ایک ٹیچر نے ایک طالبہ کا ٹیسٹ لینے کے لیےاسے شعر کی تشریح کرنے کے لیے دیا۔ جواب جو آیا وہ اپنی جگہ ایک ماسٹر پیس ہے۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب۔۔۔۔
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں۔۔۔۔
طالبہ نے لکھا کہ ’’اِس شعر میں شاعر نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے ، کہ انہوں نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ فقیر بن کے پیسہ کمایا جائے‘ لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر ’چوک‘ میں کھڑے ہوگئے ‘ اُسی ’چوک ‘ میں ایک مداری اہل کرم کا تماشا کر رہا تھا ‘ شاعر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی ’بجائے تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب۔۔۔۔
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں۔۔۔۔
طالبہ نے لکھا کہ ’’اِس شعر میں شاعر نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے ، کہ انہوں نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ فقیر بن کے پیسہ کمایا جائے‘ لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر ’چوک‘ میں کھڑے ہوگئے ‘ اُسی ’چوک ‘ میں ایک مداری اہل کرم کا تماشا کر رہا تھا ‘ شاعر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی ’بجائے تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا۔