حصص مطلب شیئرز کا حکم جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ شیئر کیا ہے کیونکہ شیئرز پر زکوٰۃ کے مسئلہ کو سمجھنے کے لیے شیئرز کو سمجھنا ضروری ہے۔
حصص کی وضاحت:
قدیم زمانے میں کاروبار کی نوعیت جدید دور کے کاروبار کے مقابلے میں بہت مختلف تھی۔ اس میں اتنی پیچیدگی اور اتنا پھیلاؤ نہیں ہوتا تھا جتنا کہ آج کل کے دور میں ہے۔
مثلاً گزشتہ زمانے میں ایک یا چند افراد مل کر سرمایہ جمع کرتے اور کاروبار کیا کرتے تھے۔ لیکن جدید دور میں صنعتی انقلاب آیا اور کاروبار میں وسعت آئی۔ صنعتی انقلاب کی وجہ سے کاروبار کی نوعیت اتنی وسیع ہو گئی ہے کہ اب محدود سرمایہ اس کے لیے ناکافی ہو گیا ہے اور ایک ایک پروجیکٹ کے لیے اربوں کھربوں کے سرمائے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو کہ ظاہر ہے عموماً ایک یا چند اشخاص کے بس کی بات نہیں ہے۔
1) جوائنٹ سٹاک کمپنی:
اس مسئلہ کے حل کے لیے ہزاروں اور لاکھوں افراد کا مل کر سرمایہ جمع کرنے کا تصور وجود میں آیا۔ شرکت کا یہ تصور جدید دور میں joint stock company کی صورت میں ہے جس میں ہزاروں لاکھوں لوگوں سے سرمایہ جمع کیا جاتا ہے اور ہر شخص اس کاروبار میں اپنے سرمائے کے بقدر شریک ہوتا ہے۔ کاروبار میں شریک ہونے کی حیثیت سے وہ اس کاروبار میں نفع کا حقدار اور نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ یہ ایک کمپنی ہوتی ہے اور کچھ شرکاء یا ملازم اس کو چلانے کا انتظام و انصرام کرتے ہیں جبکہ دیگر شرکاء جو کاروبار کے چلانے میں حصہ نہیں لیتے ان کو sleeping partner کہا جاتا ہے۔
2) شیئر ہولڈر:
جو شخص اس کاروبار میں اپنا سرمایہ لگانے کی وجہ سے شریک ہوتا ہے اس کو حصہ دار یا share holder کہا جاتا ہے اور کاروبار میں اس کے اس حصے کو حصہ share یا عربی میں سہم کہتے ہیں۔ کاروبار میں جو شخص اپنا سرمایا دیتا ہے اس کو ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے جس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس سرٹیفیکٹ کا حامل شخص اس کمپنی میں اتنے حصے کا مالک ہے اس سرٹیفکیٹ کو بھی share کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اس کا شخص کے کاروبار میں شرکت کا ثبوت ہوتا ہے۔
3) حصص کی خرید و فروخت:
عموماً کمپنیاں کاروبار میں شریک لوگوں کو اس بات کی بھی اجازت دیتی ہیں کہ وہ اگر کاروبار سے نکلنا چاہتے ہیں اور اس کاروباری سلسلے میں مزید شریک نہیں رہنا چاہتے تو وہ اپنا حصہ کسی اور کو بیچ دیں۔ اس حصے share کی قیمت مارکیٹ میں مختلف ہوتی ہے جو کاروبار کی مالی حالت اور اس کمپنی کی شہرت اور انتظامی حسن کارکردگی پر منحصر ہوتی ہے۔ اور کبھی زیادہ اور کم ہوتی رہتی ہے۔
چونکہ یہ کاروبار بہت وسیع ہوتا ہے اور اس میں شرکاء کی تعداد ہزاروں لاکھوں میں ہوتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کئی لوگ اپنے کاروباری حصے بیچنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور کئی دوسرے لوگ اس کاروبار میں شریک ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں لہذا ان کمپنیوں کے حصص share کی خرید وفروخت کا کاروبار بڑا وسیع نوعیت کا ہوتا ہے۔
4) سٹاک ایکسچینج:
اس وسیع کاروبار کو منظم انداز میں چلانے کے لیے مختلف ممالک میں stock exchange ادارے قائم کیے گئے ہیں جہاں ان حصص کی خرید وفروخت کا کاروبار ہوتا ہے۔ جیسے اسلام آباد سٹاک ایکسچینج، لاہور، کراچی سٹاک ایکسچینج وغیرہ۔
لہذا حصص کی خرید وفروخت میں دلچسپی رکھنے والے کاروباری حضرات ان قائم کردہ اداروں کے ذریعے حصص کی خرید وفروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔
5) حصص کی قیمت:
حصص کی دو قیمتیں ہوتی ہیں۔ ایک ظاہری قیمت اور دوسری بازاری قیمت۔
ظاہری قیمت: یہ وہ قیمت ہے جو اس سرٹیفیکٹ پر لکھی ہوتی ہے جس کو بنیاد بنا کر سرمایہ جمع کیا جاتا ہے۔
تجارتی قیمت: یہ حصص کی بازاری قیمت ہوتی ہے اور یہ مارکیٹ کے حالات، کمپنی کی کارکردگی و شہرت اور اثاثہ جات کی سلامتی کے پیش نظر بدلتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک حصے کی ظاہری قیمت دس روپے ہو سکتی ہے اور بازار حصص میں سو روپے کا خرید وفروخت ہو رہا ہو۔
حصص کی خرید وفروخت درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے۔
1) نئی کمپنی کے حصص خریدنے کا حکم:
نئی کمپنی جو ابھی نئی قائم ہوئی ہو۔ اور کوئی کاروبار شروع کرنے جا رہی ہو تو اس کمپنی کے کاروبار میں حصہ دار بننا یعنی اس کمپنی کے حصص خریدنا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ کمپنی کوئی حلال کاروبار کرنے کے لئے قائم ہوئی ہو۔ مثلاً شوگر مل یا آٹو موبائل کمپنی قائم ہو رہی ہے تو اس کے حصص خریدنا جائز ہے۔
لیکن اگر کمپنی کا بنیادی کاروبار بھی حلال نہ ہو مثلاً شراب کی فیکٹری یا انشورنس کمپنی قائم کی جا رہی ہو تو ایسے کاروبار میں حصہ دار بننا اور اس کے حصص خریدنا جائز نہیں۔
2) پہلے سے قائم شدہ کمپنی کے حصص یا سٹاک ایکسچینج سے حصص خریدنا:
سٹاک ایکسچینج سے پہلے سے قائم شدہ کسی کمپنی کے حصص خریدنا درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے۔
پہلی شرط: پہلی شرط یہ ہے کہ اس کمپنی کا بنیادی کاروبار حلال ہو، کوئی حرام کاروبار نہ ہو جیسے انشورنس کمپنی نہ ہو یا شراب کی فیکٹر ی نہ ہو۔
دوسری شرط: دوسری شرط یہ ہے کہ اس کمپنی کے تمام اثاثے اور املاک سیال شکل میں نہ ہوں بلکہ کچھ اثاثے (بیشک تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں) عین غیر نقدی کی شکل میں ہوں۔ اگر سارے اثاثے سیال (نقدی) کی شکل میں ہیں تو پھر اس کمپنی کے حصص اس کی ظاہری قیمت سے زیادہ پر خریدنا جائز نہیں۔
مثلاً ایک کمپنی ہے اس کے دو ارب کے نقدی اثاثے ہیں اس کمپنی کے حصص اگر کوئی خریدتا ہے تو جو اس کی ظاہری قیمت اس حصص (Share) پر لکھی ہو گی اس سے زائد کا نہیں خرید سکتا۔ مثلاً اگر ایک حصے کی قیمت دس روپے ہے تو دس کا ہی خرید سکتا ہے کم یا زیادہ کا خریدنا جائز نہیں کیونکہ یہ سود ہو جائے گا۔
لیکن اگر کمپنی کے کچھ اثاثے عین غیر نقدی کی شکل میں ہوں تو بیشک تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں پھر یہ حصص خریدنا جائز ہو گا۔ مندرجہ بالا مثال میں پھر اگر حصص بارہ روپے کا بیچتا ہے تو دس روپے دس نقدی کے مقابلے میں ہوں گے اور دو روپے اسی عین فیکسڈ ایسٹ (Fixed Asset) کے مقابلے میں ہوں گے۔ کیونکہ اس صورت میں حصص نقدی اور عین دونوں کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے لہذا یہ سود نہیں ہو گا اور جائز ہو گا۔
3) شیئرز کی خرید وفرخت میں شرائط بیع کی پابندی کرنا:
یعنی مذکورہ کمپنی یا ادارہ کے شیئرز کی خرید وفروخت بیع وتجارت کے شرعی اصولوں کے مطابق ہو مثلاً آدمی جن شئیرز کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے اس پر شرعی طریقہ سے قابض ہو اور دوسروں کو تسلیم اور حوالہ کرنے پر بھی قادر ہو۔
واضح رہے کہ شیئرز میں قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے صرف زبانی وعدہ کافی نہیں ہے، نام رجسٹرڈ یا الاٹ ہونا ضروری ہے، اس سے پہلے صرف زبانی وعدہ یا غیر رجسٹرڈ شیئرز کی خرید وفروخت باقاعدہ فزیکلی طور پر ڈیلیوری ملنے سے پہلے ناجائز ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ شیئرز پہلے بائع کے نام رجسٹرڈ ہوں اور بائع اس کی قیمت بھی ادا کر دے اور اس کے پاس ڈیلیوری آجائے، اس کے بعد اس کی خریدو فروخت جائز ہو گی، یا شیئرز وصول کرلیے ہیں، لیکن ابھی تک قیمت ادا نہیں کی تو اس صورت میں بھی مذکورہ شیئرز کو فروخت کرکے نفع لینا جائز ہے، کیوں کہ مبیع پر قبضہ ثابت ہے۔
4) منافع کی کل رقم کو تمام حصہ داروں کے درمیان شیئرز کے مطابق تقسیم کرنا:
مثلاً کمپنی میں جو منافع ہوا ہے اسے تمام حصہ داروں میں ان کے شیئرز کے مطابق تقسیم کر دیا جائے، لیکن اگر کوئی کمپنی مستقبل کے ممکنہ خطرہ سے نمٹنے کے لیے منافع میں سے مثلاً 20 فیصد اپنے لیے مخصوص کرتی ہے اور 80 فیصد منافع کو حصہ داروں میں تقسیم کرتی ہے تو اس کمپنی کے شیئرز کی خرید وفروخت ناجائز اور حرام ہے کیوں کہ یہ کمپنی شرعی شراکت کے خلاف ناجائز کاروبار کرتی ہے۔
کمپنیوں کے حصص بھی سامان تجارت میں داخل ہیں اور اس کی دو صورتیں ہیں۔
کمپنی کے حصص پر زکوٰۃ کے بارے میں معاصر فقہاء کی آراء درج ذیل ہیں:
1) مولانا محمد تقی عثمانی کے رائے:
ان کے نزدیک حصص دو مقاصد کے لیے خریدے جاتے ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ اس کے ذریعے کمپنی کا منافع حاصل کیا جائے اور اس پر سالانہ منافع کمپنی کی طرف سے ملتا رہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کمپنی کے حصص کے لیے خریدے یعنی نیت یہ ہے کہ جب بازار میں ان کی قیمت بڑھ جائے گی تو ان کو فروخت کر کے نفع کمائیں گے۔
اب اگر دوسری صورت ہے تو اس صورت میں پورے حصص کی پوری بازاری قیمت پر زکوٰۃ واجب ہو گی۔ مثلاً آپ نے پچاس روپے کے حساب سے حصص خریدے اور مقصد یہ تھا کہ جب ان کی قیمت بڑھ جائے گی تو ان کو فروخت کر کے نفع حاصل کریں گے۔ اس کے بعد جس دن زکوٰۃ کا حساب نکالا جائے اس دن حصص کی قیمت ساٹھ روپے ہو گئی تو اب ساٹھ روپے کے حساب سے ان حصص کی مالیت نکالی جائے گی اور اس پر ڈھائی فیصد کے حساب زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی۔
اگر پہلی صورت ہو تو اس صورت میں اس بات کی گنجائش ہے کہ یہ دیکھیں کہ جس کمپنی کے یہ حصص ہیں اس کمپنی کے کتنے اثاثے جامد ہیں، مثلاً بلڈنگ، مشینری، کاریں وغیرہ اور کتنے اثاثے نقد سامان تجارت اور خام مال کی شکل میں ہیں۔ یہ معلومات کمپنی ہی سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً فرض کریں کہ کسی کمپنی کے ساٹھ فیصد اثاثے نقد، سامان تجارت، خام مال اور تیار مال کی صورت میں ہیں اور چالیس فیصد اثاثے بلڈنگ مشینری اور کار وغیرہ کی صورت میں ہیں تو اس صورت میں ان حصص کی بازاری قیمت لگا کر اس کی ساٹھ فیصد قیمت پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔
2) شیخ عبد الرحمان عیسی اور ڈاکٹر وھبہ الزحیلی کی رائے:
شیخ عبد الرحمان عیسی اور ڈاکٹر وھبہ الزحیلی کی رائے یہ ہے کہ حصص دو قسم کی کمپنیوں کے ہو سکتے ہیں۔
1: صنعتی کمپنیوں کے حصص
2: تجارتی کمپنیوں کے حصص
صنعتی کمپنیاں: جو کسی قسم کا تجارتی کاروبار نہیں کرتیں جیسے نقل و حمل کی کمپنیاں، ڈاک کی کمپنیاں وغرہ تو ان کمپنیوں کے حصص پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ البتہ اگر ان کے حصص سے منافع حاصل ہو تو دیگر اموال کے ساتھ ملا کر نصاب کو پہنچے تو پھر زکوٰۃ ادا ہو گی۔
تجارتی کمپنیاں: وہ کمپنیاں جو سامان تجارت کی خرید وفروخت کرتی ہیں جیسے بین الاقوامی تجارتی کمپنیاں، درآمدات اور برآمدات کی کمپنیاں، خام مال تیار کرنے والی کمپنیاں اور دھاگے بنانے والی کمپنیاں وغیرہ تو ایسی کمپنیوں کے حصص پر زکوٰۃ واجب ہو گی کیونکہ اس کمپنی کے حصص سامان تجارت میں حصہ داری اور شرکت کا ثبوت اور سرٹیفیکٹ ہوتا ہے۔ لہذا ایسے حصص پر زکوٰۃ واجب ہو گی۔ غیر تجارتی اموال جو کمپنی کے اثاثہ جات ہیں ان کی قیمت نکال کر پھر حصص کی مروجہ بازاری قیمت لگا کر زکوٰۃ دی جائے گی۔
3) حصص پر زکوٰۃ کی مقدار:
حصص کی حیثیت چونکہ مال تجارت کی ہے اور مال تجارت پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہے لہذا حصص پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔
4) حصص کی زکوٰۃ کون ادا کرے گا؟
حصص کی زکوٰۃ ادا کرنے کے سلسلے میں فقہاء کے دو اقوال ہیں۔
1: یہ کہ حصص کی زکوٰۃ کمپنی پر واجب ہے۔ لہذا کمپنی خود اپنی مالیت اور ملکیات میں موجود قابل زکوٰۃ اموال کا حساب کرے گی اور زکوٰۃ ادا کرے گی۔
2: البتہ اگر کمپنی اپنی یہ ذمہ داری پوری نہ کرے تو اس صورت میں پھر shares holder کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی ذمہ داری ادا کرے۔
حصص کی وضاحت:
قدیم زمانے میں کاروبار کی نوعیت جدید دور کے کاروبار کے مقابلے میں بہت مختلف تھی۔ اس میں اتنی پیچیدگی اور اتنا پھیلاؤ نہیں ہوتا تھا جتنا کہ آج کل کے دور میں ہے۔
مثلاً گزشتہ زمانے میں ایک یا چند افراد مل کر سرمایہ جمع کرتے اور کاروبار کیا کرتے تھے۔ لیکن جدید دور میں صنعتی انقلاب آیا اور کاروبار میں وسعت آئی۔ صنعتی انقلاب کی وجہ سے کاروبار کی نوعیت اتنی وسیع ہو گئی ہے کہ اب محدود سرمایہ اس کے لیے ناکافی ہو گیا ہے اور ایک ایک پروجیکٹ کے لیے اربوں کھربوں کے سرمائے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو کہ ظاہر ہے عموماً ایک یا چند اشخاص کے بس کی بات نہیں ہے۔
1) جوائنٹ سٹاک کمپنی:
اس مسئلہ کے حل کے لیے ہزاروں اور لاکھوں افراد کا مل کر سرمایہ جمع کرنے کا تصور وجود میں آیا۔ شرکت کا یہ تصور جدید دور میں joint stock company کی صورت میں ہے جس میں ہزاروں لاکھوں لوگوں سے سرمایہ جمع کیا جاتا ہے اور ہر شخص اس کاروبار میں اپنے سرمائے کے بقدر شریک ہوتا ہے۔ کاروبار میں شریک ہونے کی حیثیت سے وہ اس کاروبار میں نفع کا حقدار اور نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ یہ ایک کمپنی ہوتی ہے اور کچھ شرکاء یا ملازم اس کو چلانے کا انتظام و انصرام کرتے ہیں جبکہ دیگر شرکاء جو کاروبار کے چلانے میں حصہ نہیں لیتے ان کو sleeping partner کہا جاتا ہے۔
2) شیئر ہولڈر:
جو شخص اس کاروبار میں اپنا سرمایہ لگانے کی وجہ سے شریک ہوتا ہے اس کو حصہ دار یا share holder کہا جاتا ہے اور کاروبار میں اس کے اس حصے کو حصہ share یا عربی میں سہم کہتے ہیں۔ کاروبار میں جو شخص اپنا سرمایا دیتا ہے اس کو ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے جس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس سرٹیفیکٹ کا حامل شخص اس کمپنی میں اتنے حصے کا مالک ہے اس سرٹیفکیٹ کو بھی share کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اس کا شخص کے کاروبار میں شرکت کا ثبوت ہوتا ہے۔
3) حصص کی خرید و فروخت:
عموماً کمپنیاں کاروبار میں شریک لوگوں کو اس بات کی بھی اجازت دیتی ہیں کہ وہ اگر کاروبار سے نکلنا چاہتے ہیں اور اس کاروباری سلسلے میں مزید شریک نہیں رہنا چاہتے تو وہ اپنا حصہ کسی اور کو بیچ دیں۔ اس حصے share کی قیمت مارکیٹ میں مختلف ہوتی ہے جو کاروبار کی مالی حالت اور اس کمپنی کی شہرت اور انتظامی حسن کارکردگی پر منحصر ہوتی ہے۔ اور کبھی زیادہ اور کم ہوتی رہتی ہے۔
چونکہ یہ کاروبار بہت وسیع ہوتا ہے اور اس میں شرکاء کی تعداد ہزاروں لاکھوں میں ہوتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کئی لوگ اپنے کاروباری حصے بیچنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور کئی دوسرے لوگ اس کاروبار میں شریک ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں لہذا ان کمپنیوں کے حصص share کی خرید وفروخت کا کاروبار بڑا وسیع نوعیت کا ہوتا ہے۔
4) سٹاک ایکسچینج:
اس وسیع کاروبار کو منظم انداز میں چلانے کے لیے مختلف ممالک میں stock exchange ادارے قائم کیے گئے ہیں جہاں ان حصص کی خرید وفروخت کا کاروبار ہوتا ہے۔ جیسے اسلام آباد سٹاک ایکسچینج، لاہور، کراچی سٹاک ایکسچینج وغیرہ۔
لہذا حصص کی خرید وفروخت میں دلچسپی رکھنے والے کاروباری حضرات ان قائم کردہ اداروں کے ذریعے حصص کی خرید وفروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔
5) حصص کی قیمت:
حصص کی دو قیمتیں ہوتی ہیں۔ ایک ظاہری قیمت اور دوسری بازاری قیمت۔
ظاہری قیمت: یہ وہ قیمت ہے جو اس سرٹیفیکٹ پر لکھی ہوتی ہے جس کو بنیاد بنا کر سرمایہ جمع کیا جاتا ہے۔
تجارتی قیمت: یہ حصص کی بازاری قیمت ہوتی ہے اور یہ مارکیٹ کے حالات، کمپنی کی کارکردگی و شہرت اور اثاثہ جات کی سلامتی کے پیش نظر بدلتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک حصے کی ظاہری قیمت دس روپے ہو سکتی ہے اور بازار حصص میں سو روپے کا خرید وفروخت ہو رہا ہو۔
حصص کی خرید وفروخت کا شرعی حکم
حصص کی خرید وفروخت درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے۔
1) نئی کمپنی کے حصص خریدنے کا حکم:
نئی کمپنی جو ابھی نئی قائم ہوئی ہو۔ اور کوئی کاروبار شروع کرنے جا رہی ہو تو اس کمپنی کے کاروبار میں حصہ دار بننا یعنی اس کمپنی کے حصص خریدنا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ کمپنی کوئی حلال کاروبار کرنے کے لئے قائم ہوئی ہو۔ مثلاً شوگر مل یا آٹو موبائل کمپنی قائم ہو رہی ہے تو اس کے حصص خریدنا جائز ہے۔
لیکن اگر کمپنی کا بنیادی کاروبار بھی حلال نہ ہو مثلاً شراب کی فیکٹری یا انشورنس کمپنی قائم کی جا رہی ہو تو ایسے کاروبار میں حصہ دار بننا اور اس کے حصص خریدنا جائز نہیں۔
2) پہلے سے قائم شدہ کمپنی کے حصص یا سٹاک ایکسچینج سے حصص خریدنا:
سٹاک ایکسچینج سے پہلے سے قائم شدہ کسی کمپنی کے حصص خریدنا درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے۔
پہلی شرط: پہلی شرط یہ ہے کہ اس کمپنی کا بنیادی کاروبار حلال ہو، کوئی حرام کاروبار نہ ہو جیسے انشورنس کمپنی نہ ہو یا شراب کی فیکٹر ی نہ ہو۔
دوسری شرط: دوسری شرط یہ ہے کہ اس کمپنی کے تمام اثاثے اور املاک سیال شکل میں نہ ہوں بلکہ کچھ اثاثے (بیشک تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں) عین غیر نقدی کی شکل میں ہوں۔ اگر سارے اثاثے سیال (نقدی) کی شکل میں ہیں تو پھر اس کمپنی کے حصص اس کی ظاہری قیمت سے زیادہ پر خریدنا جائز نہیں۔
مثلاً ایک کمپنی ہے اس کے دو ارب کے نقدی اثاثے ہیں اس کمپنی کے حصص اگر کوئی خریدتا ہے تو جو اس کی ظاہری قیمت اس حصص (Share) پر لکھی ہو گی اس سے زائد کا نہیں خرید سکتا۔ مثلاً اگر ایک حصے کی قیمت دس روپے ہے تو دس کا ہی خرید سکتا ہے کم یا زیادہ کا خریدنا جائز نہیں کیونکہ یہ سود ہو جائے گا۔
لیکن اگر کمپنی کے کچھ اثاثے عین غیر نقدی کی شکل میں ہوں تو بیشک تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں پھر یہ حصص خریدنا جائز ہو گا۔ مندرجہ بالا مثال میں پھر اگر حصص بارہ روپے کا بیچتا ہے تو دس روپے دس نقدی کے مقابلے میں ہوں گے اور دو روپے اسی عین فیکسڈ ایسٹ (Fixed Asset) کے مقابلے میں ہوں گے۔ کیونکہ اس صورت میں حصص نقدی اور عین دونوں کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے لہذا یہ سود نہیں ہو گا اور جائز ہو گا۔
3) شیئرز کی خرید وفرخت میں شرائط بیع کی پابندی کرنا:
یعنی مذکورہ کمپنی یا ادارہ کے شیئرز کی خرید وفروخت بیع وتجارت کے شرعی اصولوں کے مطابق ہو مثلاً آدمی جن شئیرز کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے اس پر شرعی طریقہ سے قابض ہو اور دوسروں کو تسلیم اور حوالہ کرنے پر بھی قادر ہو۔
واضح رہے کہ شیئرز میں قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے صرف زبانی وعدہ کافی نہیں ہے، نام رجسٹرڈ یا الاٹ ہونا ضروری ہے، اس سے پہلے صرف زبانی وعدہ یا غیر رجسٹرڈ شیئرز کی خرید وفروخت باقاعدہ فزیکلی طور پر ڈیلیوری ملنے سے پہلے ناجائز ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ شیئرز پہلے بائع کے نام رجسٹرڈ ہوں اور بائع اس کی قیمت بھی ادا کر دے اور اس کے پاس ڈیلیوری آجائے، اس کے بعد اس کی خریدو فروخت جائز ہو گی، یا شیئرز وصول کرلیے ہیں، لیکن ابھی تک قیمت ادا نہیں کی تو اس صورت میں بھی مذکورہ شیئرز کو فروخت کرکے نفع لینا جائز ہے، کیوں کہ مبیع پر قبضہ ثابت ہے۔
4) منافع کی کل رقم کو تمام حصہ داروں کے درمیان شیئرز کے مطابق تقسیم کرنا:
مثلاً کمپنی میں جو منافع ہوا ہے اسے تمام حصہ داروں میں ان کے شیئرز کے مطابق تقسیم کر دیا جائے، لیکن اگر کوئی کمپنی مستقبل کے ممکنہ خطرہ سے نمٹنے کے لیے منافع میں سے مثلاً 20 فیصد اپنے لیے مخصوص کرتی ہے اور 80 فیصد منافع کو حصہ داروں میں تقسیم کرتی ہے تو اس کمپنی کے شیئرز کی خرید وفروخت ناجائز اور حرام ہے کیوں کہ یہ کمپنی شرعی شراکت کے خلاف ناجائز کاروبار کرتی ہے۔
حصص پر زکوٰۃ
کمپنیوں کے حصص بھی سامان تجارت میں داخل ہیں اور اس کی دو صورتیں ہیں۔
کمپنی کے حصص پر زکوٰۃ کے بارے میں معاصر فقہاء کی آراء درج ذیل ہیں:
1) مولانا محمد تقی عثمانی کے رائے:
ان کے نزدیک حصص دو مقاصد کے لیے خریدے جاتے ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ اس کے ذریعے کمپنی کا منافع حاصل کیا جائے اور اس پر سالانہ منافع کمپنی کی طرف سے ملتا رہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کمپنی کے حصص کے لیے خریدے یعنی نیت یہ ہے کہ جب بازار میں ان کی قیمت بڑھ جائے گی تو ان کو فروخت کر کے نفع کمائیں گے۔
اب اگر دوسری صورت ہے تو اس صورت میں پورے حصص کی پوری بازاری قیمت پر زکوٰۃ واجب ہو گی۔ مثلاً آپ نے پچاس روپے کے حساب سے حصص خریدے اور مقصد یہ تھا کہ جب ان کی قیمت بڑھ جائے گی تو ان کو فروخت کر کے نفع حاصل کریں گے۔ اس کے بعد جس دن زکوٰۃ کا حساب نکالا جائے اس دن حصص کی قیمت ساٹھ روپے ہو گئی تو اب ساٹھ روپے کے حساب سے ان حصص کی مالیت نکالی جائے گی اور اس پر ڈھائی فیصد کے حساب زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی۔
اگر پہلی صورت ہو تو اس صورت میں اس بات کی گنجائش ہے کہ یہ دیکھیں کہ جس کمپنی کے یہ حصص ہیں اس کمپنی کے کتنے اثاثے جامد ہیں، مثلاً بلڈنگ، مشینری، کاریں وغیرہ اور کتنے اثاثے نقد سامان تجارت اور خام مال کی شکل میں ہیں۔ یہ معلومات کمپنی ہی سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً فرض کریں کہ کسی کمپنی کے ساٹھ فیصد اثاثے نقد، سامان تجارت، خام مال اور تیار مال کی صورت میں ہیں اور چالیس فیصد اثاثے بلڈنگ مشینری اور کار وغیرہ کی صورت میں ہیں تو اس صورت میں ان حصص کی بازاری قیمت لگا کر اس کی ساٹھ فیصد قیمت پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔
2) شیخ عبد الرحمان عیسی اور ڈاکٹر وھبہ الزحیلی کی رائے:
شیخ عبد الرحمان عیسی اور ڈاکٹر وھبہ الزحیلی کی رائے یہ ہے کہ حصص دو قسم کی کمپنیوں کے ہو سکتے ہیں۔
1: صنعتی کمپنیوں کے حصص
2: تجارتی کمپنیوں کے حصص
صنعتی کمپنیاں: جو کسی قسم کا تجارتی کاروبار نہیں کرتیں جیسے نقل و حمل کی کمپنیاں، ڈاک کی کمپنیاں وغرہ تو ان کمپنیوں کے حصص پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ البتہ اگر ان کے حصص سے منافع حاصل ہو تو دیگر اموال کے ساتھ ملا کر نصاب کو پہنچے تو پھر زکوٰۃ ادا ہو گی۔
تجارتی کمپنیاں: وہ کمپنیاں جو سامان تجارت کی خرید وفروخت کرتی ہیں جیسے بین الاقوامی تجارتی کمپنیاں، درآمدات اور برآمدات کی کمپنیاں، خام مال تیار کرنے والی کمپنیاں اور دھاگے بنانے والی کمپنیاں وغیرہ تو ایسی کمپنیوں کے حصص پر زکوٰۃ واجب ہو گی کیونکہ اس کمپنی کے حصص سامان تجارت میں حصہ داری اور شرکت کا ثبوت اور سرٹیفیکٹ ہوتا ہے۔ لہذا ایسے حصص پر زکوٰۃ واجب ہو گی۔ غیر تجارتی اموال جو کمپنی کے اثاثہ جات ہیں ان کی قیمت نکال کر پھر حصص کی مروجہ بازاری قیمت لگا کر زکوٰۃ دی جائے گی۔
3) حصص پر زکوٰۃ کی مقدار:
حصص کی حیثیت چونکہ مال تجارت کی ہے اور مال تجارت پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہے لہذا حصص پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔
4) حصص کی زکوٰۃ کون ادا کرے گا؟
حصص کی زکوٰۃ ادا کرنے کے سلسلے میں فقہاء کے دو اقوال ہیں۔
1: یہ کہ حصص کی زکوٰۃ کمپنی پر واجب ہے۔ لہذا کمپنی خود اپنی مالیت اور ملکیات میں موجود قابل زکوٰۃ اموال کا حساب کرے گی اور زکوٰۃ ادا کرے گی۔
2: البتہ اگر کمپنی اپنی یہ ذمہ داری پوری نہ کرے تو اس صورت میں پھر shares holder کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی ذمہ داری ادا کرے۔