گواہی قبول نہ کرنے کے اسباب:
اگر گواہ میں تمام شرائط بھی موجود ہوں تو بعض اسباب ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی بناء پر اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔ ان اسباب کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1: العداوت:
اگر گواہ اور المشھود علیہ کے درمیان عداوت ہو تو گواہ کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اکثر اہل علم اس بات پر متفق ہیں ان میں امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل شامل ہیں۔ امام حنیفہ کی رائے اس بارے میں مختلف ہے آپ فرماتے ہیں عداوت عدالت کے منافی نہیں جس طرح دوستی عدالت کے منافی نہیں اس لیے عداوت کے باوجود قبول کر لی جائے گی۔
ظاہریہ کہتے ہیں کہ اکر گواہ کی مشھود علیہ سے عداوت بہت زیادہ نہ ہو جو اس کی عدالت پر اثر انداز نہ ہوتی ہو تو اس کی گواہی قبول کر لی جائے گی۔ ظاہریہ کی حجت، ﷲ تعالیٰ فرمان جس میں ارشاد ہے:
اس آیت میں تو ﷲ نے ہمیں دشمنوں سے بھی عدل کرنے کا حکم دیا ہے۔ پس اسی بناء پر جس کسی نے عدل کے ساتھ اپنے دشمن پر گواہی دی اس کی گواہی کو قبول کر لیا جائے گا۔
جمہور کی دلیل حدیث الرسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے جس میں ارشاد ہے:
2: گواہ سے منافع کا حصول:
اگر گواہ نے گواہی کے ذریعے کوئی فائدہ اٹھایا ہو یا اس نے اپنے آپ سے کسی ضرر کو دور کیا ہو تو اس سے گواہ میں شک پیدا ہو جاتا ہے اور گواہ کی گواہی قبول نہ کی جائے گی۔
اس کی کئی مثالیں ہیں مثلاً مقروض قرض دینے والے کے لیے کسی اور معاملے میں اس لیے گواہی دے کہ وہ اس کو سہولت دے گا یا اس کا قرض معاف کر دے گا۔
امام مالک دوست کی گواہی کے لیے بھی اسی صورت میں شمار کرتے ہیں کیونکہ اس میں بھی منافع مقصود ہوتا ہے جو کہ مردود ہے اس لیے اس گواہی کو قبول نہ کیا جائے گا۔ امام ابو حنیفہ اور امام اوزاعی کہتے ہیں کہ مزدور کی گواہی مستاجر کے لیے قبول نہ کی جائے گی اگرچہ وہ عادل ہی کیوں نہ ہو جبکہ امام الشوری کے نزدیک ایسی گواہی قبول کر لی جائے گی۔
3: الشرکۃ والوکالۃ:
اگر گواہ مشھود علیہ کا شریک کاروبار ہو یا وکیل ہو تو اگر ان کی گواہی میں ایک دوسرے کے لیے نفع کا پہلو نہ ہو تو آپس میں ان کی گواہی کو قبول کر لیا جائے گا ورنہ رد کر دیا جائے گا۔
4: قریبی رشتہ داروں کی گواہی:
والدین کی گواہی اپنے بچوں کے حق میں قابل قبول نہیں ہے یہ امام مالک، امام شافعی اور احناف کی رائے ہے۔ حنابلہ اور ظاہری مسلک کا بھی یہی موقف ہے۔ جبکہ ظاہریہ عدالت کی شرط کے ساتھ اس گواہی کو جائز قرار دیتے ہیں اور ان کی دلیل وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔
جمہور اہل علم کے نزدیک بھائی کی بھائی کے لیے گواہی جائز ہے جیسا کہ ابن قدامہ کہتے ہیں
اور بھائی کو والد اور بیٹے پر قیاس نہیں جائے گا کیونکہ ان دونوں کے درمیان قرابت بہت قوی ہے۔
اس ضمن میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ امام احمد بن حنبل کے نزدیک والدین کی گواہی اپنے بچوں کے حق میں قابل قبول ہے۔ ان کی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
چونکہ اس قسم کی گواہی میں کوئی الزام نہیں ہے تو اس گواہی کو قبول کر لیا جائے گا بلکہ یہ گواہی اجنبی کی گواہی سے بہتر ہو گی۔
5: میاں بیوی کی ایک دوسرے کے لیے گواہی:
شوہر کی گواہی اپنی بیوی کے لیے اور نہ بیوی کے گواہی اپنے شوہر کے لیے قبول ہو گی۔ یہ امام شافعی، امام مالک اور امام ابو حنیفہ کی رائے ہے۔
امام ابو ثور اور شریح وغیرہ میاں بیوی کی آپس میں گواہی کو قبول کرتے ہیں۔ جبکہ امام ثوری کہتے ہیں کہ شوہر کی گواہی بیوی کے حق میں قبول کر لی جائے گی کیونکہ اس کے حق میں کوئی الزام نہیں ہے۔ جبکہ بیوی چونکہ شوہر کے زیر اثر ہوتی ہے اس لیے اس کی گواہی اپنے شوہر کے لیے قبول نہ ہو گی۔
جو لوگ میاں بیوی کی ایک دوسرے کے لیے گواہی کو قبول نہ کرنے کے حق میں ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں اور عام طور پر دونوں کا مال مشترکہ ہوتا ہے ان میں سے ایک کی گواہی دوسرے کے لیے منافع کا باعث ہو سکتی ہے اس لیے ان کی گواہی قبول نہ ہو گی۔ ظاہریہ میاں بیوی کی ایک دوسرے کے حق میں گواہی کو قبول کرتے ہیں جبکہ دونوں عادل ہوں۔
اگر گواہ میں تمام شرائط بھی موجود ہوں تو بعض اسباب ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی بناء پر اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔ ان اسباب کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1: العداوت:
اگر گواہ اور المشھود علیہ کے درمیان عداوت ہو تو گواہ کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اکثر اہل علم اس بات پر متفق ہیں ان میں امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل شامل ہیں۔ امام حنیفہ کی رائے اس بارے میں مختلف ہے آپ فرماتے ہیں عداوت عدالت کے منافی نہیں جس طرح دوستی عدالت کے منافی نہیں اس لیے عداوت کے باوجود قبول کر لی جائے گی۔
ظاہریہ کہتے ہیں کہ اکر گواہ کی مشھود علیہ سے عداوت بہت زیادہ نہ ہو جو اس کی عدالت پر اثر انداز نہ ہوتی ہو تو اس کی گواہی قبول کر لی جائے گی۔ ظاہریہ کی حجت، ﷲ تعالیٰ فرمان جس میں ارشاد ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمیں لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ٘-وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ-اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے ﷲ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ اور تمہیں کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ تم انصاف نہ کرو (بلکہ) انصاف کرو، یہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور ﷲ سے ڈرو، بیشک ﷲ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔ (سورۃ المائدۃ آیت 8)
اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے ﷲ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ اور تمہیں کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ تم انصاف نہ کرو (بلکہ) انصاف کرو، یہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور ﷲ سے ڈرو، بیشک ﷲ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔ (سورۃ المائدۃ آیت 8)
اس آیت میں تو ﷲ نے ہمیں دشمنوں سے بھی عدل کرنے کا حکم دیا ہے۔ پس اسی بناء پر جس کسی نے عدل کے ساتھ اپنے دشمن پر گواہی دی اس کی گواہی کو قبول کر لیا جائے گا۔
جمہور کی دلیل حدیث الرسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے جس میں ارشاد ہے:
خائن مرد، خائن عورت یا زانی مرد زانی عورت اور اپنے بھائی سے عداوت کرنے والے کی گواہی بھی قبول نہیں ہوتی۔
2: گواہ سے منافع کا حصول:
اگر گواہ نے گواہی کے ذریعے کوئی فائدہ اٹھایا ہو یا اس نے اپنے آپ سے کسی ضرر کو دور کیا ہو تو اس سے گواہ میں شک پیدا ہو جاتا ہے اور گواہ کی گواہی قبول نہ کی جائے گی۔
اس کی کئی مثالیں ہیں مثلاً مقروض قرض دینے والے کے لیے کسی اور معاملے میں اس لیے گواہی دے کہ وہ اس کو سہولت دے گا یا اس کا قرض معاف کر دے گا۔
امام مالک دوست کی گواہی کے لیے بھی اسی صورت میں شمار کرتے ہیں کیونکہ اس میں بھی منافع مقصود ہوتا ہے جو کہ مردود ہے اس لیے اس گواہی کو قبول نہ کیا جائے گا۔ امام ابو حنیفہ اور امام اوزاعی کہتے ہیں کہ مزدور کی گواہی مستاجر کے لیے قبول نہ کی جائے گی اگرچہ وہ عادل ہی کیوں نہ ہو جبکہ امام الشوری کے نزدیک ایسی گواہی قبول کر لی جائے گی۔
3: الشرکۃ والوکالۃ:
اگر گواہ مشھود علیہ کا شریک کاروبار ہو یا وکیل ہو تو اگر ان کی گواہی میں ایک دوسرے کے لیے نفع کا پہلو نہ ہو تو آپس میں ان کی گواہی کو قبول کر لیا جائے گا ورنہ رد کر دیا جائے گا۔
4: قریبی رشتہ داروں کی گواہی:
والدین کی گواہی اپنے بچوں کے حق میں قابل قبول نہیں ہے یہ امام مالک، امام شافعی اور احناف کی رائے ہے۔ حنابلہ اور ظاہری مسلک کا بھی یہی موقف ہے۔ جبکہ ظاہریہ عدالت کی شرط کے ساتھ اس گواہی کو جائز قرار دیتے ہیں اور ان کی دلیل وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔
جمہور اہل علم کے نزدیک بھائی کی بھائی کے لیے گواہی جائز ہے جیسا کہ ابن قدامہ کہتے ہیں
اور بھائی کو والد اور بیٹے پر قیاس نہیں جائے گا کیونکہ ان دونوں کے درمیان قرابت بہت قوی ہے۔
اس ضمن میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ امام احمد بن حنبل کے نزدیک والدین کی گواہی اپنے بچوں کے حق میں قابل قبول ہے۔ ان کی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمیں بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَۚ-اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا- فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْاۚ-وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ ﷲ کے لیے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو بہرحال ﷲ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے تو خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ پڑو اور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیر و تو ﷲ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے (سورۃ النساء آیت 135)
اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ ﷲ کے لیے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو بہرحال ﷲ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے تو خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ پڑو اور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیر و تو ﷲ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے (سورۃ النساء آیت 135)
چونکہ اس قسم کی گواہی میں کوئی الزام نہیں ہے تو اس گواہی کو قبول کر لیا جائے گا بلکہ یہ گواہی اجنبی کی گواہی سے بہتر ہو گی۔
5: میاں بیوی کی ایک دوسرے کے لیے گواہی:
شوہر کی گواہی اپنی بیوی کے لیے اور نہ بیوی کے گواہی اپنے شوہر کے لیے قبول ہو گی۔ یہ امام شافعی، امام مالک اور امام ابو حنیفہ کی رائے ہے۔
امام ابو ثور اور شریح وغیرہ میاں بیوی کی آپس میں گواہی کو قبول کرتے ہیں۔ جبکہ امام ثوری کہتے ہیں کہ شوہر کی گواہی بیوی کے حق میں قبول کر لی جائے گی کیونکہ اس کے حق میں کوئی الزام نہیں ہے۔ جبکہ بیوی چونکہ شوہر کے زیر اثر ہوتی ہے اس لیے اس کی گواہی اپنے شوہر کے لیے قبول نہ ہو گی۔
جو لوگ میاں بیوی کی ایک دوسرے کے لیے گواہی کو قبول نہ کرنے کے حق میں ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں اور عام طور پر دونوں کا مال مشترکہ ہوتا ہے ان میں سے ایک کی گواہی دوسرے کے لیے منافع کا باعث ہو سکتی ہے اس لیے ان کی گواہی قبول نہ ہو گی۔ ظاہریہ میاں بیوی کی ایک دوسرے کے حق میں گواہی کو قبول کرتے ہیں جبکہ دونوں عادل ہوں۔