قبل از اسلام عرب کی سیاسی حالت:
قبل از اسلام عرب کی سیاسی حالت بہت خراب تھی۔ عرب میں کوئی باضابطہ حکومت نہیں تھی۔ لوگ مختلف قبائل میں تقسیم تھے۔ عرب پر بھی کوئی قوم حکومت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ کیونکہ اس جگہ کا زیادہ تر حصہ ریگستان اور صحرا پر مشتمل تھا۔ نہ کوئی روزگار نہ کوئی پیداوار باقاعدہ آبادیاں کیونکر پروان چڑھ سکتی تھیں۔ کوئی باقاعدہ حکومت قائم نہیں تھی۔ اسی لئے کسی فاتح نے اس کو فتح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر کسی نے حملہ کیا بھی تو ان کو شکست دیتے ہوئے آگے نکل گیا یہاں پر اپنی حکومت قائم نہیں کی۔ اسی لئے عرب کے لوگ فطرتا آزاد تھے اور کسی کے زیر اثر رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔
حکومت نہ ہونے کی وجہ:
جس ملک کا بیشتر حصہ لق دق ریگستانوں پر مشتمل ہو۔ نہ زندگی کا سامان ضرورت میسر ہو اس حصے کو حاصل کرنا کس سلطنت کی ترجیح ہو گی؟ جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے جزیرہ نما عرب ایسی جگہ واقع ہے کہ جنوبی منطقے کے علاوہ اس کا باقی حصہ اس قابل نہ تھا کہ ایران یا روم جیسے فاتحین اس کی جانب رخ کرتے۔
چنانچہ اس زمانے میں ان فاتحین نے اس کی طرف کم ہی توجہ دی، کیونکہ اس کے خشک و بے آب اور تپتے ریگستان ان کے لیے کسی طور سے فائدہ مند نہ تھے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عہد جاہلیت کے عربوں کو قابو میں لانا اور ان کی زندگی کو کسی نظام کے تحت منظم کرنا انتہائی سخت اور دشوار کام تھا۔
قبائلی حکومت کی نوعیت:
عرب میں کبھی بھی ایک ملک گیر اور مرکزی حکومت کا قیام عمل میں نہیں آيا۔ البتہ خاص وسیع سلطنتیں وجود میں ضرور آئیں۔ عرب میں بعض مقامات پر ایران اور روم کے حکمران اور بعض جگہوں پر خود مختار اور آزاد چھوٹی چھوٹی شہری مملکتیں قائم تھیں۔ چنانچہ مکہ، مدینہ، طائف، ینبوع، جرش، صنعا، عدن صحار، دبا، یمامہ، فید و نجد، خیبر، فدک، ایلہ اور مشرقی ساحل پر اچھی خاصی بستیاں تھیں جو کم و بیش شہری مملکتیں کہی جا سکتی تھیں۔
قبائلی نظام کی بنیاد:
عرب انفرادی اور طبعی طور پر استبداد پسند اور خود پسند تھے۔ جب انہیں بیابانوں میں زندگی کی مشکلات کا سامنا ہوا تو ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ تنہا رہ کر زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ اس بنا پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جن افراد کے ساتھ ان کا خونی رشتہ ہے یا حسب و نسب میں ان کے شریک ہیں ان سے اپنے گروہ کی تشکیل کی جائے۔ جن کا نام ”قبیلہ“ رکھا گیا۔ قبیلہ ایسا مستقل و متحد دستہ تھا جس کے ذریعے عہد جاہلیت میں عرب قومیت کی اساس و بنیاد شکل پذیر ہوتی تھی۔ چنانچہ ہر اعتبار سے وہ خود کفیل تھے۔
عرب اس نظام میں کسی خاص طاقت کے مطیع اور فرمانبردار نہ تھے۔ وہ صرف اپنے ہی قبیلے کی طاقت کے بارے میں سوچتے تھے۔ دوسروں کے ساتھ ان کا وہی سلوک تھا جو شدت پسند وطن دوست اور نسل پرست روا رکھتے ہیں۔
قبائل کی حالت:
جزیرۃ العرب کے وہ تینوں سرحدی علاقے جو غیر ممالک کے پڑوس میں پڑتے تھے ان کی سیاسی حالت سخت اضطراب و انتشار اور انتہائی زوال و انحطاط کا شکار تھی۔ انسان، مالک اور غلام یا حاکم اور محکوم کے دو طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ سارے فوائد سربراہوں اور خصوصا غیر ملکی سربراہوں کو حاصل تھے اور سارا بوجھ غلاموں کے سر تھا۔
رعایا درحقیقت ایک کھیتی تھی جو حکومت کے لیے محاصل اور آمدنی فراہم کرتی تھی اور حکومتیں انہیں لذتوں، شہوتوں، عیش رانی اور ظلم و جور کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ ان پر ہر طرف سے ظلم کی بارش ہو رہی تھی۔ مگر ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ ہر ذلت و رسوآئی اور ظلم و جبر کو برداشت کریں اور زبان بند رکھیں۔
اندرون عرب کے قبائل کی حالت:
جو قبائل اندرون عرب آباد تھے وہ بھی بہت اعلی روآیات کے مالک نہ تھے ہر طرف قبائلی جھگڑوں، نسلی فسادات اور مذہبی اختلافات کی گم بازاری تھی۔ اس میں ہر قبیلے کے افراد بہر صورت اپنے اپنے قبیلے کا ساتھ دیتے تھے خواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر۔ اندرون عرب کوئی بادشاہ نہ تھا جو ان کی اواز کو قوت پہنچاتا اور نہ کوئی مرجع تھا جس کی طرف مشکلات میں رجوع کیا جاتا اور وقت پڑنے پر اس پر اعتماد کیا جاتا۔
ہاں حجاز کی حکومت کو قدر احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اسے مرکز دین کا قائد و پاسبان تصور کیا جاتا۔ اسے اہل عرب پر اپنی دینی پیشوائی کی وجہ سے بالادستی حاصل تھی۔ یہی زائرین بیت ﷲ کی ضروریات کا انتظام اور شریعت ابراہیمی کے احکام کا نفاذ کرتی تھی۔ اس کے پاس پارلیمانی اداروں جیسے ادارے اور تشکیلات بھی تھیں۔ لیکن یہ ایک کمزور حکومت تھی کہ اندرون عرب کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رکھتی تھی۔
عرب حکومتیں اور سرداریاں:
جس وقت جزیرۃ العرب پر خورشید اسلام کی پر نور شعاعیں ضوافگن ہوئیں تو وہاں دو قسم کے حکمران تھے۔ ایک تاج پوش باشاہ جو در حقیقت مکمل طور پر ازناد اور خود مختار نہ تھے اور دوسرے قبائلی سردار جنہیں اختیارات اور امتیازات کے اعتبار سے وہی حیثیت حانصل تھی جو تاج پوش باشاہوں کی تھی لیکن ان کی اکثریت کو ایک امتیاز یہ حاصل تھا کہ وہ خود مختار تھے۔ تاج پوش حکمرانوں میں یمن،آلغسان (شام) اور حیرہ (عراق) شامل تھے۔ باقی عرب تاج پوش نہ تھے۔
یمن کی بادشاہت:
عرب عاربہ میں جو قدیم ترین یمانی قوم معلوم ہو سکی وہ قوم سبا تھی۔ اس کا ذکر ڈھائی ہزار سال قبل مسیح میں ملتا ہے۔ لیکن اس کے عروج کا زمانہ گیارہ سو سال قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دور میں اس سلطنت کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ انہوں نے عرب کے اندر اور باہر جگہ جگہ نوآبادیاں قائم کر لی تھیں۔ اسی دور میں مارب کے مشہور بند کی بنیاد رکھی گئی جسے یمن کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ 300 قبل مسیح سے آغاز اسلام تک کے دور میں یمن کے اندر مسلسل اضطراب اور انتشار برپا رہا۔ انقلابات آئے۔ خانہ جنگیاں ہوئیں اور بیرونی قوموں کو مداخلت کے مواقع ہاتھ آئے حتی کے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یمن کی آزادی سلب ہو گئی۔
378 ء تک یمن کی آزادی تو بحال ہو گئی مگر مارب کے بند میں رخنے پڑنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ 451 ء میں یہ بند ٹوٹ گیا اور وہ عظیم سیلاب ایا جس کا ذکر قرآن مجید میں سیل عرم کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بستیوں کی بستیاں ویران ہو گئیں اور بہت قبائل بکھر گئے۔
اس کے 523 ء میں ایک اور سنگین حادثہ پیش آیا۔ یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے نجران کے عیسائیوں پر ایک ہیبت ناک حملہ کر کے انہیں عیسائی مذہب چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہا۔ جب وہ اس پر امادہ نہ ہوئے تو ذونواس نے خندقیں کھدوا کر انہیں بھڑکتی ہوئی اگ کے الاؤ میں جونک دیا۔ قرآن مجید نے سورۃ بروج کی آیات قتل قُتِلَ اصۡحٰبُ الۡاخۡدُوۡدِ میں اسی لروہ خیز واقع کی طرف اشارہ کیا ہے۔
2: حیرہ کی بادشاہی:
ارد شیر کے عہد میں حیرہ بادیۃ العراق اور جزیرہ کے ربیعہ اور مضری قبائل پر جذیمت الوضاح کی حکمرانی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ارد شیر نے محسوس کر لیا تھا کہ عرب باشندوں پر براہ راست حکومت کرنا اور انہیں سرحد پر لوٹ مار سے باز رکھنا ممکن نہیں بلکہ اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ خود کسی ایسے عرب کو ان کا حکمران بنا دیا جائے جسے اپنے کنبے قبیلے کی حمآیت و تآئید حاصل ہو۔
سنہ 268ء کے عرصے میں جذیمہ فوت ہو گیا اور عمرو بن عدی بن نصر لخمی اس کا جانشین ہوا۔ یہ قبیلہ لخم کا پہلا حکمران تھا اور شاپور اور اردشیر کا ہمعصر تھا۔ اس کے بعد قباذین فیروز کے عہد تک حیرہ پر لخمیوں کی مسلسل حکمرانی رہی۔
ایاس کے بعد کسریٰ نے حیرہ پر ایک فارسی حاکم مقرر کیا لیکن سنہ 632ء میں لخمیوں کا اقتدار پھر بحال ہو گیا اور منذر بن معرور نامی اس قبیلے کے ایک شخص نے باگ ڈور سنبھال لی، مگر اس کو برسراقتدار آئے صرف آٹھ ماہ ہی ہوئے کہ خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ اسلام کا سیل رواں لے کر حیرہ میں داخل ہوگئے۔
3:آل غسان کی بادشاہی:
عرب قبائل کی ہجرت کے زمانے میں قبیلہ قضاعہ کی چند شاخیں حدود شام میں آکر آباد ہوئیں۔ قضاعہ کی اس شاخ کو رومیوں نے عرب صحراؤں کے بدوؤں کی لوٹ مار روکنے اور فارسیوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اپنا ہمنوا بنایا اور اسی کے ایک فرد کے سر پر تاج حکمرانی سجا دیا۔
اس کے بعد مدتوں ان کی حکمرانی رہی۔آل غسان کا پایہ تخت دومۃالجندل تھا۔ رومیوں کےآلہ کار کی حیثیت سے دیار شام پر ان کی حکمرانی مسلسل قائم رہی تا آنکہ خلافت فاروقی میں سنہ 13 ہجری میں یرموک کی جنگ پیش آئی اور آل غسان کے اخری حکمران جبلہ ایہم نے اسلام قبول کر لیا لیکن اس کا غرور اسلامی مساوات کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا اور مرتد ہو گیا۔ (شریعت اسلامیہ کا تعارف)
قبل از اسلام عرب کی سیاسی حالت بہت خراب تھی۔ عرب میں کوئی باضابطہ حکومت نہیں تھی۔ لوگ مختلف قبائل میں تقسیم تھے۔ عرب پر بھی کوئی قوم حکومت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ کیونکہ اس جگہ کا زیادہ تر حصہ ریگستان اور صحرا پر مشتمل تھا۔ نہ کوئی روزگار نہ کوئی پیداوار باقاعدہ آبادیاں کیونکر پروان چڑھ سکتی تھیں۔ کوئی باقاعدہ حکومت قائم نہیں تھی۔ اسی لئے کسی فاتح نے اس کو فتح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر کسی نے حملہ کیا بھی تو ان کو شکست دیتے ہوئے آگے نکل گیا یہاں پر اپنی حکومت قائم نہیں کی۔ اسی لئے عرب کے لوگ فطرتا آزاد تھے اور کسی کے زیر اثر رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔
حکومت نہ ہونے کی وجہ:
جس ملک کا بیشتر حصہ لق دق ریگستانوں پر مشتمل ہو۔ نہ زندگی کا سامان ضرورت میسر ہو اس حصے کو حاصل کرنا کس سلطنت کی ترجیح ہو گی؟ جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے جزیرہ نما عرب ایسی جگہ واقع ہے کہ جنوبی منطقے کے علاوہ اس کا باقی حصہ اس قابل نہ تھا کہ ایران یا روم جیسے فاتحین اس کی جانب رخ کرتے۔
چنانچہ اس زمانے میں ان فاتحین نے اس کی طرف کم ہی توجہ دی، کیونکہ اس کے خشک و بے آب اور تپتے ریگستان ان کے لیے کسی طور سے فائدہ مند نہ تھے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عہد جاہلیت کے عربوں کو قابو میں لانا اور ان کی زندگی کو کسی نظام کے تحت منظم کرنا انتہائی سخت اور دشوار کام تھا۔
قبائلی حکومت کی نوعیت:
عرب میں کبھی بھی ایک ملک گیر اور مرکزی حکومت کا قیام عمل میں نہیں آيا۔ البتہ خاص وسیع سلطنتیں وجود میں ضرور آئیں۔ عرب میں بعض مقامات پر ایران اور روم کے حکمران اور بعض جگہوں پر خود مختار اور آزاد چھوٹی چھوٹی شہری مملکتیں قائم تھیں۔ چنانچہ مکہ، مدینہ، طائف، ینبوع، جرش، صنعا، عدن صحار، دبا، یمامہ، فید و نجد، خیبر، فدک، ایلہ اور مشرقی ساحل پر اچھی خاصی بستیاں تھیں جو کم و بیش شہری مملکتیں کہی جا سکتی تھیں۔
قبائلی نظام کی بنیاد:
عرب انفرادی اور طبعی طور پر استبداد پسند اور خود پسند تھے۔ جب انہیں بیابانوں میں زندگی کی مشکلات کا سامنا ہوا تو ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ تنہا رہ کر زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ اس بنا پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جن افراد کے ساتھ ان کا خونی رشتہ ہے یا حسب و نسب میں ان کے شریک ہیں ان سے اپنے گروہ کی تشکیل کی جائے۔ جن کا نام ”قبیلہ“ رکھا گیا۔ قبیلہ ایسا مستقل و متحد دستہ تھا جس کے ذریعے عہد جاہلیت میں عرب قومیت کی اساس و بنیاد شکل پذیر ہوتی تھی۔ چنانچہ ہر اعتبار سے وہ خود کفیل تھے۔
عرب اس نظام میں کسی خاص طاقت کے مطیع اور فرمانبردار نہ تھے۔ وہ صرف اپنے ہی قبیلے کی طاقت کے بارے میں سوچتے تھے۔ دوسروں کے ساتھ ان کا وہی سلوک تھا جو شدت پسند وطن دوست اور نسل پرست روا رکھتے ہیں۔
قبائل کی حالت:
جزیرۃ العرب کے وہ تینوں سرحدی علاقے جو غیر ممالک کے پڑوس میں پڑتے تھے ان کی سیاسی حالت سخت اضطراب و انتشار اور انتہائی زوال و انحطاط کا شکار تھی۔ انسان، مالک اور غلام یا حاکم اور محکوم کے دو طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ سارے فوائد سربراہوں اور خصوصا غیر ملکی سربراہوں کو حاصل تھے اور سارا بوجھ غلاموں کے سر تھا۔
رعایا درحقیقت ایک کھیتی تھی جو حکومت کے لیے محاصل اور آمدنی فراہم کرتی تھی اور حکومتیں انہیں لذتوں، شہوتوں، عیش رانی اور ظلم و جور کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ ان پر ہر طرف سے ظلم کی بارش ہو رہی تھی۔ مگر ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ ہر ذلت و رسوآئی اور ظلم و جبر کو برداشت کریں اور زبان بند رکھیں۔
اندرون عرب کے قبائل کی حالت:
جو قبائل اندرون عرب آباد تھے وہ بھی بہت اعلی روآیات کے مالک نہ تھے ہر طرف قبائلی جھگڑوں، نسلی فسادات اور مذہبی اختلافات کی گم بازاری تھی۔ اس میں ہر قبیلے کے افراد بہر صورت اپنے اپنے قبیلے کا ساتھ دیتے تھے خواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر۔ اندرون عرب کوئی بادشاہ نہ تھا جو ان کی اواز کو قوت پہنچاتا اور نہ کوئی مرجع تھا جس کی طرف مشکلات میں رجوع کیا جاتا اور وقت پڑنے پر اس پر اعتماد کیا جاتا۔
ہاں حجاز کی حکومت کو قدر احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اسے مرکز دین کا قائد و پاسبان تصور کیا جاتا۔ اسے اہل عرب پر اپنی دینی پیشوائی کی وجہ سے بالادستی حاصل تھی۔ یہی زائرین بیت ﷲ کی ضروریات کا انتظام اور شریعت ابراہیمی کے احکام کا نفاذ کرتی تھی۔ اس کے پاس پارلیمانی اداروں جیسے ادارے اور تشکیلات بھی تھیں۔ لیکن یہ ایک کمزور حکومت تھی کہ اندرون عرب کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رکھتی تھی۔
عرب حکومتیں اور سرداریاں:
جس وقت جزیرۃ العرب پر خورشید اسلام کی پر نور شعاعیں ضوافگن ہوئیں تو وہاں دو قسم کے حکمران تھے۔ ایک تاج پوش باشاہ جو در حقیقت مکمل طور پر ازناد اور خود مختار نہ تھے اور دوسرے قبائلی سردار جنہیں اختیارات اور امتیازات کے اعتبار سے وہی حیثیت حانصل تھی جو تاج پوش باشاہوں کی تھی لیکن ان کی اکثریت کو ایک امتیاز یہ حاصل تھا کہ وہ خود مختار تھے۔ تاج پوش حکمرانوں میں یمن،آلغسان (شام) اور حیرہ (عراق) شامل تھے۔ باقی عرب تاج پوش نہ تھے۔
یمن کی بادشاہت:
عرب عاربہ میں جو قدیم ترین یمانی قوم معلوم ہو سکی وہ قوم سبا تھی۔ اس کا ذکر ڈھائی ہزار سال قبل مسیح میں ملتا ہے۔ لیکن اس کے عروج کا زمانہ گیارہ سو سال قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دور میں اس سلطنت کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ انہوں نے عرب کے اندر اور باہر جگہ جگہ نوآبادیاں قائم کر لی تھیں۔ اسی دور میں مارب کے مشہور بند کی بنیاد رکھی گئی جسے یمن کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ 300 قبل مسیح سے آغاز اسلام تک کے دور میں یمن کے اندر مسلسل اضطراب اور انتشار برپا رہا۔ انقلابات آئے۔ خانہ جنگیاں ہوئیں اور بیرونی قوموں کو مداخلت کے مواقع ہاتھ آئے حتی کے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یمن کی آزادی سلب ہو گئی۔
378 ء تک یمن کی آزادی تو بحال ہو گئی مگر مارب کے بند میں رخنے پڑنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ 451 ء میں یہ بند ٹوٹ گیا اور وہ عظیم سیلاب ایا جس کا ذکر قرآن مجید میں سیل عرم کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بستیوں کی بستیاں ویران ہو گئیں اور بہت قبائل بکھر گئے۔
اس کے 523 ء میں ایک اور سنگین حادثہ پیش آیا۔ یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے نجران کے عیسائیوں پر ایک ہیبت ناک حملہ کر کے انہیں عیسائی مذہب چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہا۔ جب وہ اس پر امادہ نہ ہوئے تو ذونواس نے خندقیں کھدوا کر انہیں بھڑکتی ہوئی اگ کے الاؤ میں جونک دیا۔ قرآن مجید نے سورۃ بروج کی آیات قتل قُتِلَ اصۡحٰبُ الۡاخۡدُوۡدِ میں اسی لروہ خیز واقع کی طرف اشارہ کیا ہے۔
2: حیرہ کی بادشاہی:
ارد شیر کے عہد میں حیرہ بادیۃ العراق اور جزیرہ کے ربیعہ اور مضری قبائل پر جذیمت الوضاح کی حکمرانی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ارد شیر نے محسوس کر لیا تھا کہ عرب باشندوں پر براہ راست حکومت کرنا اور انہیں سرحد پر لوٹ مار سے باز رکھنا ممکن نہیں بلکہ اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ خود کسی ایسے عرب کو ان کا حکمران بنا دیا جائے جسے اپنے کنبے قبیلے کی حمآیت و تآئید حاصل ہو۔
سنہ 268ء کے عرصے میں جذیمہ فوت ہو گیا اور عمرو بن عدی بن نصر لخمی اس کا جانشین ہوا۔ یہ قبیلہ لخم کا پہلا حکمران تھا اور شاپور اور اردشیر کا ہمعصر تھا۔ اس کے بعد قباذین فیروز کے عہد تک حیرہ پر لخمیوں کی مسلسل حکمرانی رہی۔
ایاس کے بعد کسریٰ نے حیرہ پر ایک فارسی حاکم مقرر کیا لیکن سنہ 632ء میں لخمیوں کا اقتدار پھر بحال ہو گیا اور منذر بن معرور نامی اس قبیلے کے ایک شخص نے باگ ڈور سنبھال لی، مگر اس کو برسراقتدار آئے صرف آٹھ ماہ ہی ہوئے کہ خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ اسلام کا سیل رواں لے کر حیرہ میں داخل ہوگئے۔
3:آل غسان کی بادشاہی:
عرب قبائل کی ہجرت کے زمانے میں قبیلہ قضاعہ کی چند شاخیں حدود شام میں آکر آباد ہوئیں۔ قضاعہ کی اس شاخ کو رومیوں نے عرب صحراؤں کے بدوؤں کی لوٹ مار روکنے اور فارسیوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اپنا ہمنوا بنایا اور اسی کے ایک فرد کے سر پر تاج حکمرانی سجا دیا۔
اس کے بعد مدتوں ان کی حکمرانی رہی۔آل غسان کا پایہ تخت دومۃالجندل تھا۔ رومیوں کےآلہ کار کی حیثیت سے دیار شام پر ان کی حکمرانی مسلسل قائم رہی تا آنکہ خلافت فاروقی میں سنہ 13 ہجری میں یرموک کی جنگ پیش آئی اور آل غسان کے اخری حکمران جبلہ ایہم نے اسلام قبول کر لیا لیکن اس کا غرور اسلامی مساوات کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا اور مرتد ہو گیا۔ (شریعت اسلامیہ کا تعارف)