سزا کے بارے میں شریعت اسلامیہ کا تصور

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
سزا کا مفہوم:

سزا کے لیے عربی زبان میں عقوبت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ عقوبت سے مراد وہ بدلہ ہے جو شارع کا نافرمانی کرنے پر اجتماعی مفاد کی خاطر مقرر کیا گیا ہے۔ شارع کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر سزا مقرر کرنے کا مقصد انسانی معاشرے کی اصلاح، انسانوں کو برائیوں سے نجات دلانا، جہالت سے بچانا، گمراہی سے نکالنا، معاصی سے روکنا اور امادہ اطاعت کرنا ہے۔

سزا کے بارے میں شریعت اسلامیہ کا تصور:

شریعت میں جن اصولوں پر سزا کی بنیاد رکھی گئی ہے ان اصولوں کا مرجع دو اہم قواعد ہیں۔ یعنی بعض اصول جرم سے برسر پیکار ہیں اور مجرم کی شخصیت کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں اور بعض اصول مجرم کی شخصیت کو مدنظر رکھے ہوئے ہیں مگر جرم سے برسر پیکار بھی ہیں۔ گویا جو اصول جرم سے برسرپیکار ہیں ان کا مقصد معاشرے کو جرم سے محفوظ رکھنا ہے اور وہ اصول جو مجرم کی شخصیت کو ملحوظ رکھے ہوئے ہین ان کا مقصد مجرم کی اصلاح ہے۔

بلاشبہ ان دونوں قواعد میں ظاہری تضاد موجود ہے کیونکہ اگر معاشرے کو مجرم سے بچایا جائے تو مجرم کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے اور اگر مجرم کی ذات کو ملحوظ رکھا جائے تو معاشرتی پہلو کو فراموش کرنا پڑتا ہے۔

مگر شریعت اسلامیہ نے نہ صرف یہ کہ اپنے نظام عقوبات کی اساس ان بظاہر متضاد قواعد پر رکھی ہے بلکہ ان کے اس ظاہری تضاد کو مٹا کر تمام حالات میں معاشرے کو جرم سے محفوظ رکھنے کی رعایت کی ہے اور بیشتر حالات میں مجرم کی ذات کی رعایت بھی ملحوظ رکھی ہے کیونکہ شریعت نے اجتماعی تحفظ کے قاعدے کو مطلقا اختیار کر لیا ہے اور جرائم کی تمام مقررہ سزاؤں میں اس امر کو ملحوظ رکھا ہے۔

چنانچہ ہر سزا مجرم کی تادیب کے لیے اس قدر کافی ہے کہ وہ دوبارہ اس جرم کا اعادہ نہ کرے اور مجرم کے علاوہ دوسرے لوگ اس سزا سے متنبہ ہو جائیں اور اس جرم کے ارتکاب کا ارادہ بھی نہ کریں۔ لیکن اگر صرف مجرم کی تادیب سے معاشرہ مجرم کے شر سے محفوظ نہ رہ سکے یا اجتماعی تحفظ اس امر کا متقاضی ہو کہ مجرم کا استیصال کر دیا جائے تو مجرم کا استیصال لازمی ہو گا یا اسے حبس دوام کی سزا دی جائے گی۔

بہر حال جو جرائم معاشرے کے وجود پر برا اثر ڈالنے والے ہیں ان میں شریعت نے مجرم کی ذات کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اس نوع کے جرائم طبعا قلیل اور محدود ہیں جب کہ ان کے علاوہ تمام جرائم میں شریعت مجرم کی ذات کو نظر رکھتی ہے اور یہ لازم قرار دیتی ہے کہ مجرم کی شخصیت، اس کے حالات، اس کے اخلاق اور اس کی سیرت کا اندازہ سزا کے اجراء کے وقت عدالت کے پیش نظر رہے۔
 
Top