یمین و نکول
اگرکسی کا دعوی مدعی علیہ کے اقرار یا معتبر گواہی یا ان کے علاوہ کسی اور وسیله اثبات سے ثابت ہو گیا تو قاضی اس کے مطابق فیصلہ کر دے گا اور اگر ان وسائل اثبات سے دعوی ثابت نہ ہو تو قاضی مدعی علیہ (مخالف فریق) سے حلف لے گا کیونکہ یہ قاضی کے حقوق میں سے ہیں۔
جب قاضی مدعی علیہ سے حلف طلب کرے گا تو وہ قسم اٹھانے کے لیے کہے گا۔ اگر اس نے قسم اٹھالی تو قاضی دعوی رد کر دے گا اور اگر اس نے قسم اٹھانے سے انکار کر دیا تو قاضی مدعی کے دعوی کے مطابق فیصلہ کر دے گا- پس یہ قسم ( یمین ) اٹھانا اور قسم سے انکار کر دینا بھی وسائل اثبات میں سے ہے۔
یمین کا مفہوم:
یمین سے مراد وہ شرعی یمین ہے جو مدعی علیہ سے طلب کی جاتی ہے۔ اور یہ حلف اللہ کے نام کے ساتھ ہوتا ہے یہی اہل علم کی رائے ہے۔
الله تعالی کے اسم مبارک کے بغیر یمین (قسم) کا حلف جائز نہیں ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ضمن میں فرمایا:
من كان حالفا فليحلف بالله او ليصمت
اور جو کوئی قسم کھائے تو اللہ کی قسم کھائے یا پھر چپ رہے۔
اور جو کوئی قسم کھائے تو اللہ کی قسم کھائے یا پھر چپ رہے۔
پس یہ قسم شرعی یمین ہے اور جائز ہے ہر اس حق میں جس میں مدعا علیہ مدعی کے دعوی کا انکار کر رہا ہو۔ چاہے مدعی مسلمان ہو یا کافر، عادل ہو یا فاسق مرد ہو یا عورت جیسا کہ ارشاد نبوی ہے
اليمين على المدعى عليه
قسم مدعی علیہ کے ذمے ہے۔
قسم مدعی علیہ کے ذمے ہے۔
اور اگر کوئی مدعی علیہ قسم اٹھانے سے انکار کر دے تو مدعی اپنے دعوی کے حق میں قسم کھائے گا۔
یمین کی قبولیت:
اگر قاضی نے مدعی علیہ سے یمین طلب کی اور اس نے اس کا انکار دیا۔ اس کے انکار کی بنیاد پر قاضی نے فیصلہ کر دیا اور فیصلے کے بعد اگر مدعی علیہ نے قسم اٹھانے کی بات کی تو اس کی بات قبول نہ کی جائے گی۔
کوئی کسی دوسرے کی قسم نہیں اٹھائے گا:
کوئی شخص کسی دوسرے کی جگہ قسم نہیں اٹھا سکتا چاہے مدعی علیہ بچہ ہو یا مجنون ہو۔ اس کا ولی اس کی جگہ قسم نہیں اٹھائے گا۔
بچہ کا انتظار کیا جائے گا کہ وہ بالغ ہو جائے اور مجنون کا انتظار کیا جائے گا کہ وہ عقل مند ہو جائے۔ لیکن کوئی اور اس کے لیے اس کی طرف سے قسم نہیں اٹھائے گا۔
سچی قسم اٹھانے پر کوئی گناہ نہیں:
جس کسی سے قسم کا مطالبہ کیا جائے اور وہ سچا ہو تو اس کے لیے حلف اٹھانا جائز ہے اور اس میں اس کے لیے کسی قسم کا گناہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے قسم کو جائز قرار دیا ہے اور اللہ کسی حرام چیز کو جائز قرار نہیں دیتا۔
حضرت عمر بن الخطاب نے ابی بن کعب رضی اللہ عنھم کے لیے قسم کھائی ایک باغ کے بارے میں جسے انہوں نے بعد میں انہی کو ہبہ کر دیا اور انہوں نے کہا
خفت ان لم احلف ان یمتنع الناس من الحلف علی حقوقھم فتصیر سنۃ
میں ڈر گیا کہ اگر قسم اٹھانے سے انکار کر دیا تو لوگ اپنے حقوق کے بارے میں اس سے رک جائیں گے اور سنت محدود ہو جائے گی
میں ڈر گیا کہ اگر قسم اٹھانے سے انکار کر دیا تو لوگ اپنے حقوق کے بارے میں اس سے رک جائیں گے اور سنت محدود ہو جائے گی
اس قول کی بنا پر بعض فقہاء نے کہا ہے کہ اگر حلف سچا ہو تو یہ بہت بہتر ہے کیونکہ اس سے مخالف کو ظلم اور زیادتی کے طریقے سے حق کھانے سے روک دیا جاتا ہے۔
اور بعض فقہاء نے کہا ہے کہ اگر کوئی قسم نہ کھائے اور حق کو مدعی کے لیے چھوڑ دے تو یہ زیادہ مناسب ہے۔
نکول کا مفہوم:
نکول عربی لفظ نکل سے آتا ہے۔ جس کے معنی انکار کے ہیں قاضی جب مدعی علیہ سے قسم طلب کرے اور وہ قسم اٹھانے سے انکار کر دے تو اس نکول کہتے ہیں۔
مدعی علیہ کا قسم اٹھانے سے انکار:
اگر مدعی علیہ یمین سے انکار کر دے تو اس کا انکار اقرار کی دلیل ہو گا۔ کیونکہ مدعی علیہ نے قسم نہ اٹھا کر اپنی صفائی کا موقع ضائع کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ اگر وہ سچا ہوتا تو یمین سے انکار نہ کرتا کیونکہ اس طرح اس سے ضرر دور ہو جاتا۔
پھر نکول دراصل دلالت کرتا ہے اقرار پر لیکن چونکہ اس میں شبہ ہے اس لیے یہ اقرار کی طرح نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی ذلت کے خوف سے قسم اٹھانے سے انکار کر دے اور مدعی کی طلب کو پورا کر دے اپنی عزت بچانے کے لیے اور حقیقت میں وہ چیز اس پر لاگو نہ ہوتی ہو۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان سچا ہونے کے باوجود قسم نہ اٹھائے۔
نکول میں ان دونوں احتمال کے پیش نظر امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ نکول میں اقرار اور بذل دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ اور امام ابو حنیفہ اس حق میں جس کے بارے میں مدعی علیہ سے حلف لیا جائے گا یہ شرط لگائی ہے اس میں بذل ہو اور اقرار ہو اس لیے اس میں صرف اقرار کا درست ہونا کافی نہیں ہے۔
امام ابو یوسف اور امام محمد بذل کی شرط نہیں لگاتے ان کے نزدیک جس حق میں قسم اور نکول ہو اس میں اقرار کا ہونا ہی کافی ہے۔ بذل کی شرط نہیں لگائی جاتی۔