شادی کا مقدس بندھن (بیگم مخدوم شیر عالم، ملتان)

اسداللہ شاہ

وفقہ اللہ
رکن
ہما رے علا قے میں ایک طا ہر ہ نام کی عورت رہتی تھی ۔ اس کے بیٹے کی منگنی بڑی دھوم دھام سے ہوئی ۔ لڑکی بہت پیا ری تھی ۔ سب طا ہر ہ کی قسمت پر رشک کر رہے تھے ۔ ایک ما ہ بعد طا ہر ہ مجھے ملنے آئی ۔ میں نے پو چھا بیٹے کی کب شا دی کر رہی ہو ؟کہنے لگی میں تو منگنی توڑنے کا سو چ رہی ہو ں ۔ بہت پریشان ہو ں۔ میں نے کہا ایسا کیو ں کر رہی ہو ؟ اس نے بتا یا کہ لڑکی کی ما ں جو اپنے بھا ئیو ں کے گھر میں رہتی ہے اس نے کہاتھا کہ لڑکی کے با پ نے امریکہ جا کر شا دی کر لی ہے اور مجھے طلا ق دے دی ہے لیکن اب پتہ چلا ہے کہ لڑکی کی ما ں نے خلع لیا ہے ۔ معمولی سی بات پر لڑکی کی ما ں نے یہ قدم اٹھا یا تھا ۔ لڑکی کا با پ نہایت شریف اور عزت دار آدمی تھا ۔ اس عورت کا مطالبہ تھا کہ میں علیحدہ رہونگی جبکہ اس کے ساس سسر بوڑھے تھے اوراس کا خاوند اس کو علیحدہ گھر مہیا نہیں کر سکتا تھا ۔ لڑکی کی نا نی نے اپنی ضداور انا کی بنا پر اس سے طلا ق لے لی ۔ اُ س کے خاوند نے اسے طلاق نہیں دی تھی بلکہ اس نے خود جا کر عدالت سے خلع لے لیا تھا۔ پھر طا ہرہ کہنے لگی اگر ما ں کا یہ کر دار ہے تو بیٹی کا بھی یہی کر دار ہو گا ۔ مجھے تو اپنا بڑھا پا نظر آرہا ہے اور میں نے اس عمر میں ایدھی ہو م نہیں جا نا ہے ۔ میرا دل بہت خرا ب ہو ا ۔ لڑکی کی معصوم شکل یکا یک میرے تصور میںگھومنے لگی۔ میں نے طا ہر ہ سے کہا ” ما ں کی سزا بیٹی کو “یہ کہا ں کا انصا ف ہے؟خلع تو آج کل عدالتوں میں جج یو ں با نٹ رہے ہیں جیسے ریوڑیا ں بٹ رہی ہو ں۔ پہلے والدین لڑکی کو بٹھا لیتے تھے مگر طلا ق یا خلع اُن کے لیے ایک نا سور سے کم نہیں ہو تا تھا۔ مائیں رخصتی کے وقت یہی کہتی تھیں، بیٹی سسرال کے ہا ں سے اب تمہا را جنا زہ ہی نکلے گا ۔ بیٹی وہ بات پلے باندھ لیتی تھی ۔ وہ اپنا تن من دھن سسرا ل والو ں کی خدمت میںلگا دیتی تھی اگر بیٹی رو بھی رہی ہو تی اور والدین آجا تے تو فوراً وہ سر درد کا بہانہ بنا لیتی تھی ۔ جب لڑکی کی شا دی ہو تی ہے تو میکہ پیچھے رہ جا تا ہے ، سسرال آگے آ جاتاہے ۔ سسرال کسی جنت کا نام نہیں ہے، جنت بنانا پڑتا ہے ۔ ایک وقت آتا ہے کہ لڑکی سب پر را ج کرتی ہے ۔ صبر ، شکر اور قنا عت سے عزت ملتی ہے اگر ما ں باپ نے تحفظ کا سگنل دیا تو لا ل بتی جلنے سے پہلے لڑکی گھر کی دہلیز پا ر کر کے میکہ آبا د کر لیتی ہے ۔ لڑکی کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے ۔ جب ما ں با پ رخصت ہوجا تے ہیں ۔ بھا بھیا ں آجا تی ہیں پھر وہ سو چتی ہے با پ کے محل سے تو خاوند کی جھونپڑی اچھی تھی ۔ جب ایک عورت ما ں بنتی ہے اس کا سارا غرور ، ضد اور انا سب ختم ہو جا تی ہے اگر وہ اس کو بر قرار رکھتی ہے تو اس کا گھرمشکل سے ہی آبا درہ سکتاہے ۔
شا دی کا مقدس بندھن اتنا کمزور ہے کہ جب مر د کا دل چاہے طلا ق دے دے یا عورت چاہے خلع لے لے ۔ جو اس رشتے کو توڑنے میں پہل کر ے ، اسے اسی دنیا میں (چاہے مر د ہو یا عورت )سزا ملتی ہے ۔ نبھانے والی عورتیں تو سوکنو ں کے ساتھ بھی نبھا جا تی ہیں ۔ چھ چھ نندو ں کو اپنی قربانیو ں سے رخصت کر تی ہیں ۔ مر د کا بو جھ بٹانے کے لیے اپنی زندگی قر بان کر دیتی ہیں ۔
بڑے سچ کہتے ہیں کہ لڑکی سے زیا دہ ما ں کو دیکھو۔ میں نے طاہر ہ کے آگے ہا تھ جو ڑ کر کہا کہ ما ں کی سزا بیٹی کو نہ دو ۔ ہو سکتا ہے وہ لڑکی ما ں کی اس جلد با زی سے سنبھل گئی ہو ۔ اس میں قوت بر داشت آگئی ہو ، ایسی لڑکیاں زیادہ اچھا گزارہ کرتی ہیں ۔وہ اس لیے ایسا کر تی ہیں کہ وہ ما ں کا داغ دھونا چا ہتی ہیں۔ شکر ہے کہ میری یہ بات طا ہر ہ کے دل کو لگی ۔ شادی ہو گئی ! طاہر ہ کے بیٹے کی شا دی ہو نے کے کچھ عرصہ بعد میری طاہر ہ سے ملا قات ہوئی تومیں نے پو چھا سنا ﺅ ! کہنے لگی میری بہو بہت تابعدار ہے ۔ میں تو ایسے زندگی گزار رہی ہو ں ، جیسے جنت میں میرے بقیہ دن گزر رہے ہوں حالانکہ میری بہو ما ں کے گھر کوئی کام نہیں کر تی تھی۔ اس نے آتے ہی کچن سنبھال لیا ہے۔ میری بہو تو کنواری نندو ں کو بھی کا م نہیں کرنے دیتی کہتی ہے کہ تم مہمان ہو حتیٰ کہ دیور وں کے کپڑے استری کر تی ہے ۔ صبح کے وقت اگر کسی دیور نے جلدی میں نیند سے بیدار کر کے نا شتہ ما نگ لیا تو ذرا بھی ناگواری کا اظہا ر نہیں کر تی ۔ میر ی بیٹی کی شا دی پر میرے حالات بہت تنگ تھے ،اپنا ایک سونے کا سیٹ بیچ دیا اور میری بیٹی کو عز ت سے رخصت کیا ، کبھی اپنی والدہ سے میری بہو نے کوئی شکایت نہیں کی ۔ اول تو میری بہو والدہ کو فون کرتی نہیں اگر میں کہو ں تو بڑے ادب سے جواب دیتی ہے کہ میری نانی کے ہر وقت فون اور دخل اندازی سے میری ماں پر خلع کا دھبہ لگا ہے ۔ میری سب سے التجا ہے کہ رشتے کر تے وقت ماں کی سز ابچیو ں کو نہ دیا کریں ورنہ وہ کٹی ہوئی پتنگ بن جائیں گی۔ بیٹیوں کو 3 زیور وں سے ضرور آراستہ کردیں ۔ صبر ، شکر ، قناعت ۔عور ت میں اگر وفا ہو تو پھر اللہ کے فضل سے ہر آزما ئش سے نکل جا تی ہے پھراللہ پا ک اس کی با گ دوڑ سنبھال لیتا ہے ۔ وہی اس کا حامی و نا صر ہو جا تاہے ۔

بشکریہ
ماہنامہ عبقری
 
Top