1) شراب نوشی کا مفہوم:
شراب نوشی کے مفہوم کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، چنانچہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک کسی بھی نشہ آور شے کا پینا شراب (مے نوشی) کے مفہوم میں داخل ہے۔ خواہ وہ نشہ اور شے خمر کہلاتی ہو یا نہ کہلاتی ہو اور خواہ وہ انگور کے عرق سے تیار کی ہوئی ہو یا کسی اور شے سے جیسے کھجور، کشمش، گیہوں، جو اور چاول وغیرہ سے تیار کردہ شراب اور خواہ اس نشہ اور شے کی کم مقدار سے ہی نشہ آ جاتا ہو یا زیادہ مقدار سے آتا ہو۔
امام ابو حنیفہ کے نزدیک صرف خمر کا پینا مے نوشی کے ذیل میں آتا ہے کم مقدار میں پیئے یا زیادہ۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک خمر کا اطلاق درج ذیل پر ہوتا ہے۔
1: انگور کا عرق (رکھے رکھے) گاڑھا ہو جائے اس میں تیزی آجائے اور جھاگ اٹھ آئے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک عرق انگور گاڑھا ہو کر اور شدت آکر خمر بن جاتا ہے۔ خواہ جھاگ آئے یا نہ آئے۔
2: انگو کا عرق پکا لیا جائے اور اس کا دو دہائی سے زیادہ خشک ہو جائے اور وہ نشہ آور بن جائے۔
3: کھجور اور کشمش کا پانی جس میں گاڑھا ہو کر شدت پیدا ہو جائے اور جھاگ آجائے۔
مندرجہ بالا تین اقسام کے علاوہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک خمر نہیں ہے۔
2) شراب کے بارے میں حکم:
قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمت شراب کا قانون یک لخت نافذ نہیں ہوا۔ بلکہ تدریجاً نافذ ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں پہلے یہ نص اورد ہوئی۔
اس فرمان کے بعد قرآن میں شراب کے گناہ ہونے کے بارے میں آیت نازل ہوئی۔
اس کے بعد قرآن میں قطعی تحریم کا حکم نازل ہوا۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ارشاد ہے:
حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ
جس شے کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرتی ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے
3) شراب نوشی کے ارکان:
1: شراب پینا:
امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک مجرم (شرابی) کے کوئی بھی نشہ آور مشروب پی لینے سے یہ رکن پورا ہو جاتا ہے اور مشروب کے نام اور اس مواد کا جس سے وہ بنایا گیا ہو کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اس لیے یہ امر مساوی ہے کہ وہ مشروب انگور سے تیار کیا گیا ہو یا کھجور سے کیا گیا ہو یا گیہوں سے، جو، گنے کے رس یا سیب یا کسی اور چیز سے تیار کیا گیا ہو۔ اسی طرح اس بات کا بھی اعتبار نہیں ہے کہ اس مشروب میں سکر (نشہ) کی کس قدر قوت موجود ہے بلکہ جس مشروب کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے اگرچہ اس سے عملاً نشہ نہ ہو۔
چنانچہ اگر کوئی ایسا مشروب ہو جس سے مثلاً اس وقت نشہ ہوتا ہو جب کوئی آدمی اس کے دس پیالے پی لے یا اس سے بھی زیادہ پیئے تو اس مشروب کا ایک پیالہ بھی حرام ہو گا خواہ اس سے عملاً نشہ نہ ہوا ہو۔ بلکہ اسی طرح پیالے کا کچھ حصہ بھی حرام ہو گا اور شراب پینے کا رکن (رکن الشرب) تھوڑے یا زیادہ کے پی لینے سے وجود میں آجائے گا بشرطیکہ اس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو لیکن اگر کسی مشروب کی کثیر مقدار بھی نشہ نہ لاتی ہو تو وہ حرام نہیں ہے۔
سکر (نشہ):
اگر شے مشروب بذات خود جائز ہو تو سکر (نشہ) کے بغیر حد نہیں ہے جیسا کہ نشہ غیر مسلموں کے نزدیک بھی ناجائز ہے۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب خمر کے علاوہ مشروبات کے بارے میں فرماتے ہیں اگر مشروب ناجائز ہو تو اس پر حد حد شرب نہ ہو گی نہ کہ حد سکر اگرچہ اس کے پینے سے عملاً نشہ ہو جائے۔
گویا سکر (نشہ) کا درجہ شراب پینے کے بعد آتا ہے اور یہ شرب کا نتیجہ ہے۔ اس لیے لازمی ہے کہ جرم سکر میں جرم شراب کے ارکان پورے ہوں اور بعد ازاں اس کے پینے سے نشہ ہو جائے۔ اگر نشہ نہ ہو تو پینے پر یا سکر پر حد نہیں ہے اگرچہ مجرم نے اسی ارادے سے پی ہو کہ اسے نشہ ہو جائے۔
جس سکر پر حد لازم ہوتی ہے اس کی تعبیر میں بھی اختلاف ہے۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ کی رائے یہ ہے کہ
امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک سکران وہ ہے جس کے کلام پر ہذیان غالب آجائے۔
2: مجرمانہ ارادہ:
شارب کا مجرمانہ ارادہ اس وقت موجود تصور ہو گا جب وہ یہ جانتے ہوئے پیئے کہ وہ خمر پی رہا ہے یا نشہ آور چیز پی رہا ہے۔ اگر اس نے نشہ آور شے پی اور اسے یہ علم نہ ہو کہ اس کی مقدار کثیر نشہ لانے والی ہے تو اس پر حد نہیں ہے اگرچہ اسے عملاً نشہ ہو جائے۔ اسی طرح اگر اس نے کوئی نشہ آور چیز یہ سمجھ کر پی لی کہ یہ کوئی اور غیر نشہ آور چیز ہے تو اس پر حد نہیں ہے اور اس صورت میں کوئی تعزیری سزا بھی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ ظاہر ہو جائے کہ یہ پی لینا بڑی خطا یا عدم احتیاط کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ جرم عمد ہے اور اس میں فعل کا عمدا ارتکاب کرنا لازمی ہے۔
اگر مجرم کوتحریم خمر کا حکم معلوم نہ ہو تو جرمانہ ارادہ کو غیر موجود تصور کیا جائے گا، اگرچہ اسے یہ معلوم ہو کہ یہ مشروب نشہ آور ہے لیکن اس شخص کا ناواقفیت کا عذر قابل قبول نہ ہو گا جو اسلامی ملک میں پلا بڑھا ہو کیونکہ مسلمانوں میں رہنے سے یہ بات فرض کی جا سکتی ہے کہ اسے تحریم خمر کے علم کا علم ہو گیا ہو گا۔ لیکن جو شخص کسی غیر اسلامی ملک میں پلا بڑھا ہو اس کا عدم واقفیت کا دعویٰ قبول کیا جائے گا بشرطیکہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ واقعی تحریم خمر سے نا آشنا ہے اور امام مالک کے نزدیک سزا سے ناواقفیت کو جواز بنانا بھی درست ہے مگر بہرحال تحریم سے ناواقفیت کا دعویٰ تو قابل قبول ہوسکتا ہے لیکن سزا سے ناواقفیت کا کوئی قبول نہیں ہے۔
4) شراب کی سزا:
امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک اور امام احمد کی ایک رائے کے مطابق جرم شراب پر اسی کوڑے مارے جائیں گے جبکہ امام شافعی کے نزدیک اور امام احمد کی رائے کے مطابق حد شراب صرف چالیس کوڑے ہیں۔ مگر امام مناسب خیال کرے تو ان کے نزدیک بھی اسی کوڑے مارنا درست ہے اس صورت میں اصل سزائے حد تو چالیس کوڑے ہو گی باقی چالیس کوڑے تعزیری سزا کے طور پر ہوں گے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک سکر پر بھی وہی سزا ہے جو محض شرب پر کیونکہ ان کے نزدیک یہ حد شرب اور سکر دونوں پر ہے۔
مقدار حد کے بارے میں فقہاء کرام کا اختلاف:
مقدار حد کے بارے میں فقہاء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ مقدار حد کے بارے میں فقہاء کرام کے اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں سزا کی تحدید نہیں ہے اور روایت کو حد خمر کے بارے میں صحابہ کے اجماع سے قطعیت کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حرمت خمر موجود ہونے کے باوجود آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خمر کی کوئی حد متعین نہیں فرمائی اور مے نوشی کم بیش کوڑے لگئے گئے مگر چالیس سے زیادہ تعداد نہیں بڑھی۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا کہ مے نوشی کی سزا کتنی ہے؟ تو انہوں نے چالیس کوڑے بیان کی۔ حضرت علی اور ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مے نوشی پر چالیس کوڑوں کی سزا جاری فرمائی۔ مگر جب حضرت عمر کا زمانہ خلافت آیا تو جرم مے نوشی کی سزا کے بارے میں لوگ متائل ہو گئے۔ حضرت عمر نے صحابہ سے مشورہ لیا تو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے فرمایا کہ مے نوشی کی سزا حدود میں سب سے کم سزا یعنی اسی کوڑے مقرر کر دیجیے چنانچہ حضرت عمر نے اسی کوڑوں کی سزا جاری فرمائی۔
کوڑوں کی سزا کے نفاذ کی کیفیت:
مے نوشی کے کوڑوں کی سزا کا نفاذ بھی اسی طرح ہو گا جس طرح حد زنا میں ہے۔ جب کہ بعض فقہاء کی رائے یہ ہے کہ مے نوشی کی حد میں جس پر حد لگائی جا رہی ہے اس کے کپڑے نہیں اتارے جائیں گے۔ اس لیے کہ حد خمر حدود میں سے سب سے ہلکی حد ہے تو اس تخفیف کے اظہار کے لیے اسے ملبوس رہنے دیا جائے گا۔ لیکن راجع رائے یہی ہے کہ حد خمر اور دوسری حدود کے نفاذ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور یہ تخفیف کوڑوں کی تعداد سے پہلے ہی ظاہر ہے۔ (جرم و سزا کا اسلامی قانون (تعارف جرائم اور حدود))
شراب نوشی کے مفہوم کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، چنانچہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک کسی بھی نشہ آور شے کا پینا شراب (مے نوشی) کے مفہوم میں داخل ہے۔ خواہ وہ نشہ اور شے خمر کہلاتی ہو یا نہ کہلاتی ہو اور خواہ وہ انگور کے عرق سے تیار کی ہوئی ہو یا کسی اور شے سے جیسے کھجور، کشمش، گیہوں، جو اور چاول وغیرہ سے تیار کردہ شراب اور خواہ اس نشہ اور شے کی کم مقدار سے ہی نشہ آ جاتا ہو یا زیادہ مقدار سے آتا ہو۔
امام ابو حنیفہ کے نزدیک صرف خمر کا پینا مے نوشی کے ذیل میں آتا ہے کم مقدار میں پیئے یا زیادہ۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک خمر کا اطلاق درج ذیل پر ہوتا ہے۔
1: انگور کا عرق (رکھے رکھے) گاڑھا ہو جائے اس میں تیزی آجائے اور جھاگ اٹھ آئے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک عرق انگور گاڑھا ہو کر اور شدت آکر خمر بن جاتا ہے۔ خواہ جھاگ آئے یا نہ آئے۔
2: انگو کا عرق پکا لیا جائے اور اس کا دو دہائی سے زیادہ خشک ہو جائے اور وہ نشہ آور بن جائے۔
3: کھجور اور کشمش کا پانی جس میں گاڑھا ہو کر شدت پیدا ہو جائے اور جھاگ آجائے۔
مندرجہ بالا تین اقسام کے علاوہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک خمر نہیں ہے۔
2) شراب کے بارے میں حکم:
قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمت شراب کا قانون یک لخت نافذ نہیں ہوا۔ بلکہ تدریجاً نافذ ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں پہلے یہ نص اورد ہوئی۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
اے ایمان والو نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ جب تک اتنا ہوش نہ ہو کہ جو کہو اسے سمجھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے۔ (سورۃ النساء آیت 43)
اے ایمان والو نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ جب تک اتنا ہوش نہ ہو کہ جو کہو اسے سمجھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے۔ (سورۃ النساء آیت 43)
اس فرمان کے بعد قرآن میں شراب کے گناہ ہونے کے بارے میں آیت نازل ہوئی۔
یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ٘-وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَاؕ-وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ۬ؕ-قُلِ الْعَفْوَؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ
آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تم فرما دو: ان دونوں میں کبیرہ گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ دنیوی منافع بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے۔آپ سے سوال کرتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں ) کیا خرچ کریں ؟ تم فرماؤ: جو زائد بچے۔ اسی طرح اللہ تم سے آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔ (سورۃ البقرۃ آیت 219)
آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تم فرما دو: ان دونوں میں کبیرہ گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ دنیوی منافع بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے۔آپ سے سوال کرتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں ) کیا خرچ کریں ؟ تم فرماؤ: جو زائد بچے۔ اسی طرح اللہ تم سے آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔ (سورۃ البقرۃ آیت 219)
اس کے بعد قرآن میں قطعی تحریم کا حکم نازل ہوا۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (سورۃ المائدۃ آیت 90)
اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (سورۃ المائدۃ آیت 90)
سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ارشاد ہے:
ہر مسکر (نشہ آور) خمر ہے اور خمر حرام ہے۔
حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ
جس شے کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرتی ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے
3) شراب نوشی کے ارکان:
1: شراب پینا:
امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک مجرم (شرابی) کے کوئی بھی نشہ آور مشروب پی لینے سے یہ رکن پورا ہو جاتا ہے اور مشروب کے نام اور اس مواد کا جس سے وہ بنایا گیا ہو کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اس لیے یہ امر مساوی ہے کہ وہ مشروب انگور سے تیار کیا گیا ہو یا کھجور سے کیا گیا ہو یا گیہوں سے، جو، گنے کے رس یا سیب یا کسی اور چیز سے تیار کیا گیا ہو۔ اسی طرح اس بات کا بھی اعتبار نہیں ہے کہ اس مشروب میں سکر (نشہ) کی کس قدر قوت موجود ہے بلکہ جس مشروب کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے اگرچہ اس سے عملاً نشہ نہ ہو۔
چنانچہ اگر کوئی ایسا مشروب ہو جس سے مثلاً اس وقت نشہ ہوتا ہو جب کوئی آدمی اس کے دس پیالے پی لے یا اس سے بھی زیادہ پیئے تو اس مشروب کا ایک پیالہ بھی حرام ہو گا خواہ اس سے عملاً نشہ نہ ہوا ہو۔ بلکہ اسی طرح پیالے کا کچھ حصہ بھی حرام ہو گا اور شراب پینے کا رکن (رکن الشرب) تھوڑے یا زیادہ کے پی لینے سے وجود میں آجائے گا بشرطیکہ اس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو لیکن اگر کسی مشروب کی کثیر مقدار بھی نشہ نہ لاتی ہو تو وہ حرام نہیں ہے۔
سکر (نشہ):
اگر شے مشروب بذات خود جائز ہو تو سکر (نشہ) کے بغیر حد نہیں ہے جیسا کہ نشہ غیر مسلموں کے نزدیک بھی ناجائز ہے۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب خمر کے علاوہ مشروبات کے بارے میں فرماتے ہیں اگر مشروب ناجائز ہو تو اس پر حد حد شرب نہ ہو گی نہ کہ حد سکر اگرچہ اس کے پینے سے عملاً نشہ ہو جائے۔
گویا سکر (نشہ) کا درجہ شراب پینے کے بعد آتا ہے اور یہ شرب کا نتیجہ ہے۔ اس لیے لازمی ہے کہ جرم سکر میں جرم شراب کے ارکان پورے ہوں اور بعد ازاں اس کے پینے سے نشہ ہو جائے۔ اگر نشہ نہ ہو تو پینے پر یا سکر پر حد نہیں ہے اگرچہ مجرم نے اسی ارادے سے پی ہو کہ اسے نشہ ہو جائے۔
جس سکر پر حد لازم ہوتی ہے اس کی تعبیر میں بھی اختلاف ہے۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ کی رائے یہ ہے کہ
سکران وہ شخص ہے جس کی عقل جاتی رہے وہ کوئی بات کم یا زیادہ نہ سمجھ پائے اور وہ آسمان اور زمین اور مرد اور عورت کے درمیان فرق نہ کرسکے
امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک سکران وہ ہے جس کے کلام پر ہذیان غالب آجائے۔
2: مجرمانہ ارادہ:
شارب کا مجرمانہ ارادہ اس وقت موجود تصور ہو گا جب وہ یہ جانتے ہوئے پیئے کہ وہ خمر پی رہا ہے یا نشہ آور چیز پی رہا ہے۔ اگر اس نے نشہ آور شے پی اور اسے یہ علم نہ ہو کہ اس کی مقدار کثیر نشہ لانے والی ہے تو اس پر حد نہیں ہے اگرچہ اسے عملاً نشہ ہو جائے۔ اسی طرح اگر اس نے کوئی نشہ آور چیز یہ سمجھ کر پی لی کہ یہ کوئی اور غیر نشہ آور چیز ہے تو اس پر حد نہیں ہے اور اس صورت میں کوئی تعزیری سزا بھی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ ظاہر ہو جائے کہ یہ پی لینا بڑی خطا یا عدم احتیاط کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ جرم عمد ہے اور اس میں فعل کا عمدا ارتکاب کرنا لازمی ہے۔
اگر مجرم کوتحریم خمر کا حکم معلوم نہ ہو تو جرمانہ ارادہ کو غیر موجود تصور کیا جائے گا، اگرچہ اسے یہ معلوم ہو کہ یہ مشروب نشہ آور ہے لیکن اس شخص کا ناواقفیت کا عذر قابل قبول نہ ہو گا جو اسلامی ملک میں پلا بڑھا ہو کیونکہ مسلمانوں میں رہنے سے یہ بات فرض کی جا سکتی ہے کہ اسے تحریم خمر کے علم کا علم ہو گیا ہو گا۔ لیکن جو شخص کسی غیر اسلامی ملک میں پلا بڑھا ہو اس کا عدم واقفیت کا دعویٰ قبول کیا جائے گا بشرطیکہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ واقعی تحریم خمر سے نا آشنا ہے اور امام مالک کے نزدیک سزا سے ناواقفیت کو جواز بنانا بھی درست ہے مگر بہرحال تحریم سے ناواقفیت کا دعویٰ تو قابل قبول ہوسکتا ہے لیکن سزا سے ناواقفیت کا کوئی قبول نہیں ہے۔
4) شراب کی سزا:
امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک اور امام احمد کی ایک رائے کے مطابق جرم شراب پر اسی کوڑے مارے جائیں گے جبکہ امام شافعی کے نزدیک اور امام احمد کی رائے کے مطابق حد شراب صرف چالیس کوڑے ہیں۔ مگر امام مناسب خیال کرے تو ان کے نزدیک بھی اسی کوڑے مارنا درست ہے اس صورت میں اصل سزائے حد تو چالیس کوڑے ہو گی باقی چالیس کوڑے تعزیری سزا کے طور پر ہوں گے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک سکر پر بھی وہی سزا ہے جو محض شرب پر کیونکہ ان کے نزدیک یہ حد شرب اور سکر دونوں پر ہے۔
مقدار حد کے بارے میں فقہاء کرام کا اختلاف:
مقدار حد کے بارے میں فقہاء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ مقدار حد کے بارے میں فقہاء کرام کے اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں سزا کی تحدید نہیں ہے اور روایت کو حد خمر کے بارے میں صحابہ کے اجماع سے قطعیت کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حرمت خمر موجود ہونے کے باوجود آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خمر کی کوئی حد متعین نہیں فرمائی اور مے نوشی کم بیش کوڑے لگئے گئے مگر چالیس سے زیادہ تعداد نہیں بڑھی۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا کہ مے نوشی کی سزا کتنی ہے؟ تو انہوں نے چالیس کوڑے بیان کی۔ حضرت علی اور ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مے نوشی پر چالیس کوڑوں کی سزا جاری فرمائی۔ مگر جب حضرت عمر کا زمانہ خلافت آیا تو جرم مے نوشی کی سزا کے بارے میں لوگ متائل ہو گئے۔ حضرت عمر نے صحابہ سے مشورہ لیا تو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے فرمایا کہ مے نوشی کی سزا حدود میں سب سے کم سزا یعنی اسی کوڑے مقرر کر دیجیے چنانچہ حضرت عمر نے اسی کوڑوں کی سزا جاری فرمائی۔
کوڑوں کی سزا کے نفاذ کی کیفیت:
مے نوشی کے کوڑوں کی سزا کا نفاذ بھی اسی طرح ہو گا جس طرح حد زنا میں ہے۔ جب کہ بعض فقہاء کی رائے یہ ہے کہ مے نوشی کی حد میں جس پر حد لگائی جا رہی ہے اس کے کپڑے نہیں اتارے جائیں گے۔ اس لیے کہ حد خمر حدود میں سے سب سے ہلکی حد ہے تو اس تخفیف کے اظہار کے لیے اسے ملبوس رہنے دیا جائے گا۔ لیکن راجع رائے یہی ہے کہ حد خمر اور دوسری حدود کے نفاذ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور یہ تخفیف کوڑوں کی تعداد سے پہلے ہی ظاہر ہے۔ (جرم و سزا کا اسلامی قانون (تعارف جرائم اور حدود))