یہاں انقلاب لانے کی بات دہی اور دھنیہ پودینہ لانے کی طرح ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے قوم نے سیاستدانوں سے کہا ہو ‘سنیے، ایک کلو انقلاب لیتے آئیے گا اور دیکھ کر لائیے گا، ٹھیلے والا خراب نہ دے دے،’ اور پھر سیاستدان انقلاب لانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
دنیا میں اتنے انقلاب نہیں آئے جتنے یہاں قائدِ انقلاب ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کسی نے انقلاب کا پہلا قاعدہ بھی نہیں پڑھا ہو گا، یوں قاعدے سے تو انہیں انقلاب کی بات کرنی ہی نہیں چاہیے، مگر معاملہ فائدے کا ہو تو کیا کیا جائے۔
یہ جملہ بار بار سُننے کو ملتا ہے کہ ‘انقلاب دستک دے رہا ہے’، میں نے بارہا سوچا کہ ایسا کہنے والوں سے پوچھیں، بھیا! یہاں غیر قانونی تارکین وطن، منشیات، اسلحہ، دہشتگرد دروازہ کھٹکھٹائے اور گھنٹی بجائے بغیر وارد ہوجاتے ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آواز آئے ’ٹنگ ٹانگُ‘ پوچھا جائے، کون ہے؟ جواب ملے ‘اے بہن! میں ہوں منشیات، ذرا دروازہ تو کھولو اندر آکر پھیلنا ہے’۔ تو یہ انقلاب دستک دے کر کیوں آنا چاہتا ہے؟
ممکن ہے ہماری طرف آنے والا انقلاب بہت شریف، نفیس اور وضع دار ہو، اندر آنے کے لیے دروازہ بجاتا ہو اور کون کے سوال پر کہتا ہو ‘حضور، فدوی کو انقلاب کہتے ہیں، اندر آنے کی اجازت مرحمت فرمادیجیے، عین نوازش ہوگی،’ لیکن جب جواب ملتا ہو ‘معاف کرو بابا’ تو انقلاب میاں دروازہ چھوڑ کر پتلی گلی پکڑ لیتے ہوں۔
دنیا میں اتنے انقلاب نہیں آئے جتنے یہاں قائدِ انقلاب ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کسی نے انقلاب کا پہلا قاعدہ بھی نہیں پڑھا ہو گا، یوں قاعدے سے تو انہیں انقلاب کی بات کرنی ہی نہیں چاہیے، مگر معاملہ فائدے کا ہو تو کیا کیا جائے۔
یہ جملہ بار بار سُننے کو ملتا ہے کہ ‘انقلاب دستک دے رہا ہے’، میں نے بارہا سوچا کہ ایسا کہنے والوں سے پوچھیں، بھیا! یہاں غیر قانونی تارکین وطن، منشیات، اسلحہ، دہشتگرد دروازہ کھٹکھٹائے اور گھنٹی بجائے بغیر وارد ہوجاتے ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آواز آئے ’ٹنگ ٹانگُ‘ پوچھا جائے، کون ہے؟ جواب ملے ‘اے بہن! میں ہوں منشیات، ذرا دروازہ تو کھولو اندر آکر پھیلنا ہے’۔ تو یہ انقلاب دستک دے کر کیوں آنا چاہتا ہے؟
ممکن ہے ہماری طرف آنے والا انقلاب بہت شریف، نفیس اور وضع دار ہو، اندر آنے کے لیے دروازہ بجاتا ہو اور کون کے سوال پر کہتا ہو ‘حضور، فدوی کو انقلاب کہتے ہیں، اندر آنے کی اجازت مرحمت فرمادیجیے، عین نوازش ہوگی،’ لیکن جب جواب ملتا ہو ‘معاف کرو بابا’ تو انقلاب میاں دروازہ چھوڑ کر پتلی گلی پکڑ لیتے ہوں۔