معاشرے کے خلاف جرائم

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
معاشرے کے خلاف جرائم

معاشرے کے خلاف جرائم وہ ہوتے ہیں جن میں سزا اس لیے متعین کی گئی ہے تاکہ جماعتی مفاد کا تحفظ ہو سکے۔ خواہ جرم کا اثر کسی فرد پر ہو یا جماعت پر ہو یا معاشرتی امن اور ملکی نظام پر ہو۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ اس نوع کے جرائم کی سزا بطور حق ﷲ متعین کی گئی ہے۔ اور اس اصطلاح کا مفہوم یہ ہے کہ اس سزا کا منشاء تحفظ جماعت ہے اور حق ﷲ ہونے سے اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ ان جرائم کی سزا معاف کرنا یا اس میں کمی کرنا یا اس کی تنفیذ روک دینا صحیح نہیں ہے۔

جرائم حدود ان جرائم میں سے سمجھتے جاتے ہیں جو جماعتی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں اگرچہ ان میں سے بیشتر کا وقوع افراد پر ہوتا ہے اور ان کے مفاد کو براہ راست صدمہ پہنچاتے ہیں۔ مثلا چوری اور تہمت زنا جرائم حدود کے جماعتی مفادات کے لیے ضرررساں ماننے کا یہ مفہوم نہیں کہ یہ افراد کے لیے ضرررساں نہیں ہیں۔ بلکہ دراصل ان میں جماعتی مفاد کو انفرادی مفاد پر ترجیح دی گئی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی فرد ان جرائم میں سے کسی جرم کو معاف کر دے تو اس کی اس معافی سے جرم اور اس کی سزا متاثر نہیں ہو گی۔

قصاص اور دیت کے جرائم کا وقوع افراد کے خلاف ہوتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جرائم معاشرے کے لیے ضرر رساں نہیں ہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان جرائم میں فرد کے حق کو جماعت کے حق پر ترجیح دی گئی ہے۔ چنانچہ فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قصاص اور دیت کو معاف کر دیں، جو اس جرم کی اصل مقررہ سزائیں ہیں۔ اور فرد کو معاف کر دینے کاحق اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ جرم براہ راست اس سے متعلق ہے اگر وہ معاف کر دے تو بھی مجرم کو نہیں چھوڑا جائے گا بلکہ اسے تعزیری سزا دی جا سکے گی اس لیے کہ اس کے جرم سے بالواسطہ طور پر جماعتی مفاد کو جو صدمہ پہنچتا ہے اس کو تحفظ دیا جا سکے۔

تعزیراتی جرائم میں سے کچھ جرائم جماعتی مفاد کے لیے نقصان دہ ہیں اور کچھ افراد کے مصالح کے لیے ضرر رساں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو جرم جماعتی مفاد کے لیے ضرر رساں ہو گا وہ بالآخر افراد کے لیے بھی مضر ہو گا اور جو جرم فرد کے مفاد کو نقصان پہنچانے والا ہو گا اس سے بالآخر جماعتی مصالح کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اگرچہ وقوع جرم کا محل فرد کا اپنا خالص حق ہو۔ شرح الزرقانی میں ہے کہ:

''آدمی کے ہر حق میں حق ﷲ بھی شامل ہے کیونکہ یہ حق حق ﷲ ہے کہ کوئی بھی شخص (جو مکلف ہو) دوسرے کو تکلیف پہنچانے سے گریز کرے''۔

(اسلام کا فوجداری قانون, 1988)
 
Top