ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ، کسی گاؤں میں کسان اور اس کی بیوی ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کسان فصل کاشت کرتا، جب فصل پک جاتی تو وہ اسے بازار میں اچھے داموں فروخت کر دیتا، یوں ان کا گزرا ہوتا، دن گزرتے رہے۔ پھر اچانک موسم میں تبدیلیاں آنے لگیں، اب کسان جو بھی فصل کاشت کرتا وہ سوکھ جاتی، جب وہ سوکھی فصل بیچنے جاتا تو کوئی اسے نہیں خریدتا۔ رفتہ رفتہ اس کے اتنے بُرے دن آگئے کہ ادھار مانگ مانگ کر گزارا کرنا پڑتا۔ لیکن کوئی کب تک اُدھار دیتا۔ آخر سب نے آہستہ آہستہ ادھار دینے سے بھی منع کر دیا۔ بالآخر وہ اپنا گھر بیچ کر جھونپڑی میں آگیا اور اُس کے پاس کھانے کے بھی پیسے نہ رہے تو وہ جنگل کی طرف نکل گیا کہ وہاں سے کچھ نہ کچھ کھانے کو مل جائے گا۔ جب وہ جنگل کی طرف جانے کے لیے نکلا تو اس کی بیوی نے اس سے پوچھا کہ ’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘۔ کسان نے ً جواب دیا کہ، ’’میں جنگل جا رہا ہوں تاکہ انگور کے درخت سے انگور اور سیب کی بیلوں سے سیب توڑ کر لے آؤں‘‘۔ یہ سننا تھا کہ، اس کی بیوی نے اسے سمجھایا کہ ’’ارے بے وقوف انگور درختوں پر نہیں بیلوں پر لگتے ہیں اور سیب بیلوں پر نہیں درختوں پر‘‘۔ مگر کسان نے یہ ماننے سے انکار کر دیا اور جنگل کی طرف نکل گیا۔
جنگل میں ایک شیر نے اس پر حملہ کر دیا تو کسان بہت گھبرا گیا کہ اب کیا کرے، کیسے اپنی جان بچائے۔ اس نے شیر کی منت سماجت شروع کر دی کہ، ’’ش ش ش۔۔۔ شیر میاں، مجھے چھوڑ دو، مجھے جانے دو میں تو پہلے ہی حالات کا مارا ہوں، میرا سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ اب میں جنگل میں انگور کے درختوں سے انگور اور سیب کی بیلوں سے سیب توڑ نے آیا ہوں، تاکہ اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ بھر سکوں۔ مجھ غریب، کمزور انسان کو کھا کر آپ کو کیا ملے گا، اگر کچھ کھانا ہی ہے تو پھل کھائیں اس سے طاقت بھی آئے گی اور آپ تازہ دم بھی محسوس کریں گے۔‘‘
شیر کسان کی باتیں سن کر چکرا گیا اور کہا، ’’ارے بےوقوف سیب بیلوں پر نہیں درخت پر اور انگور درخت پر نہیں بیلوں پر لگتے ہیں‘‘۔ لیکن کسان نہیں مانا اور اپنی بات پر قائم رہا۔ شیر نے غصے سے کہا کہ، ’’مجھے تو تم کم عقل معلوم ہوتے ہو، بھاگ جاؤ یہاں سے، کہیں میں بھی تمہیں کھا کر تمہاری طرح کم عقل، بے وقوف نہ ہوجاؤں‘‘
کسان اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ گیا، پھر جلدی جلدی سیب اور انگور توڑ کر اپنے تھیلے میں جمع کر کے گھر آگیا۔ گھر پہنچ کر سارا قصہ بیوی کو سنایا اور مزے مزے سے سیب اور انگور کھائے۔ اب اس کی بیوی پریشان ہے کہ آخر بے وقوف کون ہے شیر یا میرا شوہر۔۔۔!!
جنگل میں ایک شیر نے اس پر حملہ کر دیا تو کسان بہت گھبرا گیا کہ اب کیا کرے، کیسے اپنی جان بچائے۔ اس نے شیر کی منت سماجت شروع کر دی کہ، ’’ش ش ش۔۔۔ شیر میاں، مجھے چھوڑ دو، مجھے جانے دو میں تو پہلے ہی حالات کا مارا ہوں، میرا سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ اب میں جنگل میں انگور کے درختوں سے انگور اور سیب کی بیلوں سے سیب توڑ نے آیا ہوں، تاکہ اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ بھر سکوں۔ مجھ غریب، کمزور انسان کو کھا کر آپ کو کیا ملے گا، اگر کچھ کھانا ہی ہے تو پھل کھائیں اس سے طاقت بھی آئے گی اور آپ تازہ دم بھی محسوس کریں گے۔‘‘
شیر کسان کی باتیں سن کر چکرا گیا اور کہا، ’’ارے بےوقوف سیب بیلوں پر نہیں درخت پر اور انگور درخت پر نہیں بیلوں پر لگتے ہیں‘‘۔ لیکن کسان نہیں مانا اور اپنی بات پر قائم رہا۔ شیر نے غصے سے کہا کہ، ’’مجھے تو تم کم عقل معلوم ہوتے ہو، بھاگ جاؤ یہاں سے، کہیں میں بھی تمہیں کھا کر تمہاری طرح کم عقل، بے وقوف نہ ہوجاؤں‘‘
کسان اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ گیا، پھر جلدی جلدی سیب اور انگور توڑ کر اپنے تھیلے میں جمع کر کے گھر آگیا۔ گھر پہنچ کر سارا قصہ بیوی کو سنایا اور مزے مزے سے سیب اور انگور کھائے۔ اب اس کی بیوی پریشان ہے کہ آخر بے وقوف کون ہے شیر یا میرا شوہر۔۔۔!!