اشفاق احمد کون تھے؟

ایم راقم

وفقہ اللہ
رکن
اشفاق احمد کون تھے؟
Sep 07, 2020


(ایک تعارف)

پیدائش: 22 اگست، 1925ء


انتقال: 7 ستمبر، 2004ء

ممتازاردو افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، نثر نگار۔ لاہور میں پیدا ہوئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا، اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈکاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج لاہور میں دو سال تک اردو کے لیکچرر کے طور پر کام کیا اور بعد میں روم یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوگ?۔وطن واپس آکر انہوں نے ادبی مجلہ داستان گو جاری کیا جو اردو کے آفسٹ طباعت میں چھپنے والے ابتدائی رسالوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دو سال ہفت روزہ لیل و نہار کی ادارت بھی کی۔

جونی ڈیپ "اصل"امبر ہرڈ نے "مگر مچھ کے آنسو" بہائے، ہرجانہ کیس سننے والی جیوری کے رکن کا دعویٰ
وہ 1968ء میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔ وہ انیس سو نواسی تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ وہ صدر جنرل ضیاء الحق کیدور میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گ?۔اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے اور انیس سو ترپن میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔ انہوں نے اردو میں پنجابی الفاظ کا تخلیقی طور پر استعمال کیا اور ایک خوبصورت شگفتہ نثر ایجاد کی جو ان ہی کا وصف سمجھی جاتی ہے۔ اردو ادب میں کہانی لکھنے کے فن پر اشفاق احمد کو جتنا عبور تھا وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔

ٹریفک اہلکار نے اپنی مارننگ واک کیلئے سڑک بند کردی
ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر (سفرنامہ)، کھیل کہانی (ناول)، ایک محبت سو ڈرامے (ڈرامے) اور توتا کہانی (ڈرامے) ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ انیس سو پینسٹھ سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور دومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور تیس سال سے زیادہ چلتا رہا۔

ساٹھ کی دہائی میں اشفاق احمد نے دھوپ اور سائے نام سے ایک نئی طرح کی فیچر فلم بنائی جس کے گیت مشہور شاعر منیر نیازی نے لکھے اور طفیل نیازی نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی اور اداکار قوی خان اس میں پہلی مرتبہ ہیرو کے طور پر آئے تھے۔ اس فلم کا مشہور گانا تھا اس پاس نہ کئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے۔ تاہم فلم باکس آفس پر ناکامیاب ہوگئی۔

ٹیپو سلطان کے بعد میسور پر کیا گزری ؟
70 کی دہائی کے شروع میں اشفاق احمد نے معاشرتی اور رومانی موضوعات پر ایک محبت سو افسانے کے نام سے ایک ڈرامہ سیریز لکھی اور اسی کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی۔ توتا کہانی اور من چلے کا سودا میں وہ تصوف کی طرف مائل ہوگئے اور ان پر خاصی تنقید کی گئی۔ اشفاق احمد اپنے ڈراموں میں پلاٹ سے زیادہ مکالمے پر زور دیتے تھے اور ان کے کردار طویل گفتگو کرتے تھے۔

کچھ عرصہ سے وہ پاکستان ٹیلی وڑن پر زاویے کے نام سے ایک پروگرام کرتے رہے جس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں قصے اور کہانیاں سناتے تھے۔ جگر کی رسولی کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔

روزانہ آدھ گھنٹہ تک اکیلے سوچیں، آپ محسوس کریں گے کہ آپ ک

(ایک تعارف)

پیدائش: 22 اگست، 1925ء


انتقال: 7 ستمبر، 2004ء

ممتازاردو افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، نثر نگار۔ لاہور میں پیدا ہوئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا، اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈکاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج لاہور میں دو سال تک اردو کے لیکچرر کے طور پر کام کیا اور بعد میں روم یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوگ?۔وطن واپس آکر انہوں نے ادبی مجلہ داستان گو جاری کیا جو اردو کے آفسٹ طباعت میں چھپنے والے ابتدائی رسالوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دو سال ہفت روزہ لیل و نہار کی ادارت بھی کی۔

وہ 1968ء میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔ وہ انیس سو نواسی تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ وہ صدر جنرل ضیاء الحق کیدور میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گ?۔اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے اور انیس سو ترپن میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔ انہوں نے اردو میں پنجابی الفاظ کا تخلیقی طور پر استعمال کیا اور ایک خوبصورت شگفتہ نثر ایجاد کی جو ان ہی کا وصف سمجھی جاتی ہے۔ اردو ادب میں کہانی لکھنے کے فن پر اشفاق احمد کو جتنا عبور تھا وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔


ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر (سفرنامہ)، کھیل کہانی (ناول)، ایک محبت سو ڈرامے (ڈرامے) اور توتا کہانی (ڈرامے) ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ انیس سو پینسٹھ سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور دومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور تیس سال سے زیادہ چلتا رہا۔

ساٹھ کی دہائی میں اشفاق احمد نے دھوپ اور سائے نام سے ایک نئی طرح کی فیچر فلم بنائی جس کے گیت مشہور شاعر منیر نیازی نے لکھے اور طفیل نیازی نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی اور اداکار قوی خان اس میں پہلی مرتبہ ہیرو کے طور پر آئے تھے۔ اس فلم کا مشہور گانا تھا اس پاس نہ کئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے۔ تاہم فلم باکس آفس پر ناکامیاب ہوگئی۔

ٹیپو سلطان کے بعد میسور پر کیا گزری ؟
70 کی دہائی کے شروع میں اشفاق احمد نے معاشرتی اور رومانی موضوعات پر ایک محبت سو افسانے کے نام سے ایک ڈرامہ سیریز لکھی اور اسی کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی۔ توتا کہانی اور من چلے کا سودا میں وہ تصوف کی طرف مائل ہوگئے اور ان پر خاصی تنقید کی گئی۔ اشفاق احمد اپنے ڈراموں میں پلاٹ سے زیادہ مکالمے پر زور دیتے تھے اور ان کے کردار طویل گفتگو کرتے تھے۔

کچھ عرصہ سے وہ پاکستان ٹیلی وڑن پر زاویے کے نام سے ایک پروگرام کرتے رہے جس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں قصے اور کہانیاں سناتے تھے۔ جگر کی رسولی کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جونی ڈیپ "اصل"امبر ہرڈ نے "مگر مچھ کے آنسو" بہائے، ہرجانہ کیس سننے والی جیوری کے رکن کا دعویٰ
ٹریفک اہلکار نے اپنی مارننگ واک کیلئے سڑک بند کردی
ٹیپو سلطان کے بعد میسور پر کیا گزری ؟

روزانہ آدھ گھنٹہ تک اکیلے سوچیں، آپ محسوس کریں گے کہ آپ ک
ٹیپو سلطان کے بعد میسور پر کیا گزری ؟
آپ کے مضمون میں یہ سب کیا ہے؟
 

ایم راقم

وفقہ اللہ
رکن
جب یہ مضمون اپلوڈ ہوا تھا تو بہت کوشش کی کہ اسے حذف کروں مگر حذف کا کوئی آپشن ہی نہیں مل رہا تھا
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
آپ کے مضمون میں یہ سب کیا ہے؟
ویسے جب مضمون پڑھ رہا تھا تو اچانک جب یہ سطر تحریر میں آئی تو تو ہمارے ہوش اڑ گئے
جب غور کیا تو محسوس ہوا جن صاحب نے راقم صاحب کو یہ تحریر بھیجی تھی انہوں نے دوسرے مضامین کے عنوانین اس تحریر میں شامل فرما دیے ہیں
 

ایم راقم

وفقہ اللہ
رکن
ویسے جب مضمون پڑھ رہا تھا تو اچانک جب یہ سطر تحریر میں آئی تو تو ہمارے ہوش اڑ گئے
جب غور کیا تو محسوس ہوا جن صاحب نے راقم صاحب کو یہ تحریر بھیجی تھی انہوں نے دوسرے مضامین کے عنوانین اس تحریر میں شامل فرما دیے ہیں
بالکل درست کہا آپ نے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ویسے جب مضمون پڑھ رہا تھا تو اچانک جب یہ سطر تحریر میں آئی تو تو ہمارے ہوش اڑ گئے
جب غور کیا تو محسوس ہوا جن صاحب نے راقم صاحب کو یہ تحریر بھیجی تھی انہوں نے دوسرے مضامین کے عنوانین اس تحریر میں شامل فرما دیے ہیں
ہوتا ہے سائیں ہوتا ہے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مکمل تعارف نہیں البتہ ایک رائٹر بہت زبردست تھے ، اللہ پاک نے لکھنے کا ملکہ خوب عطا کیا ہوا تھا
جی بالکل نئے دور میں دلائل و اقوال ِ صحابہ کی بجائے ان ہی فلم نگاروں اور ڈرامہ نگاروں کے استعمال کیے جاتے ہیں
بچوں کو ارطغرل غازی اور عثمان کے سارے ڈائلاگ یاد ہیں
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
جی بالکل نئے دور میں دلائل و اقوال ِ صحابہ کی بجائے ان ہی فلم نگاروں اور ڈرامہ نگاروں کے استعمال کیے جاتے ہیں
بچوں کو ارطغرل غازی اور عثمان کے سارے ڈائلاگ یاد ہیں
مجھے ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں، شاید اسی فورم پر ایک سفر نامہ شئیر ہوا تھا جو سفر نامہ تھا
اس کے علاوہ کچھ تحریریں جیسے دوست احباب بھیج دیتے ہیں تو پڑھ لیتاہوں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
Top