دوسری صدی ہجری کے اوائل میں جب ائمہ مجتہدین، اصول فقہ کی تدوین میں مصروف تھے، تعمیر قانون کے اصول کو مرتب کیا جا رہا تھا اور قرآن مجید و سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم میں بیان کردہ جزئی احکام کے پردے میں پوشیدہ کلیات کی دریافت کا کام زور وشور سے جاری تھا، انہی دنوں قواعد کلیہ کے علم کی بنیاد بھی رکھی جا چکی تھی۔
اگرچہ سردست یہ کہنا تو مشکل ہے کہ دوسری صدی ہجری کے جن مجتہدین کی تحریروں میں ایسے کلیات بکھرے ہوئے ملتے ہیں انہوں نے ان کا بالارادہ قواعد کلیہ کی حیثیت میں مرتب کیا تھا۔ تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان حضرت کے زمانے میں قانون اسلامی کے اصول کلیات کی تنقیح کا اتنا کام ہو چکا تھا کہ تیسری صدی ہجری کے فقہاء کے لیے قواعد کلیہ کے نام سے ایک جداگانہ علم کی تدوین ممکن ہو سکی۔
یہ قواعد ایک دن، یا چند دنوں میں بیٹھ کر کسی ایک شخص یا چند متعین اشخاص نے وضع نہیں کیے، نہ یہ سب کے سب کسی ایک مرحلے میں اپنی موجودہ شکل میں مرتب ہوئے۔ ان کی ترتیب کی صورت یہ نہیں ہے جو دنیا کے قوانین کی ہوتی ہے کہ کسی متعین مجلس یا متعین فرد نے ایک خاص وقت میں ایک شکل میں ان کو مدون کر دیا ہو، بلکہ رومن لاء کے لیگل میگسمز (legal maxims) کی طرح قواعد کلیہ کی ترتیب و تدوین کی صورت بھی ارتقائی رہی ہے۔
ان کی بنیادیں قرآن وسنت کے احکام اور صدر اسلام کے ائمہ کرام کے وہ اجتہادات ہیں جو انہوں نے سالہا سال قرآن و سنت میں غور وفکر کے بعد کیے تھے۔ جوں جوں فقہاء کرام قرآن و سنت کے احکام پر غور کرتے رہے ان کے سامنے ان احکام کا بنیادی فلسفہ، حکمت اور اصول واضح ہوتے گئے اور ہر زمانے کے فقہاء ان اصولوں کو مناسب عبارتوں میں مرتب و مدون کرتے رہے۔
بعد میں آنے والے فقہاء نہ صرف اپنے سے پہلے فقہاء کے مرتب کردہ قواعد و کلیات کی عبارتوں کو بہتر اور جامع بناتے رہے بلکہ خود بھی اپنے مطالعہ اور غورو فکر سے نئے نئے قواعد و ضوابط دریافت کر کے اس ذخیرے میں اضافہ کرتے رہے۔ اس طرح کم و بیش ایک ہزار سال کی اجتماعی کاوشوں کا یہ ثمر قواعد کلیہ کے اس بے بہا خزانے کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے جس نے آج سے سینکڑوں سال قبل ہی ایک باقاعدہ، مربوط اور منظم علم کی صورت اختیار کر لی تھی۔
لہذا ان قواعد کا نہ کوئی ایک شخص مصنف ہے نہ یہ کسی ایک یا چند افرد کے ذہن کی پیداوار ہیں اور نہ کسی خاص علاقے، زمانے یا نسل کے لوگوں کو ان کی تدوین کا اعزاز حاصل ہے۔ البتہ چند قواعد ایسے ہیں جو یا تو براہ راست کسی حدیث نبوی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ سے ماخوذ ہیں یا کسی متعین فقیہ و مجتہد کی طرف منسوب ہیں۔ لیکن ایسے قواعد بہت کم ہیں اور ان کی حیثت اس عمومی کیفیت سے استثنائی صورت کی ہے۔ مثال کے طور پر
1) الامور بمقاصدھا
معاملات کا دارو مدار ان کے مقصد پر ہوتا ہے۔
یہ کلیہ صراحتا اس مشور حدیث نبوی سے ماخوذ ہے جس میں ارشاد ہے:
2) لا ضرر ولا ضرار
نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ نقصان پہنچاؤ
یہ بعینہ حدیث نبوی کے الفاظ ہیں۔
قاعدہ کی تعریف:
عربی زبان میں قاعدہ کے لغوی معنی کسی عمارت کی بنیاد کے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہودج کے نیچے لگائی جانے والی لکڑیوں کو بھی قواعد کہتے ہیں کہ وہ بھی ہودج کے لیے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں۔ کسی مملکت کے دار الحکومت کو بھی قاعدہ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی مملکت کی بنیاد کی طرح اہمیت رکھتا ہے۔
قرآن مجید میں لفظ قاعدہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اصطلاحی تعریف:
اصطلاحی اعتبار سے فقہی اور قانونی قاعدہ دوسرے علوم و فنون سے ذرا مختلف مفہوم رکھتا ہے۔ دوسرے علوم مثال کے طور پر نحو، طبیعات، ریاضی وغیرہ میں قاعدہ سے مراد ایسا حکم یا اصول ہے جو اپنی تمام جزئیات پر منطبق ہوتا ہے، یعنی جن کا اطلاق اس کے ذیل میں آنے والی تمام فروعی صورتوں پر ہوتا ہے۔ مثلاً نحو کا قاعدہ ہے کہ فاعل مرفوع ہوتا ہے، مفعول منصوب ہوتا ہے۔
اب یہ دونوں قواعد ہر قسم کے فاعل اور ہر قسم کے مفعول کو حاوی ہیں اور سب پر ان کا اطلاق یکساں طور پر ہوتا ہے۔ کوئی مفعول یا فاعل ایسا نہیں جو ان قواعد کے اطلاق سے باہر ہو۔
فقہی قواعد کا معاملہ ذرا مخلتف ہے۔ ایک فقہی قاعدے کا اطلاق کے ذیل میں آسکنے والے تمام حالت و مسائل پر نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی صرف بیشتر صورتوں پر ہوتا ہے اور بہت سی صورتیں بہرحال ایسی ہوتی ہیں جو اس قاعدے کے اطلاق سے باہر رہتی ہیں۔ لہذا فقہ کے علاوہ دوسرے علوم میں قاعدہ کی تعریف یہ ہے:
اس کے برعکس فقہی قاعدے کی جو تعریفیں کی گئی ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
1: قاعدہ سے مراد وہ اصول ہے جو کلی نہ ہو بلکہ اکثریتی ہو اور اپنے تحت آنے والی اکثر جزئیات پر اس کا اطلاق ہوتا ہو تاکہ ان جزئیات کا فقہی حکم اس سے معلوم کیا جا سکے۔
2: ایسا حکم جو اکثریت کی بنیاد پر ہو اور اپنے تحت آنے والی بیشتر جزئیات پر منطبق ہو جاتا ہو۔
3: ایسا حکم ہے جو کلی ہو یا اکثریتی ہو اور اپنی تمام جزئیات پر منطبق ہو جاتا ہو۔
4: قاعدہ ایسا کلی یا اکثریتی حکم ہے جس کا مقصد یہ ہو کہ اس کے ذریعہ جزئیات معلوم کی جائیں۔
عمومی قواعد:
قواعد کلیہ کی تعریف میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ قواعد اگرچہ کلیہ ہوتے ہیں لیکن اکثر صورتوں میں یہ قواعد کلیہ کی بجائے اکثریہ ہیں۔ ان کے تحت آنے والی اکثر جزئی صورتوں میں ان قواعد کا اطلاق ہوتا ہے۔ کسی قاعدے کا کسی خاص موضوع کے تحت مطالعہ کرنے کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ وہ قاعدہ صرف اسی ایک موضوع کے تحت آتا ہے۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس موضوع کی اکثر جزئی صورتوں میں اس قاعدے کا اطلاق ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں اس قاعدے کا تعلق کسی اور موضوع سے بھی ہوسکتا ہے۔
عمومی قواعد درج ذیل ہیں:
1) قاعدہ کلیہ: الامور بمقاصدھا
امور اپنے مقاصد کے لحاظ سے دیکھے جائیں گے۔
یعنی کسی کام کے بارے میں جو حکم دیا جائے گا اس کی بنیاد اس مقصد پر ہو گی جو اس کام سے مقصود تھا۔
2) قاعدہ کلیہ: الیقین لا یزول بالشک
یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔
آخر اس میں کس کو شبہ ہو سکتا ہے کہ یقین کا درجہ بہرحال شک سے اونچا اور مضبوط ہے۔
3) قاعدہ کلیہ: الاصل فی الاشیاء الاباحۃ حتی یدل الدلیل علی التحریم
اشیاء میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں جب تک کہ کوئی دلیل ان کے حرام ہونے پر دلالت نہ کرے۔
اس قاعدے کا اطلاق ان اشیاء پر ہوتا ہے جن کے بارے میں شریعت خاموش ہو اور اس نے کوئی واضح حکم نہ دیا ہو۔
4) قاعدہ کلیہ: الاصل بقاء ما کان علی ما کان
اصل یہ ہے کہ جو چیز جیسے تھی وہ ویسی ہی باقی رہے گی جیسا کہ تھی۔
یہ وہی اصول ہے جسے اصول فقہ میں استصحاب کہتے ہیں۔
5) قاعدہ کلیہ: القدیم یترک علی قدمہ
قدیم کو اس کی قدامت پر چھوڑ دیا جائے گا۔
قدیم سے مراد وہ ہے جس کا آغاز معلوم نہ ہو، یعنی جس وقت اختلاف یا جھگڑا شروع ہوا اس وقت کوئی ایسا گواہ وغیرہ موجود نہ ہو جو اس کے آغاز کا صحیح وقت بتا سکے۔
6) قاعدہ کلیہ: العادۃ محکمۃ
عادت کسی حکم کی بنیاد بن سکتی ہے۔
عادت خواہ عام ہو یا خاص، وہ حکم شرعی کی بنیاد بنی سکتی ہے۔
7) قاعدہ کلیہ: انما تعتبر العادۃ اذا اطردت او غلبت
عادت یا رواج اس وقت معتبر ہو گا جب وہ پھیل چکا ہو اور غالب اکثریت میں جاری ہو۔
8) قاعدہ کلیہ: المعروف عرفا کالشروط شرطا
جو چیز عرف عام میں جانی پہچانی جاتی ہو وہ طے شدہ شرط کی مانند ہے۔
9) قاعدہ کلیہ: المعرف بین التجار کالشروط بینھم
تاجروں میں معرف بات ان کے مابین شرط کی مانند ہے۔
10) قاعدہ کلیہ: الضرر یزال
ضرر دور کیا جائے گا۔
11) قاعدہ کلیہ: لا ضرر ولا ضرار
نہ ضرر پہنچے اور نہ ضرر پہنچایا جائے۔
12) الضرر لا یزال بالضرر
ضرر کو اسی طرح کے ضرر سے دور نہیں کیا جائے گا۔
اگر کوئی شخص کسی کا کوئی مال تلف کر دے تو بدلے میں اسکا مال تلف نہ ہو گا۔
13) قاعدہ کلیہ: الضرر یدفع بقدر الامکان
ضرر کو بقدر امکان دور کیا جائے گا۔
مثال کے طور پر جہاد کے احکام صرف اس لیے دیئے گئے ہیں کہ دشمنان اسلام کے شر سے محفوظ رہا جا سکے۔
14) قاعدہ کلیہ: الضرر الاشد یزال بالضرر الاخف
شدید ضرر کو نسبتا ہلکے ضرر سے دور کیا جائے گا۔
15) قاعدہ کلیہ: اذا تعارضت مفسدتان روعی اعظمھما ضررا بارتکاب اخفھما
جب دو برائیوں میں تعارض ہو تو بڑی برائی سے بچنے کے لیے چھوٹی برائی کا ارتکاب گوارا کر لیا جائے گا۔
16) قاعدہ کلیہ: یختار اھون الشرین
دو برائیوں میں کم تر برائی اختیار کی جائے گی۔
17) قاعدہ کلیہ: یتحمل الضرر الخاص لدفع الضرر العام
ضرر عام کو دور کرنے کے لیے ضرر خاص کو برداشت کیا جائے گا۔
18) قاعدہ کلیہ: درء المفاسد اولی من جلب المنافع
مفاسد کو دور کرنا حصول منفعت پر مقدم ہے۔
19) قاعدہ کلیہ: المشقۃ نجلب التیسیر
مشقت آسانی لاتی ہے۔
اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ مشکلات سہولت کا سبب ہو جاتی ہیں اور تنگی کے موقع پر وسعت و کشادگی پیدا کر دی جاتی ہے۔
20) قاعدہ کلیہ: اذا ضاق الامر اتسع
جب کسی کام میں تنگی پیدا ہو جائے تو اس میں وسعت دی جائے گی۔
21) قاعدہ کلیہ: الضرورات تبیع المحظورات
ضرورتیں ممنوع چیزوں کو جائز کر دیتی ہیں۔
جیسے کہ اضطرار کی حالت میں ممنوع چیز کھانے کی اجازت ہے۔
22) قاعدہ کلیہ: الحاجۃ تننزل منزلۃ الضرورۃ عامۃ او خاصۃ
حاجت عام ہو یا خاص، وہ ضرورت کے قائم مقام بن جاتی ہے۔
23) قاعدہ کلیہ: ما ابیح للضرورۃ بقدر بقدرھا
جو چیز ضرورت کی بنا پر جائز کی گئی ہو اس کا جواز ضرورت کی مقدار کے مطابق ہی رہے گا۔
24) قاعدہ کلیہ: ما جاز لعذر بطل بزوالہ
جو چیز عذر کی بنا پر جائز ہو وہ عذر کے زائل ہونے پر جائز نہ رہے گی۔
25) قاعدہ کلیہ: الاضطرار لایبطل حق الغیر
اضطرار کسی دوسرے کا حق ضائع نہیں کرتا۔
حالت اضطرار میں اگر کسی دوسرے شخص کی چیز استعمال کر لی جائے تو یہ جائز ہے۔ کوئی شخص شدید بھوک کی حالت میں دوسرے کی روٹی لے کر کھالی ہے اور اپنے آپ کو درپیش موت یا بیماری کے خطرہ کو دور کرلے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ روٹی کی قیمت اس دوسرے شخص کو ادا کرے۔
26) قاعدہ کلیہ: الاصل اضافۃ الحادث الی اقرب اوقاتہ
اصل یہ ہے کہ کسی نئے واقعہ کو قریب ترین وقت کی طرف منسوب کیا جائے گا۔
27) قاعدہ کلیہ: لا عبرۃ للتوھم
وہم کا کوئی اعتبار نہیں۔
اگرچہ سردست یہ کہنا تو مشکل ہے کہ دوسری صدی ہجری کے جن مجتہدین کی تحریروں میں ایسے کلیات بکھرے ہوئے ملتے ہیں انہوں نے ان کا بالارادہ قواعد کلیہ کی حیثیت میں مرتب کیا تھا۔ تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان حضرت کے زمانے میں قانون اسلامی کے اصول کلیات کی تنقیح کا اتنا کام ہو چکا تھا کہ تیسری صدی ہجری کے فقہاء کے لیے قواعد کلیہ کے نام سے ایک جداگانہ علم کی تدوین ممکن ہو سکی۔
یہ قواعد ایک دن، یا چند دنوں میں بیٹھ کر کسی ایک شخص یا چند متعین اشخاص نے وضع نہیں کیے، نہ یہ سب کے سب کسی ایک مرحلے میں اپنی موجودہ شکل میں مرتب ہوئے۔ ان کی ترتیب کی صورت یہ نہیں ہے جو دنیا کے قوانین کی ہوتی ہے کہ کسی متعین مجلس یا متعین فرد نے ایک خاص وقت میں ایک شکل میں ان کو مدون کر دیا ہو، بلکہ رومن لاء کے لیگل میگسمز (legal maxims) کی طرح قواعد کلیہ کی ترتیب و تدوین کی صورت بھی ارتقائی رہی ہے۔
ان کی بنیادیں قرآن وسنت کے احکام اور صدر اسلام کے ائمہ کرام کے وہ اجتہادات ہیں جو انہوں نے سالہا سال قرآن و سنت میں غور وفکر کے بعد کیے تھے۔ جوں جوں فقہاء کرام قرآن و سنت کے احکام پر غور کرتے رہے ان کے سامنے ان احکام کا بنیادی فلسفہ، حکمت اور اصول واضح ہوتے گئے اور ہر زمانے کے فقہاء ان اصولوں کو مناسب عبارتوں میں مرتب و مدون کرتے رہے۔
بعد میں آنے والے فقہاء نہ صرف اپنے سے پہلے فقہاء کے مرتب کردہ قواعد و کلیات کی عبارتوں کو بہتر اور جامع بناتے رہے بلکہ خود بھی اپنے مطالعہ اور غورو فکر سے نئے نئے قواعد و ضوابط دریافت کر کے اس ذخیرے میں اضافہ کرتے رہے۔ اس طرح کم و بیش ایک ہزار سال کی اجتماعی کاوشوں کا یہ ثمر قواعد کلیہ کے اس بے بہا خزانے کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے جس نے آج سے سینکڑوں سال قبل ہی ایک باقاعدہ، مربوط اور منظم علم کی صورت اختیار کر لی تھی۔
لہذا ان قواعد کا نہ کوئی ایک شخص مصنف ہے نہ یہ کسی ایک یا چند افرد کے ذہن کی پیداوار ہیں اور نہ کسی خاص علاقے، زمانے یا نسل کے لوگوں کو ان کی تدوین کا اعزاز حاصل ہے۔ البتہ چند قواعد ایسے ہیں جو یا تو براہ راست کسی حدیث نبوی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ سے ماخوذ ہیں یا کسی متعین فقیہ و مجتہد کی طرف منسوب ہیں۔ لیکن ایسے قواعد بہت کم ہیں اور ان کی حیثت اس عمومی کیفیت سے استثنائی صورت کی ہے۔ مثال کے طور پر
1) الامور بمقاصدھا
معاملات کا دارو مدار ان کے مقصد پر ہوتا ہے۔
یہ کلیہ صراحتا اس مشور حدیث نبوی سے ماخوذ ہے جس میں ارشاد ہے:
انما الاعمال بالنایات
اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے
اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے
2) لا ضرر ولا ضرار
نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ نقصان پہنچاؤ
یہ بعینہ حدیث نبوی کے الفاظ ہیں۔
قاعدہ کی تعریف:
عربی زبان میں قاعدہ کے لغوی معنی کسی عمارت کی بنیاد کے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہودج کے نیچے لگائی جانے والی لکڑیوں کو بھی قواعد کہتے ہیں کہ وہ بھی ہودج کے لیے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں۔ کسی مملکت کے دار الحکومت کو بھی قاعدہ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی مملکت کی بنیاد کی طرح اہمیت رکھتا ہے۔
قرآن مجید میں لفظ قاعدہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
وَاِذۡ يَرۡفَعُ اِبۡرٰهٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَيۡتِ وَاِسۡمٰعِيۡلُؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ
اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دعا کر رہے تھے) کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بیشک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ (سورۃ البقرۃ 127)
اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دعا کر رہے تھے) کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بیشک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ (سورۃ البقرۃ 127)
اصطلاحی تعریف:
اصطلاحی اعتبار سے فقہی اور قانونی قاعدہ دوسرے علوم و فنون سے ذرا مختلف مفہوم رکھتا ہے۔ دوسرے علوم مثال کے طور پر نحو، طبیعات، ریاضی وغیرہ میں قاعدہ سے مراد ایسا حکم یا اصول ہے جو اپنی تمام جزئیات پر منطبق ہوتا ہے، یعنی جن کا اطلاق اس کے ذیل میں آنے والی تمام فروعی صورتوں پر ہوتا ہے۔ مثلاً نحو کا قاعدہ ہے کہ فاعل مرفوع ہوتا ہے، مفعول منصوب ہوتا ہے۔
اب یہ دونوں قواعد ہر قسم کے فاعل اور ہر قسم کے مفعول کو حاوی ہیں اور سب پر ان کا اطلاق یکساں طور پر ہوتا ہے۔ کوئی مفعول یا فاعل ایسا نہیں جو ان قواعد کے اطلاق سے باہر ہو۔
فقہی قواعد کا معاملہ ذرا مخلتف ہے۔ ایک فقہی قاعدے کا اطلاق کے ذیل میں آسکنے والے تمام حالت و مسائل پر نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی صرف بیشتر صورتوں پر ہوتا ہے اور بہت سی صورتیں بہرحال ایسی ہوتی ہیں جو اس قاعدے کے اطلاق سے باہر رہتی ہیں۔ لہذا فقہ کے علاوہ دوسرے علوم میں قاعدہ کی تعریف یہ ہے:
قاعدہ سے مراد وہ کلی اور عمومی حکم ہے (قانون، اصول) ہے جس کا اطلاق اس کے تحت آنے والی تمام جزیئی صورتوں پر ہوتا ہے تاکہ ان کے احکام اس قاعدے سے معلوم کیے جاسکیں۔
اس کے برعکس فقہی قاعدے کی جو تعریفیں کی گئی ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
1: قاعدہ سے مراد وہ اصول ہے جو کلی نہ ہو بلکہ اکثریتی ہو اور اپنے تحت آنے والی اکثر جزئیات پر اس کا اطلاق ہوتا ہو تاکہ ان جزئیات کا فقہی حکم اس سے معلوم کیا جا سکے۔
2: ایسا حکم جو اکثریت کی بنیاد پر ہو اور اپنے تحت آنے والی بیشتر جزئیات پر منطبق ہو جاتا ہو۔
3: ایسا حکم ہے جو کلی ہو یا اکثریتی ہو اور اپنی تمام جزئیات پر منطبق ہو جاتا ہو۔
4: قاعدہ ایسا کلی یا اکثریتی حکم ہے جس کا مقصد یہ ہو کہ اس کے ذریعہ جزئیات معلوم کی جائیں۔
عمومی قواعد:
قواعد کلیہ کی تعریف میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ قواعد اگرچہ کلیہ ہوتے ہیں لیکن اکثر صورتوں میں یہ قواعد کلیہ کی بجائے اکثریہ ہیں۔ ان کے تحت آنے والی اکثر جزئی صورتوں میں ان قواعد کا اطلاق ہوتا ہے۔ کسی قاعدے کا کسی خاص موضوع کے تحت مطالعہ کرنے کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ وہ قاعدہ صرف اسی ایک موضوع کے تحت آتا ہے۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس موضوع کی اکثر جزئی صورتوں میں اس قاعدے کا اطلاق ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں اس قاعدے کا تعلق کسی اور موضوع سے بھی ہوسکتا ہے۔
عمومی قواعد درج ذیل ہیں:
1) قاعدہ کلیہ: الامور بمقاصدھا
امور اپنے مقاصد کے لحاظ سے دیکھے جائیں گے۔
یعنی کسی کام کے بارے میں جو حکم دیا جائے گا اس کی بنیاد اس مقصد پر ہو گی جو اس کام سے مقصود تھا۔
2) قاعدہ کلیہ: الیقین لا یزول بالشک
یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔
آخر اس میں کس کو شبہ ہو سکتا ہے کہ یقین کا درجہ بہرحال شک سے اونچا اور مضبوط ہے۔
3) قاعدہ کلیہ: الاصل فی الاشیاء الاباحۃ حتی یدل الدلیل علی التحریم
اشیاء میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں جب تک کہ کوئی دلیل ان کے حرام ہونے پر دلالت نہ کرے۔
اس قاعدے کا اطلاق ان اشیاء پر ہوتا ہے جن کے بارے میں شریعت خاموش ہو اور اس نے کوئی واضح حکم نہ دیا ہو۔
4) قاعدہ کلیہ: الاصل بقاء ما کان علی ما کان
اصل یہ ہے کہ جو چیز جیسے تھی وہ ویسی ہی باقی رہے گی جیسا کہ تھی۔
یہ وہی اصول ہے جسے اصول فقہ میں استصحاب کہتے ہیں۔
5) قاعدہ کلیہ: القدیم یترک علی قدمہ
قدیم کو اس کی قدامت پر چھوڑ دیا جائے گا۔
قدیم سے مراد وہ ہے جس کا آغاز معلوم نہ ہو، یعنی جس وقت اختلاف یا جھگڑا شروع ہوا اس وقت کوئی ایسا گواہ وغیرہ موجود نہ ہو جو اس کے آغاز کا صحیح وقت بتا سکے۔
6) قاعدہ کلیہ: العادۃ محکمۃ
عادت کسی حکم کی بنیاد بن سکتی ہے۔
عادت خواہ عام ہو یا خاص، وہ حکم شرعی کی بنیاد بنی سکتی ہے۔
7) قاعدہ کلیہ: انما تعتبر العادۃ اذا اطردت او غلبت
عادت یا رواج اس وقت معتبر ہو گا جب وہ پھیل چکا ہو اور غالب اکثریت میں جاری ہو۔
8) قاعدہ کلیہ: المعروف عرفا کالشروط شرطا
جو چیز عرف عام میں جانی پہچانی جاتی ہو وہ طے شدہ شرط کی مانند ہے۔
9) قاعدہ کلیہ: المعرف بین التجار کالشروط بینھم
تاجروں میں معرف بات ان کے مابین شرط کی مانند ہے۔
10) قاعدہ کلیہ: الضرر یزال
ضرر دور کیا جائے گا۔
11) قاعدہ کلیہ: لا ضرر ولا ضرار
نہ ضرر پہنچے اور نہ ضرر پہنچایا جائے۔
12) الضرر لا یزال بالضرر
ضرر کو اسی طرح کے ضرر سے دور نہیں کیا جائے گا۔
اگر کوئی شخص کسی کا کوئی مال تلف کر دے تو بدلے میں اسکا مال تلف نہ ہو گا۔
13) قاعدہ کلیہ: الضرر یدفع بقدر الامکان
ضرر کو بقدر امکان دور کیا جائے گا۔
مثال کے طور پر جہاد کے احکام صرف اس لیے دیئے گئے ہیں کہ دشمنان اسلام کے شر سے محفوظ رہا جا سکے۔
14) قاعدہ کلیہ: الضرر الاشد یزال بالضرر الاخف
شدید ضرر کو نسبتا ہلکے ضرر سے دور کیا جائے گا۔
15) قاعدہ کلیہ: اذا تعارضت مفسدتان روعی اعظمھما ضررا بارتکاب اخفھما
جب دو برائیوں میں تعارض ہو تو بڑی برائی سے بچنے کے لیے چھوٹی برائی کا ارتکاب گوارا کر لیا جائے گا۔
16) قاعدہ کلیہ: یختار اھون الشرین
دو برائیوں میں کم تر برائی اختیار کی جائے گی۔
17) قاعدہ کلیہ: یتحمل الضرر الخاص لدفع الضرر العام
ضرر عام کو دور کرنے کے لیے ضرر خاص کو برداشت کیا جائے گا۔
18) قاعدہ کلیہ: درء المفاسد اولی من جلب المنافع
مفاسد کو دور کرنا حصول منفعت پر مقدم ہے۔
19) قاعدہ کلیہ: المشقۃ نجلب التیسیر
مشقت آسانی لاتی ہے۔
اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ مشکلات سہولت کا سبب ہو جاتی ہیں اور تنگی کے موقع پر وسعت و کشادگی پیدا کر دی جاتی ہے۔
20) قاعدہ کلیہ: اذا ضاق الامر اتسع
جب کسی کام میں تنگی پیدا ہو جائے تو اس میں وسعت دی جائے گی۔
21) قاعدہ کلیہ: الضرورات تبیع المحظورات
ضرورتیں ممنوع چیزوں کو جائز کر دیتی ہیں۔
جیسے کہ اضطرار کی حالت میں ممنوع چیز کھانے کی اجازت ہے۔
22) قاعدہ کلیہ: الحاجۃ تننزل منزلۃ الضرورۃ عامۃ او خاصۃ
حاجت عام ہو یا خاص، وہ ضرورت کے قائم مقام بن جاتی ہے۔
23) قاعدہ کلیہ: ما ابیح للضرورۃ بقدر بقدرھا
جو چیز ضرورت کی بنا پر جائز کی گئی ہو اس کا جواز ضرورت کی مقدار کے مطابق ہی رہے گا۔
24) قاعدہ کلیہ: ما جاز لعذر بطل بزوالہ
جو چیز عذر کی بنا پر جائز ہو وہ عذر کے زائل ہونے پر جائز نہ رہے گی۔
25) قاعدہ کلیہ: الاضطرار لایبطل حق الغیر
اضطرار کسی دوسرے کا حق ضائع نہیں کرتا۔
حالت اضطرار میں اگر کسی دوسرے شخص کی چیز استعمال کر لی جائے تو یہ جائز ہے۔ کوئی شخص شدید بھوک کی حالت میں دوسرے کی روٹی لے کر کھالی ہے اور اپنے آپ کو درپیش موت یا بیماری کے خطرہ کو دور کرلے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ روٹی کی قیمت اس دوسرے شخص کو ادا کرے۔
26) قاعدہ کلیہ: الاصل اضافۃ الحادث الی اقرب اوقاتہ
اصل یہ ہے کہ کسی نئے واقعہ کو قریب ترین وقت کی طرف منسوب کیا جائے گا۔
27) قاعدہ کلیہ: لا عبرۃ للتوھم
وہم کا کوئی اعتبار نہیں۔