ق
قاسمی
خوش آمدید
مہمان گرامی
نعت شریف
اے شہنشاہِ دیں مشکلیں آپڑیں۔لو خبر خلق کے غمگسار
کملی والے میری لاج رکھیو،کملی والے میری لاج رکھیو
وقت کی آج کچھ ایسی رفتار ہے ۔ہر طرف نفسی نفسی کا بازار ہے
زندگی تلخ ہے جینا دشوار ہے ۔موری نیا ہے اور بیچ مجدھار ہے
کوئی پتوار ہے بدلا سنسار ہے۔ا ب تمہیں سن لو میری پکار
کملی والے میری لاج رکھیو،کملی والے میری لاج رکھیو
راہِ حق سے ہیں سب منہ کو پھیرے ہو ئے۔ گردشِ وقت ہے آج گھیرے ہو ئے
ایسا بدلے نہ اپنے نہ تیرے ہو ئے۔ اس لئے غم کے بادل گھنیرے ہو ئے
زخم سے چور ہیں آپ سے دور ہیں۔اے شہنشاہِ عالی وقار
کملی والے میری لاج رکھیو۔کملی والے میری لاج رکھیو
دن برے ہیں خوشی کا زمانہ نہیں۔ قومِ مسلم کا اب وہ ترانہ نہیں
وہ اذانیں نہیں پنجگانہ نہیں۔ اس لئے ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں
تاجدارِ عرب اپنے دشمن ہیں سب ۔ہو نگاہِ کرم ایکبار
کملی والے میری لاج رکھیو۔کملی والے میری لاج رکھیو
یہ بھی سچ ہے کہ اب وہ عبادت نہیں۔ اب بزرگوں سے ہم کو عقیدت نہیں
اپنے استاد کی دل میں عزت نہیں۔ حد ہے بھائی کو بھائی سے الفت نہیں
یہ ہے میری خطا پا رہے ہیں سزا۔ کہر ہے ہیں سبھی اشکبار
کملی والے میری لاج رکھیو۔کملی والے میری لاج رکھیو
تنگ ہے آج انسان انسان سے۔ سودے بازی یہ کرتا ہے ایما ن سے
کھیلتا ہے یہ جیسے کہ حیوان سے۔جھوٹے فتوے بھی دیتا ہے قرآن سے
امتحاں کی گھڑی سر پہ آہی پڑی۔ روح بے چین دل بے قرار
کملی والے میری لاج رکھیو۔کملی والے میری لاج رکھیو
آگئی ہے سروپا یہ کیسی گھڑی۔ آنیوالوں کی نظروں میں ہے زندگی
ہورہی جیسے زمانے میں بے حرمتی۔اب بتاؤ کدھر جائیں یہ امتی
کس سے بپتا کہوں کس طرح چپ رہوں۔ ظلم کا ہے عجب کاروبار
کملی والے میری لاج رکھیو۔کملی والے میری لاج رکھیو
تم سے منتی کرَتْ ہوں حبیب خدا۔وقت ہم سب پہ کچھ ایسا نازک پرا
جیسا ہم ہیں نہیں آپ سے کچھ چھپا۔ کشتی دیں ڈبونے کو ہے نا خدا
غم کا مارا ہوں میں بے سہارا ہوں میں ۔کملی والے میری لاج رکھیو
دے رہا ہوں میں اس ذات کا واسطہ۔ جس نے تم کو بنایا حبیب خدا
سب کو صدقہ عنایت ہو حسنین کا۔قومِ مسلم پہ ہو سایہ مرتضیٰ
دور شیطان ہو نورِ ایمان ہو ۔آئے ہر سو نسیمِ بہار
کملی والے میری لاج رکھیو۔کملی والے میری لاج رکھیو
[size=x-large][/size]اے شہنشاہِ دیں مشکلیں آپڑیں۔لو خبر خلق کے غمگسار
کملی والے میری لاج رکھیو،کملی والے میری لاج رکھیو
وقت کی آج کچھ ایسی رفتار ہے ۔ہر طرف نفسی نفسی کا بازار ہے
زندگی تلخ ہے جینا دشوار ہے ۔موری نیا ہے اور بیچ مجدھار ہے
کوئی پتوار ہے بدلا سنسار ہے۔ا ب تمہیں سن لو میری پکار
کملی والے میری لاج رکھیو،کملی والے میری لاج رکھیو
راہِ حق سے ہیں سب منہ کو پھیرے ہو ئے۔ گردشِ وقت ہے آج گھیرے ہو ئے
ایسا بدلے نہ اپنے نہ تیرے ہو ئے۔ اس لئے غم کے بادل گھنیرے ہو ئے
زخم سے چور ہیں آپ سے دور ہیں۔اے شہنشاہِ عالی وقار
کملی والے میری لاج رکھیو۔کملی والے میری لاج رکھیو
دن برے ہیں خوشی کا زمانہ نہیں۔ قومِ مسلم کا اب وہ ترانہ نہیں
وہ اذانیں نہیں پنجگانہ نہیں۔ اس لئے ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں
تاجدارِ عرب اپنے دشمن ہیں سب ۔ہو نگاہِ کرم ایکبار
کملی والے میری لاج رکھیو۔کملی والے میری لاج رکھیو
یہ بھی سچ ہے کہ اب وہ عبادت نہیں۔ اب بزرگوں سے ہم کو عقیدت نہیں
اپنے استاد کی دل میں عزت نہیں۔ حد ہے بھائی کو بھائی سے الفت نہیں
یہ ہے میری خطا پا رہے ہیں سزا۔ کہر ہے ہیں سبھی اشکبار
کملی والے میری لاج رکھیو۔کملی والے میری لاج رکھیو
تنگ ہے آج انسان انسان سے۔ سودے بازی یہ کرتا ہے ایما ن سے
کھیلتا ہے یہ جیسے کہ حیوان سے۔جھوٹے فتوے بھی دیتا ہے قرآن سے
امتحاں کی گھڑی سر پہ آہی پڑی۔ روح بے چین دل بے قرار
کملی والے میری لاج رکھیو۔کملی والے میری لاج رکھیو
آگئی ہے سروپا یہ کیسی گھڑی۔ آنیوالوں کی نظروں میں ہے زندگی
ہورہی جیسے زمانے میں بے حرمتی۔اب بتاؤ کدھر جائیں یہ امتی
کس سے بپتا کہوں کس طرح چپ رہوں۔ ظلم کا ہے عجب کاروبار
کملی والے میری لاج رکھیو۔کملی والے میری لاج رکھیو
تم سے منتی کرَتْ ہوں حبیب خدا۔وقت ہم سب پہ کچھ ایسا نازک پرا
جیسا ہم ہیں نہیں آپ سے کچھ چھپا۔ کشتی دیں ڈبونے کو ہے نا خدا
غم کا مارا ہوں میں بے سہارا ہوں میں ۔کملی والے میری لاج رکھیو
دے رہا ہوں میں اس ذات کا واسطہ۔ جس نے تم کو بنایا حبیب خدا
سب کو صدقہ عنایت ہو حسنین کا۔قومِ مسلم پہ ہو سایہ مرتضیٰ
دور شیطان ہو نورِ ایمان ہو ۔آئے ہر سو نسیمِ بہار
کملی والے میری لاج رکھیو۔کملی والے میری لاج رکھیو