ٹالک: ہماری کھال سے بھی نرم معدنی پتھر

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ابتدائی زمانے سے ہی بعض معدن پتھر کو حیرت انگیز طبعی خصوصیات کی بنیاد پر بڑی توجہ حاصل رہی ہے۔ لیکن صنعتی انقلاب کے بعد تو اس کی اہمیت جدید معاشرے کے بڑھتے ہوئے کوسمیٹک رجحان کی وجہ سے دو چند ہو گئی ہے۔ مثلا ’’ٹالک‘‘( Talc) معدنی پتھر جس طرح ہیرا تمام معدنی پتھر میں سب سے زیادہ سخت ہوتا ہے اور ’’موز سختی کے پیمانے (Mohs Scale of hardness) کی رو سے اس کی سختی10ہوتی ہے۔ جو پیمانے کا آخری نمبر ہے۔ اس پر معدنی پتھر پر لکیر اور نشان لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح تمام معدنی پتھر میں ایک ایسا معدنی پتھر بھی ہے جو انسانی جسم کی کھال سے بھی زیادہ نرم اور صابن کی طرح چکنا ہوتا ہے۔ اس کے استعمال سے جلد کو فرحت اور سکون ملتا ہے۔ اور جلد کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچتا ،کیوں کہ سختی کے پیمانے کی رو سے اس کی سختی1ہوتی ہے جب کہ انسانی جلد کی سختی1.5 ہے۔

یہ معدنی پتھر پوری دنیا میں ٹالک یا صابن پتھر (Soap Stone)کے نام سے معروف ہے۔ ٹالک ایک معدن ہے جب کہ صابن پتھر ایک چٹان ۔دونوں براہ راست وقوع پذیر نہیں ہوتے بلکہ یہ بعض ابتدائی چٹان( آتشی) اور ثانوی ( تہہ دار) کےاستخراج (Derivative) ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ معدن کسی بھی چٹان کا بنیادی تعمیراتی بلاک ہوتا ہے گویا معدن نہیں تو کرۂ ارض پر کوئی چٹانی سلسلے بھی نہیں۔ گویا چٹان متعدد معاون کا ٹھوس حالت میں ایک مسلم مجمعہ ہوتا ہے۔

اس حوالے سے معدن ٹالک اور چٹان صابن پتھر کی تشریح کے نقطہ نظر سے ضروری ہے کہ معدن اور چٹان کی کیمسٹری پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے۔ارضی علوم کے حوالے سے کائنات میں موجود تمام اقسام کی معدنی قدرتی کیمیائی مرکبات ہوتے ہیں جو تقریباً خالص ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معدن کا اپنا کیمیائی نام ہوتا ہے۔ جب تک کیمیائی نام کے بارے میں علم نہیں ہو گا تو یہ حقیقت بھی سامنے نہیں آ سکتی کہ اس میں کسی قسم کے اجزا ترکیبی موجود ہیں۔ یعنی اس میں کون کون سے عناصر موجود ہیں اور بغیر عناصر کی شناخت کے ہم اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے ہیں کہ اس معدن کو کہاں کہاں استعمال کیا جائے ۔

مثلاً ہیلائٹ(Halite) خوردنی نمک کا معدنی نام ہے جب کہ اس کا کیمیائی نام’’ سوڈیم کلورائیڈ ‘‘ہے۔ یعنی ہیلائٹ میں سوڈیم اور کلورین موجود ہوتا ہے اب اسی مناسبت سے اس معدن کو استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ بغیر کیمیائی نام کے ممکن نہیں۔ اسی طرح ٹالک ایک معدن ہے ،جس کا کیمیائی نام’’ ہائیڈریٹڈ میگنشیم سیلیکیٹ‘‘ ہے، جس میں میگنشیم 31.88فی صد، سیکا 63.32فی صد اور پانی4.74فی صد تک موجود ہوتا ہے جب کہ صابن پتھر ایک چٹان ہے۔ اس میں مطلوبہ کیمیائی مرکب کے ساتھ متعدد مرکب بھی موجود ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے چٹان کا کوئی مخصوص کیمیائی نام نہیں ہوتا۔

ہاں! البتہ بعض چٹان مجموعی طور پر صرف ایک معدن(مرکب) سے بھی تشکیل پا سکتی ہیں۔ ایسی چٹانوں کو ’’یک معدنی چٹان‘‘ کہا جاتا ہے۔ مثلاً ’’پائیرو کسین ‘‘ سے پائیرو کرنائنٹ (Pyroxenite) بنتی ہے، کیوں کہ اس میں پائیرو کسین معدن پوری طرح غالب ہوتے ہیں، ٹھیک اسی طرح سے ’’ٹالک ‘‘معدن اور صابن پتھر یک معدنی چٹان(Monomineralic Rock) ہے، کیونکہ ٹالک معدن یعنی ہائیڈریٹیڈ میگنشیم سیلیکٹ(hydrated Magnesium silicate)پوری طرح سے حاوی ہوتا ہے۔

معدن ٹالک خالص حالت میں چند ممالک میں پایا جاتا ہے جب کہ صابن پتھر کی صورت میں پہاڑی سلسلوں اور پٹیوں(Belts) میں پیوست حالت میں موجود پایا گیا ہے۔ یہ ایک لمبے ،کم کشادہ زون میں چٹانی پٹی پر قابض متوازی رجحان کے ساتھ زمین پر ابھر آئی ہیں۔ یہ یورپ سے ہوتے ہوئے کوہ ہمالہ سے کھینچتے ہوئے سیدھے پاکستان بھارت ،نیپال ،بھوٹان تک موجود پایا گیا ہے۔ لیکن وہاں تک رسائی پھر استخراج بہت ہی دقت طلب میدانی سروے ہوتا ہے،تاہم آب و ہوا اور قدرتی عوامی کی تخریبی کارکردگی کی وجہ سے چٹانی پٹی کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔

جسے کانکنی (Minining) کی مدد سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ٹالک اور صابن پتھر مخصوص قسم کی ابتدائی (آتشی) چٹانی پٹی مثلاً ’’بالا مینک‘‘ (ultraMafic)چٹانوں میں کیمیائی تعامل کے نتیجے میں ماخوذ ہوتی ہیں۔ یہ چٹان دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔ جہاں پر بالا (Ultra) سے مراد غیر معمولی اور مینک (Mafic) سے مراد فیرو میگنیشیم معاون (میگنیشیم،لوہا،کیلشیم) کی وافر مقدار کی موجودگی اور فلپسار (پوٹاشیم ،سوڈیم، سیلکن) اور کوارٹرز یعنی سیلیکان ڈائی آکسائیڈ غیر موجود جب کہ سلیکا 45فی صد سے کم مقدار میں موجود ہوتا ہے۔

بالا مینک(Ultra mafic) چٹانیں جو ٹالک اور صابن پتھر میں بدل جاتی ہیں۔ اس کی نوعیت پیدائشی طور پر اگن (Ignesus) ہوتی ہیں، مثلاً ڈیونائٹ (Dunite) پر مکمل طور پر زیتون رنگ کے معدن اولیوین (Olivine) پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ چٹانیں حتمی طور پر قدیم سمندری فرش کا حصہ ہوتی ہیں جو کوہ سازی، آتش فشانی، بری اور بحری ارضی تہوں کی حرکات کےدوران شدید قوت کے ساتھ کرسٹ میں موجود پہلے سے تشکیل شدہ چٹان کے جسم میں داخل ہو کر اٹوٹ انگ بن جاتی ہیں۔ چوں کہ یہ ابتداء میں پگھلے ہوئے گرم آبی محلول کی شکل میں ہوتےہیں۔جسے آپ محلول (Hydrothermal Solution) کہتے ہیں۔ یہ بہت ہی تیز عامل گیسں اور عناصر کا آمیزہ ہوتی ہیں، جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی جو بھاپ کے روپ میں ہوتا ہے، جس کی وجہ سے پہلے سے بنی ہوئی چٹانی معدنی اجزاء اور گرم محلول میں موجود معدنی سالمات کے درمیان تعامل ہوتا ہے، جس کو تقلب (Metasomatism) کہتے ہیں۔

یہ ایک مستند زیر زمین قدرتی عمل ہے، جس کے ماتحت ٹالک اور صابن پتھر کی تخلیق ہوتی ہے۔ تقلب کے ذریعہ جو میکینزم کارفرما ہوتا ہے۔ اس میں معدنی اجزاء کی بدلکاری (Replacment) آب تپشی محلول(Aqueous solution) کےدخول کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یہ بدلکاری سالمات بمقابلہ سالمات کے درمیان ہوتا رہتا ہے، جس میں نئے معدنی اجزا کی شمولیت اور پرانے کا تبادلہ ہوتا ہے لیکن حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ اور اس طرح ایک نئی معدن نئی کیمیائی ترکیب کے ساتھ وجود میں آتی ہے۔ اس میکینزم کا اطلاق ’’ٹالک‘‘ اور ٹالک بردار صابن پتھر پر حتمی طور پر ہوتا ہے، کیوںکہ تقلب کے دوران ایلومینیم بردار معدن مثلاً فلپسار(feldspar)کی تغیر پذیری کا عمل غیر ایلومینیم بردار معدن مثلاً اولیوین کے مقابلے میں یکسر مختلف ہو گا ،کیوںکہ غیر ایلومینیم بردار معدنی کے مقابل میں نسبتاً سادہ کیمیائی ترکیبیں اور غیر مستحکم یعنی کم پختگی کے حامل ہوتے ہیں۔

لہٰذا ان پر واقع ہونے والے کیمیائی اثرات اور تبدیلیاں کم وقت میں ہوتی ہیں ،اس میں او لیون کو بحیثیت نمائندہ معدن کے شمار کیا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب آب تپشی محلول تقریباً 800ڈگری سینٹی گریڈ پر بالا مینک چٹان ’’ڈیونائٹ‘‘میں موجود اولیوین جو غیر ایلومینیم بردار معدنی اجزا یعنی میگنیشیم ،لوہا اور سیلیکٹ پر سے گزرتا ہے تو یہ پانی کے ساتھ تعامل کر کے اپنے اندر پانی جذب کرتے ہوئے ہائیڈریٹڈ میگنیشم سیلیکٹ ((Hydrated Alagnesim Silicate میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو ٹالک اور صابن پتھر کہلاتا ہے۔ اُدھر کاربن ڈائی آکسائیڈ میگنیشم کے ساتھ کیمیائی بندش کے ذریعہ میگنشیم کاربونیٹ ( میگناسائیٹ) بناتا ہے جب کہ باقی ماندہ آکسیجن آئرن کے ساتھ عمل کر کے آئرن آکسائیڈ (ہیما ٹائٹ) کی تشکیل کرتا ہے۔

’’ٹالک ‘‘ کی تشکیل کے دوران آئرن آکسائیڈ کی موجودگی کی وجہ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ عمل تکسید (Oxidation) کے ماحول انجام پایا ہے۔ٹالک کا ذخیرہ بھی اولیوین کی بدلکاری کے ذریعہ آب تپشی معلول کے زیر اثر وقوع پذیر ہوا ہے۔ جو کاربن ڈائی آکسائیڈ میں خود کفیل تھا ۔یہ ٹالک طبق دار موئے رسوب کے ساتھ ٹالک بردار چٹانوں میں پھیلتا گیا ہے۔ ٹالک کے ذخائر رسوبی چٹانوں پر تماسی تقلب سے بھی جنم لیتا ہے۔ اس کی تیاری کا عمل آب تپشی مراحل( اس کے تین مراحل ہوتے ہیں) کے دوران دوہرے کاربونیٹ کیلشیم و میگنشیم ( ڈرلو مائٹ) اور داخل آتشی جسم کے حاشیے پر ہوتا ہے۔ چٹان ڈولو مائٹ پر سلیکا اور پانی کا تعامل ہوتا ہے ،جس کے نتیجے میں ٹالک کی تشکیل ہوتی ہے۔ جب کہ کیلشیم کاربونیٹ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بھی اخراج ہوتا ہے۔ اس عمل سے بننے والا ٹالک خالص اور منافع بخش ہوتا ہے۔

اس قسم کے ذخائر کی ایک عمدہ مثال کینیڈا کے ضلع میڈوک(Medoc) میں موجود ہے جو بالکل برف کی طرح سفید ذرّات میں دستیاب ہے۔ پاکستان میں ٹالک یا صابن پتھر کے ذخائر کی مقدار 0.6ملین ٹن ہے۔ یہ صوبہ سرحد میں ضلع ایبٹ آباد کے علاقہ شیرواں (Shrwan ) کے ذخائر 16کلومیٹر لمبے اور 2کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلے ہوتے ہیں۔ فیلڈ سروے کے دوران اس حقیقت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ آب تپشی محلول نے شدید حرارت کی وجہ سے تعامل ہوا ۔

وہاں پر ڈولو مائیٹ اور بالا مینک چٹانوں کی مکمل بدلکاری ہو گئی لیکن جیسے ہی عمل حرارت کی کمی کے ساتھ سست روی کا شکار ہوا وہاں اصل چٹان کے باقیات موجود ہوتے ہیں۔ جو ٹالک کے ساتھ ہی پیوست ہوتے ہیں۔ مثلاًجہاں تک ’’ٹالک‘‘ یعنی ہائیڈریس میگنیشم سیلیکٹ موجود ہو گا وہاں پر ہائیڈرو کلارک ایسڈ ڈالنے سے کوئی ردعمل نہیں ہو گا، کیوں کہ ٹالک کی ترکیبی میں کاربونیٹ نہیں ہوتا لیکن اگر تیزاب کو اطراف میں پیوست کیلشیم بردار چٹان یعنی ’’ڈولو مائیٹ‘‘ پر چند قطرے تیزاب ڈلانے سے فوراً کیمیائی عمل ہوتا ہے۔ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج ہونے لگتا ہے،جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہی ٹالک یا صابن پتھر کی مادر چٹان (Parent Rock) تھیں جب کہ بالا مینک چٹان پر ایسڈ کا عمل نہیں ہوتا۔ اسی بنیاد پر ماخوذ (Derive) ہونے والی معدن کی شناخت ممکن ہے، کیوں کہ ناخن سے ٹالک یا صابن پتھر کھرچ جائے گا جب کہ اس کے اطراف میں موجود اجزاء ناخن کو ہی کھرچ ڈالتے ہیں۔
 
Top