنٹوں انتظار کے بعد ہمیں چندہ دیا جاتا ہے، جب ایک سیٹھ تمام سفراء کو ستائیس رمضان کو ہی بلائے گا تو یقیناً بھیڑ ہوگی اور سیٹھوں کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ لوگ دیکھیں فلاں سیٹھ بہت زکوٰۃ دیتا ہے، کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ جب بھی کوئی سفیر کسی سیٹھ کے یہاں جائے وہ فوراً چندہ دیکر سفیر کو شکریہ کے ساتھ رخصت کرے کہ حضرت یہ تو آپ کا احسان ہے کہ آپ ہماری زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے ہمارے پاس آئے، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہم اپنی زکوٰۃ خود آپ تک پہنچادیتے؛ لیکن ہماری سستی اور کوتاہی کی وجہ سے ایسا نہیں ہوپایا، ایک مہتَم بالشان فریضے کی ادائیگی میں آپ نے ہمارا تعاون کیا اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔
خدارا ہم سفرائے مدارسِ اسلامیہ کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیں، ہماری جگہ پر خود کو رکھ کر دیکھیں، چندہ لینے والے آپ ہوں اور دینے والا میں ہوں اور میں آپ کو کل، پرسوں نرسوں پر ٹرخا کر ذلیل کرتا رہوں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ وقت کبھی بھی بدل سکتا ہے، زکوٰۃ دینے والا کب لینے والا بن جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا، اسلئے ہماری قدر کریں،ہمارے وقت کا خیال رکھیں، ہمارے اندر بھی عزت نفس ہے، ہم بھی بآسانی دوسرا پیشہ اختیار کرسکتے ہیں اور مدرسے کی تنخواہ سے زیادہ کماسکتے ہیں؛ لیکن صرف دینِ اسلام کی حفاظت اور دینِ محمدی کی سربلندی کے لئے سب کچھ برداشت کرتے ہیں، ہم چندہ مانگ کر اپنا پیٹ نہیں پالتے، بلکہ قوم کے ان نونہالوں کی تربیت پر صَرف کرتے ہیں جو دینِ اسلام کی بقا کے لیےاپنی جان تک دینے کو قربان رہیں گے، جو ہندوستان میں دین کی بقا کے ضامن ہوں گے۔ جورنگ ونسل سے تو ہندوستانی ہوں گے؛ لیکن سوچ، فکروعمل سے اسلامی ہوں گے۔ جو ملک کے تئیں وفادار ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام پر مرمٹنے کو ہمہ وقت تیار رہیں گے۔ تلخ کلامی اور حقیقت بیانی کے لئے معذرت خواہ ہوں اور اس شعر کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں :
ان مانگنے والوں کو ہرگز نہ گدا سمجھو
یہ شانِ نبوت ہے انداز فقیرانہ