گواہی کا مفہوم:
گواہی کے لیے عربی زبان میں شھادۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ شہادۃ فعل شھد کا مصدر ہے جس کے معنی حاضر ہونے کے ہیں۔ شھد کی جمع شھود ہے۔ لغت میں شھادت سے مراد قطعی خبر دینا ہے۔
جبکہ فقہاء کی اصطلاح میں شھادۃ سے مراد:
شھادۃ کو البینۃ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جو کچھ نفس میں ہے اسے یہ واضح کر دیتی ہے اسی طرح حق کو (واضح کرتی ہے) جس میں اختلاف ہو۔
گواہی کی ادائیگی کا حکم:
گواہی دینا فرض کفایہ میں سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے قرآن پاک میں کہ
شھادۃ امانت کی طرح ہے۔ دوسری امانتوں کی طرح اس امانت کی ادائیگی بھی لازمی ہے۔ اگر کسی مسئلے کے بارے میں دو آدمیوں نے گواہی دی تو یہ فرض سب کی طرف سے ادا ہو گیا اور اگر کسی نے بھی گواہی نہ دی تو یہ سب پر فرض ہو گا اور باقی رہے گا۔ اگر گواہی دینے میں کوئی ضرر نہ ہو تو گواہی نہ دینے کی صورت میں وہ گنہگار ہو گا۔
انصاف پر قائم رہنے اور گواہی انصاف کے ساتھ دی جانی جاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
گواہ کو گواہی دینے پر تنگ نہیں کیاجائے گا اور ریاست کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ گواہ کو تحفظ فراہم کرے جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اسی طرح رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
اور ویسے بھی مسلمان کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کو فائدہ دینے کے لیے اپنے آپ کو ضرر دے۔ جس شخص کی گواہی قبول نہ ہوتی ہو اس پر گواہی لازمی نہیں ہے۔
جب کھبی بھی گواہ کو گواہی کی ادائیگی کے لیے کہا جائے اس کی طرف سے جس کا اس گواہی سے تعلق ہو تو گواہی کو چھپانا ناجائز ہے۔ کیونکہ جب گواہی کی ادائیگی کے لیے کہا جائے اور گواہی نہ دی جائے تو اس سے مراد گواہی دینے سے انکار ہو گا اور یہ کتم شھادۃ ہی کے مترادف ہے اور بغیر عذر کے گواہی نہ دینا گناہ کبیرہ میں سے ہے اور مسلمانوں کے گناہ سے اجتناب ضروری ہے۔
روایت میں آتا ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
حدیث شریف میں ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
جھوٹے گواہ کے پاؤں جگہ سے ہٹنے نہ پائیں گے کہ ﷲ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔
گواہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسی اسی واقعہ کی گواہی دے جس کے تئیں اسے مکمل آگاہی اور معرفت ہو۔ایسے امور سے متعلق گواہی نہ دے جس کے بابت اسے خبر ہی نہ ہو۔ﷲ تعالیٰ نے فرمایا
ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے شہادت سے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
مطلب یہ کہ جس واقعہ سے متعلق درست معلومات یا عینی رویت ہو اسی واقعہ سے متعلق گواہی پیش کی جائے ورنہ خاموش رہا جائے
گواہی کے قبول ہونے کی شرائط:
کوئی گواہی اس وقت ہی قابل قبول ہوتی ہے جب اس میں درج ذیل شروط موجود ہوں۔
گواہی کے لیے عربی زبان میں شھادۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ شہادۃ فعل شھد کا مصدر ہے جس کے معنی حاضر ہونے کے ہیں۔ شھد کی جمع شھود ہے۔ لغت میں شھادت سے مراد قطعی خبر دینا ہے۔
جبکہ فقہاء کی اصطلاح میں شھادۃ سے مراد:
اخبار صادق فی مجلس الحکم بلفظ الشھادۃ لاثبات حق علی الغیر
قضاء کی مجلس میں سچی اخبار جن کو شہادت کے لفظ سے بیان کیا جائے اور ان کا مقصد حق کو کسی غیر پر ثابت کرنا ہو۔
قضاء کی مجلس میں سچی اخبار جن کو شہادت کے لفظ سے بیان کیا جائے اور ان کا مقصد حق کو کسی غیر پر ثابت کرنا ہو۔
شھادۃ کو البینۃ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جو کچھ نفس میں ہے اسے یہ واضح کر دیتی ہے اسی طرح حق کو (واضح کرتی ہے) جس میں اختلاف ہو۔
گواہی کی ادائیگی کا حکم:
گواہی دینا فرض کفایہ میں سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلاَ یَأْبَ الشُّهَدَاء إِذَا مَا دُعُواْ وَلاَ تَسْأَمُوْاْ أَن تَکْتُبُوْهُ صَغِیرًا أَو کَبِیرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِکُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّهِ وَأَقْومُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلاَّ تَرْتَابُواْ
اور گواہوں کو چاہئے کہ گواہى کے لئے بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور خبردار لکھاپڑھى سے ناگوار ى کا اظہارنہ کرنا چاہیے قرض چھوٹا ہو یا بڑا مدت معین ہونى چاہیئے یہى پروردگار کے نزدیک عدالت کے مطابق اور گواہى کے لئے زیادہ مستحکم طریقہ ہے اور اس امر سے قریب تر ہے کہ آپس میں شک و شبہ نہ پیدا ہو (سورۃ البقرۃ آیت 282)
اور گواہوں کو چاہئے کہ گواہى کے لئے بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور خبردار لکھاپڑھى سے ناگوار ى کا اظہارنہ کرنا چاہیے قرض چھوٹا ہو یا بڑا مدت معین ہونى چاہیئے یہى پروردگار کے نزدیک عدالت کے مطابق اور گواہى کے لئے زیادہ مستحکم طریقہ ہے اور اس امر سے قریب تر ہے کہ آپس میں شک و شبہ نہ پیدا ہو (سورۃ البقرۃ آیت 282)
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے قرآن پاک میں کہ
وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ١ؕ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ١ؕ وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ١ؕ وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۠
اور اگر تم سفر پر ہو اور (دستاویز لکھنے والا مل نہ سکے) تو (کوئی چیز) رہن باقبضہ رکھ کر) قرض لے لو) اور اگر کوئی کسی کو امیں سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے اور خدا سے جو اس کو پروردگار ہے ڈرے اور دیکھنا شہادت کو مت چھپانا جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہو گا اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے (سورۃ البقرۃ آیت 283)
اور اگر تم سفر پر ہو اور (دستاویز لکھنے والا مل نہ سکے) تو (کوئی چیز) رہن باقبضہ رکھ کر) قرض لے لو) اور اگر کوئی کسی کو امیں سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے اور خدا سے جو اس کو پروردگار ہے ڈرے اور دیکھنا شہادت کو مت چھپانا جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہو گا اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے (سورۃ البقرۃ آیت 283)
شھادۃ امانت کی طرح ہے۔ دوسری امانتوں کی طرح اس امانت کی ادائیگی بھی لازمی ہے۔ اگر کسی مسئلے کے بارے میں دو آدمیوں نے گواہی دی تو یہ فرض سب کی طرف سے ادا ہو گیا اور اگر کسی نے بھی گواہی نہ دی تو یہ سب پر فرض ہو گا اور باقی رہے گا۔ اگر گواہی دینے میں کوئی ضرر نہ ہو تو گواہی نہ دینے کی صورت میں وہ گنہگار ہو گا۔
انصاف پر قائم رہنے اور گواہی انصاف کے ساتھ دی جانی جاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ اِنۡ یَّکُنۡ غَنِیًّا اَوۡ فَقِیۡرًا فَاللّٰہُ اَوۡلٰی بِہِمَا ۟ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا
اے ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں عزیزوں کے وہ شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ ﷲ کو زیادہ تعلق ہے اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے ﷲ تعالٰی اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (سورۃ النساء آیت 135)
اے ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں عزیزوں کے وہ شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ ﷲ کو زیادہ تعلق ہے اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے ﷲ تعالٰی اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (سورۃ النساء آیت 135)
گواہ کو گواہی دینے پر تنگ نہیں کیاجائے گا اور ریاست کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ گواہ کو تحفظ فراہم کرے جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيۡدٌ
کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے (سورۃ البقرۃ آیت 282)
کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے (سورۃ البقرۃ آیت 282)
اسی طرح رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
لا ضرر ولا ضرار
اور ویسے بھی مسلمان کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کو فائدہ دینے کے لیے اپنے آپ کو ضرر دے۔ جس شخص کی گواہی قبول نہ ہوتی ہو اس پر گواہی لازمی نہیں ہے۔
جب کھبی بھی گواہ کو گواہی کی ادائیگی کے لیے کہا جائے اس کی طرف سے جس کا اس گواہی سے تعلق ہو تو گواہی کو چھپانا ناجائز ہے۔ کیونکہ جب گواہی کی ادائیگی کے لیے کہا جائے اور گواہی نہ دی جائے تو اس سے مراد گواہی دینے سے انکار ہو گا اور یہ کتم شھادۃ ہی کے مترادف ہے اور بغیر عذر کے گواہی نہ دینا گناہ کبیرہ میں سے ہے اور مسلمانوں کے گناہ سے اجتناب ضروری ہے۔
روایت میں آتا ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس کسی نے گواہی چھپائی جب وہ اس کے لیے بلایا گیا ایسے ہی ہے جیسے کسی نے جھوٹی گواہی دی
حدیث شریف میں ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
جھوٹے گواہ کے پاؤں جگہ سے ہٹنے نہ پائیں گے کہ ﷲ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔
گواہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسی اسی واقعہ کی گواہی دے جس کے تئیں اسے مکمل آگاہی اور معرفت ہو۔ایسے امور سے متعلق گواہی نہ دے جس کے بابت اسے خبر ہی نہ ہو۔ﷲ تعالیٰ نے فرمایا
وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا
اور اے بندے جس چیز کا تجھے علم نہیں اسکے پیچھے نہ پڑ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب اعضاء کے بارے میں ضرور باز پرس ہو گی۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 36)
اور اے بندے جس چیز کا تجھے علم نہیں اسکے پیچھے نہ پڑ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب اعضاء کے بارے میں ضرور باز پرس ہو گی۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 36)
ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے شہادت سے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم سورج دیکھ رہے ہو، اسی کے مانند گواہی دو یا چھوڑ دو۔
مطلب یہ کہ جس واقعہ سے متعلق درست معلومات یا عینی رویت ہو اسی واقعہ سے متعلق گواہی پیش کی جائے ورنہ خاموش رہا جائے
گواہی کے قبول ہونے کی شرائط:
کوئی گواہی اس وقت ہی قابل قبول ہوتی ہے جب اس میں درج ذیل شروط موجود ہوں۔
- گواہ میں مطلوبہ شرائط موجود ہوں۔ گواہ بالغ ہو۔ چنانچہ بچوں کی گواہی سوائے بچوں کے معاملات کے قابل قبول نہ سمجھی جائے گی۔ دیوانہ اور پاگل وغیرہ کی گواہی غیر مقبول ہو گی۔اگر ایسا شخص ہو جس کو کبھی پاگل پن کا دورہ پڑتا ہو اور کبھی افاقہ ہو جاتا ہو تو ایسی صورت میں صرف افاقہ کی گواہی کا اعتبار ہو گا۔ گواہی قبول ہونے کے لئے گواہ کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ گونگے شخص کی گواہی نہ لی جائے گی اگرچہ اس کا اشارہ سمجھ میں آرہا ہو اس لئے کہ کہ گواہی میں یقین کا پایا جانا ضروری ہے۔اور گونگے کی گفتگو پر یقین کامل نہیں ہوسکتا۔
- دعویٰ دائر کرتے وقت گواہ موجود ہوں۔
- مدعی گواہ سے گواہی طلب کرے۔
- قاضی گواہ کو گواہی دینے کے لیے کہے۔
- گواہ گواہی "اشہد" کے لفظ سے شروع کرے اس لفظ کی جگہ اعلم کا لفظ یا کوئی اور لفظ اداد نہیں کیا جا سکتا تاہم ابن حزم کہتے ہیں کہ اشھد کے لفظ کی شرط لگانا درست نہیں ہے۔ اگر گواہ قاضی کو یہ کہہ کہ میں آپ کو مطلع کرتا ہوں یا آپ کو یہ کہتا ہوں وغیرہ تو ایسی صورت میں بھی گواہی قبول کر لی جائے گی۔
- گواہ اپنی گواہی کو انہی امور تک محدود رکھے گا جس کا مدعی نے دعویٰ کیا ہے۔
- گواہ گواہی اپنے الفاظ میں دے اگر وہ یہ کہے کہ میں بھی اس چیز کی گواہی دیتا ہو جس کو فلاں شخص نے دی تو اس کی بات قبول نہ ہو گی۔ بلکہ ضروری ہے کہ گواہی کی ادائیگی کے وقت وہ اپنے بیان کے ذریعے اپنا موقف واضی کرے
- گواہ قاضی کو وہ بتائے جو اس نے سنا یا دیکھا نہ کہ جو کچھ اس نے کسی واقع سے سمجھا۔ مثال کے طور پر گواہ کا یہ کہنا کہ میرا خیال ہے کہ اس نے ایسا کیا یا یہ کہ میں نے سنا ہے کہ وہ فلاں کا اتنی رقم کے لیے مقروض ہے تو یہ کہنا درست نہیں گواہی کا نتیجہ نکالنا گواہ کا کام نہیں قاضی کا کام ہے۔ پس گواہ کو اپنے آپ کو واقعات بتانے تک محدود رکھنا چاہیے۔
- اگر قاضی چاہے تو گواہوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے اور ان سے قسم لیکر گواہی لے لے۔ اگر اس طرح گواہی دینے میں وہ متفق ہوں تو ان کی گواہیوں کو قبول کر کے اس کے مطابق فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر ان کی گواہیوں میں تضاد ہو تو بھی حقیقت قاضی پر واضح ہو جائے گی۔
- قاضی گواہوں کی گواہی کو سنے چاہے مدعی علیہ موجود ہو یا نہ ہو۔ اگر دوسری سماعت کے موقع پر وہ گواہی دوبارہ سننے کی اپیل کر تو قاضی اس کی اپیل کو رد کر سکتا ہے۔
- جب گواہ گواہی دے چکے ہوں تو قاضی اس کی گواہی کو لکھ لے۔ گواہی کے ساتھ گواہ کا نام اس کا لقب، اس کا قبیلہ، اس کی رہائش کا پتہ اور اس مسجد کا نام لکھا جاے جس جگہ گواہ نماز ادا کرتا ہو اور پھر ان سب کو ریکارڈ میں محفوظ کر لیا جائے۔ (اسلامی قانون میں عدالتی طریقہ کار)