ایسی سچائی جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکاہے

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
پودوں میں نر اور مادہ:
پرانے زمانے کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جانوروں کی طرح نر(male) اور مادہ (female) ہوتے ہیں۔ البتہ جدید نباتیات یہ بتاتی ہے کہ ہر پودے کی نر اور مادہ صنف ہوتی ہے۔ حتٰی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unisexual) ہوتے ہیں۔ ان میں بھی نراور مادہ کے امتیازی اجزاء یکجا ہوتے ہیں۔

وَّ اَنْذَ لَ مِنَ السَّمَآ ئِ مَآ ئً ط فَاَ خْرَجْنَا بِہ اَزْ وَا جًا مِّنْ نَّبَا تٍ شَتّٰی ہ القرآن، سورة طٰہ، سورة 20 : آیت 53
ترجمہ:۔ اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور اس میں ہم نے مختلف اقسام کے پودوں کے جوڑے پیدا کیے جو ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔

پھلوں میں نر اور مادہ کا فرق:
وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جعَلَ فِیْھَا زَوْ جَیْنِ اثْنَیْن۔ القرآن، سورة الرعد، سورة 13 : آیت 3
ترجمہ :۔ اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں۔

اعلٰی درجے کے پودوں میں نسل خیزی (Reproduction) کی آخری پیدا وار ان کے پھل ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول کا مرحلہ ہوتا ہے جس میں نراور مادہ اعضاء یعنی اسٹیمنز (Stamens) اور اوویولز (Ovueles) ہوتے ہیں جب کوئی زردانہ (Pollen) کسی پھول تک پہنچتا ہے، تبھی وہ پھول بارآور ہو کر پھل میں بدلنے کا قابل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پھل پک جاتا ہے اور (اس پودے کی ) اگلی نسل کو جنم دینے والے بیج سے لیس ہو کر تیار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا تمام پھل اس امر کا پتہ دیتے ہیں کہ (پودوں میں بھی) نر اور اعضاہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے۔
پودوں کی بعض انواع میں غیر بارآور (non fertilized) پھولوں سے بھی پھل بن سکتے ہیں۔ (جنہیں مجموعی طور پرپارتھینوکارپک فروٹ (parthinocarpic fruit) کہا جاتا ہے) ان میں کیلے کے علاوہ انناس، انجیر، مالٹا اور انگور وغیرہ کی بعض اقسام شامل ہیں۔ ان پودوں میں بھی بہت واضح صنفی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔
وَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْ جَیْنِ ۔ القرآن، سورة الذاریت، سورة 51 : آیت 49
ترجمہ:۔ اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں۔
اس آیت مبارکہ میںہر چیز کے جوڑوں کی شکل میں ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ انسانوں، جانوروں، پھلوں اور پودوں کے علاوہ بہت ممکن ہے کہ یہ آیت مبارکہ بجلی کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہو جس میں ایٹم منفی بار والے الیکٹرونوں اور مثبت بار والے مرکزے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے جوڑے ہو سکتے ہیں۔

سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْ وَاجَ کُلَّھَا وَ مِمَّا تُنْبِت ُ الْاَرْضُِ وَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ مِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ ہ۔ القرآن، سورة یٰس، سورة ٣٦ : آیت ٣٦
ترجمہ:۔ پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں۔

یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چیز جوڑوں کی شکل میں پیدا کی گئی ہے، جن میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں۔ جنہیں آج کا انسان نہیں جانتا اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے کل میں انہیں دریافت کرلے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اس کے ساتھ ساتھ زمین کی ساخت گول نہیں جیومیٹریکل سفئر ہے، ہر زندہ چیز کی بنیاد پانی سے ہے۔ مشہور زمانہ بگ بینگ تھیری،چاند کی روشنی اپنی نہیں بلکہ سورج کی ہے، ٹائم ڈائلیشن کا کنسپٹ بھی موجود ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
خون کی گردش (Blood circulation) اور دودھ۔

قرآن پاک کا نزول، دوران خون کی وضاحت کرنے والے اولین مسلمان سائنس دان ابن النفیس سے ٦٠٠(چھ سو)سال پہلے اور اس دریافت کو مغرب میں روشناس کروانے والے ولیم ہاوے(William Harwey) سے ١٠٠٠(ایک ہزار) سال پہلے ہوا تھا۔ تقریباً تیرہ صدیوں پہلے یہ معلوم ہوا کہ آنتوں کے اندر ایسا کیا کچھ ہوتا ہے۔ جو نظامِ ہاضمہ(Digestive System) میں انجام پانے والے افعال کے ذریعے دیگر جسمانی اعضاء کی نشود نما کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت مبارکہ، جو دودھ کے اجزاء کے ماخذ کی وضاحت کرتی ہے اس تصور کی عین مطابقت میں ہے۔
مذکورہ بالا تصور کے حوالے سے آیت قرآنی کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ آنتوں میں کیمیائی تعاملات (chemical reaction) واقع ہوتے ہیں اور یہ کہ آنتوں ہی سے ہضم کردہ غذا سے اخذ کیے ہوئے مادے ایک پیچیدہ نظام سے گذر کر دوران خون میں شامل ہوتے ہیں۔ کھبی وہ (مادوں )کو تمام اعضاء تک پہنچاتا ہے جن میں دودھ پیدا کرنے والے (چھاتیوں کے ) غدود بھی شامل ہیں۔
سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنتوں میں موجود غذا کے بعض مادے آنتوں کی دیوار سے سرایت کرتے ہوئے خون کی نالیوں (Vessels)میں داخل ہو جاتے ہیں اور پھر خون کے راستے یہ دوران خون کے ذریعے کئی اعضا تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ فعلیاتی تصور مکمل طور پر لازماً ہماری گرفت میں آجائے گا۔ اگر ہم قرآن پاک کی درج ذیل آیات مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

وَ اِ نَّ لَکُمْ فِی الْاَ نْعَا مِ لَعِبْرَ ةً ط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْ نِہ مِنْ م بََیْنَ فَرْ ثٍ وَّ دَ مٍٍ لَّبَنًا خَا لِصًا سَآ ئِغًا لِّلشّّٰرِ بِیْنَ ہ ۔ القرآن، سورة 16آیت 667
ترجمہ:اورتمھارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اورخون کے درمیان سے ہم تمھیں ایک چیز پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوا رہے۔

وَ اِ نَّ لَکُمْ فِی الْاَ نْعَا مِ لَعِبْرَ ةً نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْ نِہَا وَ لَکُمْ فِیْھَا مَنَا فِعُ کَثِیْرَ ةُ وَّ مِنْھَا تَا کُلُوْ نَ ہ۔ القرآن، سورة23آیت21
ترجمہ:۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تمھارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں ایک چیز (یعنی دودھ )ہم تمھیں پلاتے ہیں اور تمھارے لیے ان میں بہت فائدہ بھی ہیں۔ ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔

١٤٠٠ سال قبل، قرآن پاک کی فراہم کردہ یہ وضاحت جو گائے میں دودھ کے پیدا ہونے کے حوالے سے ہے، حیرت انگیز طور پر جدید فعلیات (physiology) سے بھر پور انداز میں ہم آہنگ ہے جس نے اس حقیقت کو حال ہی میں دریافت کیا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

پانی اور خشکی قرآن میں​

قرآن مجید میں بحر (یعنی سمندر) کا لفظ 32 مرتبہ آیا ہے اور البر (یعنی خشکی) کا لفظ 13 مرتبہ آیا ہے۔ آئیے ایک ریاضی اور سائنسی ایکویشن کے ذریعے چیک کرتے ہیں۔ اس میں پہلے ہم دونوں کو جمع کرے گے پھر ایک ایک (یعنی 13 اور 32) کو ٹوٹل (یعنی 45) پہ تقسیم کرے نگے اور پرسنٹیج نکالنے کے لیے 100 سے ضرب (ملٹی پلائی) کرےینگ:
البر: 13 مرتبہ
البحر: 32 مرتبہ
دونوں: 13+32= 45

آئیے پہلے البحر یعنی سمندر یا پانی کا موازنہ کرتے ہیں:
=(32/45) 100
=71.1%
اب البر یعنی خشکی کا موازنہ کرتے ہیں۔ البر کا استعمال 13 مرتبہ ہوا ہے:
=(13/45) 100
= 28.9%

کیا آپ نے غور کیا کہ سمندر کا جواب 71.1 فیصد یا اس کے تقریباً آیا اور خشکی کا 28.9 فیصد۔ اور ہم جانتے ہیں کہ سمندر دنیا میں 70 فیصد اور خشکی 30 فیصد ہے لیکن یہ بات قرآن کی نشانیوں نے ہمیں پہلی بتائی ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جانوروں اور پرندوں میں معاشرے کا وجود

وَمَا مِنْ دَ آ بَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰئِر یَطِیْرُ بِجَنَا حَیْہِ اِلَّآ اُ مَمُ اَمْثَا لُکُمْ
ترجمہ:۔ زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو یہ سب تہماری طرح کے معاشروں میں(رہتے )ہیں ۔
القرآن، سورة انعام سورة 6: آیت 38

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جانور اور پرندے بھی معاشروں (communities) کی شکل میں رہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان میں بھی ایک اجتماعی نظم و ضبط ہوتا ہے۔ وہ مل جل کر رہتے ہیں اورکام بھی کرتے ہیں۔

پرندوں کی پرواز

اَ لَمْ یَرَ وْ ا اِ لَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰ تٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآ ئِ ط مَا یُمْسِکُھُنَّ اِ لّا اللّٰہ ُط اِ نَّ فِی ذَ ٰلِکَ لَاٰ یٰتٍ لِّقَوْ مٍٍ یُّئْو مِنُوْنَ ہ
[ القرآن، سورة الخل سورة 16: آیت 79]
ترجمہ:۔ کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کس نے انکو تھام رکھا ہے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔
ایک اور آیت مبارکہ میں پرندوں پر کچھ اس انداز سے بات کی گئی ہے۔
اَوَ لَمْ یَرَوْ ا اِ لَی الطَّیْرِ فَوْ قَہُمْ صٰفّٰتٍ وَّ یَقْبِضْنَ ط مَا یَمْسِکُھُنَّ اِ لَّا الرَّ حْمٰنِ ط اِ نَّہ بِکُلِّ شَیْئٍ م بَصِیْرُ ہ
[ القرآن، سورة الملک ،سورة 67: آیت 19]
ترجمہ: یہ لوگ اپنے اوپر اُڑنے والے پرندوں کو پر پھیلاتے اور سیکٹرتے نہیں دیکھتے؟ رحمان کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو۔ وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔
عربی لفظ اَم'سَکَ کا لفوی ترجمہ کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا، روکنا، تھامنا یا کسی کی کمر پکٹر لینا ہے۔ مذکورہ بالاآیت میں یمسکھن سے اس بات کا اظہار ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے پرندوں کو ہوا تھامے رکھتا ہے۔ ان آیات ربانی میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ پرندوں کے طرز عمل کا مکمل انحصار انہی قوانین پر ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے۔ (جنہیں ہم قوانین فطرت کے نام سے جانتے ہیں)
جدید سائنسی معلومات سے ثابت ہو چکا ہے کہ بعض پرندوں میں پرواز کی بے مثل اور بے عیب صلاحیت کا تعلق اس وسیع تر اور مجموعی منصوبہ بندی (programming) سے ہے جو ان کی حرکات و سکنات سے متعلق ہے۔ مثلا ہزاروں میل دور تک نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی جینیاتی رموز (Genetic codes) میں ان کے سفر تمام کی تفصیلات و جزیّات موجو د ہوتی ہیں۔ جو ان پرندوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ نہایت کم عمری میں بھی لمبے سفر کے کسی تجربے کے بغیر، کسی رہنما کے بغیر ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر لیں اور پیچیدہ راستوں سے پرواز کرتے چلے جائیں۔ بات صرف سفر کی یک طرفہ تکمیل ہی ہر ختم نہیں ہو جاتی۔ بلکہ وہ ایک مخصوص تاریخ پر اپنے عارضی مسکن سے پرواز کرتے ہیں اور ہزاروں میل واپسی کا سفر کرکے ایک بار پھر اپنے گھو نسلوں تک بالکل ٹھیک ٹھیک جا پہنچتے ہیں۔
پروفیس ہمبرگر(Humberger) نے اپنی کتاب پاور اینڈ فریجیلٹی میں مٹن برڈ نامی ایک پرندے کی مثال دی ہے جو بحر الکاہل کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ نقل مکانی کرنے والا یہ پرندہ 24,000(چوبیس ہزار) کلومیٹر کا فاصلہ 8 کی شکل میں چکر لگا کر طے کرتا ہے۔ یہ اپنا سفر چھ ماہ میں پورا کرتاہے اور مقام ابتدا تک زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کی تاخیر سے واپس پہنچ جاتا ہے۔ ایسے کسی سفر کے لیے پیچیدہ معلومات کا ہونا ضروری ہے۔ جو اس پرندے کے اعصابی خلیات (nervous cells) میں محفوظ ہونی چائیں۔ یعنی ایک باضابطہ پروگرامکی شکل میں پرندے کے جسم میں موجود اور ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہے۔ اگر پرندے میں کوئی پروگرام ہے تو کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہو تاکہ اسے تشکیل دینے والے کوئی پروگرامر بھی یقینا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

شہد کی مکھی اور اس کی مہارت​

وَ اَوْ حٰی رَ بُّکَ اِ لَی النَّحْلِ اَنِ ا تَّخِذِ یْ مِنَ الْجِبَا لِ بُیُوْ تًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِ شُوْ نَ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰ تِ فَا سْلُکِیْ سُبُلَ رَ بِّکِ ذُ لُلًا
القرآن، سورة الخل سورة 16: آیت 68 تا 69
ترجمہ:اور دیکھو تہمارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اُونچی چھتریوں پر اپنے چھتے ّ بنا تے اور ہر طرح کے پھولوں کا رس چوستے اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔
وان فرش (Von Frisch) نے شہد کی مکھیوں کے طرز عمل اور ان میں رابطہ وابلاغ (Communication) کی تحقیق پر 1973ء میں نوبل انعام حاصل کیا۔ شہد کی کسی مکھی کو جب کوئی نیا باغ یا پھول دکھائی دیتا ہے تو وہ اپنے چھتے میں واپس جاتی ہے اور اپنی ساتھی شہد کی مکھیوں کو اُس مقام کا ٹھیک ٹھیک سمت اور وہاں پہنچنے والے راستے کے مفصّل نقشے سے آگاہ کرتی ہے۔ شہد کی مکھی، پیغام رسانی کا یہ کام خاص طرح کی جسمانی حرکات سے لیتی ہے جنہیں شہد کی مکھی کا رقص (Bee dance) کہا جاتا ہے ظاہر ہے کہ یہ عام معنوں والا رقص نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد شہد کی کارکن مکھیوں (Worker bee) کو یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ پھول کس سمت ہیں اور وہاں تک پہنچنے کے لیے انہیں کس انداز سے پرواز کرنا ہو گی۔ تا ہم شہد کی مکھی کے بارے میں یہ ساری معلومات ہم نے جدید فوٹو گرافی (photography)اور دیگر پیچیدہ مشاہداتی ذرائع ہی سے حاصل کی ہیں۔ لیکن ملا حظہ فرمائیے کہ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں قرآن عظیم وشان نے کتنی صراحت کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو خاص طرح کی مہارت عطا فرمائی ہے جس سے لیس ہو کر وہ اپنے رب کے بتائے ہوئے راستے تلاش کر لیتی ہے۔ ایک اور توبہ طلب نکتہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں شہد کی مکھی کے لیے جو صنف استعمال کی گئی ہے، وہ مادہ (female) کی ہے (یعنی، فَاسُلِکی اور کُلی) اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غذا کی تلاش میں نکلنے والی شہد کی مکھی مادہ ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر سپاہی یا کارکن شہد کی مکھی بھی مادہ ہی ہوتی ہے۔

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ شکسپیر(Shakespear) کے ڈرامے 'ہنری دی فورتھ میں بعض کردار شہد کی مکھیوں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ (شہد کی) مکھیاں سپاہی ہوتی ہیں اور یہ کہ اُنکا بادشاہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ شکسپیسر کے زمانے میں لوگ یہی سمجھتے تھے۔ اُنکا خیال تھا کہ شہد کی کارکن مکھیاں نر ہو تی ہیں اور وہ شہد کی بادشاہ مکھی (نر) کو جو ابدہ ہوتی ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں۔ شہد کی کارکن مکھیاں مادہ ہوتی ہیں اور وہ شہد کی بادشاہ مکھی کو نہیں بلکہ ملکہ مکھی کو اپنی کارگزاری پیش کرتی ہیں۔ اب اس بارے میں کیا کہا جائے کہ گذشتہ 300سال کے دوران ہونے والی جدید تحقیق کی بدولت ہی ہم یہ سب کچھ دریافت کر پائے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

مکڑی کا جالا، ناپائیدار ترین گھر​


مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
القرآن، سورة العنکبوت، آیت 41
ترجمہ:جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑکر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں انکی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا گھر بنا تی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے۔

مکڑی کے جالے نازک اور کمزور کے طور پر بیان کرنے کے علاوہ، قرآن پاک نے مکڑی کے گھر یلو تعلقات کے بھی نازک اور ناپائیدار ہونے پر زور دیا ہے۔ یہ صحیح بھی ہے کیونکہ بیشتر اوقات مکڑی اپنے ملاپ کار (Mate) یعنی نر کو مار ڈالتی ہے۔
یہی مثال ایسی لوگوں کی کمزوریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بھی دی گئی ہے جو دنیا اور اخرت میں تحفظ و کامیابی حاصل کرنے کے لیے اللہ کو چھوڑ کردوسروں سے اس کی امید کرتے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
چیونٹیوں کا طرز حیات اور باہمی روابط

وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْ دُ ہ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِ نْسِ وَ اطَّیْرِ فَھُمْ یُوْ زَ عُوْنَ ہ
حَتّٰی اِ ذَآ اَ تَوْا عَلٰی وَ ادِ النّمْلِ قَا لَتْ نَمْلَةُیّٰاَ یُّھَا النَّمْلُ ادْ خُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْ دُ ہ وَ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْ نَ ہ

القرآن، سورة النمل،سورة 27: آیت 18 تا 17

ترجمہ:سلیمان کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا۔ اے چیوٹیو! اپنے بلوں میں گھس جائو کہیں ایسا نہ ہو کہ سیلمان اور اس کے لشکر تمھیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔

ہو سکتا ہے کہ ماضی میں بعض لوگوں نے قرآن پاک میں چیونٹیوں کا مذکورہ بالا مکالمہ دیکھ کر اس پر نکتہ چینی کی ہو اور کہا ہو کہ چیونٹیاں تو صرف کہانیوں کی کتابوں ہی میں باتیں کرتی ہیں۔ البتہ، حالیہ برسوں کے دوران ہمیں چیونٹیوں کے طرز حیات، باہمی روابط اور پیچیدہ معلومات کے تبادلے کے حوالے سے بہت کچھ علم ہو چکا ہیں۔ یہ معلومات دور جدید سے پہلے کے انسانوں کو حاصل نہ تھیں۔ تحقیق سے انکشاف ہواہے کہ وہ جانور یا حشرات (کیڑے مکوڑے) جن کا طرز حیات انسانی معاشرت سے غیر معمولی مماثلت رکھتا ہے، وہ چیونٹیاں ہی ہیں۔ اس کی تصدیق چیونٹیوں کے بارے میں درج ذیل حالیہ دریافتوں سے بھی ہوتی ہے۔

١) چیونٹیاں بھی اپنے مردوں کو انسانوں کی طرح دفناتی ہیں۔
٢) ان میں کارکنوں کی تقسیم کا پیچیدہ نظام موجود ہے جس میں نگران، نگران کارکن اور مزدور وغیرہ شامل ہیں۔
٣) کھبی کبھار وہ آپس میں ملتی ہیں اور گفتگو بھی کرتی ہیں۔
٤) ان میں باہمی تبادلہ (communication) کا ترقی یافتہ نظام موجود ہے۔
٥) ان کی کالونیوں (colonies) میں باقاعدہ بازار (markets) ہوتے ہیں جہاں وہ اشیاء کا تبادلہ کرتی ہیں۔
٦) سردیوں میں لمبے عرصے تک زیر زمین رہنے کے لیے وہ اناج کے دانوں کا ذخیرہ بھی کرتی ہیں۔ اور اگر کوئی دانہ پھوٹنے لگے، یعنی اس سے پودا بننے لگے تو وہ فوراً اس کی جڑیں کاٹ دیتی ہیں۔ جیسے انہیں یہ پتا ہو کہ اگر وہ اس دانے کو یونہی چھوڑ دیں گی تو وہ بڑھنا اور پکنا شروع کر دے گا۔ اگر انکا محفوظ کیا ہوا اناج کسی بھی وجہ سے مثلاً بارش سے گیلا ہو جائے تو وہ اسے اپنے بل سے باہر لے جاتی ہیں اور دھوپ میں سکھاتی ہیں۔ جب اناج سوکھ جاتا ہے تبھی وہ اسے بل میں واپس لے کر جاتی ہیں۔ یعنی یوں لگتا ہے، جیسے انہی یہ علم ہو کہ نمی کی وجہ سے اناج کے دانے سے جڑیں نکل پڑیں گی جو دانے کو اس قابل نہیں چھوڑیں گی کہ اسے کھایا جا سکے۔
 
Top