ڈاکٹر ہو تو ایسا!

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
سرکاری اسپتال میں مریضوں کی کثرت تھی، جبکہ ڈاکٹروں کی فصل خشک سالی کا شکار نظر آتی تھی۔ آج ایک ہی ڈاکٹر صاحب ڈیوٹی پر تھے اور شاید نئے نئے یہاں آئے تھے جو اتنے حیران پریشان دکھائی دے رہے تھے۔مریضوں کی بہتات کے باعث بدحواس سے ہو گئے تھے اور بیک وقت کئی مریضوں کو چیک کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے ۔
ایک مریضہ کی نبض تھامے اس کے دل کا حال جاننے کی تگ و دو میں تھے اور یہ قطعاً بھول چکے تھے کہ وہ پچھلا مریض جسے پانچ منٹ قبل منہ کھولنے کا کہا تھا، ابھی تک منہ پھاڑے ان کو گھور رہا ہے۔جب اس پر نظر پڑی تو ہڑبڑا کر اس کے منہ کے غار میں تھرمامیٹر ٹھو نس کر منہ بند کر دیا، چند منٹ بعد تھرما میٹر نکالا اور عینک درست کرتے ہوئے درجہ حرارت پڑھنے کی کوشش کی، تھرمامیٹر کچھ مختلف سا محسوس ہوا۔ ۔ ۔ غور کیا تو سر پیٹ لینے کو دل چاہا ۔ یہ تو ان کا بال پوائنٹ تھا، ڈرتے ڈرتے مریض کی جانب دیکھا جو انتہائی شوق سے بولا۔’’سر جی یہ تھرمامیٹر وچ پنسل ضرور چائنہ آلیاں لائی ہونی اے۔ ۔ ۔ بڑے ای تیز بندے نیں جی۔ ۔ فیر کِنا بخار اے جی؟؟‘‘
(سر جی یہ تھرمامیٹر میں پنسل ضرور چائنا والوں نے لگائی ہوگی، بہت تیز بندے ہیں جی۔ پھر کتنا بخار ہے مجھے؟)
ڈاکٹر صاحب نے بھی جلدی سے اپنی غلطی پر پردہ ڈالا اور بولے۔’’ہاں ہاں ۔ ۔ ۔ نوے ڈگری کا بخار ہے،اچھا کیا جلدی آ گئے ورنہ بچنا مشکل ہو جاتا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے چند گولیاں نکالیں اور کہا،’یہ گولیاں کھا لینا ۔ ۔ ۔ اللہ نے چاہا تو شفا بھی ہو ہی جائے گی۔‘‘
مریض نے ایک نگاہ گولیوں پر ڈالی اور بولا،’’ڈاکٹر جی یہ ساری گولیاں میں نے ہی کھانی ہیں؟‘‘
ڈاکٹر صاحب جھنجھلا کر بولے،’’گھر میں کتنے بندے ہیں؟‘‘
’’نو جی‘‘
وہ انگلیوں پر گن کر بولا۔
’’یہ لو پانچ گولیاں اور سب کو ایک ایک دے دینا۔‘‘
مریض نے یوں خوش ہو کر سر ہلایا جیسے ڈاکٹر صاحب سے اسی رعایت کی امید تھی اور اٹھ کر چلا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے سکون کا سانس لیا اور اگلی مریضہ کی جانب متوجہ ہوئے۔۔ ۔ ۔
’’جی بہن ! آپ کا سینے کا ایکسرے ہو گیا،دکھائیے ادھر۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے ایکسرے تھاما اور ایک سرسری نگاہ ڈالی،اچانک چونک پڑے اور اور عینک درست کرتے ہوئے دوبارہ ایکسرے سامنے کیا۔
تھوڑی دیر غور فرماتے رہے پھر بولے،’’وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ ۔ ۔ ایک تو پتہ نہیں آپ لوگ اتنی لاپروائی کیوں کرتے ہیں۔‘‘
’’کیسی لاپروائی ڈاکٹر صاحب؟؟‘‘ مریضہ کے ساتھ وآنے والی خاتون نے پوچھا۔
’’بھئی یہ میرے خیال سے پچھلے چند دن میں بیسواں کیس ہے جس کا ٹی بی کی وجہ سے پھیپھڑا ہی غائب ہو چکا ہے، آپ لوگ پہلے چیک ہی نہیں کرواتے۔ ‘‘
’’ٹی بی۔ ۔ ۔ ۔ پھیپھڑا غائب۔ ۔ ۔ کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر صاحب۔ ۔ ۔؟؟‘‘
مریضہ کو غش سا آیا۔
’’لو جی ۔ ۔ ۔ آپ خود ہی دیکھ لیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ایکسرے مریضہ کے سامنے کیا اور ایک بالکل کالی جگہ اشارہ کیا۔
’’یہاں کبھی آپ کا پھیپھڑا ہوا کرتا تھا۔۔ ۔ ۔‘‘
’’اب کہاں ہے؟‘‘
’’ٹی بی کھا گئی۔ ۔ ۔‘‘
اور ساتھ ہی مریضہ نے بھاں بھاں کر کے رونا شروع کر دیا۔
’’اب کیا ہو گا جی؟؟‘‘
’’ہو گا کیا ۔ ۔ ۔ نو ماہ لگاتار علاج ہو گا۔‘‘
نو ماہ کا سن کر مریضہ کی آہ و بکا میں اضافہ ہو گیا۔
’’لوگ پروا ہی نہیں کرتے کل ایک آیا اس کا بایاں گردہ غائب تھا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے مریضہ کو دوا کی پرچی بنا کر دی اور تسلی دے کر فارغ کیا۔
ایک اور مریض مسمی سی صورت بنائے کھڑا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اس کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا،’’کیوں بھئی تمہارا بھی پھیپھڑ ا غائب ہے کیا؟‘‘
وہ رونی آواز میں بولا۔ ۔ ۔
’’ڈاکٹر جی۔ ۔ ۔ گل پھیپھڑے دی ہوندی تے رولا ای کوئی نائی ۔ ۔ ۔ پر میڈا تے کھبا ادھا دل ای گواچ گیا اے۔‘‘
(ڈاکٹر صاحب ۔ ۔ ۔ اگر بات پھیپھڑے کی ہوتی تو مسئلہ ہی کوئی نہیں تھا پر میرا تو بایاں آدھا دل ہی غائب ہے۔)
ڈاکٹر صاحب کو لگا کہ شاید انہیں سننے میں غلطی ہوئی ہے لیکن جب دوبارہ یہی جواب ملا تو گڑبڑا گئے۔ ایکسرے دیکھا تو واقعی آدھا دل نہیں تھا۔
ان کے ذہن میں کچھ چبھ سا رہا تھا، اسی دوران نگاہ اس ٹی بی والی مریضہ کے ایکسرے پر پڑی جو وہ وہیں چھوڑ گئی تھی۔
اس کو اٹھا یا اور اس پر دوبارہ نگاہ دوڑائی۔ ۔ ۔
اچانک ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ ۔ ۔ پھیپھڑا تو ٹی بی کھا گئی پر یہ بائیں جانب کی پسلیاں کون کھا گیا، تب ہی ان کے ذہن میں جواب ایک جھماکے کی طرح آیا ،ان کی ایکسرے مشین کی ایک سائیڈ ہی بلینک ہو چکی تھی ،وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ۔ ۔
بمشکل گمشدہ دل والے مریض کو یقین دلایا کہ اس کا دل اس کے سینے میں ہی ہے۔ اس کو یقین نہیں آتا تھا اور وہ یہی سمجھتا تھا کہ ضرور ڈاکٹر کوئی چکر چلا رہا ہے۔وہ بار بار کہتا۔ ۔ ۔
’’سر جی پر مینوں کھبے پاسے دل محسوس نہیں ہوندا۔‘‘
(سرجی پر مجھے بائیں طرف دل محسوس نہیں ہو رہا۔)
پر ڈاکٹر صاحب نے زبردستی اسے رخصت کیا ۔ ۔ ۔ ان کے ذہن میں وہ بیس کے قریب مریض گھوم رہے تھے جن کا وہ پچھلے دو ہفتے سے ٹی بی کا علاج کر رہے تھے۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
سرکاری اسپتال میں مریضوں کی کثرت تھی، جبکہ ڈاکٹروں کی فصل خشک سالی کا شکار نظر آتی تھی۔ آج ایک ہی ڈاکٹر صاحب ڈیوٹی پر تھے اور شاید نئے نئے یہاں آئے تھے جو اتنے حیران پریشان دکھائی دے رہے تھے۔مریضوں کی بہتات کے باعث بدحواس سے ہو گئے تھے اور بیک وقت کئی مریضوں کو چیک کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے ۔
ایک مریضہ کی نبض تھامے اس کے دل کا حال جاننے کی تگ و دو میں تھے اور یہ قطعاً بھول چکے تھے کہ وہ پچھلا مریض جسے پانچ منٹ قبل منہ کھولنے کا کہا تھا، ابھی تک منہ پھاڑے ان کو گھور رہا ہے۔جب اس پر نظر پڑی تو ہڑبڑا کر اس کے منہ کے غار میں تھرمامیٹر ٹھو نس کر منہ بند کر دیا، چند منٹ بعد تھرما میٹر نکالا اور عینک درست کرتے ہوئے درجہ حرارت پڑھنے کی کوشش کی، تھرمامیٹر کچھ مختلف سا محسوس ہوا۔ ۔ ۔ غور کیا تو سر پیٹ لینے کو دل چاہا ۔ یہ تو ان کا بال پوائنٹ تھا، ڈرتے ڈرتے مریض کی جانب دیکھا جو انتہائی شوق سے بولا۔’’سر جی یہ تھرمامیٹر وچ پنسل ضرور چائنہ آلیاں لائی ہونی اے۔ ۔ ۔ بڑے ای تیز بندے نیں جی۔ ۔ فیر کِنا بخار اے جی؟؟‘‘
(سر جی یہ تھرمامیٹر میں پنسل ضرور چائنا والوں نے لگائی ہوگی، بہت تیز بندے ہیں جی۔ پھر کتنا بخار ہے مجھے؟)
ڈاکٹر صاحب نے بھی جلدی سے اپنی غلطی پر پردہ ڈالا اور بولے۔’’ہاں ہاں ۔ ۔ ۔ نوے ڈگری کا بخار ہے،اچھا کیا جلدی آ گئے ورنہ بچنا مشکل ہو جاتا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے چند گولیاں نکالیں اور کہا،’یہ گولیاں کھا لینا ۔ ۔ ۔ اللہ نے چاہا تو شفا بھی ہو ہی جائے گی۔‘‘
مریض نے ایک نگاہ گولیوں پر ڈالی اور بولا،’’ڈاکٹر جی یہ ساری گولیاں میں نے ہی کھانی ہیں؟‘‘
ڈاکٹر صاحب جھنجھلا کر بولے،’’گھر میں کتنے بندے ہیں؟‘‘
’’نو جی‘‘
وہ انگلیوں پر گن کر بولا۔
’’یہ لو پانچ گولیاں اور سب کو ایک ایک دے دینا۔‘‘
مریض نے یوں خوش ہو کر سر ہلایا جیسے ڈاکٹر صاحب سے اسی رعایت کی امید تھی اور اٹھ کر چلا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے سکون کا سانس لیا اور اگلی مریضہ کی جانب متوجہ ہوئے۔۔ ۔ ۔
’’جی بہن ! آپ کا سینے کا ایکسرے ہو گیا،دکھائیے ادھر۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے ایکسرے تھاما اور ایک سرسری نگاہ ڈالی،اچانک چونک پڑے اور اور عینک درست کرتے ہوئے دوبارہ ایکسرے سامنے کیا۔
تھوڑی دیر غور فرماتے رہے پھر بولے،’’وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ ۔ ۔ ایک تو پتہ نہیں آپ لوگ اتنی لاپروائی کیوں کرتے ہیں۔‘‘
’’کیسی لاپروائی ڈاکٹر صاحب؟؟‘‘ مریضہ کے ساتھ وآنے والی خاتون نے پوچھا۔
’’بھئی یہ میرے خیال سے پچھلے چند دن میں بیسواں کیس ہے جس کا ٹی بی کی وجہ سے پھیپھڑا ہی غائب ہو چکا ہے، آپ لوگ پہلے چیک ہی نہیں کرواتے۔ ‘‘
’’ٹی بی۔ ۔ ۔ ۔ پھیپھڑا غائب۔ ۔ ۔ کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر صاحب۔ ۔ ۔؟؟‘‘
مریضہ کو غش سا آیا۔
’’لو جی ۔ ۔ ۔ آپ خود ہی دیکھ لیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ایکسرے مریضہ کے سامنے کیا اور ایک بالکل کالی جگہ اشارہ کیا۔
’’یہاں کبھی آپ کا پھیپھڑا ہوا کرتا تھا۔۔ ۔ ۔‘‘
’’اب کہاں ہے؟‘‘
’’ٹی بی کھا گئی۔ ۔ ۔‘‘
اور ساتھ ہی مریضہ نے بھاں بھاں کر کے رونا شروع کر دیا۔
’’اب کیا ہو گا جی؟؟‘‘
’’ہو گا کیا ۔ ۔ ۔ نو ماہ لگاتار علاج ہو گا۔‘‘
نو ماہ کا سن کر مریضہ کی آہ و بکا میں اضافہ ہو گیا۔
’’لوگ پروا ہی نہیں کرتے کل ایک آیا اس کا بایاں گردہ غائب تھا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے مریضہ کو دوا کی پرچی بنا کر دی اور تسلی دے کر فارغ کیا۔
ایک اور مریض مسمی سی صورت بنائے کھڑا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اس کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا،’’کیوں بھئی تمہارا بھی پھیپھڑ ا غائب ہے کیا؟‘‘
وہ رونی آواز میں بولا۔ ۔ ۔
’’ڈاکٹر جی۔ ۔ ۔ گل پھیپھڑے دی ہوندی تے رولا ای کوئی نائی ۔ ۔ ۔ پر میڈا تے کھبا ادھا دل ای گواچ گیا اے۔‘‘
(ڈاکٹر صاحب ۔ ۔ ۔ اگر بات پھیپھڑے کی ہوتی تو مسئلہ ہی کوئی نہیں تھا پر میرا تو بایاں آدھا دل ہی غائب ہے۔)
ڈاکٹر صاحب کو لگا کہ شاید انہیں سننے میں غلطی ہوئی ہے لیکن جب دوبارہ یہی جواب ملا تو گڑبڑا گئے۔ ایکسرے دیکھا تو واقعی آدھا دل نہیں تھا۔
ان کے ذہن میں کچھ چبھ سا رہا تھا، اسی دوران نگاہ اس ٹی بی والی مریضہ کے ایکسرے پر پڑی جو وہ وہیں چھوڑ گئی تھی۔
اس کو اٹھا یا اور اس پر دوبارہ نگاہ دوڑائی۔ ۔ ۔
اچانک ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ ۔ ۔ پھیپھڑا تو ٹی بی کھا گئی پر یہ بائیں جانب کی پسلیاں کون کھا گیا، تب ہی ان کے ذہن میں جواب ایک جھماکے کی طرح آیا ،ان کی ایکسرے مشین کی ایک سائیڈ ہی بلینک ہو چکی تھی ،وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ۔ ۔
بمشکل گمشدہ دل والے مریض کو یقین دلایا کہ اس کا دل اس کے سینے میں ہی ہے۔ اس کو یقین نہیں آتا تھا اور وہ یہی سمجھتا تھا کہ ضرور ڈاکٹر کوئی چکر چلا رہا ہے۔وہ بار بار کہتا۔ ۔ ۔
’’سر جی پر مینوں کھبے پاسے دل محسوس نہیں ہوندا۔‘‘
(سرجی پر مجھے بائیں طرف دل محسوس نہیں ہو رہا۔)
پر ڈاکٹر صاحب نے زبردستی اسے رخصت کیا ۔ ۔ ۔ ان کے ذہن میں وہ بیس کے قریب مریض گھوم رہے تھے جن کا وہ پچھلے دو ہفتے سے ٹی بی کا علاج کر رہے تھے۔
ڈاکٹر تو پھر ڈاکٹر ہے ہوتے ہیں بڑے کامیاب ڈاکٹر بھی دنیا میں پاے جاتے ہیں نہیں یقین تو اس نوجوان سے پوچھ لیتے ہیں
ایک ہشاش بشاش نوجوان خوشی سے اُچھلتا کودتا ناچتا ہوا ڈاکٹر کے پاس پہنچا اور انتہائی مسرت بھرے لہجے میں بولا ۔

’’بہت بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب ! مہربانی ،نوازش، کرم ،آپ تو واقعی کمال کے ڈاکٹر ہیں۔علاجِ مرض دور کرنے میںآپ کا مدِ مقابل نہیں ۔ یقین کیجئے آپ کے علاج سے مجھے زبردست فائدہ پہنچا ہے ۔

میں تمام عمر آپ کا ممنون ، آپ کا احسان مند رہوں گا ۔

ڈاکٹر نے غور سے اسے دیکھنے کے بعد کہا۔

’’مگر برخوردار! میں نے تو تمہارا علاج نہیں کیا ۔ ‘‘

’’میرا نہیں سر میری ساس کا علاج کیا تھا اور میں اسے ابھی ابھی دفن کرکے سیدھا قبرستان سے آپ کی طرف ہی آپ کا شکریہ ادا کرنے چلا آیا ہوں ۔‘‘

نوجوان نے اچھلتے ہوئے کہا ۔ ڈاکٹر کو سمجھنے کے لئیے ہمارا کم ازکم۔کمپوڈر ہو ہونا ضروری ہے ڈاکٹروں کے نسخے بس کمپوڈر ہی پڑھ سکتا ہے ہم تو نسخہ۔ہاتھ میں لئیے اس تحریر کو عبرانی یو نانی ۔یا سنسکرت ہی سمھج بیٹھتے ہیں ڈاکٹر کوئی نسخہ بتادے تو اسے غور سے سماعت فر ما کر عمل پیرا ہوں وگرنہ
ایک ہشاش بشاش نوجوان خوشی سے اُچھلتا کودتا ناچتا ہوا ڈاکٹر کے پاس پہنچا اور انتہائی مسرت بھرے لہجے میں بولا ۔

’’بہت بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب ! مہربانی ،نوازش، کرم ،آپ تو واقعی کمال کے ڈاکٹر ہیں۔علاجِ مرض دور کرنے میںآپ کا مدِ مقابل نہیں ۔ یقین کیجئے آپ کے علاج سے مجھے زبردست فائدہ پہنچا ہے ۔

میں تمام عمر آپ کا ممنون ، آپ کا احسان مند رہوں گا ۔

ڈاکٹر نے غور سے اسے دیکھنے کے بعد کہا۔

’’مگر برخوردار! میں نے تو تمہارا علاج نہیں کیا ۔ ‘‘

’’میرا نہیں سر میری ساس کا علاج کیا تھا اور میں اسے ابھی ابھی دفن کرکے سیدھا قبرستان سے آپ کی طرف ہی آپ کا شکریہ ادا کرنے چلا آیا ہوں ۔‘‘

نوجوان نے اچھلتے ہوئے کہا ۔






کھانا

ڈاکٹر نے مریض سے کہا ۔’’میں نے جو تمہیں کھا نے کے لئے کہا تھا وہ تم نے کھایا؟‘‘

مر یض نے جواب دیا۔’’کوشش تو بہت کی تھی مگر کا میاب نہ ہو سکا۔

’’ڈاکٹر نے جھلا کر کہا ۔’’کیا بے وقوفی ہے ۔ میں نے کہا تھا کہ جو چیزیں تمہارا تین سا لہ بچہ کھاتا ہے ،وہی تم کھاؤ ۔ تم سے اتنا بھی نہ ہو سکا ۔

مریض نے بے بسی سے جواب دیا ۔’’ہاں ڈاکٹر صاحب ! لیکن میرا بچہ تو موم بتی ، کوئلہ ، مٹی اور جوتے کے فیتے وغیرہ کھاتا ہے ‘‘۔





کھانا

ڈاکٹر نے مریض سے کہا ۔’’میں نے جو تمہیں کھا نے کے لئے کہا تھا وہ تم نے کھایا؟‘‘

مر یض نے جواب دیا۔’’کوشش تو بہت کی تھی مگر کا میاب نہ ہو سکا۔

’’ڈاکٹر نے جھلا کر کہا ۔’’کیا بے وقوفی ہے ۔ میں نے کہا تھا کہ جو چیزیں تمہارا تین سا لہ بچہ کھاتا ہے ،وہی تم کھاؤ ۔ تم سے اتنا بھی نہ ہو سکا ۔

مریض نے بے بسی سے جواب دیا ۔’’ہاں ڈاکٹر صاحب ! لیکن میرا بچہ تو موم بتی ، کوئلہ ، مٹی اور جوتے کے فیتے وغیرہ کھاتا ہے ‘‘۔
 
Top