چھوٹی دادی
آج یہ نظم دیکھی سوچا دادی کی تشریح کرتا چلوں یوں تو دادی ایک رشتہ ہے والد کی ماں بچے کی دادی کہلاتی ہے یوں تو یہ رشتہ بہت خوبصورت ہے دادیاں اکثر بچوں کو لاڈ لڈانے والی اور ان سے محبت کرنے والی ہوتی ہیں جب کہ بچے بھی دادی جان سے ہنسی مزاق اور محبت کرتے ہیں لیکن اس کے مخالف دادی،سیانی دادی یا چلاکو ماسی جیسے الفاظ گھر میں اس لڑکی کے لیے بولے جاتے ہیں جو گھر میں بہت ہی ہوشیار چالاک اور شیطان ہو اور ایسی دادیاں ہر گھر میں ہوتی ہیں اسی طرح سننے میں آیا کہ ہماری اس چھوٹی سی الغزالی فیملی میں بھی کوئی دادی ہے جس پر ایک نظم بھی لکھی جا چکی ہے جو کہ ایم راقم (حافظ ابوھریرہ عتبہ نقشبندی) صاحب نے لکھی ہے سوچا اس نظم کی تشریح بھی کرتا چلوں اور اپنا اس پر تبصرہ بھی کروں
اس نظم کا پہلا شعر ہے
خود کو بولے دادی چھوٹی۔
بڑی سی رکھے ہاتھ میں سوٹی۔
اس شعر میں جناب راقم صاحب نے بہت خوب لکھا ہے جو کہ یقینا سچ بھی ہے چھوٹی دادیاں اکثر ہاتھ میں کوئی نہ کوئی چیز تھمائے ہوتی ہیں جیسے کہ کوئی تکیہ کوئی جوتی یا جو بھی ہاتھ میں ہو پھر جس پر غصہ آئے اس کی خیر نہیں ہوتی پھی گھر سے راقم صاحب جیسے بچوں کے رونے کی آوازیں بھی شروع ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ دادی سے پنگا لے چکے ہوتے ہیں اور کچھ کہ بھی نہیں سکتے کیونکہ دادی جو ہے چھوٹی۔
دوسرا شعر کچھ یوں ہے۔
لڈو میں وہ ماہر بھی ہے۔
مارے جائے سب کی گوٹی۔
اس شعر میں پھر شاعر نے دادی کی چالاکیوں کا زکر کرلیا ہے کہ لڈو میں وہ بہت ماہر ہے اور کوئی اس کے آگے ٹک نہیں پاتا کیونکہ وہ سب کی گوٹی کو اپنی چالاکیوں یعنی بےایمانی کے ذریعے ماری جاتی ہے اور کوئی اسے پکڑ بھی نہیں پاتا۔
پھر تیسرا شعر کچھ یوں ہے
جو بھی اس کا حکم نہ مانے۔
اس کو نہیں وہ دیتی روٹی۔
اس شعر میں شاعر دادی جان کی سب کے حصے کی روٹی کھا جانے کی خوبصورت عادت کا تزکرہ کرتا ہے تو یوں یہ دادیاں بہانے بناتی ہیں چھوٹے بچوں کو مشکل کام دیتی ہیں ان کاموں میں لگا کر ان کے حصے کی روٹی کھا جاتی ہیں چاہے گھر میں ہوں یا درس گاہ میں۔
چوتھا شعر ہے کہ ۔
بچے اس سے ڈرتے ہیں سب۔
جب دکھلائے آنکھیں موٹی۔
ایسی دادیاں چونکہ چالاک ہوتی ہیں اور چہرے سے ہی خطرے کی گھنٹیاں بچتی نظر آتی ہیں اور بچے ان کی موٹی آنکھیں دیکھتے ہی کسی عجیب مخلوق کو دیکھ لینے کی طرح ڈرتے ہیں یوں وہ گھر بچوں پر کنٹرول رکھتی ہیں۔
چوتھا شعر جو کہ اہمیت کا حامل ہے۔
کھانے میں ہے تیز تراش بھی۔
روٹی چھوڑ کہ کھائے بوٹی۔
ایسی چالاکو ماسیاں اور سیانی دادیاں اکثر اوقات شادی بیاہ میں کرسی سے میز کی طرف دوڑتی نظر آتی ہیں ہالانکہ روٹی آگے پڑی ہوتی ہے لیکن ان کی نظر دور پڑے گوشت کے پیالے کی طرف جاتی ہے پھر یہ اس کی طرف لپکتی ہیں اور کچھ ضرورت طلب گوشت پیٹ میں پہنچاتے ہی پرس پڑا شاپر نکال کر اس پیالے کو شاپر میں انڈیل دیتی ہیں اور شاپر کو پرس میں رکھ لیتی ہیں تاکہ گھر جا کر کھانا نہ پکانا پڑے ویسے راقم صاحب نے جو لکھے سچ پر مبنی اور بہت خوب لکھا۔
جنیدالحسن
آج یہ نظم دیکھی سوچا دادی کی تشریح کرتا چلوں یوں تو دادی ایک رشتہ ہے والد کی ماں بچے کی دادی کہلاتی ہے یوں تو یہ رشتہ بہت خوبصورت ہے دادیاں اکثر بچوں کو لاڈ لڈانے والی اور ان سے محبت کرنے والی ہوتی ہیں جب کہ بچے بھی دادی جان سے ہنسی مزاق اور محبت کرتے ہیں لیکن اس کے مخالف دادی،سیانی دادی یا چلاکو ماسی جیسے الفاظ گھر میں اس لڑکی کے لیے بولے جاتے ہیں جو گھر میں بہت ہی ہوشیار چالاک اور شیطان ہو اور ایسی دادیاں ہر گھر میں ہوتی ہیں اسی طرح سننے میں آیا کہ ہماری اس چھوٹی سی الغزالی فیملی میں بھی کوئی دادی ہے جس پر ایک نظم بھی لکھی جا چکی ہے جو کہ ایم راقم (حافظ ابوھریرہ عتبہ نقشبندی) صاحب نے لکھی ہے سوچا اس نظم کی تشریح بھی کرتا چلوں اور اپنا اس پر تبصرہ بھی کروں
اس نظم کا پہلا شعر ہے
خود کو بولے دادی چھوٹی۔
بڑی سی رکھے ہاتھ میں سوٹی۔
اس شعر میں جناب راقم صاحب نے بہت خوب لکھا ہے جو کہ یقینا سچ بھی ہے چھوٹی دادیاں اکثر ہاتھ میں کوئی نہ کوئی چیز تھمائے ہوتی ہیں جیسے کہ کوئی تکیہ کوئی جوتی یا جو بھی ہاتھ میں ہو پھر جس پر غصہ آئے اس کی خیر نہیں ہوتی پھی گھر سے راقم صاحب جیسے بچوں کے رونے کی آوازیں بھی شروع ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ دادی سے پنگا لے چکے ہوتے ہیں اور کچھ کہ بھی نہیں سکتے کیونکہ دادی جو ہے چھوٹی۔
دوسرا شعر کچھ یوں ہے۔
لڈو میں وہ ماہر بھی ہے۔
مارے جائے سب کی گوٹی۔
اس شعر میں پھر شاعر نے دادی کی چالاکیوں کا زکر کرلیا ہے کہ لڈو میں وہ بہت ماہر ہے اور کوئی اس کے آگے ٹک نہیں پاتا کیونکہ وہ سب کی گوٹی کو اپنی چالاکیوں یعنی بےایمانی کے ذریعے ماری جاتی ہے اور کوئی اسے پکڑ بھی نہیں پاتا۔
پھر تیسرا شعر کچھ یوں ہے
جو بھی اس کا حکم نہ مانے۔
اس کو نہیں وہ دیتی روٹی۔
اس شعر میں شاعر دادی جان کی سب کے حصے کی روٹی کھا جانے کی خوبصورت عادت کا تزکرہ کرتا ہے تو یوں یہ دادیاں بہانے بناتی ہیں چھوٹے بچوں کو مشکل کام دیتی ہیں ان کاموں میں لگا کر ان کے حصے کی روٹی کھا جاتی ہیں چاہے گھر میں ہوں یا درس گاہ میں۔
چوتھا شعر ہے کہ ۔
بچے اس سے ڈرتے ہیں سب۔
جب دکھلائے آنکھیں موٹی۔
ایسی دادیاں چونکہ چالاک ہوتی ہیں اور چہرے سے ہی خطرے کی گھنٹیاں بچتی نظر آتی ہیں اور بچے ان کی موٹی آنکھیں دیکھتے ہی کسی عجیب مخلوق کو دیکھ لینے کی طرح ڈرتے ہیں یوں وہ گھر بچوں پر کنٹرول رکھتی ہیں۔
چوتھا شعر جو کہ اہمیت کا حامل ہے۔
کھانے میں ہے تیز تراش بھی۔
روٹی چھوڑ کہ کھائے بوٹی۔
ایسی چالاکو ماسیاں اور سیانی دادیاں اکثر اوقات شادی بیاہ میں کرسی سے میز کی طرف دوڑتی نظر آتی ہیں ہالانکہ روٹی آگے پڑی ہوتی ہے لیکن ان کی نظر دور پڑے گوشت کے پیالے کی طرف جاتی ہے پھر یہ اس کی طرف لپکتی ہیں اور کچھ ضرورت طلب گوشت پیٹ میں پہنچاتے ہی پرس پڑا شاپر نکال کر اس پیالے کو شاپر میں انڈیل دیتی ہیں اور شاپر کو پرس میں رکھ لیتی ہیں تاکہ گھر جا کر کھانا نہ پکانا پڑے ویسے راقم صاحب نے جو لکھے سچ پر مبنی اور بہت خوب لکھا۔
جنیدالحسن