سیاسی جرائم

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
سیاسی جرائم

سیاسی جرائم سے مراد وہ جرائم ہیں جن کا مقصد سیاسی حصول ہو۔ ایسے جرائم پر آمادہ کرنے والے اسباب سیاسی ہوتے ہیں جبکہ استمراری جرائم کے ارتکاب کرنے پر آمادہ کرنے والے اسباب غیر سیاسی ہوتے ہیں۔

1) سیاسی جرم کب وجود میں آتا ہے؟

معمولی حالت میں سیاسی جرم وجود میں نہیں آتا۔ اس لیے ہر وہ جرم جو عام حالات کی پیداوار ہو وہ ایک عادی جرم ہی سمجھا جائے گا، خواہ اس کا مقصد اور اس کے اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں۔ مثال کے طور پر کوئی شخص سیاسی مقصد کی خاطر سربراہ ریاست کو قتل کردے تو یہ قتل جب تک عام حالات میں ہوا ہے اس عادی جرم ہی شمار کیا جائے اگرچہ قاتل خود بھی سیاسی آدمی کیوں نہ ہو۔ عبد الرحمن بن ملجم نے جب حضرت علی کرم ﷲ وجہہ کو سیاسی مقصد کے لیے قتل کیا تھا اور قاتل خود خارجی تھا مگر اس کے باوجود اس قتل کو قتل عادی سمجھا گیا۔ خود حضرت علی کرم ﷲ وجہہ کے یہی رائے تھی اور آپ کے بعد علماء کرام نے بھی اسی رائے کو اختیار کیا۔ آپ نے اپنے بیٹے حضرت امام حسن سے فرمایا تھا

اس کو (مجرم کو) قید میں ڈال دو۔ اگر میں زندہ رہ گیا تو میں اپنے خون کا خود ولی ہوں اور اگر میں مر گیا تو پھر جس طرح اس نے مجھے ضرب لگائی اسی طرح اس ضرب لگائی جائے

سیاسی جرم کا ظہور غیر معمولی حالات میں ہوا کرتا ہے۔ بلکہ تحدید کے ساتھ ان حالات میں ہوتا ہے جن میں انقلاب کی صورت ہو یا خانہ جنگی کی کیفیت ہو۔ اگر رعایا میں سے کوئی ایک گروہ ریاست کے خلاف بغاوت کر دے یا ریاست میں اور رعایا کے باغی گروہ میں جنگ شروع ہو جائے تو اگر باغیوں میں اور مقابلہ کرنے والوں میں مقررہ شرائط پائی جاتی ہوں تو سیاسی قتل وجود میں آ سکتا ہے۔ اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں یا شرائط تو پوری ہوں مگر بغاوت کی صورت اور جنگ کی کیفیت نہ ہو تو اس صورت میں وقوع پذیر ہونے والے جرائم سیاسی نہیں بلکہ عادی جرائم سمجھے جائیں گے۔

2) سیاسی مجرم:

فقہاء کی اصطلاح میں سیاسی جرم کو بغاوت کا نام دیا گیا ہے اور سیاسی مجرمین کو باغی یا باغی گروہ قرار دیا گیا ہے۔

فقہاء کرام کی تعریف کے مطابق وہ گروہ باغی کہلاتا ہے جو طاقت اور شوکت کا حامل ہو اور کسی دل پسند دلیل کے سہارے امام وقت کے خلاف خروج کرے یا باغی مسلمانوں کا وہ فرقہ جو امام اعظم یا اس کے نائب کی دو وجوہات میں سے کسی ایک وجہ کی بناء پر مخالفت کرے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ وہ اس حق کو ادا نہیں کرنا چاہتا جو اس پر زکوۃ وغیرہ کی قسم سے لازم آتا ہے۔ یا اس کے حکم شریعت ﷲ سبحانہ سے متعلق یا آدمی سے متعلق اس پر لازم آتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ فرقہ امام کی اطاعت قبول کرنے کے بعد (زبان کے اعتراف سے اور امام کی موجوگی میں امام کی بیعت کر کے اور اگر امام موجود نہیں ہے تو اہل حل و عقد میں سے کسی کو گواہ بنا کر) یہ سمجھتا ہے کہ امام کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہیے اور نہ کی امامت کا اعتراف کرنا چاہیے۔ حالانکہ بیعت حق ہے اور دلیل یہ حدیث مبارکہ ہے:

جو شخص اس حالت میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت نہیں ہے وہ جاہلیت کی موت مرا

یا وہ گروہ اس امام کی مخالفت اس لیے کرے تا کہ اسے معزول کر دے۔ حالانکہ جابر ہونے کی حالت میں بھی امام کا معزول کرنا جائز نہیں ہے۔

3) وہ شرائط جن کا پورا ہونا سیاسی مجرموں اور باغیوں کے بارے میں ضروری ہے:

1: مقصد جرم:
جرم کا مقصد یا تو سربراہ ریاست کو معزول کر دینا اور قانون ساز ادارے کو توڑ دینا ہو یا سربراہ ریاست کی اطاعت سے گریز کرنا ہو۔

2: تاویل: وہ اپنے مؤقف کے لیے بطور دلیل تاویل کرتے ہوں۔ اپنی مخالفت کا سبب بیان کرتے ہوں اور اپنے مطالبے کی صحت پر دلائل پیش کرتے ہوں۔ اگرچہ یہ دلائل بذات خود کمزور اور لچر ہوں۔

3: طاقت و شوکت: اس ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ اپنے متبعین اور ہمنواؤں سے قوت و شوکت حاصل ہو گئی ہو۔ اگر اس قسم کی قوت و شوکت موجود نہ ہو تو وہ تاویل کرنے کے باوجود سیاسی مجرم شمار نہیں ہو گا۔

4: انقلاب و جنگ: وقوع جرم کسی انقلابی صورت میں یا اس خانہ جنگی کی حالت میں جو مقصد جرم کی تکمیل کے لیے برپا کی گئی ہو، ہوا ہو۔ اگر وقوع جرم کے وقت انقلاب کی کیفیت اور خانہ جنگی کی حالت نہیں ہے تو یہ نہ بغاوت ہے اور نہ سیاسی جرم بلکہ یہ ایک عادی جرم ہے۔
 
Top