اور رہی تفرقہ بازی تو وہ میرے خیال میں ہر دور کا حصہ رہی ہے لیکن پھر بھی کام یابی اہل علم و عمل اور نبی کے ماننے والوں کو ملی ہےدیکھیں جس کو سیکھنے کی طلب ہو وہ اپنا گھر بار وطن چمن سب کو علم کی حقیقت کے لیے وقف کردیتے ہیں
اور رہی تفرقہ بازی تو وہ میرے خیال میں ہر دور کا حصہ رہی ہے لیکن پھر بھی کام یابی اہل علم و عمل اور نبی کے ماننے والوں کو ملی ہےدیکھیں جس کو سیکھنے کی طلب ہو وہ اپنا گھر بار وطن چمن سب کو علم کی حقیقت کے لیے وقف کردیتے ہیں
مولانا صاحب آپ کی بات درست ہے آپ نے ایک عرصہ گزارا ہے مدرسے میں لیکن جس کا دین کی طرف زیادہ دیہان نہ ہو اس کے ایمان کی بھی فکر کرنی ہےدیکھیں جس کو سیکھنے کی طلب ہو وہ اپنا گھر بار وطن چمن سب کو علم کی حقیقت کے لیے وقف کردیتے ہیں
تبلیغی جماعت کا کردار ایسے حالات میں انتہائی مثبت ہے۔بہت اچھا پوائنٹ اٹھایا ہے ایسے نظریات رکھنے والوں کے ہاتھ وہ پھنستے ہیں جن کو دین کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا حالیہ میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا ایک بندے سے اینکر نے پوچھا کوئی سے پانچ نبیوں کے نام بتا دو دو آدمی تھے دونوں کو پتہ نہیں پھر ایک آدمی سے پوچھا ہمارے نبی آخری نبی کا نام کیا اس کو پتہ نہیں پھر ایک سے پوچھا کہ ہمارا کلمہ کیا اس نے کہا ہم جھونپڑی والے ہیں ہمیں کلمہ تو نہیں آتا لیکن ہیں مسلمان اور ایسے ہی کم علم والے جو اپنے دین کے بارے کچھ نہیں جانتے ہالانکہ ان کو یہی نہیں پتہ کہ ہم امت کس کی ہیں وہ ایسے لوگوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں دین کے متعلق علم اور شعور حاصل کرکے ہی ایسے لوگوں سے بچا جا سکتا ہے ہمارے ہاں بہت بڑا طبقہ ہے جو دین کے متعلق کچھ نہیں جانتا اور ایسے لوگوں کے پاس سوشل میڈیا انٹرنیٹ کی سہولت بھی یقینا میسر نہیں ہوتی کہ کچھ نہ کچھ سیکھ سکیں ایسے لوگوں کا تعلق غریب اور پست ترین علاقوں سے ہے جو کہ ہمارے ہاں سندھ میں بھی پائے جاتے ہیں ایسے علاقوں میں دین کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے کیمپ لگانے چاہیے اور بڑی بات تو یہ ہے ایسے علاقوں میں سکول بھی موجود نہیں پھر ایسے لوگ ہر کسی کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔
جی بلکل تفرقہ بازی سے پاکتبلیغی جماعت کا کردار ایسے حالات میں انتہائی مثبت ہے۔
حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی سے ایک استفتاء کیا گیا کہ: تبلیغ دین اس زمانہ میں واجب ہے یا کچھ اور؟ تو حضرت نے جواباً تحریر فرمایا کہ: ”تبلیغ دین ہر زمانہ میں فرض ہے، اس زمانہ میں بھی فرض ہے لیکن فرض علی الکفایہ ہے، جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس میں جیسی اہلیت ہو اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صراحت قرآن کریم میں ہے سب سے بڑا معروف ایمان ہے اور سب سے بڑا منکر کفر ہے، ہر مومن اپنی اپنی حیثیت کے موافق مکلف ہے کہ خدائے پاک کے نازل فرمائے ہوئے دین کو حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے موافق پہونچاتا رہے“بات سکھانے کی نہیں سیکھنے کی ہوتی ہے۔ آج سے تقریبا چودہ سو سال پہلے کونسا انٹرنیٹ کا دور تھا؟ مگر پھر بھی اسلام تقریبا پوری دنیا تک پھیلا تھا، کیسے؟ وجہ ظاہر ہے سیکھنے کی حرص تھی۔
صحیح ہے۔حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی سے ایک استفتاء کیا گیا کہ: تبلیغ دین اس زمانہ میں واجب ہے یا کچھ اور؟ تو حضرت نے جواباً تحریر فرمایا کہ: ”تبلیغ دین ہر زمانہ میں فرض ہے، اس زمانہ میں بھی فرض ہے لیکن فرض علی الکفایہ ہے، جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس میں جیسی اہلیت ہو اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صراحت قرآن کریم میں ہے سب سے بڑا معروف ایمان ہے اور سب سے بڑا منکر کفر ہے، ہر مومن اپنی اپنی حیثیت کے موافق مکلف ہے کہ خدائے پاک کے نازل فرمائے ہوئے دین کو حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے موافق پہونچاتا رہے“
(فتاوی محمودیہ: ۵/۳۲، ط: میرٹھ)
گزارش ہےاس کی تھوڑی اور وضاحت کر دیں۔جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس میں جیسی اہلیت ہو اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی
آمین ثم آمیناللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ تمام مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرے اور ہمیں آنے والے فتنوں سے محفوظ رکھے۔آمین
جنیدالحسن نقشبندی
جس طرح آقاﷺ نے آخری خطبے میں ایک ذمہ داری امت پر ڈال دی کہ سنو! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہئے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں کو بتا دیں جو یہاں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔گزارش ہےاس کی تھوڑی اور وضاحت کر دیں۔
جی بلکلجس طرح آقاﷺ نے آخری خطبے میں ایک ذمہ داری امت پر ڈال دی کہ سنو! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہئے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں کو بتا دیں جو یہاں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔
تو تبلیغ دین کا کام امت کے ذمے ہو گیا۔
اب جس کے پاس علم ہے اس پر فرض ہے کہ ان لوگوں تک پہنچائیں جو لا علم ہیں۔ علمی مسائل اور دلائل کا حق علماء کا ہے۔
ہر شخص پر مفتی بننے کی ذمہ داری نہیں
باہمی انتشار کے مسائل میں شیعہ سنی خون ریزی سر فہرست ہے۔امت مسلمہ کو درپیش مسائل میں سے آپ کس مسئلہ کو کس درجہ پر رکھ کر دیکھتے ہیں؟
پر کرے گا کون؟باہمی انتشار کے مسائل میں شیعہ سنی خون ریزی سر فہرست ہے۔
ایک تو دین ہے دین میں انتشار نہیں دین کچھ فرقے ہیں جن میں دینی مسائل ہیں
لیکن ایک فرقہ صرف انتشار کا ہے وہ ہیں اہل تشیع
بریلوی دیوبندی اور جو اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں ان کے درمیان جو اختلافات ہیں اس میں خون ریز ی نہیں
لیکن خون ریزی کی ابتدا تب ہوتی ہے کہ جب اہل تشیع صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو گالی دیتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں
ایک عاقل بندہ تو سمجھ جاتا ہے کہ دین میں اس قسم کا انتشار نہیں اور جو کرے ان پر پابندی لگانی چاہیے
اور حل یہی ہے کہ پورے عالم کے علماۓ کرام متفقہ ایسے لوگوں پر پابندی لگا دیں جس طرح پاکستان میں قادیانیوں پر ہے۔
یہ معاشرے کے کتنے فیصد بنتے ہیں جوا س طرح کا قدم اٹھاتے ہیں؟جس معاشرے میں مدرسہ اس بچے کو بھیجنے کا فیصلہ ہوتا ہے جو گھر کے دوسرے بچوں میں کمزور ہو ۔ اس معاشرے کا اللہ ہی حافظ
مدارس کے طلباء کی تعداد سے اندازہ لگا لیجیےیہ معاشرے کے کتنے فیصد بنتے ہیں جوا س طرح کا قدم اٹھاتے ہیں؟
کیا میں اس کا مطلب یہ سمجھوں کہ مدارس میں جتنے بھی طلبہ ہیں وہ اپنے گھروں میں اپنے بہن بھائیوں سے کمزور ہیں۔مدارس کے طلباء کی تعداد سے اندازہ لگا لیجیے
اس کے لیے ایمانداری سے علمائے کرام کو سپورٹ دے کر پارلیمنٹ ہاؤس میں بھیجنا ہوگا اور پھر وہی اس معاملے کو پارلیمنٹ سے سلجھائیں گےپر کرے گا کون؟
اکثریت یہی سوچ کر بھیجتے ہیں۔ آپ اسکول اور مدارس کے طلباء کی تعداد سے اندازہ بخوبی لگا سکتی ہیںکیا میں اس کا مطلب یہ سمجھوں کہ مدارس میں جتنے بھی طلبہ ہیں وہ اپنے گھروں میں اپنے بہن بھائیوں سے کمزور ہیں۔
اس میں اتفاق ہے۔عموماً یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ غریب خاندانوں کے بچے ہی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں
جو اخراجات کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں