نام کتاب:یہ تھے اکابر مظاہر
مصنف:مفتی ناصرالدین مظاہری
ناشر!:مکتبہ تراث الادب خانیوال
تبصرہ نگار:داؤدالرحمن علی لاہور
بسم اللہ الرحمن الرحیم
أحمدہ واصلی علی رسولہ الکریم امابعد!
ہر طالب علم کے دل میں کہیں نہ کہیں یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند یا مظاہرعلوم سہارنپور میں تعلیم حاصل کرے یا کم از کم وہاں سے نسبت حاصل ہوجائے ، یہ خواہش اورتمنامیرے دل میں بھی تھی،دل ہمہ وقت مچلتا رہتا لیکن ضمیرسے آوازآتی کہ حدوداورحدبندیوں کی وجہ سے وہاں سے اکتساب علم ممکن نہیں ہے اس لئے کم ازکم وہاں کی نسبت ہی حاصل ہوجائے ،الحمدللہ ایک نسبت پہلے سے موجود تھی حضرت والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا خادم حسین مدظلہ العالی نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی صاحب رحمہ اللہ سے پڑھا اور غالبا اجازت حدیث بھی حاصل فرمائی اور الحمداللہ حضرت والد محترم سے مجھے پڑھنے کا شرف حاصل ہے تو اس لحاظ سے نسبت تو حاصل تھی پر دل مضطرب تھا کہ وہاں پڑھنے جاؤں ، اللہ کا کرم ہوا کہ انٹرنیٹ پر اسداللہ شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی انہوں نے الغزالی فورم کی جانب توجہ مبذول کرائی ،ان کی دعوت پر جب فورم پر رجسٹرڈ ہوا تو خوشی کی انتہاء نہ رہی کہ فورم پر قاسمی و مظاہری موجود ہیں ، جو نسبت میں حاصل کرنا چاہتا تھا یا جو تڑپ تھی اللہ تعالی نے یوں پوری فرمادی کہ وہاں تو پہنچ تو نہیں سکے چلو دور بیٹھ کر یہیں سے استفادہ کرلو۔
میری خوش قسمتی ہی سمجھ لیں کہ اس فورم پر مجھے مولانا احمد قاسمی صاحب مدظلہ و مولانا مفتی ناصر الدین مظاہری صاحب مدظلہ جیسے اساتذہ میسر آئے اور ان کے زیر سایہ سیکھنے لگے گا۔ قاسمی صاحب دارالعلوم دیوبند سے تعلق رکھتے تھے تو وہیں مظاہری صاحب مظاہرعلوم کے استاد تھے۔ میں ان حضرات سے خوب استفادہ کرتا، ان سے سوالات کرتا اور ان سے علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا اور الحمداللہ مجھے رہنمائی ملتی رہتی۔
مجھے پڑھنے کے ساتھ لکھنے کا جنون کی حد تک شوق اورجوش تھا، حضرت مفتی صاحب کی پوسٹوں سے خوب استفادہ کرتا تھا ،اس دوران اللہ پاک نے سفر حرم کی توفیق عطا فرمائی ، جب دیار حرم کی حاضری کا شرف حاصل کرکے وطن واپس لوٹا تو چند حضرات نے سفر نامہ کو قلم بند کرنے کاحکم دیا میں جوں جوں انکارکرتا،احباب کااصراربڑھتاجاتا آخرکار حضرت مولانااحمدقاسمی صاحب و حضرت مظاہری صاحب کے پرزور اصرار و ہدایت پر اور والدین و اساتذہ کی دعاؤں سے الغزالی فورم پر ڈرتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ساتھ’’ سفر حرم‘‘ لکھنا شروع کیا ،میرے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس قدر اس کومقبولیت حاصل ہوگی ، جب مختصر سا سفرنامہ مکمل ہوا تو اس کو پی ڈی ایف کی شکل دی گئی اس میں حضرت مفتی ناصرالدین مظاہری صاحب کی تقریظ موجود ہے جو میرے لیے باعث اعزاز ہے۔(یہ کتاب الغزالی فورم پر موجود ہے شائقین وہاں مطالعہ بھی کرسکتے ہیں اورڈاؤنلوڈکرکے اپنے پاس محفوظ بھی رکھ سکتے ہیں)
حضرت مفتی صاحب مدظلہ کو اللہ پاک نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے ، درس ، تدریس اور خطابت کے ساتھ اللہ پاک نے لکھنے کا بڑاملکہ عطا فرمایا ہے ان کی تحریریں ذوق اورشوق سے ہندوپاک میں چھتی بھی رہتی ہیں اورپڑھنے والوں کابڑاحلقہ ان کے اسلوب نگارش کامعترف ومداح بھی ہے ، مجھے اس بات پر فخر ہے کہ تحریر کے میدان میں میرے استاد مفتی ناصرالدین مظاہری صاحب ہیں۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں حضرت مفتی ناصرالدین مظاہری صاحب نے یہ خوشخبری سنائی کہ اکابر علمائے مظاہرعلوم کے واقعات پر مبنی کتاب ’’یہ تھے اکابرمظاہر‘‘ پاکستان سے شائع ہوچکی ہے تو خوشی کی انتہاء نہ رہی ، فورا ایڈریس معلوم کرکے ناشر سے رابطہ کیا اور کتاب کے حصول اوروصول کی بابت عرض کیا،ناشرنے کہاکہ اعتکاف بیٹھ چکا ہوں آپ کا نمبر محفوظ ہے، عید کے بعد رابطہ کروں گا ، عید کے بعد ناشر کتاب ارسال کرنا بھول گئے اور میرے ذہن سے بھی نکل گیا ، اچانک ایک دن حضرت مفتی صاحب کا میسج ملا کہ کتاب موصول ہوئی یا نہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ اب تک موصول نہیں ہوئی ، فوراً فون کیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی ارسال ہی نہیں کی ہے میں نے یہ بات مظاہری صاحب کو بتائی توفرمایا کہ ناشرکی مصروفیات کے باعث یہی خدشہ تھا کہ ان کے ذہن سے نکل گیا ہوگا ، خیر چند یوم کے بعد ناشر صاحب کی طرف سے کال موصول ہوئی کہ آج ان شاء اللہ کتاب آپ کو موصول ہوجائے گی ، میں نے اپنے تمام کام منسوخ کرکے گھر کتاب کے انتظار میں بیٹھ گیا ، انتظار تھا کہ ختم نہ ہو رہا تھا اللہ اللہ کرکے انتظار کا اختتام ہوا اور عصر کے قریب وہ شاہکارکتاب جس کا انتظار کررہا تھا وہ میرے ہاتھوں میں تھی ، جھٹ پٹ لفافہ کھولا کتاب کی زیارت کی اور مطالعہ شروع کردیا۔
کتاب کیا ہے؟ اکابر علماء مظاہرعلوم کا علم ،حلم، سادگی ،قناعت،زہد،تقدس ،علمی تبحر،فقہی تعمق،عبادت ،ریاضت،سادگی ،شرافت ،خمول ، تدین،تقویٰ،حزم،احتیاط، درس وتدریس، سفروحضر الغرض اکابر مظاہرعلوم کی زندگی کے لمحات و واقعات و انداز زندگی کاحقیقی عکس اس کتاب میں قید ہے۔ حضرت مفتی ناصرالدین مظاہری صاحب نے جس انداز سے اس کتاب کو لکھا اور قارئین کو سمجھایا ہے وہ انداز قابل تعریف ہے ،ان کاقلم عمدہ ،تعبیرات لاجواب اوردریا بکوزہ کامصداق ہیں، انسان جب مطالعہ شروع کرتا ہے تو اتنا مگن ہوجاتا ہے کہ ارد گرد کا احساس تک نہیں رہتا۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا کہ مطالعہ میں اتنا مگن ہوا کہ معلوم ہی نہیں ہوسکاکہ کب گھنٹہ بیت گیا۔ شاید تسلسل یوں ہی چلتا رہتا اگر اذان عصر اپنی طرف متوجہ نہ کرتی، جب عصر کی اذان ہوئی اس وقت تک کتاب کی روانی اور اکابر مظاہرعلوم کی روحانیت دل میں پیوست ہوچکی تھی، اکابر کے ایمان افروز حالات پڑھ کر میں اپنے دل میں ایمان و تقویٰ کی لذت اورعقیدہ وعمل میں قوت محسوس کررہا تھا۔
مفتی صاحب کا حکم تھا کہ میری طرف سے حضرت والد صاحب مدظلہ کو کتاب پیش کی جائے۔ حکم کو بجالاتے ہوئے نماز عصر کے بعد حضرت والد صاحب کی خدمت میں مفتی ناصر الدین مظاہری صاحب کی طرف سے ’’یہ تھے اکابر مظاہر‘‘پیش کی۔ حضرت والد صاحب مدظلہ کا معمول ہے کہ بعد از عصر گھر میں بچوں وغیرہ کو وقت دیتے ہیں دیگر امور کم ہی دیکھتے ہیں پر جب یہ کتاب ان کی خدمت میں پیش کی تو مسرت و خوشی کا اظہار فرمایا اور ساتھ ہی کتاب کھول کر مطالعہ کرنا شروع فرمادیا یہاں تک کہ مغرب کی اذان شروع ہوگئی تو فرمانے لگے بہت ہی عمدہ اور لاجواب کتاب لکھی ہے ،مطالعہ کے دوران علم ہی نہ ہوا کہ اذان مغرب ہوگئی ، میری طرف سے مفتی صاحب کوشکریہ ادا کیجئے گا اور ساتھ دعاؤں سے بھی نوازا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ اگر ممکن ہو تو ایک کتاب ہماری طرف سے بھی ارسال کردیں۔
آخر میں طلبۂ کرام جو ابھی درس نظامی کی تحصیل کررہے ہیں ان سے عرض کروں گا کہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں ، یہ کتاب ان شاء اللہ آپ کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی اور بہت کچھ اس کتاب سے آپ کو سیکھنے کو ملے گا جو آپ کے لئے مستقبل کوبنانے اورسنوارنے میں اہم کرداراداکرے گا۔
دعاؤں کا طالب
محمدداؤدالرحمن علی
جامعہ عثمانیہ گلشن بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور
26/شوال المکرم 1443ھ
مصنف:مفتی ناصرالدین مظاہری
ناشر!:مکتبہ تراث الادب خانیوال
تبصرہ نگار:داؤدالرحمن علی لاہور
بسم اللہ الرحمن الرحیم
أحمدہ واصلی علی رسولہ الکریم امابعد!
ہر طالب علم کے دل میں کہیں نہ کہیں یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند یا مظاہرعلوم سہارنپور میں تعلیم حاصل کرے یا کم از کم وہاں سے نسبت حاصل ہوجائے ، یہ خواہش اورتمنامیرے دل میں بھی تھی،دل ہمہ وقت مچلتا رہتا لیکن ضمیرسے آوازآتی کہ حدوداورحدبندیوں کی وجہ سے وہاں سے اکتساب علم ممکن نہیں ہے اس لئے کم ازکم وہاں کی نسبت ہی حاصل ہوجائے ،الحمدللہ ایک نسبت پہلے سے موجود تھی حضرت والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا خادم حسین مدظلہ العالی نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی صاحب رحمہ اللہ سے پڑھا اور غالبا اجازت حدیث بھی حاصل فرمائی اور الحمداللہ حضرت والد محترم سے مجھے پڑھنے کا شرف حاصل ہے تو اس لحاظ سے نسبت تو حاصل تھی پر دل مضطرب تھا کہ وہاں پڑھنے جاؤں ، اللہ کا کرم ہوا کہ انٹرنیٹ پر اسداللہ شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی انہوں نے الغزالی فورم کی جانب توجہ مبذول کرائی ،ان کی دعوت پر جب فورم پر رجسٹرڈ ہوا تو خوشی کی انتہاء نہ رہی کہ فورم پر قاسمی و مظاہری موجود ہیں ، جو نسبت میں حاصل کرنا چاہتا تھا یا جو تڑپ تھی اللہ تعالی نے یوں پوری فرمادی کہ وہاں تو پہنچ تو نہیں سکے چلو دور بیٹھ کر یہیں سے استفادہ کرلو۔
میری خوش قسمتی ہی سمجھ لیں کہ اس فورم پر مجھے مولانا احمد قاسمی صاحب مدظلہ و مولانا مفتی ناصر الدین مظاہری صاحب مدظلہ جیسے اساتذہ میسر آئے اور ان کے زیر سایہ سیکھنے لگے گا۔ قاسمی صاحب دارالعلوم دیوبند سے تعلق رکھتے تھے تو وہیں مظاہری صاحب مظاہرعلوم کے استاد تھے۔ میں ان حضرات سے خوب استفادہ کرتا، ان سے سوالات کرتا اور ان سے علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا اور الحمداللہ مجھے رہنمائی ملتی رہتی۔
مجھے پڑھنے کے ساتھ لکھنے کا جنون کی حد تک شوق اورجوش تھا، حضرت مفتی صاحب کی پوسٹوں سے خوب استفادہ کرتا تھا ،اس دوران اللہ پاک نے سفر حرم کی توفیق عطا فرمائی ، جب دیار حرم کی حاضری کا شرف حاصل کرکے وطن واپس لوٹا تو چند حضرات نے سفر نامہ کو قلم بند کرنے کاحکم دیا میں جوں جوں انکارکرتا،احباب کااصراربڑھتاجاتا آخرکار حضرت مولانااحمدقاسمی صاحب و حضرت مظاہری صاحب کے پرزور اصرار و ہدایت پر اور والدین و اساتذہ کی دعاؤں سے الغزالی فورم پر ڈرتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ساتھ’’ سفر حرم‘‘ لکھنا شروع کیا ،میرے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس قدر اس کومقبولیت حاصل ہوگی ، جب مختصر سا سفرنامہ مکمل ہوا تو اس کو پی ڈی ایف کی شکل دی گئی اس میں حضرت مفتی ناصرالدین مظاہری صاحب کی تقریظ موجود ہے جو میرے لیے باعث اعزاز ہے۔(یہ کتاب الغزالی فورم پر موجود ہے شائقین وہاں مطالعہ بھی کرسکتے ہیں اورڈاؤنلوڈکرکے اپنے پاس محفوظ بھی رکھ سکتے ہیں)
حضرت مفتی صاحب مدظلہ کو اللہ پاک نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے ، درس ، تدریس اور خطابت کے ساتھ اللہ پاک نے لکھنے کا بڑاملکہ عطا فرمایا ہے ان کی تحریریں ذوق اورشوق سے ہندوپاک میں چھتی بھی رہتی ہیں اورپڑھنے والوں کابڑاحلقہ ان کے اسلوب نگارش کامعترف ومداح بھی ہے ، مجھے اس بات پر فخر ہے کہ تحریر کے میدان میں میرے استاد مفتی ناصرالدین مظاہری صاحب ہیں۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں حضرت مفتی ناصرالدین مظاہری صاحب نے یہ خوشخبری سنائی کہ اکابر علمائے مظاہرعلوم کے واقعات پر مبنی کتاب ’’یہ تھے اکابرمظاہر‘‘ پاکستان سے شائع ہوچکی ہے تو خوشی کی انتہاء نہ رہی ، فورا ایڈریس معلوم کرکے ناشر سے رابطہ کیا اور کتاب کے حصول اوروصول کی بابت عرض کیا،ناشرنے کہاکہ اعتکاف بیٹھ چکا ہوں آپ کا نمبر محفوظ ہے، عید کے بعد رابطہ کروں گا ، عید کے بعد ناشر کتاب ارسال کرنا بھول گئے اور میرے ذہن سے بھی نکل گیا ، اچانک ایک دن حضرت مفتی صاحب کا میسج ملا کہ کتاب موصول ہوئی یا نہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ اب تک موصول نہیں ہوئی ، فوراً فون کیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی ارسال ہی نہیں کی ہے میں نے یہ بات مظاہری صاحب کو بتائی توفرمایا کہ ناشرکی مصروفیات کے باعث یہی خدشہ تھا کہ ان کے ذہن سے نکل گیا ہوگا ، خیر چند یوم کے بعد ناشر صاحب کی طرف سے کال موصول ہوئی کہ آج ان شاء اللہ کتاب آپ کو موصول ہوجائے گی ، میں نے اپنے تمام کام منسوخ کرکے گھر کتاب کے انتظار میں بیٹھ گیا ، انتظار تھا کہ ختم نہ ہو رہا تھا اللہ اللہ کرکے انتظار کا اختتام ہوا اور عصر کے قریب وہ شاہکارکتاب جس کا انتظار کررہا تھا وہ میرے ہاتھوں میں تھی ، جھٹ پٹ لفافہ کھولا کتاب کی زیارت کی اور مطالعہ شروع کردیا۔
کتاب کیا ہے؟ اکابر علماء مظاہرعلوم کا علم ،حلم، سادگی ،قناعت،زہد،تقدس ،علمی تبحر،فقہی تعمق،عبادت ،ریاضت،سادگی ،شرافت ،خمول ، تدین،تقویٰ،حزم،احتیاط، درس وتدریس، سفروحضر الغرض اکابر مظاہرعلوم کی زندگی کے لمحات و واقعات و انداز زندگی کاحقیقی عکس اس کتاب میں قید ہے۔ حضرت مفتی ناصرالدین مظاہری صاحب نے جس انداز سے اس کتاب کو لکھا اور قارئین کو سمجھایا ہے وہ انداز قابل تعریف ہے ،ان کاقلم عمدہ ،تعبیرات لاجواب اوردریا بکوزہ کامصداق ہیں، انسان جب مطالعہ شروع کرتا ہے تو اتنا مگن ہوجاتا ہے کہ ارد گرد کا احساس تک نہیں رہتا۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا کہ مطالعہ میں اتنا مگن ہوا کہ معلوم ہی نہیں ہوسکاکہ کب گھنٹہ بیت گیا۔ شاید تسلسل یوں ہی چلتا رہتا اگر اذان عصر اپنی طرف متوجہ نہ کرتی، جب عصر کی اذان ہوئی اس وقت تک کتاب کی روانی اور اکابر مظاہرعلوم کی روحانیت دل میں پیوست ہوچکی تھی، اکابر کے ایمان افروز حالات پڑھ کر میں اپنے دل میں ایمان و تقویٰ کی لذت اورعقیدہ وعمل میں قوت محسوس کررہا تھا۔
مفتی صاحب کا حکم تھا کہ میری طرف سے حضرت والد صاحب مدظلہ کو کتاب پیش کی جائے۔ حکم کو بجالاتے ہوئے نماز عصر کے بعد حضرت والد صاحب کی خدمت میں مفتی ناصر الدین مظاہری صاحب کی طرف سے ’’یہ تھے اکابر مظاہر‘‘پیش کی۔ حضرت والد صاحب مدظلہ کا معمول ہے کہ بعد از عصر گھر میں بچوں وغیرہ کو وقت دیتے ہیں دیگر امور کم ہی دیکھتے ہیں پر جب یہ کتاب ان کی خدمت میں پیش کی تو مسرت و خوشی کا اظہار فرمایا اور ساتھ ہی کتاب کھول کر مطالعہ کرنا شروع فرمادیا یہاں تک کہ مغرب کی اذان شروع ہوگئی تو فرمانے لگے بہت ہی عمدہ اور لاجواب کتاب لکھی ہے ،مطالعہ کے دوران علم ہی نہ ہوا کہ اذان مغرب ہوگئی ، میری طرف سے مفتی صاحب کوشکریہ ادا کیجئے گا اور ساتھ دعاؤں سے بھی نوازا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ اگر ممکن ہو تو ایک کتاب ہماری طرف سے بھی ارسال کردیں۔
آخر میں طلبۂ کرام جو ابھی درس نظامی کی تحصیل کررہے ہیں ان سے عرض کروں گا کہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں ، یہ کتاب ان شاء اللہ آپ کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی اور بہت کچھ اس کتاب سے آپ کو سیکھنے کو ملے گا جو آپ کے لئے مستقبل کوبنانے اورسنوارنے میں اہم کرداراداکرے گا۔
دعاؤں کا طالب
محمدداؤدالرحمن علی
جامعہ عثمانیہ گلشن بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور
26/شوال المکرم 1443ھ