’’میزان الصرف ‘‘
ایک دن کتابوں کے ذخیرے میں مجھے اپنی وہ کتاب مل گئی جو میں نے ۱۹۸۸میں پڑھی تھی نام تھا’’میزان الصرف‘‘یہ علم صرف کی کتاب ہے جوگردانوں پرمشتمل ہے اورکم علمی ونافہمی وبے شعوری کی وجہ سے اسؒاذمحترم نے میری پشت پراپنے غصہ کاخوب اظہارفرمایاتھا،کتاب ہاتھ میں آئی توپرانی یادیں تازہ ہوتی چلی گئیں ،ٹوٹی پھوٹی چٹائی پربیٹھ کر،اپنے بستے کواپنی چٹائی پررکھ کراسی پرکتاب رکھ کررٹامارنے کاعجیب ہی مزا تھا،خوب یادہے میرے استاذبھی ایک جگہ چٹائی پربیٹھے سامنے ایک تپائی رکھے نگرانی کرتے رہتے تھے جہاں کہیں کسی نے کوئی شرارت کی لمباساڈنڈا پشت شریف پرپڑتااورچودہ طبق روشن ہوجاتے تھے،مجھے ہرگردان ایک جیسی لگتی ہے ،ایں ہمہ کہ گفتہ شدپرہی غصہ آتاتھا،ماضی مجہول اورمعروف کی یکسانیت ،مذکرومؤنث کاجھمیلا،واحدتنیہ اورجمع کاچکر،متکلم کامسئلہ یہ سب باتیں بھلاعام قارئین کیاجانیں اورانھیں کیاپتہ کہ ابتدائی درجات کے بچوں کوکن جان جوکھم مراحل اورکن پریشان کن مسائل سے جوجھناپڑتاہے ،جب تک گھرمیں رہوبڑوں کی ڈانٹ ڈپٹ جھیلتے رہوجب مدرسہ پہنچوتواستاذکی خوفناک نظروں اورتنبیہ الغافلین کے دھڑکوں سے دل ہی نہیں جسم بھی دھڑکتاتھا،خوب رٹ رٹاکرجب سبق سنانے پہنچتا اوراستاذجی بھاری بھرکم آواز اورپہلے سے ہی غیض وغضب سے بھرے لہجے میں کہتے:ہاں بھئی سناؤ‘‘بس پھرکیاتھا رٹے رٹائے سارے جملے ،بنی بنائی ساری عمارت،ترتیب کے تانے بانے ،یادداشت کی تمام ڈورے اورحفظ کے تمام ترخیالات خام خیالی میں تبدیل ہوجاتے تھے بالکل اسی طرح ساری گردان دماغ سے غائب ہوجاتی تھی جس طرح کمپیوٹروالے کی ذراسی غلطی سے تمام ترلکھی لکھائی تحریرغائب ہوجاتی ہے ،بس پھرکیاتھااستاذجی ہوتے میری کمراورپیٹھ ہوتی اورتنبیہ الغافلین کی دنادن ہوتی تھی ۔اللہ جزائے خیردے میرے بھائی ریاض الدین کوجنہوں نے میری کتابوں پرگتے لگادئے تھے اوران گتوں کی بدولت مابدولت کی یہ دولت محفوظ رہ گئی ،ویسے پڑھنے کے زمانے میں بھی مجھ سے کتابیں پھٹنے اورجلدیں ٹوٹنے سے محفوظ رہی ہیں لیکن اپنے بچوں کودیکھتاہوں کہ کوئی سیپارہ پھاڑے لئے آرہاہے توکوئی کاپی نوچے آرہاہے،کوئی قلم کی ایسی کی تیسی کررہاہے توکوئی بستے میں مایک زائدمنہ بناچکاہے توغصہ کی جگہ لطف آتاہے ،مزا آتاہے ،بچپن یادآتاہے ،میں توبستے میں کتابیں نہ رکھ سکااس وقت اتناچلن بھی نہیں تھا،بستہ توچھوڑئے جی پیروں میں چپل ہی نہیں ہوتی تھیں ،سخت سردیوں میں پیدل ہی پیدل ہم مدرسہ کی طرف صبح صبح مارچ کرتے تھے ،اس وقت تک ہمارے گاؤں کی سڑکیں سڑکیں نہیں کچے راستے ہواکرتے تھے جن کوچکروٹ بولتے تھے ،ےہ چکروٹ کہیں کسی کسان کی نظرکرم سے محروم رہ گئے توکشادہ اورکہیں کسی کسان کی نظرکرم پڑگئی توتنگ ہوجاتے تھے ،کچی پکی پکذنڈیوں پرگزرتے تھے ،ہری ہری گھاس پرچلتے تھے گھاس پرٹھنڈی ٹھنڈی اوس اورشبنم کی بوندیں چمک رہی ہوتی تھیں وہ بوندیں چلنے کے دوران اچھل اچھل کرہمارے پیروں اورپاجامے کی مہری کوترکردیتے تھے جہاں تک مہری ترہوتی تھی مٹی کے اثرات بھی وہاں تک واضح ہوجاتے تھے اسی کیفیت اوراسی حالت میں ہمارایہ قافلہ ایک کلومیٹرکاراستہ طے کرکے مدرسہ ضیائ العلوم میں پہنچتاتھاجہاں کی دنیاہی نرائی تھی ایک کمرہ پختہ تھااس کے سامنے چھپرپڑاہواتھا،کمرے میں میرے استاذرہتے تھے چھپرکے نیچے اورصحن میں طلبہ پڑھتے تھے ،بچے اوربچیاں الگ الگ بیٹھتی تھیں ،میرے استاذکواس وقت پان،پڑیا،بیڑی،حقہ کچھ بھی پسندنہ تھااس لئے جوطلبہ بڑی عمرکے ہوتے ان پرخاص نظررکھتے تھے ،طلبہ توطلبہ بڑی عمرکے جوان اورپختہ عمربوڑھے بھی مولاناسے ڈرتے تھے،سبھی ان کاادب کرتے تھے ،احترام کرتے تھے ،سبق نہ سناپانے کے جرم میں بچے اوربچیاں برابرتھے جوبھی استاذمحترم کے شکنجہ میں آگیاتوسمجھوکہ نپ گیا،خیرہم میزان الصرف پڑھتے تھے ،ساتھ میں فارسی کی پہلی اورگلزاردبستاں بھی رٹتے تھے ،مفتاح القرآن نامی بھی پڑھتے تھے اورجملے بھی رٹتے تھے ،مولاناعجیب جناتی انسان تھے اوراس زمانے میں جیساکہ ہمیں بتایاگیاکہ واقعی ان کے پاس جنات بھی رہتے تھے ،مفتاح القرآن کے قرآنی جملے جلدی یادبھی ہوجاتے تھے لیکن میزان الصرف کی گردانیں گردنوں پربوجھ بنی رہتی تھیں ،برانہ مانیں توکہوں اس اکیلے بندے پرکام کابوجھ بھی بہت زیادہ تھا،قرآن پڑھنے والے بھی ،قاعدہ بغدادی والے بھی ،اردووالے بھی ،تختی پرلکھنے کی مشق والے بھی،فارسی اورعربی کی کتابیں پڑھنے والے بھی اورساتھ بچیوں کی تعلیم کامستقل مسئلہ بھی ،یہ سب کام میرے استاذاکیلے کیسے انجام دے لیتے تھے میری توسمجھ سے باہرہے ،آج اگراتناکام کسی کودے دیاجائے توپتہ نہیں انجام بخیرہوگایامہتمم صاحب کی خوش انجام ہوجائیں گے ۔(جاری)
Last edited by a moderator: