گواہی کا نصاب گواہوں کی جنس اور وہ چیز جس کی گواہی دی جا رہی ہے کی بنیاد پر مختلف ہو جاتا ہے۔ اس لیے علیحدہ علیحدہ جرائم اور پھر ان کے لیے گواہی کا نصاب ذکر کیا جائے گا۔
1) جرم زنا پر گواہی کا نصاب:
زنا کے جرم پر چار عادل مسلمان مردوں کو گواہی قبول کی جاتی ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی عدالت قاضی کے ہاں تفتیش کے ذریعے ثابت ہو جائے کیونکہ زنا کا جرم حدود میں سے ہے۔ اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک حدود کے گواہوں کا تزکیہ کرنا ضروری ہے۔ ظاہریہ کہ نزدیک زنا میں ہر مرد کی جگہ اگر دو عورتیں بھی گواہی دیں تو ان کی گواہی قبول کر لی جائے گی۔
2) حدود و قصاص کے دوسرے معاملات میں گواہی کا نصاب:
زنا کے علاوہ حدود کے دوسرے معاملات جیسے قذف، چوری، شراب نوشی ارتداد اور قصاص وغیرہ کے معاملات میں گواہی کا نصاب مختلف ہے۔ ان تمام چیزوں میں دو عادل مردوں کی گواہی کافی ہے۔ تاہم ان کی عدالت کا ثابت ہونا ضروری ہے۔ یعنی ان کا تزکیہ ہونا ضروری ہے۔
ظاہریہ کہتے ہیں کہ ان موقعوں پر دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں یا چار عورتوں کی گواہی قبول کر لی جاتی ہے۔
3) حدود و قصاص اور اموال کے علاوہ باقی معاملات میں گواہی کا نصاب:
حدود و قصاص اور اموال کے علاوہ باقی معاملت جیسے نکاح، طلاق، الایلاء، الظھار، النسب اور التویکیل وغیرہ میں گواہی کے نصاب کے بارے میں فقہاء کی مختلف آراء ہیں۔
حنابلہ کی رائے: حنابلہ کی رائے یہ ہے کہ ان معاملات میں دو مردوں کی گواہی لازمی ہے۔ اور عورتوں کی گواہی کسی صورت میں قبول نہ کی جائے۔
شافعیہ کی رائے: ان کی رائے بھی حنابلہ کی رائے کے مطابق ہے۔
احناف کی رائے: احناف کہتے ہیں کہ ان معاملات میں گواہی کا نصاب دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہیں۔ یہی ظاہریہ کا بھی مؤقف ہے۔ تاہم ان کے نزدیک دو مردوں کے علاوہ چار عورتوں کی گواہی بھی جائز ہے۔
4) اموال میں گواہی کا نصاب:
اموال اور اس سے متعلقہ دوسرے حقوق جیسے قروض، الدمات، البیوع، الاجارات اور دوسرے مالی معاملات وغیرہ میں گواہی کا نصاب دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہیں۔ یہ حنابہ شافعیہ، حنیفہ اور مالکیہ وغیرہ کا مذہب ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔
5) ایک گواہ کی گواہی اور مدعی کی قسم:
اکثر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ مدعی کے لیے مال کا ثبوت ایک گواہ کی گواہی اور مدعی کی قسم سے ہو جاتا ہے۔ یہ خلفاء راشدین سے روایت ہے اور یہی حضرت عمر بن عبد العزیز کا بھی قول ہے۔ امام مالک، ابن ابی لیلی، شریح، ابی الزناد الشافعی اور امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مؤقف ہے۔
امام شعبی، النخعی، الاوزاعی اور امام ابو حنیفہ کی رائے یہ ہے کہ قاضی کے لیے جائز ہے کہ وہ مال کا فیصلہ مدعی کی قسم اور ایک گواہ کی گواہی پر کرے ان کی حجت قرآن پاک کی یہ آیت ہے۔
ایک گواہ اور مدعی کی قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا اس نص پر اضافہ ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔ جن لوگوں نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم کے ساتھ فیصلے کو درست کہا ہے ان کے دلائل یہ ہیں
کئی احادیث ایسی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے ایسے معاملات میں فیصلہ کیا۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسملم نے قسم اور ایک گواہ سے فیصلہ کیا۔ اس روایت کو امام مسلم، امام احمد اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے اور امام احمد کی روایت یہ بھی ہے کہ اموال میں بھی یہ قبول ہے۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گواہ اور صاحب حق کی قسم سے فیصلہ کیا اور اسی طرح حضرت علی نے عراق میں فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ بھی اس موضوع پر بعض احادیث ہیں جو کو امام شوکانی نے نقل کیا ہے۔
اس مؤقف کے حاملین نے قرآن پاک کی آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس آیت سے حجت لینا درست ہے۔ کیونکہ قرآن پاک نے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا ذکر فیصلہ کرنے کا طریقہ کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ یہ تو گواہی کی دو اقسام کا ذکر ہے جن کے ذریعے لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے اور یہ تو وعظ و نصیحت کے ابواب میں سے ہے۔ اور یہ تو واضح ہے کہ جس سے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے وہ اور چیز ہے اور جس سے فیصلہ کیا جاتا ہے وہ اور چیز ہے۔
فیصلہ کرنے کے طریقے حفظ الحقوق بالشاھد سے زیادہ وسیع ہیں۔ جب قاضی نکول اور یمین وغیرہ کی بنیاد پر فیصلے کر سکتا ہے جو گواہ نہیں ہیں تو ایک گواہ اور مدعی کی قسم پر فیصلہ کیوں نہیں کر سکتا۔ ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے فیصلہ کرنا کتاب اللہ میں سے ہی ہے۔ کیونکہ یہ حق ہے اور حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم بھی اللہ سبحانہ و تعالی نے دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین اس کے ذریعے فیصلہ فرماتے تھے اور ان کا فیصلہ کرنا حق ہی تو ہے۔ اس کے علاوہ ایک گواہ اور مدعی کی قسم کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
6) ایک گواہ کی گواہی سے فیصلہ کرنا:
ماضی کے قاضیوں کا ایک گروہ ایک گواہ کی گواہی سے جبکہ اس کے سچا ہونے کا علم فیصلہ کرنے کا قائل ہے۔ اس ضمن میں ان کے ہاں مدعی کی قسم بھی ضروری نہیں ہے۔ ان میں قاضی شریح اور زرارۃ بن ابی اوفی بھی شامل ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ جب قاضی کو گواہ کی سچائی پر اعتماد ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کی گواہی پر فیصلہ کر دے۔ ابن القیم کی بھی یہی رائے ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قضیۃ السلب میں ایک گواہ کی گواہی کو سن کر فیصلہ دیا۔ اسی طرح ارشاد ہے کہ
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گواہ کی گواہی کو ابی قتادہ کے لیے جائز قرار دیا کہ انہوں نے ایک مشرک کو قتل کر دیا ہے۔ اسی طرح ابن قیم یہ استدلال بھی کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک عورت کی گواہی کو رضاعت کے معاملہ میں قبول کر لیا اور وہ گواہی اس نے خود ہی اپنے حق میں دی تھی۔
7) مدعی کے قول کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ کرنا:
مدعی کا قول دراصل دعوی ہے اور وہ گواہی کے قسموں میں سے نہیں ہے اس کے باوجود مالکیہ کہتے ہیں کہ صرف مدعی کے قول پر فیصلہ کرنا جائز ہے جبکہ دوسرے قرائن اور واقعات سے اس قول کا سچا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ مالکیہ کے ہاں مدعی کے قول کو بغیر اس کی قسم کے ہی قبول کر لیا جاتا ہے۔
تاہم بعض معاملات میں قسم ضروری ہو گی۔ مثلا ان کی رائے یہ ہے کہ اگر شوہر جو بیوی کے ساتھ رہ رہا ہے یہ دعوی کے کہ اس نے بیوی پر خرچ کیا ہے تو عرف میں چونکہ ایسا ہی ہوتا ہے اس لیے شوہر کا قول قبول کر لیا جائے گا اسی طرح عورت کا یہ قول بھی قبول کر لیا جائے گا کہ اس کی عدت مکمل ہو گئی ہو تو اس کا قول بغیر قسم کے قبول کر لیا جائے گا۔
اسی طرح اگر دکاندار یہ کہے کہ میں نے روپے کے بدلے میں چیز فروخت کی ہے اور خریدار یہ کہے کہ میں نے چیز کے بدلے چیز خریدی ہے تو دکاندار کا قول قبول کیا جائے گا کیونکہ قرینہ یہ ہے کہ روپے قیمت ہے اور اسی سے چیزوں کی فروخت ہوتی ہے۔
8) صرف عورتوں کی گواہی:
صرف عورتوں کی گواہی بغیر اس کے کہ ان کے ساتھ مرد ہوں قبول ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جن موقعوں پر صرف عورتوں کی گواہی قبول ہوتی ہے حنابلہ کے ہاں وہ یہ ہیں
الولادتہ، الستھلال، الرضاع، العیوب، تحت الثیاب (کپڑوں کے نیچے کے عیب اور عدت کا خاتمہ وغیرہ)
امام ابو حنیفہ کے ہاں رضاعت کے معاملہ میں صرف عورتوں کی گوہی قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ عورتوں کے محرم مرد ان معاملات سے آگاہ ہیں اس لیے نکاح کی طرح یہ معاملات صرف عورتوں کی گواہی سے ثابت نہ ہوں گے۔ امام ابو حنیفہ کے قول کا رد یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک عورت کی گواہی کو رضاعت میں قبول فرمایا۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ کے نزدیک صرف عورتوں کی گواہی ولادۃ کے بعد بچے کے استھلال میں بھی قبول نہ ہو گی کیونکہ یہ ولادت کے بعد کے معاملات ہیں۔
حنابلہ صرف عورتوں کی گواہی کو قبول کرنے کے حق میں رائے دیتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ رضاعت کے معاملات میں ایک عورت کی گواہی ہی کافی ہے۔ کیونکہ اس مثال مشھود بہ صرف عورتوں کے قول سے ہی ثابت ہوتا ہے اور ان روایت میں تعداد کی شرط عائد نہیں ہے۔ (اسلامی قانون میں وسائل اثبات (دعوی اور نظام احتساب), 2018)
حدود و قصاص میں گواہی کا نصاب
1) جرم زنا پر گواہی کا نصاب:
زنا کے جرم پر چار عادل مسلمان مردوں کو گواہی قبول کی جاتی ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی عدالت قاضی کے ہاں تفتیش کے ذریعے ثابت ہو جائے کیونکہ زنا کا جرم حدود میں سے ہے۔ اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک حدود کے گواہوں کا تزکیہ کرنا ضروری ہے۔ ظاہریہ کہ نزدیک زنا میں ہر مرد کی جگہ اگر دو عورتیں بھی گواہی دیں تو ان کی گواہی قبول کر لی جائے گی۔
2) حدود و قصاص کے دوسرے معاملات میں گواہی کا نصاب:
زنا کے علاوہ حدود کے دوسرے معاملات جیسے قذف، چوری، شراب نوشی ارتداد اور قصاص وغیرہ کے معاملات میں گواہی کا نصاب مختلف ہے۔ ان تمام چیزوں میں دو عادل مردوں کی گواہی کافی ہے۔ تاہم ان کی عدالت کا ثابت ہونا ضروری ہے۔ یعنی ان کا تزکیہ ہونا ضروری ہے۔
ظاہریہ کہتے ہیں کہ ان موقعوں پر دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں یا چار عورتوں کی گواہی قبول کر لی جاتی ہے۔
3) حدود و قصاص اور اموال کے علاوہ باقی معاملات میں گواہی کا نصاب:
حدود و قصاص اور اموال کے علاوہ باقی معاملت جیسے نکاح، طلاق، الایلاء، الظھار، النسب اور التویکیل وغیرہ میں گواہی کے نصاب کے بارے میں فقہاء کی مختلف آراء ہیں۔
حنابلہ کی رائے: حنابلہ کی رائے یہ ہے کہ ان معاملات میں دو مردوں کی گواہی لازمی ہے۔ اور عورتوں کی گواہی کسی صورت میں قبول نہ کی جائے۔
شافعیہ کی رائے: ان کی رائے بھی حنابلہ کی رائے کے مطابق ہے۔
احناف کی رائے: احناف کہتے ہیں کہ ان معاملات میں گواہی کا نصاب دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہیں۔ یہی ظاہریہ کا بھی مؤقف ہے۔ تاہم ان کے نزدیک دو مردوں کے علاوہ چار عورتوں کی گواہی بھی جائز ہے۔
4) اموال میں گواہی کا نصاب:
اموال اور اس سے متعلقہ دوسرے حقوق جیسے قروض، الدمات، البیوع، الاجارات اور دوسرے مالی معاملات وغیرہ میں گواہی کا نصاب دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہیں۔ یہ حنابہ شافعیہ، حنیفہ اور مالکیہ وغیرہ کا مذہب ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِذَا تَدَايَنْتُـمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْـتُبُوْهُ ۚ وَلْيَكْـتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ يَّكْـتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّـٰهُ ۚ فَلْيَكْـتُبْۚ وَلْيُمْلِلِ الَّـذِىْ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّـٰهَ رَبَّهٝ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَاِنْ كَانَ الَّـذِىْ عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِـيْهًا اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهٝ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ ۖ فَاِنْ لَّمْ يَكُـوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتَانِ مِمَّن تَـرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدَاهُمَا الْاُخْرٰى ۚ وَلَا يَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا ۚ وَلَا تَسْاَمُـوٓا اَنْ تَكْـتُـبُوهُ صَغِيْـرًا اَوْ كَبِيْـرًا اِلٰٓى اَجَلِـهٖ ۚ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّـٰهِ وَاَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَاَدْنٰٓى اَلَّا تَـرْتَابُـوٓا ۖ اِلَّآ اَنْ تَكُـوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيْـرُوْنَـهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْـتُبُوْهَا ۗ وَاَشْهِدُوٓا اِذَا تَبَايَعْتُـمْ ۚ وَلَا يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيْدٌ ۚ وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٝ فُسُوْقٌ بِكُمْ ۗ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّـٰهُ ۗ وَاللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِـيْـمٌ
اے ایمان والو! جب تم کسی وقتِ مقرر تک آپس میں ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور چاہیے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا انصاف سے لکھے، اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اس کو اللہ نے سکھایا ہے، سو اسے چاہیے کہ لکھ دے، اور وہ شخص بتلاتا جائے کہ جس پر قرض ہے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور اس میں کچھ کم کر کے نہ لکھائے، پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بے وقوف ہے یا کمزور ہے یا وہ بتلا نہیں سکتا تو اس کا کارکن ٹھیک طور پر لکھوا دے، اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ کر لیا کرو، پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں ان لوگوں میں سے جنہیں تم گواہو ں میں سے پسند کرتے ہو تاکہ اگر ایک ان میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے، اور جب گواہوں کو بلایا جائے تو انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کی معیاد تک لکھنے میں سستی نہ کرو، یہ لکھ لینا اللہ کے نزدیک انصاف کو زیادہ قائم رکھنے والا ہے اور شہادت کا زیادہ درست رکھنے والا ہے اور زیادہ قریب ہے اس بات کے کہ تم کسی شبہ میں نہ پڑو، مگر یہ کہ (جب) تجارت ہاتھوں ہاتھ ہو جسے آپس میں لیتے دیتے ہو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اسے نہ لکھو، اور جب آپس میں سودا کرو تو گواہ بنا لو، اور لکھنے والے اور گواہ بنانے والے کو تکلیف نہ دی جائے، اور اگر تم نے تکلیف دی تو تمہیں گناہ ہوگا، اور اللہ سے ڈرو، اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ (سورۃ البقرۃ 282)
اے ایمان والو! جب تم کسی وقتِ مقرر تک آپس میں ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور چاہیے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا انصاف سے لکھے، اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اس کو اللہ نے سکھایا ہے، سو اسے چاہیے کہ لکھ دے، اور وہ شخص بتلاتا جائے کہ جس پر قرض ہے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور اس میں کچھ کم کر کے نہ لکھائے، پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بے وقوف ہے یا کمزور ہے یا وہ بتلا نہیں سکتا تو اس کا کارکن ٹھیک طور پر لکھوا دے، اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ کر لیا کرو، پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں ان لوگوں میں سے جنہیں تم گواہو ں میں سے پسند کرتے ہو تاکہ اگر ایک ان میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے، اور جب گواہوں کو بلایا جائے تو انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کی معیاد تک لکھنے میں سستی نہ کرو، یہ لکھ لینا اللہ کے نزدیک انصاف کو زیادہ قائم رکھنے والا ہے اور شہادت کا زیادہ درست رکھنے والا ہے اور زیادہ قریب ہے اس بات کے کہ تم کسی شبہ میں نہ پڑو، مگر یہ کہ (جب) تجارت ہاتھوں ہاتھ ہو جسے آپس میں لیتے دیتے ہو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اسے نہ لکھو، اور جب آپس میں سودا کرو تو گواہ بنا لو، اور لکھنے والے اور گواہ بنانے والے کو تکلیف نہ دی جائے، اور اگر تم نے تکلیف دی تو تمہیں گناہ ہوگا، اور اللہ سے ڈرو، اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ (سورۃ البقرۃ 282)
5) ایک گواہ کی گواہی اور مدعی کی قسم:
اکثر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ مدعی کے لیے مال کا ثبوت ایک گواہ کی گواہی اور مدعی کی قسم سے ہو جاتا ہے۔ یہ خلفاء راشدین سے روایت ہے اور یہی حضرت عمر بن عبد العزیز کا بھی قول ہے۔ امام مالک، ابن ابی لیلی، شریح، ابی الزناد الشافعی اور امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مؤقف ہے۔
امام شعبی، النخعی، الاوزاعی اور امام ابو حنیفہ کی رائے یہ ہے کہ قاضی کے لیے جائز ہے کہ وہ مال کا فیصلہ مدعی کی قسم اور ایک گواہ کی گواہی پر کرے ان کی حجت قرآن پاک کی یہ آیت ہے۔
وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ ۖ فَاِنْ لَّمْ يَكُـوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتَانِ
اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ کر لیا کرو، پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں (سورۃ البقرۃ 282)
اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ کر لیا کرو، پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں (سورۃ البقرۃ 282)
ایک گواہ اور مدعی کی قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا اس نص پر اضافہ ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔ جن لوگوں نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم کے ساتھ فیصلے کو درست کہا ہے ان کے دلائل یہ ہیں
کئی احادیث ایسی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے ایسے معاملات میں فیصلہ کیا۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسملم نے قسم اور ایک گواہ سے فیصلہ کیا۔ اس روایت کو امام مسلم، امام احمد اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے اور امام احمد کی روایت یہ بھی ہے کہ اموال میں بھی یہ قبول ہے۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گواہ اور صاحب حق کی قسم سے فیصلہ کیا اور اسی طرح حضرت علی نے عراق میں فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ بھی اس موضوع پر بعض احادیث ہیں جو کو امام شوکانی نے نقل کیا ہے۔
اس مؤقف کے حاملین نے قرآن پاک کی آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس آیت سے حجت لینا درست ہے۔ کیونکہ قرآن پاک نے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا ذکر فیصلہ کرنے کا طریقہ کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ یہ تو گواہی کی دو اقسام کا ذکر ہے جن کے ذریعے لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے اور یہ تو وعظ و نصیحت کے ابواب میں سے ہے۔ اور یہ تو واضح ہے کہ جس سے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے وہ اور چیز ہے اور جس سے فیصلہ کیا جاتا ہے وہ اور چیز ہے۔
فیصلہ کرنے کے طریقے حفظ الحقوق بالشاھد سے زیادہ وسیع ہیں۔ جب قاضی نکول اور یمین وغیرہ کی بنیاد پر فیصلے کر سکتا ہے جو گواہ نہیں ہیں تو ایک گواہ اور مدعی کی قسم پر فیصلہ کیوں نہیں کر سکتا۔ ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے فیصلہ کرنا کتاب اللہ میں سے ہی ہے۔ کیونکہ یہ حق ہے اور حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم بھی اللہ سبحانہ و تعالی نے دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین اس کے ذریعے فیصلہ فرماتے تھے اور ان کا فیصلہ کرنا حق ہی تو ہے۔ اس کے علاوہ ایک گواہ اور مدعی کی قسم کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
6) ایک گواہ کی گواہی سے فیصلہ کرنا:
ماضی کے قاضیوں کا ایک گروہ ایک گواہ کی گواہی سے جبکہ اس کے سچا ہونے کا علم فیصلہ کرنے کا قائل ہے۔ اس ضمن میں ان کے ہاں مدعی کی قسم بھی ضروری نہیں ہے۔ ان میں قاضی شریح اور زرارۃ بن ابی اوفی بھی شامل ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ جب قاضی کو گواہ کی سچائی پر اعتماد ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کی گواہی پر فیصلہ کر دے۔ ابن القیم کی بھی یہی رائے ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قضیۃ السلب میں ایک گواہ کی گواہی کو سن کر فیصلہ دیا۔ اسی طرح ارشاد ہے کہ
من قتل قتیلا لیس لہ علیہ بینتہ فلہ سلبہ
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گواہ کی گواہی کو ابی قتادہ کے لیے جائز قرار دیا کہ انہوں نے ایک مشرک کو قتل کر دیا ہے۔ اسی طرح ابن قیم یہ استدلال بھی کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک عورت کی گواہی کو رضاعت کے معاملہ میں قبول کر لیا اور وہ گواہی اس نے خود ہی اپنے حق میں دی تھی۔
7) مدعی کے قول کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ کرنا:
مدعی کا قول دراصل دعوی ہے اور وہ گواہی کے قسموں میں سے نہیں ہے اس کے باوجود مالکیہ کہتے ہیں کہ صرف مدعی کے قول پر فیصلہ کرنا جائز ہے جبکہ دوسرے قرائن اور واقعات سے اس قول کا سچا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ مالکیہ کے ہاں مدعی کے قول کو بغیر اس کی قسم کے ہی قبول کر لیا جاتا ہے۔
تاہم بعض معاملات میں قسم ضروری ہو گی۔ مثلا ان کی رائے یہ ہے کہ اگر شوہر جو بیوی کے ساتھ رہ رہا ہے یہ دعوی کے کہ اس نے بیوی پر خرچ کیا ہے تو عرف میں چونکہ ایسا ہی ہوتا ہے اس لیے شوہر کا قول قبول کر لیا جائے گا اسی طرح عورت کا یہ قول بھی قبول کر لیا جائے گا کہ اس کی عدت مکمل ہو گئی ہو تو اس کا قول بغیر قسم کے قبول کر لیا جائے گا۔
اسی طرح اگر دکاندار یہ کہے کہ میں نے روپے کے بدلے میں چیز فروخت کی ہے اور خریدار یہ کہے کہ میں نے چیز کے بدلے چیز خریدی ہے تو دکاندار کا قول قبول کیا جائے گا کیونکہ قرینہ یہ ہے کہ روپے قیمت ہے اور اسی سے چیزوں کی فروخت ہوتی ہے۔
8) صرف عورتوں کی گواہی:
صرف عورتوں کی گواہی بغیر اس کے کہ ان کے ساتھ مرد ہوں قبول ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جن موقعوں پر صرف عورتوں کی گواہی قبول ہوتی ہے حنابلہ کے ہاں وہ یہ ہیں
الولادتہ، الستھلال، الرضاع، العیوب، تحت الثیاب (کپڑوں کے نیچے کے عیب اور عدت کا خاتمہ وغیرہ)
امام ابو حنیفہ کے ہاں رضاعت کے معاملہ میں صرف عورتوں کی گوہی قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ عورتوں کے محرم مرد ان معاملات سے آگاہ ہیں اس لیے نکاح کی طرح یہ معاملات صرف عورتوں کی گواہی سے ثابت نہ ہوں گے۔ امام ابو حنیفہ کے قول کا رد یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک عورت کی گواہی کو رضاعت میں قبول فرمایا۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ کے نزدیک صرف عورتوں کی گواہی ولادۃ کے بعد بچے کے استھلال میں بھی قبول نہ ہو گی کیونکہ یہ ولادت کے بعد کے معاملات ہیں۔
حنابلہ صرف عورتوں کی گواہی کو قبول کرنے کے حق میں رائے دیتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ رضاعت کے معاملات میں ایک عورت کی گواہی ہی کافی ہے۔ کیونکہ اس مثال مشھود بہ صرف عورتوں کے قول سے ہی ثابت ہوتا ہے اور ان روایت میں تعداد کی شرط عائد نہیں ہے۔ (اسلامی قانون میں وسائل اثبات (دعوی اور نظام احتساب), 2018)